چھمک چھلو

anwarjamal

محفلین
مس مہ جبین جیسی مقدس ہستی کے بارے میں اتنا گھٹیا لفظ سنتے ہی میرے کانوں کے پردے پھٹ گئے اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ، خدا کی پناہ کوئی شخص اتنا بھی لوفر ہو سکتا ھے ؟
ھمارے اسکول کے عین سامنے کریانے کی دکان والے کا بیٹا جو شاذ و نادر ہی دکان پر بیٹھتا تھا اس کے خیالات جان کر مجھے شدید دکھ ہوا۔۔ اس واقعے کی مثال یوں سمجھیں جیسے کسی نے برسوں کی ریاضت کے بعد خدا کا بت تراش لیا ہو ۔۔۔ مگر ایک دن اچانک کوءی آکر کہہ دے کہ جسے تم خدا سمجھ رہے ہووہ شیطان ہے ۔۔کیا ایسے شخص کا منہ نہ نوچ لینا چاہیءے ؟
میں اس کی دکان پر چار آنے والی چیونگم خریدنے گیا تھا ، میں نے دیکھا کہ اس کی نگاہیں باربار اسکول کے دروازے کی طرف اٹھ رہی ہیں پھر اس نے پیسے لے کر چیونگم میرے حوالے کرتے ہوءے کہا ،، آج میری چھمک چھلو نظر نہیں آرہی ،،
میں کچھ نہ سمجھ پایا تو اس کا منہ تکنے لگا، اس نے پوچھا تمہاری استانی آج اسکول نہیں آءی ؟ پھر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا مس مہ جبین خوبصورت پرس کے ساتھ اسکول سے نکلیں اور اپنے گھر کی طرف جانے لگیں ۔۔۔ ،، آ گءی ،، دکاندار کے بیٹے نے خوشی سے نعرہ لگایااور دو انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹی بجاءی ۔۔
میری ہتھیلی پر رکھی چیونگم زہر آلود ہو چکی تھی
اس وقت میں چھٹی کلاس میں تھا میرے دل میں اپنی مس کے لیے جتنا ادب احترام اور محبت تھی اس سے کہیں زیادہ نفرت مجھے دکاندار کے بیٹے سے ہو چکی تھی میں آتے جاتے ہوءے اسے نہ صرف کراہیت سسے دیکھتا بلکہ دل ہی دل میں دعاءیں بھی مانگتا کہجس باءیک پر وہ اسکول کے سامنے کرتب دکھاتا ہوا گزرتا ہےاسی سے اس کا ایکسیڈنٹ ہو جاءے اور اس کے ہاتھ پیر ٹوٹ جاءیں ۔۔
مجھے مس مہ جبین پر ترس آتا جو اسے دیکھ کر سہم جاتیں اور اپنے آپ میں سمٹ کر چلنے لگتیں۔۔۔ اور وہ کیوں نہ ایسا کرتیںوہ ایک دیوی کی طرح تھیں خدا نے ان کے وجود کو نہایت پاک صاف مٹی سے بنایا تھا ۔۔
جب کلاس میں پڑھانے کے دوران کسی بات پر وہ مسکراتیں تو ان کے سفید موتیوں سے دانت یوں جھلملاتے جیسے سیاہ رات میں بہت سے ستارے ایک ساتھ جمع ہو گءے ہوں، ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں ایک پاکیزہ چمک تھی
اور وہ چمک جیسے ہی میری طرف آتی میں جھک کر سجدہ ریز ہو جاتا ،،، سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیسے اس پاک ہستی کو اس غلاضت کے ڈھیر میں پلے مکروہ جانور کے شر سے بچاوں ۔۔
اس کی دیدہ دلیری روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی اسکول سے چھٹی
کے بعد جیسے ہی مہ جبین نکلتیں وہ ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا اور ہنس ہنس کر ان سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا ،، مہ جبین غصے سے اسے گھورتیں اور ہٹ جاو میرے راستے سے کہہ کر رخ بدل کر جانے لگتیں ،،
میں بے بسی سے دور کھڑے ہو کر یہ منظر دیکھتا اور روہانسا ہو جاتا ،، صبر و تحمل اور برداشت کی بھی کوءی حد ہوتی ہے میں نے فیصلہ کر لیا کہ پرنسپل سے اس کی شکایت کروں گا ۔۔
جب پرنسپل اپنی مخصوص سٹک سے بیچ سڑک پر اس شیطان کی پٹاءی کریں گے جبھی وہ باز آءے گا
مگر ہوا یہ کہ جیسے ہی میں پرنسپل کے کمرے میں جانے کی کوشش کرتا میرے پاوں منوں بھاری ہو جاتے اور دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگتا جیسے ابھی پسلیوں سے نکل آءے گا
پھر مجھے ایک اور ترکیب سوجھی ،، میں اپنے دوست مجو کے پاس گیا ، اس کے پاس ایک بڑی سی غلیل تھی جس سے وہ اکثر چڑیوں کا شکار کیا کرتا ،
منت خوشامد کر کے ایک دن کے لیے میں نے وہ غلیل حاصل کر لی اور ایک نسبتا بڑے پتھر پر لمبی سی نوکیلی کیل باندھ کر تمام انتظامات مکمل کر لیے ۔۔
اس دن میں اسکول سے غیر حاضر رہا کیونکہ ایک تو مجھے غلیل کی پریکٹس کرنی تھی دوسرا اس جگہ کا حساب کرنا تھا جہاں کھڑے ہو کر بھر پور طریقے سے اسے نشانہ بنا سکوں مجھے یقین تھا کہ پتھر میں لگی کیل جیسے ہی اس خبیث کے جسم میں اترے گی وہ موٹر سایکل سے گرے گا اور ہلاک ہو جاے گا
چھٹی کا وقت جوں جوں قریب آتا جا رہا تھا میری دھڑکنیں بے قابو ہوءی جا رہی تھیں
انتظار کا وہ لمحہ برسوں پر محیط ہو گیا یہاں تک کہ میں وہاں کھڑے کھڑے بوڑھا ہو گیا اور میرے جسم کے تمام بال سفید ہو گیے ۔۔ مگر پھر اسکول سے چھٹی ہونے کی گھنٹی جیسے ہی بجنا شروع ہوءی خدا نے میرے بدن میں ایک نءی روح پھونک دی

