ڈاکٹر طاہر القادری کا پیغام ، قوم کے نام

الف نظامی

لائبریرین
اے انقلابی ساتھیو ! بڑھتے چلو ، بڑھتے چلو
اے انقلابی ساتھیو ! بڑھتے چلو ، بڑھتے چلو
دورِ ستم کے باغیو !بڑھتے چلو ،بڑھتے چلو

پاکستان کےمحب وطن بھائیو، ماوں، بہنو ، بیٹو ،تاجرو ، کسانو،مزدورو ، اور دکھ درد غربت محرومی کی آگ میں جلنے والے بے بسو ، بے کسو ، مجبورو!
آپ سب کو میں صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے 23 دسمبر کو مینار پاکستان کے سائے تلے جمع ہو کر ملین کا اجتماع کرکے اور پرامن احتجاج کرکے اس امر کا ثبوت فراہم کردیا کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام اب ظلم ، جبر ، بربریت ، دہشت ، کرپشن اور ناانصافی کے نظام کو قبول نہیں کرسکتے۔
میں آپ کی عظمتوں کو سلام کرتا ہوں ، آپ کے جذبوں کو سلام کرتا ہوں۔ آپ کے عظیم ارادوں کو سلام کرتا ہوں ، لیکن یاد رکھیں 23 دسمبر کا دن ہمارے انقلاب کے سفر کا آغاز تھا۔ وہ ہمارا پہلا قدم تھا ۔ابھی ہم نے منزل انقلاب تک پہنچنا ہے۔ اگلا مرحلہ اس سے زیادہ کٹھن ،اس سے زیادہ نتیجہ خیز اوراس سے زیادہ فیصلہ کن ہوگا۔ ان شاء اللہ تعالی، اللہ رب العزت کی مدد و نصرت نازل ہوگی۔ اللہ کی مدد ہمیشہ کمزوروں کے ساتھ ہوتی ہے ، ہمیشہ مظلوموں ،کے ساتھ ہوتی ہے محروموں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس نے ہر دور میں مستضعفین کی مدد کی ہے ۔ اور انسانی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جب بھی غریبوں ، مظلوموں ، محروموں ، بے کسوں اور بے بسوں کے مقدر کو سنوارنے کے لیے اور انہیں گراوٹ سے اٹھا کر عزت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اور ان کے چھینے ہوئے حقوق ان کو واپس دلانے کے لیے اللہ رب العزت نے پہلے ادوار میں پیغمبر بھیجے تھے۔ جب بھی کوئی پیغمبر اس دنیا میں تشریف لایا تو سارے طاقتور ، اس دور کے جاگیردار ، اس دور کے سرمایہ دار ، اس دور کے ظالم جابر استحصالی طبقات ، ہمیشہ اُس پیغمبر کی دعوتِ انقلاب کے خلاف اکٹھے ہو گئے۔
ابراہیم علیہ السلام آئے تو نمرودی تخت پہ زلزلہ بپا ہوگیا۔ اس نے ساری استحصالی قوتوں کو جمع کر کے ابراہیمی انقلاب کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی مگر اللہ رب العزت کی مدد و نصرت نے نمرود کے سارے عزائم ناکام و نامراد کر دئیے۔
جب بنی اسرائیل کی قوم کو بے کس و بے بس کر کے رکھ دیا تھا، انہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر کے رکھ دیا ، ان کی بیٹیاں زندہ رہتی ، بیٹے ذبح کر دئیے جاتے۔ تو اللہ رب العزت نے سیدنا موسی علیہ السلام کو بھیجا، اورموسوی انقلاب کا نعرہ بلند ہوا تو تخت فرعون متزلزل ہوگیا۔ اس نے سارے استحصالی اور مکارانہ ، عیارانہ ان قوتوں کو مجتمع کیا مگر بالآخر اللہ رب العزت کی مدد و نصر ت اٹھی ، فرعون اپنے تخت سمیت غرق ہوگیا اور موسوی انقلاب بنی اسرائیل کے غریبوں کو لے کر منزل مراد تک جا پہنچا۔
آپ جس بھی پیغمبر کی تاریخ اور سیرت کا مطالعہ کریں قرآن مجید کہتا ہے ، جابجا کہتا ہے ، ہر مقام پر کہتا ہےکہ پیغمبر کی دعوت انقلاب کو سن کر اس زمانے کے سب وڈیرے ، جاگیر دار ، ظالم ، جابر ، غریبوں کے مقدر سے کھیلنے والے ، زمانے کے وسائل اور زمانے کے تمام ذرائع پر قابض ہونے والے ہمیشہ یکجا ہوجاتے تھے اور پھروہ انبیاء کی دعوت سے لرز کر ان کی کردار کشی کرتے تھے ، کوئی انہیں مجنوں کہتا تھا ، کوئی انہیں جھوٹا کہتا تھا ، کوئی انہیں عیار کہتا تھا ،کوئی انہیں شاعر کہتا تھا ،کوئی انہیں غریب کہتا تھا ، طرح طرح کے طعنوں کے تیر برسائے جاتے تھے مگر ہر پیغمبر کے ساتھ چونکہ غریب تھے ، آسمان سے اللہ کی مدد و نصرت نازل ہوتی تھی اور اللہ کی مدد و نصرت سے ،امر الہی سے سارے زمینی استحصالی نظام درہم برہم ہوتے رہے اور پیغمبرانہ دعوت انقلاب بالآخر منزل مراد کو پہنچی۔
