چھوڑئیے

تحریر : محمد شاہد علی

ایک بار ایک جن کسی آدمی کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ، اور اس سے کہا کہ میں بہت بھوکا ہوں ، تمھیں کھا جاؤں گا، آدمی ڈر کر بولا مجھے جان بچانے کا موقع دو، بس مرنے سے پہلے میرا ایک کام کردو ، اگر تم نے یہ ایک کام کردیا تو مجھے کھا لینا اور اگر نہ کر سکے تو وعدہ کرو مجھے چھوڑ دوگے ، جن اس پر زور سے ہنسا اور بولا ایسا کوئی کام نہیں ہے جو میں نہیں کر سکتا ہوں ، کام بتاؤ، آدمی نے کہا نہیں پہلے وعدہ کرو ، جن نے کہا ٹھیک ہے وعدہ رہا، اس پر اس آدمی نے زور سے سانس اندر کھینچی اور ہوا میں چھوڑ دی اور بولا جاؤ اسے لے کر آؤ ، یہ دیکھ کر جن نے سر پکڑ لیا.
تو دوستوں چھوڑنا بھی ایک فن ہے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے اور ان پر اپنی دھاک بٹھانے اور لوگوں میں مقبول ہونے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ خوب لمبی لمبی چھوڑا کیجئے ، لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے جتنا کہ نظر آتا ہے ، کیوں کہ چھوڑنا تو سبھی کو آتا ہے لیکن کب کہاں اور کتنا چھوڑنا ہے یہ سیکھنے میں ایک عمر گزر جاتی ہے ، بہت دفع آپ کی بےعزتی ہوتی ہے ، آپ ذلیل و خوار ہوتے ہیں تب کہیں جا کر یہ سیکھ پاتے ہیں،
یہی سوچ کر میں ایک دن تاؤ جی کے پاس جا پہنچا جو اس فن کے ایک ماہر استاد ہیں ، ان سے پوچھا ، تاؤ جی آخر آپ کو ملتا کیا ہے یوں لمبی لمبی چھوڑ کر ، تاؤ جی نے پہلے تو میری جانب دیکھا بڑی گہری نظروں سے دیکھا ، رفتہ رفتہ انکے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے ، یوں لگتا تھا جیسے سوچ کا اثر گہرا ہوتا جا رہا ہے ، پھر یوں لگا جیسے بہت تکلیف میں ہوں ، لگتا تھا جیسے بہت گہری سوچ ہے جو نکلنے میں نہیں آرہی ہے ، مگر جلد ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا جب انہوں نے اپنے لطیف خیالات فضا میں بکھیرے .
میں نے بمشکل تمام خود کو سنبھالا اور کہا، ارے تاؤ جی میں بڑی بڑی باتیں کرنے کا کہ رہا تھا، چھوڑنے سے میری یہ مراد ہر گز نہ تھی، تاؤ جی آگے سے کھسیانی ہنسی ہنس کر بولے، بیٹا اب رکھ کر کرنا بھی کیا ہے ، ویسے بھی میں کونسا کسی کا نقصان کرتا ہوں اور سچ پوچھو تو جن کے آگے میں جھوٹ بول رہا ہوتا ہوں وہ سب بھی دل ہی دل میں جانتے ہیں کہ میں ہوا میں پھینک رہا ہوں اور اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اور بقول یوسفی کے جب بولنے اور سننے والوں دونوں کو پتہ ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو پھر وہ گناہ نہیں رہتا ہے ،
اس دوران دو تین بار مزید انکے خیالات سے مستفید ہونے کے بعد جب مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے کہا، تاؤ جی اسکا علاج کیوں نہیں کرواتے ہیں ، تاؤ جی ایک سرد آہ بھر کے بولے ، میاں کوشش کی تھی کئی بار کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دوں، مگر سچ پوچھو تو مجھے جھوٹ بولنے پر مجبور وہی لوگ کرتے ہیں جن کو میری باتوں کا میرے جھوٹ کا چسکا پڑ چکا ہے ، انکو میری باتوں سے تفریح ملتی ہے ، وہ مجھے جھوٹ سے ہٹنے ہی نہیں دیتے ہیں.
میں نے زچ ہوکر کہا ، ارے تاؤ میں تو تمھاری بدہضمی کی بات کر رہا ہوں ، جہاں بیٹھتے ہو وہیں شروع ہو جاتے ہو ، اس پر تاؤ جی تاسف سے بولے میاں اس امر میں قویٰ بہت ضعیف ہو گئے ہیں ، اسلئے جو بھی ہو بے اختیار نکل جاتا ہے ، زبان سے ، ہاں پر ایک بات ضرور کہوں گا میں ، یہ دور کچھ ایسا آگیا ہے کہ کسی کو کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی شخص سچ سننے کو تیار ہوتا ہے ، لوگ وہی سنتے ہیں جو انکو پسند آتا ہے ، اور جو سب کو پسند آجائے وہ کم از کم سچ نہیں ہو سکتا ہے ، بس اسی سے دال روٹی چلتی ہے تیرے تاؤ جی کی ، پر آج میں ایک بات سچ سچ کہوں گا کوئی مانے یا نہ مانے پر میں تیری تحریر کا بڑا مداح ہوں، بھئی واہ کیا خوب لکھتے ہو ،
تو بھائیوں جب میں وہاں سے اٹھا تو اپنے آپ کو ایک مایہ ناز لکھاری سمجھ رہا تھا، نا ہی مجھے تاؤ جی کی باتوں میں کوئی عیب نظر آرہا تھا . واقعی جھوٹ بڑی طاقت ہے .
 
Top