ڈاکٹر طاہرالقادری کے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے دونوں پہلو

عاطف بٹ

محفلین
2118.gif

ربط
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ رپورٹ عثمان منظور نامی صحافی نے لکھی ہے جو لکھتے ہیں کہ
1990 میں خود( ڈاکٹر طاہر القادری) پر قاتلانہ حملہ ---
اس وقت کی حکومت نے کیس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمشن تشکیل دیا جس میں وہ اور ان کی جانب سے 25 گواہان پیش ہوئے اور جب فیصلہ آنے والا تھا تب حکومت نے ٹریبوبل توڑ کر لاہور ہائی کورٹ کا کمشن تشکیل دیا جس نے از سر نو کاروائی شروع کی جس سے مایوس ہو کر انہوں نے کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا اور بعد میں فیصلہ آگیا۔

صحافی صاحب کی رپورٹ پر نقد:
صحافی صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ اس وقت کی حکومت کون تھی اور ڈاکٹر طاہر القادری پر قاتلانہ حملہ میں اس کا کیا کردار تھا اور اس وقت کی حکومت نے قائم کردہ ٹریبونل اس وقت کیوں توڑ دیا تھا جب وہ ٹریبونل فیصلہ دینے والا تھا؟

اب پروپگنڈا صحافت مزید نہیں چل سکتی!


ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر نوے کی دہائی میں جب قاتلانہ حملہ ہوا تو ان کے شدید مخالفین برسر اقتدار تھے۔ اس حملے کی براہ راست زد ان کے مخالفین پر پڑتی تھی۔ تاہم انہوں نے کیس کی انکوائری کرائی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اتنے اہم مقدمہ کے بارے میں حکومت وقت کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے تحت یک رکنی کمیشن بھی بنوایا گیا۔ انکوائری آفیسر اپنی تمام تر تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ حملہ اصلی ہوا ہے، کوئی ڈرامہ نہیں کیا گیا۔ یک رکنی کمیشن کا رجحان بھی اسی طرف تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف حملہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا گیا ہے اور یہ حملہ بالکل اصل وقوع پذیر ہوا ہے۔
نیز ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پرسنل سیکیورٹی اسٹاف کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک حملہ آور بھی اسپتال میں مل گیا تھا، جسے حکومت نے ایسا غائب کروایا کہ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے انکوائری آفیسر تبدیل کر دیا گیا، صرف یک رکنی کمیشن کا سربراہ بھی بدل دیا گیا۔ نتیجتاً شیخ الاسلام نے حکومت اور عدالت کی ملی بھگت پر احتجاجاً عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا کہ ہمیں انصاف اللہ کی عدالت سے ملے گا۔ یوں حکومت نے اپنا من چاہا فیصلہ کمیشن سے لیا۔
 
" راست باز،ایماندار اور امین بھی نہیں ہیں ":cool:
یہ راہ گم کرد، بے ایمان اور خائن موجودہ دور کے راست بازوں ایمانداروں اور امانت دار سیاست دانوں سے لاکھوں نہیں کروڑوں گنا زیادہ راست باز ایماندار اور امین ہے۔
 
یہ رپورٹ عثمان منظور نامی صحافی نے لکھی ہے جو لکھتے ہیں کہ
1990 میں خود( ڈاکٹر طاہر القادری) پر قاتلانہ حملہ ---
اس وقت کی حکومت نے کیس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمشن تشکیل دیا جس میں وہ اور ان کی جانب سے 25 گواہان پیش ہوئے اور جب فیصلہ آنے والا تھا تب حکومت نے ٹریبوبل توڑ کر لاہور ہائی کورٹ کا کمشن تشکیل دیا جس نے از سر نو کاروائی شروع کی جس سے مایوس ہو کر انہوں نے کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا اور بعد میں فیصلہ آگیا۔

صحافی صاحب کی رپورٹ پر نقد:
صحافی صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ اس وقت کی حکومت کون تھی اور ڈاکٹر طاہر القادری پر قاتلانہ حملہ میں اس کا کیا کردار تھا اور اس وقت کی حکومت نے قائم کردہ ٹریبونل اس وقت کیوں توڑ دیا تھا جب وہ ٹریبونل فیصلہ دینے والا تھا؟

اب پروپگنڈا صحافت مزید نہیں چل سکتی!
نظامی جی آپ کے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عدالت اس شخص کو جھوٹا قرار دے چکی ہے اور یہ شخص عدالتی جھوٹا ہے ۔۔۔۔ جس ملک میں دہشتگردوں کو جج جان کے خوف سے پھانسی کے پھندے پر نہ لٹکائیں اگر اس ملک میں ایک سچا شخص عدالتی جھوٹا قرار پاجائے تو کیا عجب ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
نظامی جی آپ کے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عدالت اس شخص کو جھوٹا قرار دے چکی ہے اور یہ شخص عدالتی جھوٹا ہے ۔۔۔ ۔ جس ملک میں دہشتگردوں کو جج جان کے خوف سے پھانسی کے پھندے پر نہ لٹکائیں اگر اس ملک میں ایک سچا شخص عدالتی جھوٹا قرار پاجائے تو کیا عجب ہے

ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر نوے کی دہائی میں جب قاتلانہ حملہ ہوا تو ان کے شدید مخالفین برسر اقتدار تھے۔ اس حملے کی براہ راست زد ان کے مخالفین پر پڑتی تھی۔ تاہم انہوں نے کیس کی انکوائری کرائی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اتنے اہم مقدمہ کے بارے میں حکومت وقت کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے تحت یک رکنی کمیشن بھی بنوایا گیا۔ انکوائری آفیسر اپنی تمام تر تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ حملہ اصلی ہوا ہے، کوئی ڈرامہ نہیں کیا گیا۔ یک رکنی کمیشن کا رجحان بھی اسی طرف تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف حملہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا گیا ہے اور یہ حملہ بالکل اصل وقوع پذیر ہوا ہے۔
نیز ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پرسنل سیکیورٹی اسٹاف کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک حملہ آور بھی اسپتال میں مل گیا تھا، جسے حکومت نے ایسا غائب کروایا کہ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے انکوائری آفیسر تبدیل کر دیا گیا، صرف یک رکنی کمیشن کا سربراہ بھی بدل دیا گیا۔ نتیجتاً شیخ الاسلام نے حکومت اور عدالت کی ملی بھگت پر احتجاجاً عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا کہ ہمیں انصاف اللہ کی عدالت سے ملے گا۔ یوں حکومت نے اپنا من چاہا فیصلہ کمیشن سے لیا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
یہ رپورٹ عثمان منظور نامی صحافی نے لکھی ہے جو لکھتے ہیں کہ
1990 میں خود( ڈاکٹر طاہر القادری) پر قاتلانہ حملہ ---
اس وقت کی حکومت نے کیس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمشن تشکیل دیا جس میں وہ اور ان کی جانب سے 25 گواہان پیش ہوئے اور جب فیصلہ آنے والا تھا تب حکومت نے ٹریبوبل توڑ کر لاہور ہائی کورٹ کا کمشن تشکیل دیا جس نے از سر نو کاروائی شروع کی جس سے مایوس ہو کر انہوں نے کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا اور بعد میں فیصلہ آگیا۔

صحافی صاحب کی رپورٹ پر نقد:
صحافی صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ اس وقت کی حکومت کون تھی اور ڈاکٹر طاہر القادری پر قاتلانہ حملہ میں اس کا کیا کردار تھا اور اس وقت کی حکومت نے قائم کردہ ٹریبونل اس وقت کیوں توڑ دیا تھا جب وہ ٹریبونل فیصلہ دینے والا تھا؟

اب پروپگنڈا صحافت مزید نہیں چل سکتی!


ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر نوے کی دہائی میں جب قاتلانہ حملہ ہوا تو ان کے شدید مخالفین برسر اقتدار تھے۔ اس حملے کی براہ راست زد ان کے مخالفین پر پڑتی تھی۔ تاہم انہوں نے کیس کی انکوائری کرائی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اتنے اہم مقدمہ کے بارے میں حکومت وقت کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے تحت یک رکنی کمیشن بھی بنوایا گیا۔ انکوائری آفیسر اپنی تمام تر تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ حملہ اصلی ہوا ہے، کوئی ڈرامہ نہیں کیا گیا۔ یک رکنی کمیشن کا رجحان بھی اسی طرف تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف حملہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا گیا ہے اور یہ حملہ بالکل اصل وقوع پذیر ہوا ہے۔
نیز ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پرسنل سیکیورٹی اسٹاف کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک حملہ آور بھی اسپتال میں مل گیا تھا، جسے حکومت نے ایسا غائب کروایا کہ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے انکوائری آفیسر تبدیل کر دیا گیا، صرف یک رکنی کمیشن کا سربراہ بھی بدل دیا گیا۔ نتیجتاً شیخ الاسلام نے حکومت اور عدالت کی ملی بھگت پر احتجاجاً عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا کہ ہمیں انصاف اللہ کی عدالت سے ملے گا۔ یوں حکومت نے اپنا من چاہا فیصلہ کمیشن سے لیا۔
نظامی بھائی، عثمان منظور نے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے وہ بات کہی ہے۔ آپ نے شاید اس جملے کے آغاز میں ’ان کا کہنا ہے کہ‘ کے الفاظ نہیں دیکھے۔
باقی جہاں تک یک رکنی کمیشن بنانے کی بات ہے تو بہت بڑے بڑے کیسوں میں بھی یک رکنی کمیشن بنتے ہیں، یہ تو کوئی اتنا بڑا معاملہ ہی نہیں تھا۔ حال ہی ریاض ٹھیکیدار اور ارسلان ریاض کے معاملے میں بھی ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل یک رکنی کمیشن بنایا گیا تھا۔
ایک اور وضاحت کرتا چلوں کہ عدالت اپنے قائم کردہ کمیشن سے فیصلہ نہیں لیتی بلکہ کسی معاملے پر چھان بین کرواتی ہے جبکہ فیصلہ خود عدالت نے ہی کرنا ہوتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
عاطف بٹ بھائی ، ٹریبونل توڑنے کی آپ نے وضاحت نہیں کی کہ ایسا کیوں ہوا؟
مزید نکات برائے توجہ؛
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پرسنل سیکیورٹی اسٹاف کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک حملہ آور بھی اسپتال میں مل گیا تھا، جسے حکومت نے ایسا غائب کروایا کہ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے انکوائری آفیسر تبدیل کر دیا گیا، صرف یک رکنی کمیشن کا سربراہ بھی بدل دیا گیا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بٹ بھائی ، ٹریبونل توڑنے کی آپ نے وضاحت نہیں کی کہ ایسا کیوں ہوا؟
مزید نکات برائے توجہ؛
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پرسنل سیکیورٹی اسٹاف کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک حملہ آور بھی اسپتال میں مل گیا تھا، جسے حکومت نے ایسا غائب کروایا کہ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے انکوائری آفیسر تبدیل کر دیا گیا، صرف یک رکنی کمیشن کا سربراہ بھی بدل دیا گیا۔
آپ جس پہلے کمیشن کی بات کررہے ہیں وہ حکومت نے بنوایا تھا جبکہ دوسرا کمیشن عدالتی تھا۔ عدالتی کمیشن یقیناً کسی جج پر مشتمل ہوگا اور ایسا کمیشن صرف کسی واقعے کے حقائق کو ہی نہیں جانچتا بلکہ دیگر کئی معاملات کو سامنے رکھ کر قانون کے مطابق کسی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ اس وقت کمیشن حکومت نے خود ختم کیا تھا یا لاہور ہائی کورٹ نے از خود یا کسی کی درخواست پر اس کمیشن کو ختم کرتے ہوئے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
جہاں تک تفتیشی افسر بدلنے کی بات ہے تو اس کے پیچھے بدنیتی سے لے کر انتظامی نوعیت کے کسی معاملے تک کوئی بھی بات کارفرما ہوسکتی ہے۔ میں نے خود ایسے بہت سے مقدمات دیکھے ہیں جن میں تفتیشی افسر کو بعض انتظامی مجبوریوں کی بناء پر ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ بعض اوقات مقدمے پر اثر انداز ہونے کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔
محولہ بالا کیس کی تفصیلات دیکھ لی جائیں تو بہت کچھ واضح ہوسکتا ہے کہ تفتیشی افسر کو کیوں بدلا گیا، کمیشن کیوں ختم ہوا، عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا، طاہرالقادری نے فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ میں کوئی اپیل کیوں نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آپ جس پہلے کمیشن کی بات کررہے ہیں وہ حکومت نے بنوایا تھا جبکہ دوسرا کمیشن عدالتی تھا۔ عدالتی کمیشن یقیناً کسی جج پر مشتمل ہوگا اور ایسا کمیشن صرف کسی واقعے کے حقائق کو ہی نہیں جانچتا بلکہ دیگر کئی معاملات کو سامنے رکھ کر قانون کے مطابق کسی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ اس وقت کمیشن حکومت نے خود ختم کیا تھا یا لاہور ہائی کورٹ نے از خود یا کسی کی درخواست پر اس کمیشن کو ختم کرتے ہوئے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
جہاں تک تفتیشی افسر بدلنے کی بات ہے تو اس کے پیچھے بدنیتی سے لے کر انتظامی نوعیت کے کسی معاملے تک کوئی بھی بات کارفرما ہوسکتی ہے۔ میں نے خود ایسے بہت سے مقدمات دیکھے ہیں جن میں تفتیشی افسر کو بعض انتظامی مجبوریوں کی بناء پر ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ بعض اوقات مقدمے پر اثر انداز ہونے کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔
محولہ بالا کیس کی تفصیلات دیکھ لی جائیں تو بہت کچھ واضح ہوسکتا ہے کہ تفتیشی افسر کو کیوں بدلا گیا، کمیشن کیوں ختم ہوا، عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا، طاہرالقادری نے فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ میں کوئی اپیل کیوں نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔
جب آپ جو خود میڈیا سے وابستہ ہیں اور اس کیس کے حوالے سے کئی چیزوں کا علم نہیں رکھتے تو عوام الناس کیا تحقیق کرے گی کہ یہاں تو پکی پکائی کھانے کا رجحان ہے اور سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی رپورٹ (جسے پروپگنڈا رپورٹ کہنا مناسب ہے کہ اس میں صحافتی تحقیق کا عنصر مفقود ہے) سے رائے عامہ کو گمراہ ہی کیا جاسکتا ہے حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔
 