یہی حشر آپ دیکھتے ہیں تاجدار کائنات ﷺ کی دعوت کے ساتھ ہوا۔آپ کو وہ وقت یاد نہیں ہے جب کفار مکہ کے سارے سردار ، انہیں خطرہ کیا تھا ؟ وہ تاجدار کائنات کو صادق بھی مانتے تھے ، تاجدار کائنات کو امین بھی مانتے تھے ، اپنے تنازعات میں ان کو رول بھی دیتے تھے صلح کا اور مصالحت کا۔ جب کعبۃ اللہ میں حجر اسود نصب کرنے کا وقت آیا تو انہی کے ہاتھ سے رکھوایا تھا۔ آپ کی سیرت پر کسی کو شبہ نہ تھا۔مگر جب دعوت لے کے اٹھے تو وہی لوگ جو ان کی صداقت اور امانت پر گواہی دینے والے تھے وہی ان کے دشمن بن گئے ، ان پر تہمتوں کے تیر برسانے والے بن گئے ، ان پر الزامات کے نیزے برسانے والے بن گئے اور ساری سرداری قوتیں ، قریش مکہ کی ساری استحصالی ، مکارانہ ، عیارانہ ظالمانہ سارے حیلے حربے قوتیں وسائل یکجا ہوگئے اور تاجدار کائنات ﷺ کی تحریک انقلاب کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ اس رات کو یاد کریں جب سارے طاقت ور لوگ اور شہر مکہ کی ساری طاقتور پارٹیاں اور طاقتور جتھے ، اور طاقتور گروہ اپنےسرداروں کی قیادت میں ننگی تلواریں لے کر بیت مصطفی کا محاصرہ کر لیا تھا ، وہ وقت بھی یاد کرو جب آقائے دوجہاں کو شعب ابی طالب میں قید و بند کی صعوبتوں میں ڈال دیا تھا اور آپ اور آپ کے سارے خاندان کو تین برس پہاڑوں کی وادیوں میں بند کردیا تھا اور سوشل بائیکاٹ کردیا تھا۔ پھر پلٹ کےآتا ہوں اس رات کی طرف جب ننگی تلواروں کا ایک راج تھا اللہ رب العزت کی مدد و نصرت اتری اور حضور کو بچا کر مدینہ لے گئی۔
مدینہ کی سلطنت قائم ہوئی۔ براڈ بیسڈ سلطنت تھی، ملٹی کلچرل سلطنت تھی، ماڈریٹ سلطنت تھی، اس میں انتہا پسندی نہیں تھی ، اس میں امن تھا، اس میں سلامتی تھی ،اس میں بھائی چارہ تھا ، اس میں مواخات تھی ، اس میں ہم آہنگی ، بین المذاہب اعتدال تھا۔ آقا علیہ السلام نے سب انسانی جتھوں کو اکٹھا کرکے ایک آئین کے تحت جمع کردیا اور کائنات کی پہلی جمہوری فلاحی ریاست کو قائم کردیا جس میں ہر شخص کی جان کی حفاظت عطا کی ، اس کے مال کو حفاظت کی، عزت و آبرو کو حفاظت دی مذہب کو آزادی دی۔
وہ ریاست مدینہ تاریخ انسانیت میں فلاحیت کی پہلی مثال ہے ۔ جمہوریت کی پہلی مثال ہے، اسلامیت کی پہلی مثال ہے ،انسانیت کی پہلی مثال ہے۔ آج پھر آپ دیکھیے کہ اس کے بعد پھر تمام جبرو بربریت کے دستے یزید کی شکل میں اکٹھے ہوئے ، اور یزید جو ظلم کا استعارہ بن کے اٹھا۔ جو اندھیرے کا استعارہ بن کے اٹھا ، جو کرپشن کی اک علامت تھا ، جو غریبوں ان کے مقابلے میں اللہ رب العزت نے پھر عدل کو اٹھایا ، انصاف کو اٹھایا ،رول آف لا کو اٹھایا ، جمہوریت کو اٹھایا ، انسانیت ، اسلامیت ، اخلاقیت کو اٹھایا انسانی قدروں کو اٹھایا اور وہ ساری قدریں مل کر قافلہ حسین کی شکل میں معرکہ کربلا بپا کرنے کے لیے پہنچیں۔ امام حسین نے قربانی تو دے دی مگر تختِ یزید کے سامنے اپنا سر انور جھکانا گوارا نہ کیا۔ یہ معاملات تاریخ میں چلتے رہے۔ اب تک میں نے آپ کو اسلامی تاریخ کے حوالے دیے۔
ارض وطن کے محب وطن ساتھیو! ماوں بہنو ، مجبورو ، اور وہ سارےمظلومو !جو سالہا سال سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہو، وہ مظلومو! جن سے روزگار چھین لیا گیا ہے ، وہ مظلومو! جن کے بچوں کو زندگی مہیا کرنے کے ذریعے کے طور پر دوائی کا پیسہ میسر نہیں ہے ، وہ مظلومو !جن کے جوان بچے ڈگریاں ہاتھ میں لے کر بھاگتے ہیں ، ظالمو ں نے تم نے نوکریاں چھین لی ہیں۔ رشوت نے ان سے میرٹ چھین لیا ہے ، سفارش نے ان سے استحقاق چھین لیا ہے۔ وہ اس دھرتی کے مظلومو ! مجبورو!
