چپکے چپکے

قیصرانی

لائبریرین
یہ رہے اس کے بول


چپکے چپکے سکھیوں سے وہ باتیں کرنا بھول گئی
تجھ کو دیکھا پنگھٹ پہ تو پانی بھرنا بھول گئی

پہلے شاید اس کو میرے چہرے کا اندازہ نہ تھا
مجھ سے آنکھیں ٹکرائی تو خود پہ مرنا بھول گئی

چپکے چپکے سکھیوں سے وہ باتیں کرنا بھول گئی
تجھ کو دیکھا پنگھٹ پہ تو پانی بھرنا بھول گئی

سچ پوچھو تو میری وجہ سے اس کو ایسا روگ لگا
کاجل مہندی کنگن بندیا سے سنورنا بھول گئی

چپکے چپکے سکھویں سے وہ باتیں کرنا بھول گئی
تجھ کو دیکھا پنگھٹ پہ تو پانی بھرنا بھول گئی

کیا جانے کب اس سے ملنے آجاؤں اس خواہش میں
چھت پر بیٹھی رہتی ہے وہ چھت سے اترنا بھول گئی

چپکے چپکے سکھویں سے وہ باتیں کرنا بھول گئی
تجھ کو دیکھا پنگھٹ پہ تو پانی بھرنا بھول گئی
 
Top