ڈاکٹر تو صیف تبسم کی کتاب :کوئی اورستارہ سے ایک انتخاب



mht4r5.jpg

جانے کس مرحلئہ سخت میں ہوگا توصیف
اک وہ آنسو کہ ابھی دیدہ گریاں میں نہیں

کوئی وحشی نہیں گر بند اس سینے کے زنداں میں
تو پھر ہر سانس میں، ہر بار اندر ٹوٹتا کیا ہے

زندگی، خواب کے سائے میں بسر ہو جاتی
سوچا ہوتا تجھے، اے کاش نہ دیکھا ہوتا

برسے جو کُھل کے ابر تو دل کا کنول کِھلے
کب تک مژہ مژہ پہ سمندر اُٹھائیے

پلکیں جھپکیں تو یہ آئینہ حیرت ٹوٹے
یوں کُھلی آنکھ سے مت خوابِ پریشاں دیکھو

بوجھ پلکوں پہ ہے کس حسرتِ نادیدہ کا
دیکھنا چاہوں مگر آنکھ اُٹھاﺅں کیسے

دھواں دھواں ہیں محبت میں چشم و دل، جیسے
مرے ہی سینے میں جلتے ہوں شہر بھر کے چراغ


کیا یہ سچ ہے کہ خزاں میں بھی چمن کھلتے ہیں
میرے دامن میں لہو ہے تو مہکتا کیا ہے

آخر کو ہم بھی گرد میں تحلیل ہو گئے
جن راستوں میں کوئی نہ تھا، لے گئی ہوا

جو مجھ کو چھوڑ گیا، اتنا بے خبر تو نہ تھا!
جو ہم سفر ہے ، مرا درد جانتا ہی نہیں
بکھر گیا ہوں تو وہ سنگ زن، بہ زعم وفا
سمیٹتا ہے مجھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
نظر کے سامنے اِک خواب کا سا منظر ہے
ہوا پکارتی ہے دشت بولتا ہی نہیں

یہاں تو بس تری آواز ہی کے سائے ہیں
پکارتا ہے کسے دشت خواب کے اندر

آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں اس کو، ہر انجانے چہرے میں
اس کی صورت یاد آئے تو کیسے ہجر، وصال کریں

ایک دریا مری آنکھوں سے رواں رہتا تھا
دل کے پاتال میں گرتا ہوا جھرنا اس کا

تجھے بھی اے غم جاں! کم ملیں گے ہم ایسے
متاعِ درد سمیٹی ضرورتوں کے بغیر
کوئی موج طرب گزری ہے دل سے
ابھر آئے ہیں زخمِ بے نشاں بھی

اُمڈ کے آئیں آنسو تو جی لرزتا ہے!
مژہ مژہ ہیں کئی خواب بادلوں کی طرح

اتنے رنگوں میں کیوں تم کو، ایک رنگ من بھایا ہے
بھید یہ اپنے جی کا، کیسے اووروں کو سمجھاﺅ گے

اس سیاہی میں کہیں دید کا روزن تو کُھلے
کسی دیوار میں چُن دیدہ بینا میرا

عجیب غم ہے کہ جس نے حنوط کرکے مجھے
سنبھال رکھا ہے اک دور بے یقیں کے لئے

ورق ورق تھی کتابِ جنوں سمجھتے کیا!
ہمارے پیشِ نظر اقتباس تھے سارے

سوال یہ ہے کہ ان آئینوں کی بستی میں
سفر تمام کرے کس طرح کرن اپنا
تھکن تھی حاصل عمر عزیز، آ بھی چکی
فسانہ کہہ بھی چکی لذت بدن اپنا

تمام روشنی ہے، یاد رفتگاں سے یہ دل
کہ جو ستارہ بھی ٹوٹا، چراغ خانہ ہوا
چھپا جو چاند تو کنج چمن میں اک سایا
لپٹ گیا مرے سینے سے، پھر جدا نہ ہوا

چراغ تھا تو کسی طاق ہی میں بجھ رہتا
یہ کیا کیا کہ حوالے کیا، ہوا کے مجھے

ٹھیک ہے اے ضبط غم! آنسو کوئی ٹپکا نہیں
پر یہ دل سے آنکھ تک پیہم سفر میں کون ہے

مری مژہ سے ٹپکتا آنسو ہو جیسے ہر ڈوبتا ستارہ
لکھا گیا ہو مری ہی پلکوں پہ رتجگوں کا حساب جیسے

راستوں میں پیڑ جب دیکھے تو آنسو آگئے
ہر شجر سایہ تھا تیری یاد سے ملتا ہوا

راکھ کا ڈھیر ہوئی جاتی ہے اک اک ساعت!
جو بھی اندوختہ باقی ہے بچالوں اس کو
وہ ہر اک سانس میں موجود ہے خوشبو کی طرح
دل کی حسرت ہے کہ ذرا ہاتھ لگا لوں اس کو

حنائے ناخن و گلبرگ لب کی یاد میں ہم
لہو تو روئیں مگر اب کہاں لہو دل میں

انگلیاں خیالوں کی ایک عکس چھوتی ہیں
ایک عمر میں سیکھا ہم نے فن جدائی کا

میرا چہرہ، مرے پہلو سے بھی ویراں تر ہے
اپنے آغوش میں لیتا نہیں صحرا مجھ کو
پہلے دیوار اٹھائی تھی کہ خود کو دیکھوں
اب یہاں کوئی نہیں دیکھنے والا مجھ کو

کہاں سے ڈھونڈ کر لاﺅ گے وہ عمر
کٹی جو خواب فردا دیکھنے میں

۔
 
Top