ڈارون کا نظریہ ارتقا کیوں درست ہے؟

محمد سعد

محفلین
کیا ارتقاء اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نہیں ہے کہ انسان کو سچ کی تلاش کیوں ہے جب کہ کل کائنات میں ارتقآء کا ہر ہر شاہکار ایک طرح سے ''جھوٹ'' بولتا نظر آتا ہے ۔ شکاری ، مثال کے طور پر شیر ہرن پر حملہ کرنے سے پہلے جھاڑیوں میں چھپتا ہے اور بزبان حال اپنے شکار سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں یہاں ہوں ہی نہیں کوئی خطرے کی بات نہیں۔ اسی طرح ہر شکار ہونے والا بھی شکاری سے چھپ کر بزبان حال اسی جھوٹ کا قرض چکا رہا ہوتا ہے اور اس طرح اپنی ''فطرت'' کی تشکیل میں ہر کوئی مگن رہتا ہے ۔دراصل اسی تصور پر نظریہ ء ارتقاء کی ساری بنیادیں قائم ہیں اور ہر مخلوق ،ماسوائےانسان کے، اپنے آپ کو ترقی (یعنی ارتقاء) دے کر اسی ''جھوٹ'' کی ''سچی'' شہادت دیتی نظر آتی ہے ۔
جواب تو آپ نے خود ہی دے دیا۔ اس جاندار کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو جھوٹ کی پہچان کرنے اور سچ کا پتہ لگانے میں ناکام ہو جائے؟ :)
 

محمد سعد

محفلین
اسی لیے یہ سوال اٹھا ہے کہ سب سے پہلی نوع نے کس چیز سے ارتقاء کیا؟؟؟
آپ کبھی خلیوں کے اندر کی مالیکیولر مشینری کا مطالعہ کیجیے گا۔ آپ دنگ رہ جائیں گے کہ کیا کیا ہو رہا ہے ان میں اور کس طرح سادہ بے جان سالمات آپس میں انٹرایکشن سے ایسے پیچیدہ نظام تشکیل دیتے ہیں۔
یہ ویڈیو کچھ عرصہ پہلے دیکھی تھی وائرسز کے حوالے سے۔ اس کے شروع کے حصے میں آپ کو کچھ اشارے ملیں گے کہ یہ مشینری کیسے کام کر رہی ہوتی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
آپ کبھی خلیوں کے اندر کی مالیکیولر مشینری کا مطالعہ کیجیے گا۔ آپ دنگ رہ جائیں گے کہ کیا کیا ہو رہا ہے ان میں اور کس طرح سادہ بے جان سالمات آپس میں انٹرایکشن سے ایسے پیچیدہ نظام تشکیل دیتے ہیں۔
یہ ویڈیو کچھ عرصہ پہلے دیکھی تھی وائرسز کے حوالے سے۔ اس کے شروع کے حصے میں آپ کو کچھ اشارے ملیں گے کہ یہ مشینری کیسے کام کر رہی ہوتی ہے۔
واقعی زبردست اور عجیب و غریب پیچیدگیاں ہیں۔۔۔
اتنا پیچیدہ نظام تشکیل دینے کی سمجھ بوجھ انہیں کیسے حاصل ہو رہی ہے؟؟؟
اور اس سوال کا جواب بھی دیں کہ:
اسی لیے یہ سوال اٹھا ہے کہ سب سے پہلی نوع نے کس چیز سے ارتقاء کیا؟؟؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جواب تو آپ نے خود ہی دے دیا۔ اس جاندار کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو جھوٹ کی پہچان کرنے اور سچ کا پتہ لگانے میں ناکام ہو جائے؟ :)
جی ہاں ۔ لیکن سعد بھائی یہ بھی تو دیکھیئے کہ آپ کو کامیابی اور ناکامی کے معنی متعین کرنے کی بھی کسی معیار کی سمت اور سطح متعین کرنی پڑتی ہے جس کے لیے سائنس بے بس ہے ۔ اور یہاں آپ داخلی افق سے پھوٹنے والی 'روشنی' پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
آپ نے ڈیکارٹ کا مقولہ ضرور سنا یا پڑھا ھو گا کہ۔۔۔آئی تھنک دیئرفور آئی ایم۔۔۔ یہ سب اسی داخلی طوفان کی لہروں کا عکس ھے۔
 

