چھتے سے شہد کا حصول کیسے ممکن ہے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عدیل منا

محفلین
ماشا ء اللہ ۔ با وضو رہنے اور درود شریف پڑھنے کی فضیلت پر دو رائے ممکن ہی نہیں۔ اگر ہم اس پر عمل پیرا رہیں تو یقیناً دنیا و آخرت کی کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ لیکن آپ میرے سوال کو شاید سمجھ نہیں سکے یا میں درست طریقہ سے بتلا نہیں پایا۔ میں صرف اپنی معلومات کے لئے پوچھ رہا تھا کہ یہ بات سب سے پہلے کس نے ”بتلائی“ کہ باوضو درود شریف پڑھتے رہنے سے شہد کی مکھیاں نہیں کاٹتیں۔ آخر آپ کے مالی صاحب کو بھی تو یہ بات ”کسی“ سے معلوم ہوئی ہی ہوگی یا یہ بات ان کی اپنی ”ایجاد “ہے۔ بحث مقصود نہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کسی ”مذہبی یا دینی نسخہ“ کو کسی مطلوبہ دنیوی مقصد کے حصول کے لئے ”استعمال“ کریں یا اس کی تلقین کریں تو ہمیں اس ”دینی نسخہ“ کا مستند مآخذ ضرور معلوم ہونا چاہئے۔
نوٹ: یہ میری ذاتی رائے ہے، جس سے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے :D
یوسف صاحب! جیسے ہم کسی بیماری کی صورت میں کسی حکیم سے علاج کراتے ہیں، افاقہ ملنے پر اس سے سوال نہیں کرتے کہ یہ نسخہ آپ نے کہاں سے لیا تھا؟
اگر ہمارا مالی مجھے یہ عمل کرنے کی تجویز دیتا تو اس پر میں ضرور غور کرتا، مگر اس نے سب کچھ خود کیا اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس کو ایسا کرتے دیکھا۔ یہاں اگر بات کلام اللہ یا درود شریف کی نا ہوتی تب بھی سوچا جا سکتا تھا کہ آیا ایسا کرنا ٹھیک ہے کہ نہیں۔
 

عدیل منا

محفلین
آپ ایسا کریں چھتا تلاش کرکہ اسی طرح شہد نکالیں اور اسکی ویڈیو بنا کت یہاں لگایں۔
آپ ڈس کوری چینل کو یہ طریقہ بتایں ثواب بھی ملے گا اور انعام بھی؟
عزیز صاحب! ہوسکا تو ضرور ایسا کرونگا، دوسری بات یہ کہ جیسے یہاں پر ایک دوست نے سوال کیا ہے، مجھے اس کا ٹھیک جواب معلوم تھا وہ میں نے بتا دیا ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں چاہونگا کہ کسی کو میری وجہ سے کسی تکلیف سے گزرنا پڑے۔ اگر یقین کرسکیں تو کر لیں ورنہ زبردستی تو کوئی نہیں ہے۔
 

عدیل منا

محفلین
اگر موقعہ ملے تو ویڈیو یا ایسی تصویر شئیر کریں۔ براے مہربانی برا نہ منایں شکریہ
کوئی بات نہیں۔
آپ کے دئیے ہوے لنک پر میں نے وزٹ کیا ہے۔ "اردو لک چیٹ" ٹائم کی کمی کی وجہ سے میں ابھی تفصیل سے بات نہیں کرسکتا۔ یہاں افطاری ہوچکی ہے۔ ابھی تراویح کا وقت ہونے والا ہے۔ وقت نکال کر آپ سے بات ہوگی۔
 

