ڈاک کا عالمی دن

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ڈاک کا عالمی دن منایا جارہا ہےجس کا مقصد ڈاک کے نظام کو بہتر بنانا، محکمہ ڈاک کی اہمیت اور اسکی کارکردگی کو اجاگر کرنا ہے۔
دنیا میں پہلا ڈاک کا عالمی دن 9 اکتو بر 1980 کو منایا گیا۔ہر سال دنیا کے 160 سے زائد ممالک یہ عالمی دن مناتے ہیں اور ہر وہ ملک جو اقوام متحدہ کی خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین (UPU) کے ممبران میں شامل ہے اس موقع پر خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجرا ء کرتا ہے۔

687789_7782646_aa_updates.jpg

ڈاک کا نظام ایک تاریخی اور عالمی نظام ہے۔برصغیر پاک و ہند میں پہلا ڈاک خانہ 1837 میں قیام پذیر ہوچکا تھا لیکن ایک طویل عرصے تک برطانوی ڈاک ٹکٹوں سے کام چلا یا جا تا رہا ہے۔
تقسیم ِ ہند کے بعد15 اگست 1947 سے پاکستان پوسٹ نے لاہور سے اپنا کام شروع کیا، اسی سال پاکستان یونی ورسل پوسٹل یونین کا نواسی واں رکن بنا۔
سن 1948 میں پاکستان پوسٹ نے ملک کے پہلے جشن ِ آزادی کے موقع پر اپنے پہلے یادگاری ٹکٹ شائع کیے۔
شعبہ ادب سے وابستہ افراد خط کو آدھی ملاقات کہتے ہیں اور خط کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے والا شخص ڈاکیا کہلاتا ہے ، برسوں قبل روزانہ ڈاکیا گلے میں ایک تھیلا لٹکائے گلی گلی ، گاؤں گاؤں ڈاک کے ذریعے لوگوں کے آئے ہوئے خطوط پہنچا تا نظر آتا تھا لیکن اب یہ شخص کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

561315_7149508_updates.jpg

دور جدید میں ترقی کے سفر میں جہاں فاصلے سمٹ گئے وہیں پیغام رسانی کے ذرائع میں بھی جدت آتی گئی ،خط کی جگہ فیکس، لینڈ لائن فون، پھر موبائل فون،انٹر نیٹ، ای میل اور اب واٹس ایپ کے آنے سے ڈاکیا اور ڈاک کے نظام کی اہمیت میں کمی آئی ہے۔

لنک
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستان پوسٹ آفس کی خدمات سستی اور اچھی ہیں۔
امریکہ کتابیں بھیجنا تھیں تو ٹی سی ایس کا معاوضہ بہت زیادہ تھا، پاکستان پوسٹ آفس نے بہت ہی کم معاوضہ میں یہ کام کر دیا۔
مجھے کراچی شکر بھیجنی ہوتی ہے ہر سال۔ دوسری سروسز بہت مہنگی ہیں۔ کارگو سے وہاں وصول کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ سو پہلی بار پاکستان پوسٹ آفس جا کر پارسل کروایا۔
اگر وزن کے مطابق ریٹ کے بارے میں پہلے سے معلومات ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔
 
ہم نے ایک مرتبہ بچوں کو بلجیئم کچھ سامان بھیجنے کا سوچا۔ قریبی ڈاک کانے پہنچے تو انہوں نے ہمیں تمام سامان مہیا کرنے کا کہا، ہم نے انہیں ساری چیزیں دے دیں۔ پھر ایک صاحب بیٹھے اور ایک لٹھے کی تھیلی میں ان تمام کو احتیاط کے ساتھ بھرا۔ اس کے بعد انہوں نے اسی احتیاط کے ساتھ صاف صاف نام اور ایڈریس وغیرہ بھی لکھا۔ ہم نے رسید وصول کی اور چلے آئے۔ تقریبآ دس بارہ دن بعد ہمیں نیٹ پر ٹریکنگ سے پتہ چل گیا کہ پارسل برسلز پہنچ گیا ۔ وہاں پہنچنے کے بعد وہاں کے لوکل پوسٹ کی لاپرواہی کے باعث پارسل بچوں تک نہ پہنچ سکا اور وقتِ مقررہ تک انہیں ٹریس نہ کرسکنے کے بعد انہوں نے پارسل واپس بھجوادیا۔ کچھ دنوں بعد ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی جب وہ پارسل پاکستانی پوسٹ نے ہمارے گھر پر پہنچادیا۔

کچھ ہفتوں بعد ہم نے دوبارہ کوشش کی اور اپنے بچوں تک فرمائشی سامان پہنچوانے میں کامیاب ہوگئے۔ پاکستان پوسٹ زندہ باد۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پاکستان پوسٹ آفس کی خدمات سستی اور اچھی ہیں۔
پاکستانی پوسٹ کی خدمات واقعی بہترین اور سستی ہیں۔
مراد سعید200 ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر تو نہ مار سکا البتہ پاکستان پوسٹ میں اچھی کارکردگی کے باعث اس کی آمدن کو بڑھا رہا ہے۔
ایک سال میں پاکستان پوسٹ کی آمدن میں 6 ارب کا اضافہ ہوا: مراد سعید
 

زیک

مسافر
درست!!! آپ کو کیسے پتا چلا؟
پرانے وقتوں میں ایسی بوریاں پاکستان سے ہمیں بھیجی جا چکی ہیں۔ ایک بار ہم شہر سے باہر تھے تو پوسٹ آفس والے نوٹ لگا گئے کہ آ کر لے لو۔ وہاں گیا تو صرف پاکستان کا ذکر کرنے پر ہی پوسٹ آفس کے شخص کو یاد آ گیا کہ ایک عجیب و غریب بوری نما پیکج آیا ہوا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
پرانے وقتوں میں ایسی بوریاں پاکستان سے ہمیں بھیجی جا چکی ہیں۔ ایک بار ہم شہر سے باہر تھے تو پوسٹ آفس والے نوٹ لگا گئے کہ آ کر لے لو۔ وہاں گیا تو صرف پاکستان کا ذکر کرنے پر ہی پوسٹ آفس کے شخص کو یاد آ گیا کہ ایک عجیب و غریب بوری نما پیکج آیا ہوا ہے
ایسا ہی ہے۔ پاکستان سے ہمیں بھی بوریوں میں "پارسل" آتا ہے :)
 
Top