عاطف بٹ

محفلین
جب آپ جو خود میڈیا سے وابستہ ہیں اور اس کیس کے حوالے سے کئی چیزوں کا علم نہیں رکھتے تو عوام الناس کیا تحقیق کرے گی کہ یہاں تو پکی پکائی کھانے کا رجحان ہے اور سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی رپورٹ (جسے پروپگنڈا رپورٹ کہنا مناسب ہے کہ اس میں صحافتی تحقیق کا عنصر مفقود ہے) سے رائے عامہ کو گمراہ ہی کیا جاسکتا ہے حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔
ذرائع ابلاغ سے وابستہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں ہر بات سے واقف ہوں گا۔ یہ کیس میرے نزدیک کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں تھا اس لئے میں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اب جبکہ طاہرالقادری سیاسی حمام میں آ ہی چکے ہیں تو کیس کی تفصیلات بھی چھپی نہیں رہیں گی اور ذرائع ابلاغ سے ہوتی ہوئیں عوام الناس تک بھی پہنچ جائیں گی۔
اب سیاسی بساط کا مہرہ بننے کے بعد طاہرالقادری کے بارے میں صرف یہ ایک کیس ہی نہیں بلکہ ان کی عملی زندگی کے تمام تر معاملات زیرِ بحث آئیں گے اور آرہے ہیں۔ وہ ایک عوامی شخصیت ہیں، لہٰذا ان سے فکری وابستگی رکھنے والے افراد کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ عوامی شخصیات کا کچا چٹھا اسی طرح کھلا کرتا ہے جیسا ان کا کھل رہا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
درست کہا آپ نے
عمومی طور پر یہ معیار ہونا چاہیے کہ جب آپ کسی موضوع پر رپورٹ لکھیں تو انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ موضوع سے انصاف ضرور ہونا چاہیے۔
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ :)
 

عاطف بٹ

محفلین
درست کہا آپ نے
عمومی طور پر یہ معیار ہونا چاہیے کہ جب آپ کسی موضوع پر رپورٹ لکھیں تو انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ موضوع سے انصاف ضرور ہونا چاہیے۔
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ :)
میں نے جو رپورٹ یہاں شیئر کی تھی وہ عثمان منظور کی ہے۔ میں آج تک انہیں ملا نہیں مگر ان کی رپورٹس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ صحافتی تقاضوں سے بےخبر نہیں ہیں۔
اگر اس رپورٹ پر میں نے کام کیا ہوتا تو اس کیس سے متعلق تمام حقائق ابھی آپ کے سامنے رکھ دیتا۔
ویسے تو آپ بھی اسلام آباد میں ہیں اور عثمان منظور بھی، آپ ان سے رابطہ کرلیجئے، وہ آپ کو جواب دینے سے انکار نہیں کریں گے!
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بٹ بھائی میرے کہے کی مراد آپ نہیں بلکہ رپورٹ لکھنے والے صحافی عثمان منظور ہیں :)
یہ رپورٹ آج روزنامہ جنگ لاہور کے صفحہء اول پر شائع ہوئی ہے۔ یقیناً آپ بھی جانتے ہوں گے اخبار کا صفحہء اول بہت ہی اہم ہوتا ہے اور کسی اخبار میں اگر روزانہ پانچ سو خبریں شائع ہوتی ہیں تو اخبار کے دفتر میں پانچ ہزار خبریں آتی ہیں لیکن سب کچھ چھاپا نہیں جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح کوئی رپورٹر اور تجزیہ کار جو کچھ لکھ کر بھیجتا ہے وہ اسی طرح نہیں چھپ جاتا بلکہ اخباری ضرورت کے مطابق اس میں کاٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔ بعض اوقات رپورٹر کی بھیجی ہوئی ایک ہزار الفاظ کی خبر کے اخبار میں صرف دو سو الفاظ چھپتے ہیں۔
آپ چاہیں تو میں آپ کو عثمان منظور کا موبائل نمبر مہیا کرسکتا ہوں اور آپ ان سے اس سلسلے میں دریافت کرسکتے ہیں کہ وہ مذکورہ کیس کے بارے میں کتنا جانتے ہیں۔ اگر کیس کی تفصیلات ان کے علم میں نہیں ہیں تو انہیں تب تک رپورٹ نہیں لکھنی چاہئے تھی جب تک وہ اس کیس کے بارے میں تفصیلات سے پوری طرح آگاہ نہ ہوجاتے!
 
Top