یوسف-2

محفلین
یوسف صاحب! جیسے ہم کسی بیماری کی صورت میں کسی حکیم سے علاج کراتے ہیں، افاقہ ملنے پر اس سے سوال نہیں کرتے کہ یہ نسخہ آپ نے کہاں سے لیا تھا؟
اگر ہمارا مالی مجھے یہ عمل کرنے کی تجویز دیتا تو اس پر میں ضرور غور کرتا، مگر اس نے سب کچھ خود کیا اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس کو ایسا کرتے دیکھا۔ یہاں اگر بات کلام اللہ یا درود شریف کی نا ہوتی تب بھی سوچا جا سکتا تھا کہ آیا ایسا کرنا ٹھیک ہے کہ نہیں۔
عدیل بھائی! آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے۔ کلام اللہ اور درود شریف میں بڑی برکت ہے۔ آپ جس نیت سے اسے پڑھیں، اللہ اسے پورا کردیتا ہے۔ اور پھر یہ ”وظیفہ“ تو آپ کا چشم دید اور آزمودہ ہے، لہٰذا آپ کا اس پر یقین کرنا بھی سمجھ میں آتا ہے۔ اور میں آپ کے یقین کو ٹھیس پہنچانا بھی نہیں چاہتا۔ لیکن ”اپنی بات“ تو کرسکتا ہوں نا، جیسے آپ اور دیگر لوگ اپنی بات کرسکتے ہیں۔:D
مذکورہ بالا عمل ”وظیفہ“ کہلاتا ہے۔ یعنی کسی دنیوی مشکلات، پریشانی اور جسمانی و روحانی امراض وغیرہ کوقرآنی آیات سے ”دور کرنا“۔ وظیفہ کرنا ”سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ جیسے سورۃ فاتحہ پڑھ کر جھاڑ پھونک کرکےسانپ کے کاٹنے کا علاج کرنا۔ صحابہ کرام نے ایسا کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی تصدیق کی۔ (صحیح بخاری، کتاب الاجارہ)۔ ٖ واضح رہے کہ قرآنی آیات اور صحیح احادیث میں بتلائے گئے مقدس کلمات سے اپنے دنیوی مسائل کا حل حاصل کرنا (وظیفہ کرنا) بالکل جائز ہے۔ وظیفہ ایک دینی فریضہ ہے، لہٰذا وہی ”وظیفہ“ مستند اوراسلامی کہلائے گا، جس کی سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہو۔ کسی پیر فقیر یا مالی کا بتلایا ہوا ”وظیفہ“ مسلمانوں کے لئے مستند نہیں ہوسکتا۔ آج کل بہت سے (پیشہ ور اور غیر پیشہ ور) ”عامل بابا“ دنیا کے ہر مسئلہ کا حل کسی نہ کسی قرآنی آیت سے بتلاتے ہیں۔ اور ان وظائف سے بہتوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اگر فائدہ نہ ہو تو ان کا ”کاروبار“ کیسے چلے۔
واضح رہے کہ بیماری یادیگر مسائل کے حل کے دیگر نسخوں اور ”قرآنی آیات کے وظیفوں“ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیماری اور دیگر مسائل کے دنیوی نسخے اگر ہمیں کسی کافر سے بھی ملے اور وہ آزمودہ اور کامیاب ہو تو اسے اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے اگر کوئی یہ کہے (فرض کریں) کہ شہد کے چھتے کو فلاں کیمیکل سے ملی آگ کے دھویں سے دھونی دی جائے تو مکھیاں فرار ہوجاتی ہیں، کاٹتی نہیں ہیں یا کاٹنے کے قابل نہیں رہتیں وغیرہ وغیرہ تو اس ”نسخہ“ کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ فائدہ ہوگیا تو ٹھیک، نہ ہوا تو بھی کوئی حرج نہیں۔
لیکن اسی مسئلہ کے لئے کسی قرآنی آیت،یا درود شریف وغیرہ کا ”نسخہ“ اگر کوئی بتلائے اور اس سے ہمیشہ فائدہ بھی ہو تب بھی یہ ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ اس ”وظیفہ“ کی قرآن و حدیث سے سند کیا ہے؟ کیونکہ اب اس ”وظیفہ کا تعلق“ اسلام سے جڑ جاتا ہے۔ اور اسلام سے جڑی ہر بات کی سند صرف اور صرف قرآن و حدیث سے مانی جائے گی۔ عدیل منا بھائی کیا کہتے ہیں، یوسف ثانی کیا کہتا ہے، کوئی پیر بزرگ یا مالی کیا کہتا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔:D
 

