جاسمن

لائبریرین
اردو محفل فورم پہ کسی موضوع پہ بحث شروع ہوجائے تو بحث کرنے والے شاید کسی نتیجہ پہ نہ پہنچ سکیں لیکن پڑھنے والے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرتے ہیں۔ درج ذیل موضوع پہ میری معلومات بہت کم ہیں۔ سو احباب سے رائے کی درخواست ہے۔

ڈالر: تماشہ دکھا کر مداری بن گیا
اوریا مقبول جان
سید الانبیائﷺنے دور فتن اور قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بتائی کہ ’’ایک وقت بنی آدم پر آئے گا جب کوئی چیز سوائے درہم (چاندی کا سکہ) اور دینار (سونے کا سکہ) کے کام نہ آئے گی (مسند احمد)‘‘۔ آج سے صرف چند سال پہلے تک ماہرین معاشیات و سیاسیات کو میرے آقا مخبر صادقﷺ کی اس حدیث کا یقین نہیں آتا تھا اور یہی حال ان سے مرعوب اسلامی سکالرز کا بھی تھا جو ایسی تمام احادیث کو اوّل تو موضوع (گھڑی ہوئی) قرار دیتے تھے یا ان کی عقلی توجیہات پیش کرتے تھے۔ کاغذ کے کڑکڑاتے ہوئے نوٹوں کی دنیا میں کس کو یقین تھا کہ سونے اور چاندی کے سکوں کی کھنک اور جھنکار پھر سے واپس آجائے گی۔ انسان کا اس جعلی کاغذی نوٹ سے بھروسہ اٹھ جائے گا اور وہ گروہ در گروہ سونے اور چاندی کے انبار اکٹھا کر کے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے لگے گا۔ جس طرح میرے جدیدیت پسند ’’ماڈرن محدثین‘‘ کی آنکھیں رسول اکرم ﷺ کی پشین گوئیوں کے مطابق شام، عراق اور یمن میں حالات کی ویسی ہی ترتیب دیکھتے ہی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ویسے ہی ان کو گزشتہ چند برسوں سے 1944ء میں قائم شدہ جعلی نقلی کاغذی کرنسی پر قائم مالیاتی نظام کے مسلسل زوال کی اب تک سمجھ نہیں آرہی۔ وہ سید الانبیائﷺ کی اس حدیث پر یقین نہیں کرنا چاہتے، بلکہ اس کیفیت کو عارضی صورت حال قرار دے کر گزر جانا چاہتے ہیں۔ 2008ء میں جب یونان کے لوگوں نے کاغذ کے نوٹ کے بدلے اشیا کو فروخت کرنے سے انکار کردیا تو دنیا پوری اس جدید نظام زر کو بچانے کے لیے متحد ہو گئی۔ معمر قذافی نے تیل کو سونے کے عوض فروخت کرنے کا عندیہ دیا اور افریقی ممالک کو ساتھ ملانے لگا تو اسے نشان عبرت بنادیا گیا اور اس نظام مالیات کے وارث خوش ہوگئے کہ ہم نے اس بوسیدہ عمارت کو بچا لیا، لیکن شاید اس دفعہ حملہ بہت شدید ہے اور یہ دھڑام سے گرنے والی ہے۔ 2017ء وہ سال تھا جس نے دنیا بھر کے معاشی نظام کو الٹ کر رکھ دیا۔ 75 سال کے اس مستحکم مالیاتی نظام کے زوال کی ابتدا ہوئی جسے جنگ عظیم دوم میں فتح حاصل کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 1944ء میں بریٹن ووڈز معاہدے (Bretton Woods agreement) سے قائم کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت سونے اور امریکی ڈالر کے درمیان ایک باہم ربط قائم کیا گیا اور یہ طے پایا کہ کسی ملک کے پاس جتنا سونا مالیت میں موجود ہوگا وہ اتنے ہی کرنسی نوٹ چھاپ سکے گا۔ حکومتوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ خود ہی اپنے ذخائر کا جائزہ لے کر کرنسی نوٹ چھاپیں، لیکن عالمی سطح پر ان کی مالیت کو جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ امریکی ڈالر مقرر کیا گیا۔ یعنی کوئی بھی ملک اگر اپنے پاس موجود سونے کے ذخائر سے زیادہ نوٹ چھاپ لیتا ہے تو ڈالر کے مقابلے میں اس کی کرنسی گر جائے گی اور اس کے ملک میں افراط زر پیدا ہوجائے گی۔ امریکہ کے ڈالرکو سٹینڈرڈ اور سونے کا نعم البدل مان لیا گیا۔ دنیا بھر کے ممالک نے اپنا سونا امریکہ کے فیڈرل ریزرو ٹریژری میں رکھنا شروع کر دیا اور اس کے بدلے انہیں کاغذ کے کڑکڑاتے ڈالر ملتے رہے۔ لیکن دراصل حقیقت یہ تھی کہ امریکہ نے جتنے زیادہ ڈالر چھاپے اس کے بدلے میں سونا اس کے پاس بہت ہی کم تھا۔ یہ چوری جب 1971ء میں فرانس کی حکومت نے پکڑی تو امریکہ نے ڈالر کو سونے کی قید سے آزاد کر لیا۔ جنگ عظیم کے زمانے کا ایک بینک موجود تھا Bank of international settlement”(عالمی تنازعات کے تصفیے کا بنک) اسے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ یہ طے کرے کہ ڈالر کے مقابلے میں کونسی کرنسی کتنی مضبوط ہے اور کونسی کمزور ہے اب اس پیمانے کی بنیاد سونا نہیں ہوگا بلکہ اس کی بنیاد اس ملک کی “good will”یعنی معاشی حیثیت ہو گی۔

