یہ راہ گم کرد، بے ایمان اور خائن موجودہ دور کے راست بازوں ایمانداروں اور امانت دار سیاست دانوں سے لاکھوں نہیں کروڑوں گنا زیادہ راست باز ایماندار اور امین ہے۔" راست باز،ایماندار اور امین بھی نہیں ہیں "
نظامی جی آپ کے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عدالت اس شخص کو جھوٹا قرار دے چکی ہے اور یہ شخص عدالتی جھوٹا ہے ۔۔۔۔ جس ملک میں دہشتگردوں کو جج جان کے خوف سے پھانسی کے پھندے پر نہ لٹکائیں اگر اس ملک میں ایک سچا شخص عدالتی جھوٹا قرار پاجائے تو کیا عجب ہےیہ رپورٹ عثمان منظور نامی صحافی نے لکھی ہے جو لکھتے ہیں کہ
1990 میں خود( ڈاکٹر طاہر القادری) پر قاتلانہ حملہ ---
اس وقت کی حکومت نے کیس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمشن تشکیل دیا جس میں وہ اور ان کی جانب سے 25 گواہان پیش ہوئے اور جب فیصلہ آنے والا تھا تب حکومت نے ٹریبوبل توڑ کر لاہور ہائی کورٹ کا کمشن تشکیل دیا جس نے از سر نو کاروائی شروع کی جس سے مایوس ہو کر انہوں نے کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا اور بعد میں فیصلہ آگیا۔
صحافی صاحب کی رپورٹ پر نقد:
صحافی صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ اس وقت کی حکومت کون تھی اور ڈاکٹر طاہر القادری پر قاتلانہ حملہ میں اس کا کیا کردار تھا اور اس وقت کی حکومت نے قائم کردہ ٹریبونل اس وقت کیوں توڑ دیا تھا جب وہ ٹریبونل فیصلہ دینے والا تھا؟
اب پروپگنڈا صحافت مزید نہیں چل سکتی!
نظامی جی آپ کے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ عدالت اس شخص کو جھوٹا قرار دے چکی ہے اور یہ شخص عدالتی جھوٹا ہے ۔۔۔ ۔ جس ملک میں دہشتگردوں کو جج جان کے خوف سے پھانسی کے پھندے پر نہ لٹکائیں اگر اس ملک میں ایک سچا شخص عدالتی جھوٹا قرار پاجائے تو کیا عجب ہے
نظامی بھائی، عثمان منظور نے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے وہ بات کہی ہے۔ آپ نے شاید اس جملے کے آغاز میں ’ان کا کہنا ہے کہ‘ کے الفاظ نہیں دیکھے۔یہ رپورٹ عثمان منظور نامی صحافی نے لکھی ہے جو لکھتے ہیں کہ
1990 میں خود( ڈاکٹر طاہر القادری) پر قاتلانہ حملہ ---
اس وقت کی حکومت نے کیس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمشن تشکیل دیا جس میں وہ اور ان کی جانب سے 25 گواہان پیش ہوئے اور جب فیصلہ آنے والا تھا تب حکومت نے ٹریبوبل توڑ کر لاہور ہائی کورٹ کا کمشن تشکیل دیا جس نے از سر نو کاروائی شروع کی جس سے مایوس ہو کر انہوں نے کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا اور بعد میں فیصلہ آگیا۔
صحافی صاحب کی رپورٹ پر نقد:
صحافی صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ اس وقت کی حکومت کون تھی اور ڈاکٹر طاہر القادری پر قاتلانہ حملہ میں اس کا کیا کردار تھا اور اس وقت کی حکومت نے قائم کردہ ٹریبونل اس وقت کیوں توڑ دیا تھا جب وہ ٹریبونل فیصلہ دینے والا تھا؟
اب پروپگنڈا صحافت مزید نہیں چل سکتی!
ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر نوے کی دہائی میں جب قاتلانہ حملہ ہوا تو ان کے شدید مخالفین برسر اقتدار تھے۔ اس حملے کی براہ راست زد ان کے مخالفین پر پڑتی تھی۔ تاہم انہوں نے کیس کی انکوائری کرائی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اتنے اہم مقدمہ کے بارے میں حکومت وقت کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے تحت یک رکنی کمیشن بھی بنوایا گیا۔ انکوائری آفیسر اپنی تمام تر تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ حملہ اصلی ہوا ہے، کوئی ڈرامہ نہیں کیا گیا۔ یک رکنی کمیشن کا رجحان بھی اسی طرف تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف حملہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا گیا ہے اور یہ حملہ بالکل اصل وقوع پذیر ہوا ہے۔
نیز ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پرسنل سیکیورٹی اسٹاف کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک حملہ آور بھی اسپتال میں مل گیا تھا، جسے حکومت نے ایسا غائب کروایا کہ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے انکوائری آفیسر تبدیل کر دیا گیا، صرف یک رکنی کمیشن کا سربراہ بھی بدل دیا گیا۔ نتیجتاً شیخ الاسلام نے حکومت اور عدالت کی ملی بھگت پر احتجاجاً عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا کہ ہمیں انصاف اللہ کی عدالت سے ملے گا۔ یوں حکومت نے اپنا من چاہا فیصلہ کمیشن سے لیا۔