عزیزامین

محفلین
کوئی بات نہیں۔
آپ کے دئیے ہوے لنک پر میں نے وزٹ کیا ہے۔ "اردو لک چیٹ" ٹائم کی کمی کی وجہ سے میں ابھی تفصیل سے بات نہیں کرسکتا۔ یہاں افطاری ہوچکی ہے۔ ابھی تراویح کا وقت ہونے والا ہے۔ وقت نکال کر آپ سے بات ہوگی۔
ایڈ منٹن ٹائم صبح 9 بجے
 

عدیل منا

محفلین
عدیل بھائی! آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے۔ کلام اللہ اور درود شریف میں بڑی برکت ہے۔ آپ جس نیت سے اسے پڑھیں، اللہ اسے پورا کردیتا ہے۔ اور پھر یہ ”وظیفہ“ تو آپ کا چشم دید اور آزمودہ ہے، لہٰذا آپ کا اس پر یقین کرنا بھی سمجھ میں آتا ہے۔ اور میں آپ کے یقین کو ٹھیس پہنچانا بھی نہیں چاہتا۔ لیکن ”اپنی بات“ تو کرسکتا ہوں نا، جیسے آپ اور دیگر لوگ اپنی بات کرسکتے ہیں۔:D
مذکورہ بالا عمل ”وظیفہ“ کہلاتا ہے۔ یعنی کسی دنیوی مشکلات، پریشانی اور جسمانی و روحانی امراض وغیرہ کوقرآنی آیات سے ”دور کرنا“۔ وظیفہ کرنا ”سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ جیسے سورۃ فاتحہ پڑھ کر جھاڑ پھونک کرکےسانپ کے کاٹنے کا علاج کرنا۔ صحابہ کرام نے ایسا کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی تصدیق کی۔ (صحیح بخاری، کتاب الاجارہ)۔ ٖ واضح رہے کہ قرآنی آیات اور صحیح احادیث میں بتلائے گئے مقدس کلمات سے اپنے دنیوی مسائل کا حل حاصل کرنا (وظیفہ کرنا) بالکل جائز ہے۔ وظیفہ ایک دینی فریضہ ہے، لہٰذا وہی ”وظیفہ“ مستند اوراسلامی کہلائے گا، جس کی سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہو۔ کسی پیر فقیر یا مالی کا بتلایا ہوا ”وظیفہ“ مسلمانوں کے لئے مستند نہیں ہوسکتا۔ آج کل بہت سے (پیشہ ور اور غیر پیشہ ور) ”عامل بابا“ دنیا کے ہر مسئلہ کا حل کسی نہ کسی قرآنی آیت سے بتلاتے ہیں۔ اور ان وظائف سے بہتوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اگر فائدہ نہ ہو تو ان کا ”کاروبار“ کیسے چلے۔
واضح رہے کہ بیماری یادیگر مسائل کے حل کے دیگر نسخوں اور ”قرآنی آیات کے وظیفوں“ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیماری اور دیگر مسائل کے دنیوی نسخے اگر ہمیں کسی کافر سے بھی ملے اور وہ آزمودہ اور کامیاب ہو تو اسے اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے اگر کوئی یہ کہے (فرض کریں) کہ شہد کے چھتے کو فلاں کیمیکل سے ملی آگ کے دھویں سے دھونی دی جائے تو مکھیاں فرار ہوجاتی ہیں، کاٹتی نہیں ہیں یا کاٹنے کے قابل نہیں رہتیں وغیرہ وغیرہ تو اس ”نسخہ“ کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ فائدہ ہوگیا تو ٹھیک، نہ ہوا تو بھی کوئی حرج نہیں۔
لیکن اسی مسئلہ کے لئے کسی قرآنی آیت،یا درود شریف وغیرہ کا ”نسخہ“ اگر کوئی بتلائے اور اس سے ہمیشہ فائدہ بھی ہو تب بھی یہ ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ اس ”وظیفہ“ کی قرآن و حدیث سے سند کیا ہے؟ کیونکہ اب اس ”وظیفہ کا تعلق“ اسلام سے جڑ جاتا ہے۔ اور اسلام سے جڑی ہر بات کی سند صرف اور صرف قرآن و حدیث سے مانی جائے گی۔ عدیل منا بھائی کیا کہتے ہیں، یوسف ثانی کیا کہتا ہے، کوئی پیر بزرگ یا مالی کیا کہتا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔:D
سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کے بارے میں اس سے زیادہ علم نہیں ہے البتہ اس پر تحقیق ضرور کی جا سکتی ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ اس کا کوئی نا کوئی ثبوت کہیں پر ضرور ہوگا۔ انشاء اللہ میں جلد ہی کچھ معلومات لے کر حاضر ہونگا۔
ابھی اپنے طور پر سوال کررہا ہوں کہ فرض کیا کہ اس کا ثبوت کہیں نہیں ہے تو پھر بہتر طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ شہد کی مکھیاں جو کہ درود پاک سن کر خود ہی ہمارا راستہ چھوڑ دیتی ہیں ان کو آگ کی دھونی وغیرہ سےاذیت دے کر جس سے ان میں سے کئی کی جان بھی جا تی ہے، شہد حاصل کرنا چاہئے؟ (اور کیا بھی جاتا ہے)
 