محمد سعد

محفلین
انسان میں ارتقاء محض دماغ اور تعقل میں ہی کیوں محدود رھا۔ نہ شیر جیسے ناخن نہ ہاتھی جیسی جسامت نہ چیتے جیسی رفتار نہ مور جیسے رنگ نہ کچھوے جیسا آرمر نہ عقاب جیسی آنکھیں نہ کتے جیسی شامہ طاقت نہ سیلنٹریٹ جیسی ریجنریشن ۔ نہ یہ نہ وہ نہ ۔۔۔۔۔۔ غرض ان سب طاقتوں کے بدلے اسے درد دل اور دماغ سوزی کا جوہر عطا کیا گیا ۔ اس حساب سے انسان ارتقاء نہیں بلکہ انتزال سے وجود میں آیا۔
اول تو "ارتقاء" اور "انتزال" کے اپنے روایتی الفاظ کے فہم سے تھوڑا باہر نکلیں۔ سائنسی اصطلاح میں ایوولوشن یا ارتقاء جسے کہتے ہیں، اس کا بنیادی معنی یہ ہے کہ انواع میں تغیر آتا ہے اور ان تغیرات کے نتیجے میں جو نوع اپنے ماحول سے اچھی مطابقت رکھتی ہے، وہ باقی رہتی ہے۔ اس میں "بہتر" یا "کمتر" کا کوئی تصور شامل نہیں۔ جو شے اپنے ماحول کے مطابق چل سکتی ہے، وہ چلتی ہے۔ انسان کے پاس بے شک بڑی جسامت، جسمانی طاقت یا تیز رفتار نہیں، لیکن صرف اپنے دماغ کے ذریعے وہ ان سب کی کمی پوری کر سکتا ہے اور اپنے جسم کے لیے "ایکسٹینشنز" بنا سکتا ہے۔ ایسے میں اس کی بقا کا انحصار ان صفات پر نہیں ہے کیونکہ انہیں وہ حسب ضرورت حاصل کر سکتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اول تو "ارتقاء" اور "انتزال" کے اپنے روایتی الفاظ کے فہم سے تھوڑا باہر نکلیں۔ سائنسی اصطلاح میں ایوولوشن یا ارتقاء جسے کہتے ہیں، اس کا بنیادی معنی یہ ہے کہ انواع میں تغیر آتا ہے اور ان تغیرات کے نتیجے میں جو نوع اپنے ماحول سے اچھی مطابقت رکھتی ہے، وہ باقی رہتی ہے۔ اس میں "بہتر" یا "کمتر" کا کوئی تصور شامل نہیں۔ جو شے اپنے ماحول کے مطابق چل سکتی ہے، وہ چلتی ہے۔ انسان کے پاس بے شک بڑی جسامت، جسمانی طاقت یا تیز رفتار نہیں، لیکن صرف اپنے دماغ کے ذریعے وہ ان سب کی کمی پوری کر سکتا ہے اور اپنے جسم کے لیے "ایکسٹینشنز" بنا سکتا ہے۔ ایسے میں اس کی بقا کا انحصار ان صفات پر نہیں ہے کیونکہ انہیں وہ حسب ضرورت حاصل کر سکتا ہے۔
ارے یار میں تو نہ صرف ان الفاظ اور انکے وسیع و عمیق معانی کی حدوں سے، بلکہ سائنس کی حدود سے بھی نکلنے کو تیار ہوں ۔
لیکن یہ اس سوال کا جواب نہیں ۔

آپ خود بھی کبھی سائنس کی حدود سے باھر کا چکر لگانا اور 'تازہ' ہوا میں سانس لینے کا مزہ لے کر دیکھیں۔
آنچہ در عالم نگنجد آدم است
آنچہ در آدم بگنجد عالم است
 

محمد سعد

محفلین
واقعی زبردست اور عجیب و غریب پیچیدگیاں ہیں۔۔۔
اتنا پیچیدہ نظام تشکیل دینے کی سمجھ بوجھ انہیں کیسے حاصل ہو رہی ہے؟؟؟
اگر آپ نے کبھی کسی پیچیدہ مشینری کو کام کرتے دیکھا ہو تو آپ کو یہ تو اندازہ ہو گا ہی کہ مشینری کے انفرادی اجزاء کو اپنا کام کرنے کے لیے کسی "سمجھ بوجھ" کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کا آپس میں ایک خاص ترتیب سے انٹرایکشن ممکن ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایٹموں اور سالمات کے معاملے میں یہ انٹرایکشن طبیعات کے قواعد کے تحت چلتا ہے۔ اگر آپ نے میری شئیر کی ہوئی ویڈیو دیکھ لی ہے تو ایک ہلکی سی جھلک اس کی دیکھ بھی لی ہو گی۔
اگر آپ ابھی بھی یہ سجھ رہے ہیں کہ یہ سب بذات خود، خدا کے ہونے کی نفی کرتا ہے تو میری رائے میں آپ اپنی سوچ کو محدود کرنے کے مرتکب ہوں گے۔ آپ اس کو اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ خدا نے ایٹموں تک کی سطح پر ایسا ڈیزائن کیا کہ وہ آپس میں جڑ کر جاندار اور باشعور اشیاء پیدا کرنے کے قابل ہو گئے۔
 