جس ظلم کے راج نے تم سے بجلی چھین لی ہے ، پانی چھین لیا ہے ، گیس چھین لی ہے ، سی این جی چھین لی ہے ، کسان کو تڑپا دیا ہے ، مزدور کو رلا دیا ہے اور ملازموں کو رلا دیا ہے ، ڈاکٹر سڑکوں پر ہیں، انجینر سڑکوں پر ہیں ، احتجاج کے بغیر اس دھرتی پر اب کسی کو حق نہیں مل رہا۔
آو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ زندگی بھیک میں نہیں ملتی ، زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے۔ جب فرانس میں انتہا ہوگئی تھی ظلم کی ، تو لوگ اٹھے تھے اور انہوں نے آمریت کے تخت کو ہٹا کر رکھ دیا تھا۔
جب روس میں جبر و بربریت اور استحصال عروج پر پہنچا تھا تو عوام ہی تھے پسے ہوئے عوام آپ کی طرح اٹھے تھے انہوں نے بربریت کے تخت کو ہٹا کر رکھ دیا تھا
جب چائنا میں آمریت لوگوں کی گردنوں پر پنجہ زن تھی تو آپ ہی طرح مجبور، مقہور لوگ اٹھے اس تخت کو اٹھا کے رکھ دیا،
آج انقلاب فرانس و روس و چائنا کو یاد کرو ، کربلا کو یاد کرو ، مدینہ کو یاد کرو، تخت فرعون کا الٹنا یاد کرو ، تخت نمرود کا الٹنا یاد کرو۔ اپنے ایمان کو مضبوط کرکے ، اپنے حوصلوں کو مضبوط کرکے ، اپنے عزم اور ارادوں کو مضبوط کر کے نکلو!!!
مجھے معلوم ہے آپ سب کچھ لٹا بیٹھے ہیں ، گھر لٹ گئے ، زیور لٹ گئے ، جس کے پاس جو مال و اسباب تھا وہ لٹ گیا ۔ مگر یہ لٹنا تھوڑی قیمت ہے کہیں ایسانہ ہو کہ ہمارا ملک پاکستان سارا کا سارا لٹ جائے ، یہ سارا پاکستان بیچ دیا جائے ۔ ہمارا وطن ٹکرے ٹکرے کردیا جائے۔ اس پر حکومت کی رٹ نہیں رہی ، اس پر عدل کا قیام نہیں رہا ۔ انصاف کا قیام نہیں رہا ، اک لوٹ مار ہے ، اک کرپشن ہے ، دھن دھونس دھاندلی کا راج ہے۔انتخابات کے نام پر غریب کروڑوں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ یہ پھر انتخابات کے نام پر اک جھوٹی جمہوریت کا تخت سجایا جارہا ہےمفادات کی جنگ ہے۔غریبو! تم ایک طرف ہو ، اور لوٹنے والے ایک طرف ہیں۔
میں بتانا چاہتا ہوں غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنے محلات آباد کرنے والو سنو !
میرے اس دھرتی کے غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنی محل آباد کرنے والو ، اب تمہارے محلات کی حفاظت نہیں ہوسکتی!
غریبوں کے خون سے اپنے چہروں اوراپنی گالوں کو سرخ کرنے والو ، اب تمہیں غریبوں کا نچوڑا ہوا خون ایک ایک قطرہ انہیں واپس دینا ہوگا، اب غریبوں کے حقوق واپس لوٹانے ہوں گے۔ اب جمہوریت کو اصلی شکل میں لوٹانا ہوگا۔ اسلام کی اخلاقی ، روحانی ، معاشرتی قدروں کو پھر سے بحال کرنا ہوگا اور مغموم چہروں پر پھر مسرتوں کو لوٹانا ہوگا۔
لوگو میں اپنی ذات کے لیے نہیں آیا۔ اس ارضِ وطن کے لیے آیا ہوں۔ اس ملک کی بیواوں کے لیے آیا ہوں۔ یتیم بیٹیوں کے لیے آیا ہوں۔ معصوم بلکتے بچوں کے لیے آیا ہوں۔زلزلوں کی امداد کھا جانے والے حرام خوروں سے تمہارا حق واپس لے کے دینے کے لیے آیا ہوں۔ سیلاب زدگان کے بستر بیچ کر کھا جانے والوں سے تمہارے حق تمہیں لوٹا کر واپس دینے آیا ہوں۔ مجھے اپنی ذات کے لیے نہ کوئی حرص ہے ، نہ کوئی لالچ ہے ، نہ کوئی طمع ہے ،صرف یہ پیغام دینا چاہتا ہوں۔
اٹھو ! اگر تم بغیر اصلاحات کے ، بغیر انقلاب کے اس دوبارہ الیکشن کے ڈرامے میں چلے گئےتو پھر تقدیر تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اٹھو! یہ وقت ہے 14 جنوری پاکستان کےمستقبل کے فیصلے کا وقت ہے۔ 14 جنوری غریب عوام کے مقدر کے فیصلے کا وقت ہے۔
غربت ، محتاجی ، بے بسی اور بے روزگاری کی آگ میں جلنے والو ، اٹھو!