نایاب

لائبریرین
عدیل بھائی! آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے۔ کلام اللہ اور درود شریف میں بڑی برکت ہے۔ آپ جس نیت سے اسے پڑھیں، اللہ اسے پورا کردیتا ہے۔ اور پھر یہ ”وظیفہ“ تو آپ کا چشم دید اور آزمودہ ہے، لہٰذا آپ کا اس پر یقین کرنا بھی سمجھ میں آتا ہے۔ اور میں آپ کے یقین کو ٹھیس پہنچانا بھی نہیں چاہتا۔ لیکن ”اپنی بات“ تو کرسکتا ہوں نا، جیسے آپ اور دیگر لوگ اپنی بات کرسکتے ہیں۔:D
مذکورہ بالا عمل ”وظیفہ“ کہلاتا ہے۔ یعنی کسی دنیوی مشکلات، پریشانی اور جسمانی و روحانی امراض وغیرہ کوقرآنی آیات سے ”دور کرنا“۔ وظیفہ کرنا ”سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ جیسے سورۃ فاتحہ پڑھ کر جھاڑ پھونک کرکےسانپ کے کاٹنے کا علاج کرنا۔ صحابہ کرام نے ایسا کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی تصدیق کی۔ (صحیح بخاری، کتاب الاجارہ)۔ ٖ واضح رہے کہ قرآنی آیات اور صحیح احادیث میں بتلائے گئے مقدس کلمات سے اپنے دنیوی مسائل کا حل حاصل کرنا (وظیفہ کرنا) بالکل جائز ہے۔ وظیفہ ایک دینی فریضہ ہے، لہٰذا وہی ”وظیفہ“ مستند اوراسلامی کہلائے گا، جس کی سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہو۔ کسی پیر فقیر یا مالی کا بتلایا ہوا ”وظیفہ“ مسلمانوں کے لئے مستند نہیں ہوسکتا۔ آج کل بہت سے (پیشہ ور اور غیر پیشہ ور) ”عامل بابا“ دنیا کے ہر مسئلہ کا حل کسی نہ کسی قرآنی آیت سے بتلاتے ہیں۔ اور ان وظائف سے بہتوں کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اگر فائدہ نہ ہو تو ان کا ”کاروبار“ کیسے چلے۔
واضح رہے کہ بیماری یادیگر مسائل کے حل کے دیگر نسخوں اور ”قرآنی آیات کے وظیفوں“ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیماری اور دیگر مسائل کے دنیوی نسخے اگر ہمیں کسی کافر سے بھی ملے اور وہ آزمودہ اور کامیاب ہو تو اسے اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے اگر کوئی یہ کہے (فرض کریں) کہ شہد کے چھتے کو فلاں کیمیکل سے ملی آگ کے دھویں سے دھونی دی جائے تو مکھیاں فرار ہوجاتی ہیں، کاٹتی نہیں ہیں یا کاٹنے کے قابل نہیں رہتیں وغیرہ وغیرہ تو اس ”نسخہ“ کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ فائدہ ہوگیا تو ٹھیک، نہ ہوا تو بھی کوئی حرج نہیں۔
لیکن اسی مسئلہ کے لئے کسی قرآنی آیت،یا درود شریف وغیرہ کا ”نسخہ“ اگر کوئی بتلائے اور اس سے ہمیشہ فائدہ بھی ہو تب بھی یہ ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ اس ”وظیفہ“ کی قرآن و حدیث سے سند کیا ہے؟ کیونکہ اب اس ”وظیفہ کا تعلق“ اسلام سے جڑ جاتا ہے۔ اور اسلام سے جڑی ہر بات کی سند صرف اور صرف قرآن و حدیث سے مانی جائے گی۔ عدیل منا بھائی کیا کہتے ہیں، یوسف ثانی کیا کہتا ہے، کوئی پیر بزرگ یا مالی کیا کہتا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔:D
میرے محترم بھائی آپ کے فارمولے کے تحت
شراب پی لینی چاہیئے کہ سردی سے بچاتی ہے کھانسی دور کرتی ہے ۔
اور اگر اس سے علاج نہ بھی ہو تو کم از کم چند لمحے سرور تو مل ہی سکتا ہے ۔
جوا کھیل لینا چاہیئے ۔ شائد کہ داؤ سیدھا پڑے اور زندگی سنور جائے ۔
قران پاک انسانوں کے لیئے شفاء اور ہدایت کا منبع ہے ۔
قران سے ہمیں مباح اور ممنوع کے بارے آگہی ملتی ہے ۔
قران کہیں بھی یہ نہیں فرماتا کہ میرا ذکر حدیث کے تحت کرو ۔
قران اپنے ذکر کو عام رکھتا ہے ۔ اور اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ذکر کا حکم دیتا ہے ۔
قران فرماتا ہے کہ " میرا ذکر کرو تاکہ تمہارا ذکر کیا جائے ۔"
ویسے اک سوال ہے کہ آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس سال تک غار حرا میں غوروفکر فرماتے کونسا " وظیفہ " کرتے رہے ،
اور اس وظیفے یا غوروفکر کی " سند " کیا تھی ۔؟
اور اک درخواست ہے کہ جب ایسی گفتگو کریں جس میں قران و حدیث اور رحمتہ للعالمین کا ذکر مبارک ہو ۔
تو یہ ہنسی اور مضحکہ کی علامت سمائیلی شامل نہ کیا کریں ۔
 