سید عمران

محفلین
۱) یہ سوال انسانوں سے متعلق ہے۔
۲) البتہ دنیا میں ایسی انواع بھی موجود ہیں جو مرتی نہیں۔
مثال کے طور پر ایک Hydra نامی مچھلی ہے جس کے بدن کا کوئی بھی حصہ کاٹ دیں تو وہ پورا جسم وہیں سے پیدا کرنے پر قادر ہے جہاں سے کاٹا گیا تھا۔ اس مچھلی کے جسم میں تمام سیلز فطری طور پر از خود پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یوں اسے دیگر انواع کی طرح بڑھاپا نہیں آتا اور نہ ہی موت۔ نیز یہ اپنے بچے پیدا کرنے کیلئے نر و مادہ کی محتاج بھی نہیں۔
۱) ہمیں جانوروں سے زیادہ اپنی فکر ہے اسی لیے ان سوالات کا جواب چاہتے ہیں۔۔۔
۲) اگر اس کا قیمہ نکال دیا جائے یا جلا دیا جائے تب بھی نہیں مرے گی کیا؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
اگر آپ نے کبھی کسی پیچیدہ مشینری کو کام کرتے دیکھا ہو تو آپ کو یہ تو اندازہ ہو گا ہی کہ مشینری کے انفرادی اجزاء کو اپنا کام کرنے کے لیے کسی "سمجھ بوجھ" کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کا آپس میں ایک خاص ترتیب سے انٹرایکشن ممکن ہونا ضروری ہوتا ہے۔
مشینوں کے اجزاء سمجھ بوجھ والے انسان لگاتے ہیں۔۔۔
نیز ان میں ارتقاء نہیں ہوتاجہاں اور جیسے ہوتے ہیں وہیں اور ویسے ہی رہتے ہیں!!!
اگر آپ ابھی بھی یہ سجھ رہے ہیں کہ یہ سب بذات خود، خدا کے ہونے کی نفی کرتا ہے تو میری رائے میں آپ اپنی سوچ کو محدود کرنے کے مرتکب ہوں گے۔ آپ اس کو اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ خدا نے ایٹموں تک کی سطح پر ایسا ڈیزائن کیا کہ وہ آپس میں جڑ کر جاندار اور باشعور اشیاء پیدا کرنے کے قابل ہوگئے۔
یعنی بقول خدا:
ربنا الذی اعطیٰ کل شئی خلقہ ثم ھدٰی
ہمارے رب نے ہر چیز تخلیق کی اور اسے اس کی راہ سجھادی کہ کیسے کام کرنا ہے!!!
 

سید ذیشان

محفلین
۱) ہمیں جانوروں سے زیادہ اپنی فکر ہے اسی لیے ان سوالات کا جواب چاہتے ہیں۔۔۔
۲) اگر اس کا قیمہ نکال دیا جائے یا جلا دیا جائے تب بھی نہیں مرے گی کیا؟؟؟
فلسفے میں حیوان ناطق بہت مشہور ترکیب ہے جو انسان کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ انسان کو حیوان سے الگ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ :)
 

محمد سعد

محفلین
مشینوں کے اجزاء سمجھ بوجھ والے انسان لگاتے ہیں۔۔۔
نیز ان میں ارتقاء نہیں ہوتاجہاں اور جیسے ہوتے ہیں وہیں اور ویسے ہی رہتے ہیں!!!
خلیوں کی مشینری، ایٹمی اور مالیکیولر لیول کی ہوتی ہے۔ وہاں پر اجزاء آپس میں بے شمار ترتیبوں میں جڑ سکتے ہیں اور اپنی ترتیبات بدل سکتے ہیں۔ اس بات کا عملی مشاہدہ کرنا بھی جدید تجزیاتی مشینوں کے ذریعے کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ بلکہ محض مشاہدہ کیا، اس کا ہم عملی اطلاق طب سے لے کر نینوٹیکنالوجی تک میں کرتے رہتے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فلسفے میں حیوان ناطق بہت مشہور ترکیب ہے جو انسان کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ انسان کو حیوان سے الگ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ :)
ارے ہاں زبردست۔ اور ذیشان بھائی ۔ معاشرتی جانور اور حیوان ظریف کے القابات بھی ہیں۔ حسب ذائقہ ۔
 

سید ذیشان

محفلین
ارے ہاں زبردست۔ اور ذیشان بھائی ۔ معاشرتی جانور اور حیوان ظریف کے القابات بھی ہیں۔ حسب ذائقہ ۔
بالکل۔ یہ تراکیب بھی ہیں۔ پرانے فلاسفروں نے تو چار عناصر سے آگے دنیا کو معدنیات، نباتات اور جمادات میں تقسیم کر رکھا تھا اور کچھ کا خیال تھا کہ ان کے وجود میں آنے کی ترتیب بھی یہی ہے۔ ڈارون نے البتہ اس خیال کے لئے کافی ثبوت اکٹھے کئے، اور ان کو ایک تیھوری کی شکل دی۔
 
Top