کوئی شخص 14 جنوری کو اپنے گھر میں نہ رہے ، یہ ایک جماعت کی دعوت نہیں ، صرف میری تحریک کی دعوت نہیں ، 18 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ آپ نے دیکھا پھر سارے سامری مل گئے ، فرعونی قوتیں مل گئیں ، نمردوی قوتیں مل گئیں ، یزیدی قوتیں مل گئیں۔ اک ظلم کا تخت پھر سجنے والا ہے اگلے انتخابات کی شکل میں۔لوٹ مار کا ایک راج قائم ہونے والا ہے اِ س نام نہاد جھوٹے انتخاب کی شکل میں۔ پھر غریبوں کا خون بہنے والا ہےاگلے پانچ سال کے لیے، اک نام نہاد جھوٹی جمہوریت کے نام پر۔
اٹھو!!!
اب ان کے مکر سے آگاہ ہو جاو
ان کی عیاری سے آگاہ ہوجاو
14 جنوری میرا سفر نہیں ، 18 کروڑ عوام کا سفر بنا دو۔ رب ذوالجلال کی عزت کا واسطہ دے کے کہتا ہوں اور تاجدارِ کائنات کی نبوت کی کملی کا واسطہ دے کر کہتا ہوں ، تمہارے پاس کچھ ہے یا نہیں ،نکل آو اور 14 جنوری کو میرے ساتھ چلو۔
اسلام آباد کے مارچ میں چلو تاکہ وہ دن
ہم عوام کی فتح کا دن بنا سکیں
انقلاب کی فتح کا دن بنا سکیں
غریبوں کی فتخ کا دن بنا سکیں
مظلوموں کی فتح کا دن بنا سکیں
اور اس دن ظلم کا تخت الٹ جائے
اور غریبوں کو لوٹے ہوئے حقوق واپس دلا دئیے جائیں۔
اگر بسوں کی کمی ہو ، پروا نہ کرنا ، ممکن ہے ہزارہا بسیں کم پڑ جائیں، کڑوڑوں لوگو! نکلو!!! ملین کی تعداد میں نکلو ، بسوں کے لوگ باری باری صحابہ کرام کی سنت پر کچھ عرصے پیدل چل لیں گے ، کچھ بیٹھ جانا۔ کچھ عرصے بعد تم بیٹھ جانا ۔ صحابہ کے پاس سواریاں کم ہوتیں ، جب سفر پہ جاتے تو باری باری کوئی اونٹوں پہ بیٹھتا ، کوئی پیدل چلتا ، ہم بھی بسوں میں باری باری کچھ سوار ہو جائیں گے ، کچھ پیدل چلیں گے۔یہ فکر نہ کرنا کہ بس نہیں سفر لمبا ہے۔ اگر اسلام آباد کا سفر لمبا سمجھا تو پھر ساری زندگی کا سفر اتنا لمبا ہے۔ اگر 14 جنوری آپ نےمیرے دست و بازو بن کر مجھے ہمت نہ دلائی ، مدد و نصر ت نہ کی تو یاد رکھو!
نسلیں روتی رہیں گی ، دوبارہ کوئی نہیں اٹھے گا جو تمہارے مقدر سنوار نے کے لیے ان وقت کے یزیدوں ، فرعونوں اور قارونوں کو للکارے۔پھر یہ اسمبلی میں آکرتمہیں ایسی زنجیروں سے جکڑ دیں گے کہ روتے روتے مر جاو گےتمہیں کوئی لقمہ نہیں ملے گا ، تمہاری آواز سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ یہ now or never کا وقت ہے۔ اٹھو!!!
اور 14 جنوری کے دن کو پاکستان میں انقلاب لا کر اس دن کو تاریخ کافیصلہ کن دن قرار دو۔
اے انقلابی ساتھیو ! بڑھتے چلو ، بڑھتے چلو
اے انقلابی ساتھیو ! بڑھتے چلو ، بڑھتے چلو
دورِ ستم کے باغیو !بڑھتے چلو ،بڑھتے چلو
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
پاکستان کےمحب وطن بھائیو، ماوں، بہنو ، بیٹو ،تاجرو ، کسانو،مزدورو ، اور دکھ درد غربت محرومی کی آگ میں جلنے والے بے بسو ، بے کسو ، مجبورو!