مجھے تو اپنا ایمان خطرے میں دکھائی دے رہا ہے کیونکہ میں بھی بغیر وضو درود شریف اور کافی سورتیں پڑھتا رہتا ہوں۔شاید ان میں سے ایک آدھ کی سند مل جائے باقی کے حساب سے میں تو گیا
 

عدیل منا

محفلین
مجھے تو اپنا ایمان خطرے میں دکھائی دے رہا ہے کیونکہ میں بھی بغیر وضو درود شریف اور کافی سورتیں پڑھتا رہتا ہوں۔شاید ان میں سے ایک آدھ کی سند مل جائے باقی کے حساب سے میں تو گیا
حسیب بھائی! قرآن یا درود شریف روز مرہ کے معمولات کے دوران پڑھتے رہنا اچھی عادت ہے۔ اس کیلئے باوضو رہنا شرط نہیں ہے۔ البتہ آپ جب ٖ قرآن ہاتھ میں لیں تو وضو کر لیا کریں۔
 

عثمان

محفلین
لیکن چھوٹی مکھی کے بارے میں تو کچھ لوگ اوپر کہہ چکے ہیں کہ اس کے چھتے کو اتارنے کے لئے کسی حفاظتی تدبیر کی ضرورت نہیں۔ کہ محض پھونکوں سے ہی مکھیاں بھگائی جا سکتی ہیں۔ واضح رہے میں محض اوپر مراسلے فالو کرتے ہوئے یہ بات کر رہا ہوں۔
ایسا میں کچھ پڑھا جائے یا نہ ، کیا فرق پڑتا ہے ؟
 

