چھ نکات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ماحول سازگار بنایا جائے تو مذاکرات ہوسکتے ہیں، سردار اختر مینگل

کاشفی

محفلین
چھ نکات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ماحول سازگار بنایا جائے تو مذاکرات ہوسکتے ہیں، سردار اختر مینگل

lead4.jpg

اسلام آباد(خبر رساں ادارے) بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے رہنما سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ نواب اکبر بگٹی کا قتل بلوچستان کو تباہی کی طرف لے کر گیا،66برسوں میں بلوچستان کی اہمیت کو کوئی نہیں سمجھ سکا،صوبے کو تباہی سے بچانا ہے تو مذاکرات کرنے ہوں گے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے احمد سلیم کی کتاب’’بلوچستان آزادی سے صوبائی بے اختیاری تک‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کے دوران کیا،انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں65 افراد لاپتہ اور79مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں،ان حالات میں بلوچستان کے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے،انہوں نے کہا کہ 6نکاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جائے تو بلوچستان کے عوام سے مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں،بلوچستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی قابل مذمت ہے،ہمارے حکمران بلوچستان میں دلچسپی رکھنے کے بجائے بیرون ملک دورے کرتے ہیں اور عوام کو دھوکہ دیکر گوادر اور کاشغر تک معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں جبکہ اپنی عوام کے خلاف طاقت کا استعمال کرکے ان کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ابھی تک سول اور فوجی دور حکومت میں5بار آپریشن ہوچکا ہے جبکہ بلوچستان کی سرزمین قدرتی معدنیات سے مالامال ہے،انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جمہوریت کے جیمرلگائے جاتے ہیں اور خفیہ ادارے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتے ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان کے چارمسائل حل ہوجائیں تو پاکستان ترقی کر سکتا ہے جس میں مسئلہ کشمیر،افغانستان کا مسئلہ،فارن پالیسی اور بلوچستان کا مسئلہ یہ وہ مسائل ہیں جس میں بیرونی عناصر ملوث اور اثر انداز ہوتے ہیں،انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا جائے،اس میں پاکستان کی بقاء شامل ہے،تقریب سے طلعت مسعود جان اچکزئی نے بھی خطاب کیا دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بلوچستان نیشنل پارٹی اور بی این پی(عوامی) کے انضمام سے متعلق خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے دعوے انہونی بات نہیں لیکن حکومتی عہدیداروں نے آج تک بیرونی مداخلت سے متعلق ثبوت فراہم نہیں کئے 6نکات پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرتے ہوئے ماحول کو سازگار بنایا جائے تو مذاکرات ہوسکتے ہیں ہم نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا لیکن اس ریاست کی بد بختی ہے کہ یہاں حقوق مانگنے والوں کو تو غدار اور ملک دشمن جیسے القابات سے نواز جاتا رہا ہے لیکن ملک کے آئین کو پیروں تلے روندنے اور آئین توڑنے والوں کو ’’غازی ‘‘ قرار دیا جاتا رہا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’آن لائن‘‘ سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز ایک انگریزی روزنامے نے بلوچستان میں بیرونی مداخلت سے متعلق خبر شائع کی ہے مجھ سے منسوب خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے میں نے بیرونی مداخلت کو تسلیم کیا ہے جو بے بنیاد ہے اور بیرونی مداخلت سے متعلق اسلام آباد کے حاکمین کے دعوے نئی اور انہونی بات نہیں ہمیشہ اس طرح کی باتیں کی جاتی رہی ہیں اور ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر کہیں بیرونی مداخلت ہے بھی تو وہ صرف سرکار کو کیوں نظر آتی ہے ایسی کونسی سلیمانی ٹوپی کا استعمال ہورہا ہے جس کو صرف سرکار دیکھ سکتی ہے ہمیں یا عام آدمی کو نظر نہیں آتی اگر ہے بھی تو آج تک محض دعوے کئے جاتے رہے ہیں ثبوت اور شواہد سامنے کیوں نہیں لائے جاتے میڈیا کے سامنے تمام شواہد لائے جائیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا انہوں نے کہا کہ حکومت مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ نہیں گوادر پورٹ کی فعالیت اورمعاشی استحکام سے متعلق دعوے تو کئے جارہے ہیں لیکن بے سود ہیں کیونکہ جب تک یہاں امن کے قیام کو یقینی نہیں بنایا جاتا حالات کی بہتری کے امکانات نہیں موجودہ حکومت کی کارکردگی بھی امید افزاء نہیں بلکہ انتہائی مایوس کن ہے اگر میں یہ کہوں کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے تو شاید بے جا نہیں ہوگا کیونکہ صرف پچیس دن میں 65افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 13کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں جنوری سے مئی تک 84افراد لاپتہ کئے گئے ان کے حوالے سے بھی ہمیں خدشہ ہے کہ انہیں بھی غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جائیں گی جیسا کہ ہوتا رہا ہے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں سیاسی و جمہوری جدوجہد کا راستہ روکنے کیلئے تشدد پسندی کے رحجانات کو نہ صرف پروان چڑھایا جارہا ہے بلکہ مسلح گروہوں اور ڈیتھ اسکواڈ کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جارہی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کی بدبختی ہے یہاں ہمیشہ حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے والوں ملک دشمن اور غدار قرار دیا گیا ہے اور آئین توڑنے والوں غازی کہا جاتا رہا ہے حالانکہ خود اس ملک کے آئین کے مطابق آئین توڑنا ناقابل معافی جرم ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے مذاکرات سے پہلے بھی کبھی انکار نہیں کیا لیکن اس ملک کے جو اصل حاکم ہیں انہوں نے معاملات کو کبھی بھی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ طاقت کے استعمال کی جارحانہ اور آمرانہ پالیسیوں کو روا رکھا ہے چھ نکات پر عملدرآمد کرتے ہوئے یہاں ماحول کو سازگار بنایا جائے تو بلوچ قوم حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات کو تیار ہے لیکن اگر حکمران سمجھتے ہیں کہ ظلم و تشدد کی ان پالیسیوں کے سائے میں بلوچ قوم مذاکرات کرے گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے یہ حالات سازگار نہیں حالات کو ساز گار بنانے کیلئے طاقت کے استعمال کی آمرانہ پالیسیاں ترک کی جائیں ،لاپتہ افراد کو منظر عام پر لاتے ہوئے تشدد زدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ روک دیا جائے اور بلوچ بزرگ قوم پرست رہنماء نواب محمد اکبر خان بگٹی کے قاتلوں کو آئین و قانون کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور بی این پی (عوامی) کے انضمام سے متعلق خبریں محو گردش ہیں لیکن اس طرح کی خبروں میں اگر کسی قسم کی صداقت ہوتی تو مجھے اور میری پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے علم میں ضرور ہوتا لیکن علاقائی سے لے کر مرکزی قیادت تک کسی کے علم میں نہیں بی این پی (عوامی) ہو یا کوئی بھی جماعت انضمام یا مشترکہ جدوجہد سے متعلق فیصلے کا اختیار کسی فرد واحد کے پاس نہیں پارٹی کے اداے یعنی سینٹرل کمیٹی کو اس کا اختیار ہے جو ہماری جماعت کا سب سے مضبوط و مستحکم ادارہ ہے اب تک تو ایسی بات نہیں اگر کل آجاتی ہے تو بھی ادارے نے اگر ضروری سمجھا اور اکثریت رائے آگئی تو شاید انضمام میں جائیں مستقبل میں اس کو خارج از امکان تو قرار نہیں دیا جاسکتا البتہ مستقبل قریب میں اس کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے علاوہ ازیں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اخترمینگل نے کہا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر جانے والے مری، بگٹی اور مینگل قبائل کے افراد کی واپسی اور بحالی ضروری ہے، نواز شریف بلوچستان کے ایشوکو حل کرا سکتے ہیں، دھاندلی کے ذریعے خفیہ ایجنسیوں نے ہماری فتح کو شکست میں تبدیل کردیا، ہم بلوچ عوام کے سیاسی و معاشی حقوق حاصل کرنے کے لیے عسکریت پسندی کے طریقے کو استعمال کرنے کے خلاف ہے۔اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دھاندلی کے ذریعے خفیہ ایجنسیوں نے ہماری پارٹی کی فتح کو شکست میں تبدیل کردیا۔ انھوں نے کہاکہ ڈیتھ اسکواڈ عوام کے قتل میں ملوث ہیں۔ ایک سوال پر انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ کچھ ڈیتھ اسکواڈ کو پڑوسی ملکوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ صوبے میں غیر بلوچوں خاص طور پر پنجابیوں کو بھی قتل کیا جارہا ہے اور غیر بلوچوں کو ان کارروائیوں کے ذریعے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں کوڑیوں کے دام ان عناصر کے ہاتھوں فروخت کردیں جن کا سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔انھوں نے کہاکہ الیکشن سے قبل میں نے جو6 نکاتی فارمولا دیا تھا اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ان 6 نکات کی وجہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ نے ہی الیکشن میں ہروایا۔انھوں نے کہا کہ لاپتہ افراد اور مسخ لاشوں کا معاملہ بہت سنگین ایشو ہے، جسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے حکم دے چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپریشن کے نتیجے میں اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر جانے والے مری، بگٹی اور مینگل قبائل کے افراد کی واپسی اور بحالی بھی ضروری ہے۔ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف بلوچستان کے ایشوکو حل کرا سکتے ہیں۔
 
Top