آپ سب کو میں صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے 23 دسمبر کو مینار پاکستان کے سائے تلے جمع ہو کر ملین کا اجتماع کرکے اور پرامن احتجاج کرکے اس امر کا ثبوت فراہم کردیا کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام اب ظلم ، جبر ، بربریت ، دہشت ، کرپشن اور ناانصافی کے نظام کو قبول نہیں کرسکتے۔ میں آپ کی عظمتوں کو سلام کرتا ہوں ، آپ کے جذبوں کو سلام کرتا ہوں۔ آپ کے عظیم ارادوں کو سلام کرتا ہوں ، لیکن یاد رکھیں 23 دسمبر کا دن ہمارے انقلاب کے سفر کا آغاز تھا۔ وہ ہمارا پہلا قدم تھا ۔ابھی ہم نے منزل انقلاب تک پہنچنا ہے۔ اگلا مرحلہ اس سے زیادہ کٹھن ،اس سے زیادہ نتیجہ خیز اوراس سے زیادہ فیصلہ کن ہوگا۔ ان شاء اللہ تعالی، اللہ رب العزت کی مدد و نصرت نازل ہوگی۔ اللہ کی مدد ہمیشہ کمزوروں کے ساتھ ہوتی ہے ، ہمیشہ مظلوموں ،کے ساتھ ہوتی ہے محروموں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس نے ہر دور میں مستضعفین کی مدد کی ہے ۔ اور انسانی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جب بھی غریبوں ، مظلوموں ، محروموں ، بے کسوں اور بے بسوں کے مقدر کو سنوارنے کے لیے اور انہیں گراوٹ سے اٹھا کر عزت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اور ان کے چھینے ہوئے حقوق ان کو واپس دلانے کے لیے اللہ رب العزت نے پہلے ادوار میں پیغمبر بھیجے تھے۔ جب بھی کوئی پیغمبر اس دنیا میں تشریف لایا تو سارے طاقتور ، اس دور کے جاگیردار ، اس دور کے سرمایہ دار ، اس دور کے ظالم جابر استحصالی طبقات ، ہمیشہ اُس پیغمبر کی دعوتِ انقلاب کے خلاف اکٹھے ہو گئے۔ ابراہیم علیہ السلام آئے تو نمرودی تخت پہ زلزلہ بپا ہوگیا۔ اس نے ساری استحصالی قوتوں کو جمع کر کے ابراہیمی انقلاب کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوسس کی مگر اللہ رب العزت کی مدد و نصرت نے نمرود کے سارے عزائم ناکام و نامراد کر دئیے۔ جب بنی اسرائیل کی قوم کو بے کس و بے بس کر کے رکھ دیا تھا، انہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر کے رکھ دیا ، ان کی بیٹیاں زندہ رہتی ، بیٹے ذبح کر دئیے جاتے۔ تو اللہ رب العزت نے سیدنا موسی علیہ السلام کو بھیجا، اورموسوی انقلاب کا نعرہ بلند ہوا تو تخت فرعون متزلزل ہوگیا۔ اس نے سارے استحصالی اور مکارانہ ، عیارانہ ان قوتوں کو مجتمع کیا مگر بالآخر اللہ رب العزت کی مدد و نصر ت اٹھی ، فرعون اپنے تخت سمیت غرق ہوگیا اور موسوی انقلاب بنی اسرائیل کے غریبوں کو لے کر منزل مراد تک جا پہنچا۔آپ جس بھی پیغمبر کی تاریخ اور سیرت کا مطالعہ کریں قرآن مجید کہتا ہے ، جابجا کہتا ہے ، ہر مقام پر کہتا ہےکہ پیغمبر کی دعوت انقلاب کو سن کر اس زمانے کے سب وڈیرے ، جاگیر دار ، ظالم ، جابر ، غریبوں کے مقدر سے کھیلنے والے ، زمانے کے وسائل اور زمانے کے تمام ذرائع پر قابض ہونے والے ہمیشہ یکجا ہوجاتے تھے اور پھروہ انبیاء کی دعوت سے لرز کر ان کی کردار کشی کرتے تھے ، کوئی انہیں مجنوں کہتا تھا ، کوئی انہیں جھوٹا کہتا تھا ، کوئی انہیں عیار کہتا تھا ،کوئی انہیں شاعر کہتا تھا ،کوئی انہیں غریب کہتا تھا ، طرح طرح کے طعنوں کے تیر برسائے جاتے تھے مگر ہر پیغمبر کے ساتھ چونکہ غریب تھے ، آسمان سے اللہ کی مدد و نصرت نازل ہوتی تھی اور اللہ کی مدد و نصرت سے ،امر الہی سے سارے زمینی استحصالی نظام درہم برہم ہوتے رہے اور پیغمبرانہ دعوت انقلاب بالآخر منزل مراد کو پہنچی۔