میں نے غلیل کو اپنے ہاتھ میں کس کے پکڑ لیا ایک ایک کر کے تمام بچے گھروں کو رخصت ہو گءے ،، اور اب سب سے آخر میں مہ جبین کو باہر آنا تھا
اف ،، کتنا پیارا نام تھا ان کا ،، رات دن میں اس نام کی مالا جپتا رہتا تھا ،،
موٹر سایکل کی غراہٹ نے اس وحشی کے آنے کی اطلاع دی اور دوسری طرف اسکول کے گیٹ سے مہ جبین برآمد ہویں ۔۔۔
آج صبح سے میں نے ان کو نہیں دیکھا تھا ،، میری آنکھوں نے دیوانہ وار ان کا طواف کیا ، جانے کیوں آج وہ خاص طور سے بنی سنوری لگ رہی تھیں اور انہوں نے اپنے نازک ہونٹوں پر لپ اسٹک بھی لگاءی ہوءی تھی ،،

موٹر سایکل کی غراہٹ تیزی سے قریب آ رہی تھی میں نے غلیل کو کھینچ کر ایک بار اور اطمینان حاصل کیا کہ یہ سو فی صد درست کام کر رہی ہے
اس نے مہ جبین کے بالکل قدموں میں بریک لگاءی اور یقینا کوءی غلیظ بات کی ،، مگر مہ جبین غصے ہونے کے بجاے مسکرانے لگیں اور چمکتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ کر جانے کیا کہنے لگیں
صرف اتنا ہی نہیں وہ اس کے ساتھ بایک پر بھی بیٹھ گءیں اور وہ دونوں وہاں سے رخصت ہو گیے ۔۔
تحریر ۔۔۔ انور جمال انور
 

شمشاد

لائبریرین
شریک محفل کرنے کا شکریہ۔

anwarjamal بھائی کیا آپ تحریر کہیں سے نقل کر کے یہاں چسپاں کرتے ہیں؟ اس میں املاء کی کئی ایک غلطیاں ہیں۔
 
Top