عدیل منا

محفلین
لیکن چھوٹی مکھی کے بارے میں تو کچھ لوگ اوپر کہہ چکے ہیں کہ اس کے چھتے کو اتارنے کے لئے کسی حفاظتی تدبیر کی ضرورت نہیں۔ کہ محض پھونکوں سے ہی مکھیاں بھگائی جا سکتی ہیں۔ واضح رہے میں محض اوپر مراسلے فالو کرتے ہوئے یہ بات کر رہا ہوں۔
ایسا میں کچھ پڑھا جائے یا نہ ، کیا فرق پڑتا ہے ؟
میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ جس نے اتنی محنت سے قطرہ قطرہ کرکے اناج اکٹھا کیا ہو وہ محض پھونکوں سے ہی گھبرا کر اپنی محنت کو کسی کے حوالے کردیں۔ چھتہ اتارنے والے نے حفاظتی تدابیر کے طور پر خود کو کسی کپڑے سے ڈھانپا ہوتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ جس نے اتنی محنت سے قطرہ قطرہ کرکے اناج اکٹھا کیا ہو وہ محض پھونکوں سے ہی گھبرا کر اپنی محنت کو کسی کے حوالے کردیں۔ چھتہ اتارنے والے نے حفاظتی تدابیر کے طور پر خود کو کسی کپڑے سے ڈھانپا ہوتا ہے۔
خیر یہ تو اوپر کچھ احباب ہی کا کہنا ہے کہ چھوٹی مکھی کو دھونی دینے کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی بھاگ جاتی ہے۔ پھر کچھ پڑھنا نہ پڑھنا ایک برابر ہے۔
انہی احباب کا لکھنا ہےکہ یہ بڑی مکھی ہے جسے دھونی دینا پڑتی ہے پھر ہی وہ چھتہ چھوڑتی ہے۔ ایسے میں اگر دھونی دیے بغیر محض کچھ پڑھ کر ہی بڑی مکھی کو بھگا دیا جائے تو حیرت انگیز ہوگا۔ :)
بہرحال میں اس موضوع پر کچھ ذیاد نہیں جانتا۔ کلمات کا تقدس اور سچائی اپنی جگہ ، فطرت علت اور معلول سے قائم ہے۔ عمل تدبیر کا محتاج ہے۔ واللہ علم۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
خیر یہ تو اوپر کچھ احباب ہی کا کہنا ہے کہ چھوٹی مکھی کو دھونی دینے کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی بھاگ جاتی ہے۔ پھر کچھ پڑھنا نہ پڑھنا ایک برابر ہے۔
انہی احباب کا لکھنا ہےکہ یہ بڑی مکھی ہے جسے دھونی دینا پڑتی ہے پھر ہی وہ چھتہ چھوڑتی ہے۔ ایسے میں اگر دھونی دیے بغیر محض کچھ پڑھ کر ہی بڑی مکھی کو بھگا دیا جائے تو حیرت انگیز ہوگا۔ :)
بہرحال میں اس موضوع پر کچھ ذیاد نہیں جانتا۔ کلمات کا تقدس اور سچائی اپنی جگہ ، فطرت علت اور معلول سے قائم ہے۔ عمل تدبیر کا محتاج ہے۔ واللہ علم۔ :)
بلا شک عمل تدبیر و تقدیر دونوں پر قائم ہوتا ہے
وأن ليس للإنسان إلا ما سعى ۔۔۔۔۔۔
 

رانا

محفلین
لیکن اسی مسئلہ کے لئے کسی قرآنی آیت،یا درود شریف وغیرہ کا ”نسخہ“ اگر کوئی بتلائے اور اس سے ہمیشہ فائدہ بھی ہو تب بھی یہ ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ اس ”وظیفہ“ کی قرآن و حدیث سے سند کیا ہے؟ کیونکہ اب اس ”وظیفہ کا تعلق“ اسلام سے جڑ جاتا ہے۔ اور اسلام سے جڑی ہر بات کی سند صرف اور صرف قرآن و حدیث سے مانی جائے گی۔ عدیل منا بھائی کیا کہتے ہیں، یوسف ثانی کیا کہتا ہے، کوئی پیر بزرگ یا مالی کیا کہتا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔:D

اسلام سے تعلق صرف اسی صورت میں جڑے گا اگر بتانے والا اس کے ماخذ کو قران و حدیث سے براہ راست منسوب کررہا ہو۔ ورنہ اللہ اپنے کئی نیک بندوں کو خود بھی کسی مصیبت سے نکلنے کے لئے کسی خاص آیت کی طرف توجہ دلا سکتا ہے۔ لیکن اسطرح یہ بات اسلام شامل نہیں ہوجائے گی بلکہ صرف اسکے رب کا اپنے بندے کے ساتھ ایک پیار کا اظہار ہوتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top