یہی حشر آپ دیکھتے ہیں تاجدار کائنات ﷺ کی دعوت کے ساتھ ہوا۔آپ کو وہ وقت یاد نہیں ہے جب کفار مکہ کے سارے سردار ، انہیں خطرہ کیا تھا ؟ وہ تاجدار کائنات کو صادق بھی مانتے تھے ، تاجدار کائنات کو امین بھی مانتے تھے ، اپنے تنازعات میں ان کو رول بھی دیتے تھے صلح کا اور مصالحت کا۔ جب کعبۃ اللہ میں حجر اسود نصب کرنے کا وقت آیا تو انہی کے ہاتھ سے رکھوایا تھا۔ آپ کی سیرت پر کسی کو شبہ نہ تھا۔مگر جب دعوت لے کے اٹھے تو وہی لوگ جو ان کی صداقت اور امانت پر گواہی دینے والے تھے وہی ان کے دشمن بن گئے ، ان پر تہمتوں کے تیر برسانے والے بن گئے ، ان پر الزامات کے نیزے برسانے والے بن گئے اور ساری سرداری قوتیں ، قریش مکہ کی ساری استحصالی ، مکارانہ ، عیارانہ ظالمانہ سارے حیلے حربے قوتیں وسائل یکجا ہوگئے اور تاجدار کائنات ﷺ کی تحریک انقلاب کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ اس رات کو یاد کریں جب سارے طاقت ور لوگ اور شہر مکہ کی ساری طاقتور پارٹیاں اور طاقتور جتھے ، اور طاقتور گروہ اپنےسرداروں کی قیادت میں ننگی تلواریں لے کر بیت مصطفی کا محاصرہ کر لیا تھا ، وہ وقت بھی یاد کرو جب آقائے دوجہاں کو شعب ابی طالب میں قید و بند کی صعوبتوں میں ڈال دیا تھا اور آپ اور آپ کے سارے خاندان کو تین برس پہاڑوں کی وادیوں میں بند کردیا تھا اور سوشل بائیکاٹ کردیا تھا۔ پھر پلٹ کےآتا ہوں اس رات کی طرف جب ننگی تلواروں کا ایک راج تھا اللہ رب العزت کی مدد و نصرت اتری اور حضور کو بچا کر مدینہ لے گئی۔ مدینہ کی سلطنت قائم ہوئی۔ براڈ بیسڈ سلطنت تھی، ملٹی کلچرل تھی، ماڈریٹ سلطنت تھی، اس میں انتہا پسندی نہیں تھی ، اس میں امن تھا، اس میں سلامتی تھی ،اس میں بھائی چارہ تھا ، اس میں مواخات تھی ، اس میں ہم آہنگی ، بین المذاہب اعتدال تھا۔ آقا علیہ السلام نے سب انسانی جتھوں کو اکٹھا کرکے ایک آئین کے تحت جمع کردیا اور کائنات کی پہلی جمہوری فلاحی ریاست کو قائم کردیا جس میں ہر شخص کی جان کی حفاظت عطا کی ، اس کے مال کو حفاظت کی، عزت و آبرو کو حفاظت دی مذہب کو آزادی۔ وہ ریاست مدینہ تاریخ انسانیت میں فلاحیت کی پہلی مثال ہے ۔ جمہوریت کی پہلی مثال ہے، اسلامیت کی پہلی مثال ہے ،انسانیت کی پہلی مثال ہے۔ آج پھر آپ دیکھیے کہ اس کے بعد پھر تمام جبرو بربریت کے دستے یزید کی شکل میں اکٹھے ہوئے ، اور یزید جو ظلم کا استعارہ بن کے اٹھا۔ جو اندھیرے کا استعارہ بن کے اٹھا ، جو کرپشن کی اک علامت تھا ، جو غریبوں ان کے مقابلے میں اللہ رب العزت نے پھر عدل کو اٹھایا ، انصاف کو اٹھایا ،رول آف لا کو اٹھایا ، جمہوریت کو اٹھایا ، انسانیت ، اسلامیت ، اخلاقیت کو اٹھایا انسانی قدروں کو اٹھایا اور وہ ساری قدریں مل کر قافلہ حسین کی شکل میں معرکہ کربلا بپا کرنے کے لیے پہنچیں۔ امام حسین نے قربانی تو دے دی مگر تختِ یزید کے سامنے اپنا سر انور جھکانا گوارا نہ کیا۔ یہ معاملات تاریخ میں چلتے رہے۔ اب تک میں نے آپ کو اسلامی تاریخ کے حوالے دیے۔ ارض وطن کے محب وطن ساتھیو! ماوں بہنو ، مجبورو ، اور وہ سارےمظلومو !جو سالہا سال سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہو، وہ مظلومو! جن سے روزگار چھین لیا گیا ہے ، وہ مظلومو! جن کے بچوں کو زندگی مہیا کرنے کے ذریعے کے طور پر دوائی کا پیسہ میسر نہیں ہے ، وہ مظلومو !جن کے جوان بچے ڈگریاں ہاتھ میں لے کر بھاگتے ہیں ، ظالمو ں نے تم نے نوکریاں چھین لی ہیں۔ رشوت نے ان سے میرٹ چھین لیا ہے ، سفارش نے ان سے استحقاق چھین لیا ہے۔ وہ اس دھرتی کے مظلومو ! مجبورو!
جس ظلم کے راج نے تم سے بجلی چھین لی ہے ، پانی چھین لیا ہے ، گیس چھین لی ہے ، سی این جی چھین لی ہے ، کسان کو تڑپا دیا ہے ، مزدور کو رلا دیا ہے اور ملازموں کو رلا دیا ہے ، ڈاکٹر سڑکوں پر ہیں، انجینر سڑکوں پر ہیں ، احتجاج کے بغیر اس دھرتی پر اب کسی کو حق نہیں مل رہا۔
آو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ زندگی بھیک میں نہیں ملتی ، زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے۔ جب فرانس میں انتہا ہوگئی تھی ظلم کی ، تو لوگ اٹھے تھے اور انہوں نے آمریت کے تخت کو ہٹا کر رکھ دیا تھا۔