آپ جس پہلے کمیشن کی بات کررہے ہیں وہ حکومت نے بنوایا تھا جبکہ دوسرا کمیشن عدالتی تھا۔ عدالتی کمیشن یقیناً کسی جج پر مشتمل ہوگا اور ایسا کمیشن صرف کسی واقعے کے حقائق کو ہی نہیں جانچتا بلکہ دیگر کئی معاملات کو سامنے رکھ کر قانون کے مطابق کسی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ اس وقت کمیشن حکومت نے خود ختم کیا تھا یا لاہور ہائی کورٹ نے از خود یا کسی کی درخواست پر اس کمیشن کو ختم کرتے ہوئے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔عاطف بٹ بھائی ، ٹریبونل توڑنے کی آپ نے وضاحت نہیں کی کہ ایسا کیوں ہوا؟
مزید نکات برائے توجہ؛
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے پرسنل سیکیورٹی اسٹاف کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہونے والا ایک حملہ آور بھی اسپتال میں مل گیا تھا، جسے حکومت نے ایسا غائب کروایا کہ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے انکوائری آفیسر تبدیل کر دیا گیا، صرف یک رکنی کمیشن کا سربراہ بھی بدل دیا گیا۔
جب آپ جو خود میڈیا سے وابستہ ہیں اور اس کیس کے حوالے سے کئی چیزوں کا علم نہیں رکھتے تو عوام الناس کیا تحقیق کرے گی کہ یہاں تو پکی پکائی کھانے کا رجحان ہے اور سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی رپورٹ (جسے پروپگنڈا رپورٹ کہنا مناسب ہے کہ اس میں صحافتی تحقیق کا عنصر مفقود ہے) سے رائے عامہ کو گمراہ ہی کیا جاسکتا ہے حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔آپ جس پہلے کمیشن کی بات کررہے ہیں وہ حکومت نے بنوایا تھا جبکہ دوسرا کمیشن عدالتی تھا۔ عدالتی کمیشن یقیناً کسی جج پر مشتمل ہوگا اور ایسا کمیشن صرف کسی واقعے کے حقائق کو ہی نہیں جانچتا بلکہ دیگر کئی معاملات کو سامنے رکھ کر قانون کے مطابق کسی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ اس وقت کمیشن حکومت نے خود ختم کیا تھا یا لاہور ہائی کورٹ نے از خود یا کسی کی درخواست پر اس کمیشن کو ختم کرتے ہوئے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
جہاں تک تفتیشی افسر بدلنے کی بات ہے تو اس کے پیچھے بدنیتی سے لے کر انتظامی نوعیت کے کسی معاملے تک کوئی بھی بات کارفرما ہوسکتی ہے۔ میں نے خود ایسے بہت سے مقدمات دیکھے ہیں جن میں تفتیشی افسر کو بعض انتظامی مجبوریوں کی بناء پر ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ بعض اوقات مقدمے پر اثر انداز ہونے کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔
محولہ بالا کیس کی تفصیلات دیکھ لی جائیں تو بہت کچھ واضح ہوسکتا ہے کہ تفتیشی افسر کو کیوں بدلا گیا، کمیشن کیوں ختم ہوا، عدالت نے فیصلہ کن بنیادوں پر دیا، طاہرالقادری نے فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ میں کوئی اپیل کیوں نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔
ذرائع ابلاغ سے وابستہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں ہر بات سے واقف ہوں گا۔ یہ کیس میرے نزدیک کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں تھا اس لئے میں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اب جبکہ طاہرالقادری سیاسی حمام میں آ ہی چکے ہیں تو کیس کی تفصیلات بھی چھپی نہیں رہیں گی اور ذرائع ابلاغ سے ہوتی ہوئیں عوام الناس تک بھی پہنچ جائیں گی۔جب آپ جو خود میڈیا سے وابستہ ہیں اور اس کیس کے حوالے سے کئی چیزوں کا علم نہیں رکھتے تو عوام الناس کیا تحقیق کرے گی کہ یہاں تو پکی پکائی کھانے کا رجحان ہے اور سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی رپورٹ (جسے پروپگنڈا رپورٹ کہنا مناسب ہے کہ اس میں صحافتی تحقیق کا عنصر مفقود ہے) سے رائے عامہ کو گمراہ ہی کیا جاسکتا ہے حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔
میں نے جو رپورٹ یہاں شیئر کی تھی وہ عثمان منظور کی ہے۔ میں آج تک انہیں ملا نہیں مگر ان کی رپورٹس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ صحافتی تقاضوں سے بےخبر نہیں ہیں۔درست کہا آپ نے
عمومی طور پر یہ معیار ہونا چاہیے کہ جب آپ کسی موضوع پر رپورٹ لکھیں تو انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ موضوع سے انصاف ضرور ہونا چاہیے۔
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
یہ رپورٹ آج روزنامہ جنگ لاہور کے صفحہء اول پر شائع ہوئی ہے۔ یقیناً آپ بھی جانتے ہوں گے اخبار کا صفحہء اول بہت ہی اہم ہوتا ہے اور کسی اخبار میں اگر روزانہ پانچ سو خبریں شائع ہوتی ہیں تو اخبار کے دفتر میں پانچ ہزار خبریں آتی ہیں لیکن سب کچھ چھاپا نہیں جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح کوئی رپورٹر اور تجزیہ کار جو کچھ لکھ کر بھیجتا ہے وہ اسی طرح نہیں چھپ جاتا بلکہ اخباری ضرورت کے مطابق اس میں کاٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔ بعض اوقات رپورٹر کی بھیجی ہوئی ایک ہزار الفاظ کی خبر کے اخبار میں صرف دو سو الفاظ چھپتے ہیں۔عاطف بٹ بھائی میرے کہے کی مراد آپ نہیں بلکہ رپورٹ لکھنے والے صحافی عثمان منظور ہیں