یوں دنیا کے نقشے پر دو اشیاء کا ظہور ہوا اور دو اشیاکا نام جگمگانے لگا۔ ایک امریکی ڈالر اور دوسرا تیل۔ امریکہ دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا اور سعودی عرب دنیا میں سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک۔ دونوں ملکوں کے زیراثر ایک عالمی منظر نامہ ابھرا کہ ڈالروں میں بیچا جائے گا۔ اب جس ملک نے بھی تیل خریدنا ہو پہلے اپنا سونا چاندی یا دیگر اشیاء عالمی منڈی میں بیچ کر امریکی ڈالر خریدے اور تیل والے ممالک سے تیل خرید کر اپنا ملک چلائے۔ یوں تیل نے سونے کا کام شروع کر دیا اور اس سے تعلق کی وجہ سے امریکی ڈالر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔اس سے پیٹرو ڈالر کی اصطلاح وجود میں آئی۔ وقت نے کروٹ لی، بقول اقبال’’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘ کی پیشگوئی واضح ہوگئی۔ 2017ء میں چین دنیا کا واحد ملک بن گیا جو سب سے زیادہ تیل خریدنے والا تھا، جبکہ روس دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ یہ سب گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل ہو رہا تھا لیکن 2017ء میں دونوں ملکوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ ہم اس عالمی پابندی کو نہیں مانتے کہ تیل صرف امریکی ڈالروں میں خریدا جا سکتا ہے۔ ہنری کسنجر کا پیٹرو ڈالرز سائبیریا کی ریت اور صحرائے گوبی کی ریت میں ہوا بن کرنے اڑنے لگا۔ چین اور روس نے طے کیا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ سونے میں تجارت کریں گے۔ اس کے بعد گزشتہ ایک سال سے تمام ملکوں میں ایک خوف طاری ہے کہیں ڈالر ایک دم بیٹھ ہی نہ جائے۔ اسی لئے وہ سوچتے ہیں کہ اب اپنا سرمایا سونے کی صورت محفوظ کرلیں یا ایک ایسے جعلی کاغذی امریکی ڈالر کی صورت میں جس پر 123 ٹریلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ ہنگری نے تین ٹن سونا اکٹھا کیا جس کی مالیت 130 ملین امریکی ڈالر تھی۔ جرمنی کے بنڈس بینک “Bundes bank” نے نیویارک اور پیرس میں پڑے ہوئے 28 ارب ڈالر کے سونے کے ذخائر واپس بلا لیے۔ جس وقت یہ سب ہو رہا تھا تو امریکی خزانہ (ٹریژری) کا سیکرٹری سٹوین منچن (Steven Manchen) غیر معمولی طور پر فورڈ نوکس (Fort knos) گیا جہاں 200 ارب ڈالر کا سونا پڑا ہوا تھا اور اطمینان کا سانس لے کر بولا کہ ’’دیکھو یہ یہاں موجود ہے‘‘۔ امریکہ سے سونا منگوانے اور امریکی ڈالر سے بھروسہ اٹھ جانے کی خبریں اب تو عام ہیں لیکن یہ سب پانچ چھ سال سے ہو رہا ہے۔ وینزویلا نے 2012ء میں اپنا سونا امریکہ سے منگوایا جس پر اس کے صدر ہوگوشاویز کی امریکہ سے ٹھن گئی۔ ہالینڈ نے 2014ء میں امریکہ سے 121.5 ٹن سونا اپنے ملک واپس منگوا لیا اور جرمنی نے بحیثیت ایک ملک 2017ء میں 300 میٹرک ٹن سونا جرمنی واپس منگوایا۔ امریکی ڈالر اور امریکی خزانے کو تازہ جھٹکا اس وقت لگا جب اس کے نیٹو اتحادی اور ایک سو سال سے حلیف ترکی نے امریکی بینکوں میں پڑا ہوا 220 ٹن سونا واپس منگوایا جس کی مالیت 125.3 ارب ڈالر تھی۔ غصے سے پاگل امریکہ نے ترکی کی کرنسی لیرا کو گرانے اور اقتصادی طور پر تباہ کرنے کے لیے (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) ترکی کے مال پر ٹیکس بڑھا دیئے۔ جواب میں ترکی نے امریکہ کی تمام الیکٹرانکس جن میں موبائل اور کمپیوٹر تھے سب پر پابندی لگا دی، امریکی مشروبات پر 140 فیصد اور امریکی کاروں پر 120 فیصد ڈیوٹی لگائی۔ ترک قوم متحد ہے۔ تیل کے ممالک میں سے قطر نے ترکی میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ 1944ء کے بریٹن ووڈز معاہدے سے جنم لینے والے عالمی مالیاتی نظام کے سب سے بڑے ہتھیار ’’جعلی کاغذی کرنسی‘‘ کے زوال کا وقت آگیا ہے۔ ایک مصنوعی دنیا کا خاتمہ قریب ہے اور اصل اور حقیقی دنیا کی جانب واپسی کا سفر ہے۔اس جعلی کرنسی کی حقیقت اس مثال سے جانیے۔ رسول اکرم ﷺنے فرمایا ’’قتل کی دیت سو اونٹ ہے، اگر کسی کے پاس اونٹ نہ ہو تو وہ ان کی قیمت ادا کرے جو آٹھ دینار فی اونٹ ہے (سنن ابی داود)‘‘۔آپ ﷺکے وقت دینار کا وزن 25.4 گرام تھا۔ یوں آپ ﷺکے زمانے میں اونٹ کی قیمت 34 گرام سونا بنی اور اونٹ کی آج بھی قیمت 34 گرام سونے کے برابر ہے۔ کیسا فراڈ اور بوگس ہے یہ سارا سسٹم۔ یعنی اس کاغذ کی جعلی کرنسی نے اس دنیا کو جس دھوکے میں گرفتار کیا تھا، معاشیات کا پورا مضمون جس پر استوار کیا گیا، افراط زر اور کرنسی کی قیمت کے افسانے تراشے گئے اور دنیا کو جس شکنجے میں جکڑا گیا وہ ٹوٹ رہا ہے۔ سید الانبیاء اور مخبر صادق ﷺکا فرمان سچ ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن جدیدیت کے نشے میں ڈوبے علما اور مغربی درسگاہوں اور تہذیبوں سے جنم لینے والے طبقے کو شائد ابھی تک یقین نہیں آیا۔

ڈالر: تماشہ دکھا کر مداری بن گیا
 

زیک

مسافر
اس پورے مضمون میں کوئی ایک بات بھی درست نہیں ہے۔ ماسوائے شاید حدیث کے جس کی سند کا مجھے علم نہیں۔ کس کس غلطی کی نشاندہی کریں
 
قتل کی دیت سو اونٹ ہے، اگر کسی کے پاس اونٹ نہ ہو تو وہ ان کی قیمت ادا کرے جو آٹھ دینار فی اونٹ ہے (سنن ابی داود)‘‘۔آپ ﷺکے وقت دینار کا وزن 25.4 گرام تھا۔ یوں آپ ﷺکے زمانے میں اونٹ کی قیمت 34 گرام سونا بنی اور اونٹ کی آج بھی قیمت 34 گرام سونے کے برابر ہے۔ کیسا فراڈ اور بوگس ہے یہ سارا سسٹم۔

زیک بھائی اس پر روشنی ڈالیں یہ کونسا میتھ ہے؟
 
Top