علامہ کا مطالبہ "انتخابی نظام میں اصلاحات" کا ہے اور عوام کو کس "چکر" میں جمع ہونے کو کہا جا رہا ہے؟ یہی کچھ ہوا تھا تئیس دسمبر کو ۔۔۔ نعرہ تھا "سیاست نہیں، ریاست بچاؤ" ۔۔۔ اور حالت یہ ہے کہ "ڈاکٹر صاحب" اس کے بعد سے سر تا پا "سیاسی" بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ علامہ صاحب نے مشرف دور میں تو "رسمِ شبیری" موقوف کیے رکھی ۔۔۔ لیکن اب وہ ایک جمہوری دور (آمریت سے بہرحال بہتر) میں "آمریت" کے تخت کو "ہٹانا" چاہتے ہیں ۔۔۔ شاید مشرف دور میں یہ کام زیادہ مشکل ہوتا ۔۔۔ اس لیے اب "جمہوریت" کو "آمریت" قرار دے کر یہ "فریضہ" سرانجام دیا جا رہا ہے ۔۔۔ علامہ صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ عوام کو "انتخابی نظام میں اصلاح" کے یک نکاتی ایجنڈے پر اسلام آباد جمع ہونے کی "کال" دیتے ۔۔۔ یا پھر وہ بے روزگاری، لاقانونیت وغیرہ کے خلاف "لانگ مارچ" کرتے ۔۔۔ اب شاید ہمیں یہ "درس" دیا جائے گا کہ یہ سارے معاملے تب حل ہوں گے جب انتخابی نظام میں اصلاحات ہوں گی ۔۔۔ ہم بھی تو یہی رونا رہے ہیں کہ عوام کو جب دعوت دی جائے تو واضح انداز میں ان کو سمجھا دیا جائے کہ وہ کس مقصد کے لیے اور کیوں جا رہے ہیں؟ اور اگر لانگ مارچ میں چالیس لاکھ لوگ آ گئے تو ہم کیا طریقہء کار اختیار کریں گے؟ کیا عوام ڈی چوک میں بیٹھ کر "آئین" میں "ترامیم" کریں گے؟ شاید یہ لانگ مارچ کامیاب بھی ہو جائے لیکن جس طریقے سے آگے بڑھا جا رہا ہے، اندیشے اور خدشات بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ ۔۔۔ ایم کیو ایم کو ساتھ ملا لیا گیا ہے ۔۔۔ تاکہ کسی بھی طور یہ اندیشے اور خدشات کم نہ ہو سکیں ۔۔۔ ایم کیو ایم، پانچ سال سے حکومتی اتحادی ہے ۔۔۔ یہ تو واقعی حد ہو گئی ۔۔۔ کیا مزاحیہ سین ہو گا؟ علامہ کے "مصطفوی انقلاب" سے مولانا الطاف حسین مدظلہ العالی خطاب فرمائیں گے ۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اک لوٹ مار ہے ، اک کرپشن ہے ، دھن دھونس دھاندلی کا راج ہے۔انتخابات کے نام پر غریب کروڑوں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ یہ پھر انتخابات کے نام پر اک جھوٹی جمہوریت کا تخت سجایا جارہا ہےمفادات کی جنگ ہے۔غریبو! تم ایک طرف ہو ، اور لوٹنے والے ایک طرف ہیں۔
میں بتانا چاہتا ہوں غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنے محلات آباد کرنے والو سنو !
میرے اس دھرتی کے غریبوں کے محلے اجاڑ کر اپنی محل آباد کرنے والو ، اب تمہارے محلات کی حفاظت نہیں ہوسکتی!
غریبوں کے خون سے اپنے چہروں اوراپنی گالوں کو سرخ کرنے والو ، اب تمہیں غریبوں کا نچوڑا ہوا خون ایک ایک قطرہ انہیں واپس دینا ہوگا، اب غریبوں کے حقوق واپس لوٹانے ہوں گے۔ اب جمہوریت کو اصلی شکل میں لوٹانا ہوگا۔ اسلام کی اخلاقی ، روحانی ، معاشرتی قدروں کو پھر سے بحال کرنا ہوگا اور مغموم چہروں پر پھر مسرتوں کو لوٹانا ہوگا۔
 
علامہ کا مطالبہ "انتخابی نظام میں اصلاحات" کا ہے اور عوام کو کس "چکر" میں جمع ہونے کو کہا جا رہا ہے؟ یہی کچھ ہوا تھا تئیس دسمبر کو ۔۔۔ نعرہ تھا "سیاست نہیں، ریاست بچاؤ" ۔۔۔ اور حالت یہ ہے کہ "ڈاکٹر صاحب" اس کے بعد سے سر تا پا "سیاسی" بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ علامہ صاحب نے مشرف دور میں تو "رسمِ شبیری" موقوف کیے رکھی ۔۔۔ لیکن اب وہ ایک جمہوری دور (آمریت سے بہرحال بہتر) میں "آمریت" کے تخت کو "ہٹانا" چاہتے ہیں ۔۔۔ شاید مشرف دور میں یہ کام زیادہ مشکل ہوتا ۔۔۔
دانا کہتے ہیں کہ وقت پر لگایا گیا ایک ٹانکا، بے وقت کے سو ٹانکوں سے بہتر ہوتا ہے۔۔۔کسی درخت پر پھل بھی کچھ گرم سرد موسموں کی مخصوص مدت جھیل لینے کے بعد ہی آتا ہے۔۔۔شائد اس وقت عوام کو ان باتوں کا اتنا گہرا احساس اور ادراک نہیں تھا جتنا اب آمریت اور جعلی جمہوریت کو اچھی طرح بھگت لینے اور نکّو نک اجانے کے بعد ہوا ہے۔۔۔:)
اس لیے اب "جمہوریت" کو "آمریت" قرار دے کر یہ "فریضہ" سرانجام دیا جا رہا ہے ۔۔۔ علامہ صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ عوام کو "انتخابی نظام میں اصلاح" کے یک نکاتی ایجنڈے پر اسلام آباد جمع ہونے کی "کال" دیتے ۔۔۔ یا پھر وہ بے روزگاری، لاقانونیت وغیرہ کے خلاف "لانگ مارچ" کرتے ۔۔۔ اب شاید ہمیں یہ "درس" دیا جائے گا کہ یہ سارے معاملے تب حل ہوں گے جب انتخابی نظام میں اصلاحات ہوں گی ۔۔۔ ہم بھی تو یہی رونا رہے ہیں کہ عوام کو جب دعوت دی جائے تو واضح انداز میں ان کو سمجھا دیا جائے کہ وہ کس مقصد کے لیے اور کیوں جا رہے ہیں؟ اور اگر لانگ مارچ میں چالیس لاکھ لوگ آ گئے تو ہم کیا طریقہء کار اختیار کریں گے؟ کیا عوام ڈی چوک میں بیٹھ کر "آئین" میں "ترامیم" کریں گے؟ ۔۔۔
تحریر سکوائر کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہاں لوگ صرف اکٹھے ہی تو ہوئے تھے، انہوں نے حسنی مبارک کے محل پر یلغار تو نہیں کی تھی ۔ لیکن اس ایک سکوائر میں ثابت قدمی سے عوام کا اکٹھا ہونا اور چند دنوں تک ڈٹے رہنا ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ مصری عوام اب مزید برداشت نہیں کرسکتے۔۔۔یہی ایکسرسائز اب اسلام اباد میں کرلی جائے تو چہ خوب :)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
دانا کہتے ہیں کہ وقت پر لگایا گیا ایک ٹانکا، بے وقت کے سو ٹانکوں سے بہتر ہوتا ہے۔۔۔ کسی درخت پر پھل بھی کچھ گرم سرد موسموں کی مخصوص مدت جھیل لینے کے بعد ہی آتا ہے۔۔۔ شائد اس وقت عوام کو ان باتوں کا اتنا گہرا احساس اور ادراک نہیں تھا جتنا اب آمریت اور جعلی جمہوریت کو اچھی طرح بھگت لینے اور نکّو نک اجانے کے بعد ہوا ہے۔۔۔ :)

تحریر سکوائر کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہاں لوگ صرف اکٹھے ہی تو ہوئے تھے، انہوں نے حسنی مبارک کے محل پر یلغار تو نہیں کی تھی ۔ لیکن اس ایک سکوائر میں ثابت قدمی سے عوام کا اکٹھا ہونا اور چند دنوں تک ڈٹے رہنا ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ مصری عوام اب مزید برداشت نہیں کرسکتے۔۔۔ یہی ایکسرسائز اب اسلام اباد میں کرلی جائے تو چہ خوب :)
علامہ صاحب کے خیالات سے متفق ہوئے بنا چارہ نہیں ہے لیکن حجت تمام کرنے کے لیے ان کو سپریم کورٹ میں اپنا موقف لے کر جانا چاہیے تھا ۔۔۔ اندیشے اور خدشات ظاہر کر دینا ہی مناسب ہوتا ہے ۔۔۔ سو ہم نے کر دیے ۔۔۔ دیکھتے ہیں چودہ جنوری کو یہ "ایکسرسائز" کیا رنگ لاتی ہے غزنوی صاحب؟
 
دیکھتے ہیں چودہ جنوری کو یہ "ایکسرسائز" کیا رنگ لاتی ہے غزنوی صاحب؟
حکومت کہہ رہی ہے کہ آنے دو دیکھ لیں گے۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح انڈیا نے پاکستانی ٹیم کے آنے پر اشتہار بنایا کہ " پاکستان آرہا ہے۔۔۔آنے دو ، دیکھ لیں گے"۔۔۔اور نتیجہ یہ کہ کلین سویپ۔۔۔ایسا ہی نتیجہ نکل آئے تو مزہ آجائے۔۔۔:D
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
حکومت کہہ رہی ہے کہ آنے دو دیکھ لیں گے۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح انڈیا نے پاکستانی ٹیم کے آنے پر اشتہار بنایا کہ " پاکستان آرہا ہے۔۔۔ آنے دو ، دیکھ لیں گے"۔۔۔ اور نتیجہ یہ کہ کلین سویپ۔۔۔ ایسا ہی نتیجہ نکل آئے تو مزہ آجائے۔۔۔ :D
بے یقینی کی فضا ضرور ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ علامہ صاحب بس "الطاف حسین" سے محتاط رہیں ۔۔۔ ہم تو اول دن سے یہی کہہ رہے ہیں ۔۔۔ ایم کیو ایم کی وجہ سے "گیم" خراب بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔ خیر، یہ تو ذاتی رائے ہے ۔۔۔ علامہ صاحب بہتر جانتے ہوں گے ۔۔۔
 

مغزل

محفلین
نظامی بھائی میں 22 سال سے طاہر القادری کا معتقد ہوں۔۔
کوتاہ بینی پر مبنی سیاسی نقطہ نظر بھی رکھتا ہوں مگر تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو پر عمل پیرا ہوں۔۔
سیاہ ست کی غلاظت صاف کرنے کے لیے ہاتھ تو گندے ہوں گے ہی ۔۔
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے ۔۔ اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے۔۔
خدا کرے کہ قاردی صاحب کی باتیں سچ ثابت ہوں ۔۔ وگرنہ ’’پلانٹڈ‘‘ لوگ بہت سے آئے۔۔:brokenheart:
 
Top