چوپٹ راجہ ۔ یکے از کتب ہائے فکر تونسوی ۔ مطبوعہ 1973

بغاوت کی خبر
آج ہماراہیڈ خزانچی لالہ بھرکم داس قدم بوسی کو حاضر ہوا۔ ایک طشتری ہیروں کی ، جن پر ملمع چڑھا ہوا تھا ہماری نذر کی اور پھر زاروقطار رونے لگا۔ ہم نے اس اشکباری کا سبب دریافت کیا تو وہ بولا ۔ حضور خزانے کی چابیاں سنبھال لیجئے۔ میں تو کیلاش پربت جا رہا ہوں ۔ باقی عمر یاد خدا میں بسر کروں گا۔
ہم سکتے میں آگئے۔ کیونکہ لالہ بھرکم داس کے کنبے کے تعلقات خدا سے ٹوٹے ہوئے ڈیڑھ سو سال ہو چکے تھے ۔ ہم نے اس تجدید تعلقات کی وجہ پوچھی تو ہیڈ خزانچی نے گلو گیر آواز میں بتایا کہ خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ اس لیئے اب وقت آچکا ہے کہ خدا کی پرستش کی طرف توجہ دی جائے۔
یہ سن کر ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور جی چاہا چھوٹی رانی کو ساتھ لے کر ہم بھی کیلاش پربت کی طرف نکل جائیں ۔ بھرکم داس نے ہماری سراسیمگی بھانپ لی اور اس میں اضافے کی نیت سے کہا : حضور رعایا باغی ہو گئی ہے اور ادائیگی ٹیکس سے انکاری ہے۔ ہم نے جلال شاہی میں آ کر کہا ۔ بھرکم داس ! جاؤ اور سپہ سالار اعظم کو بلا کر ہمارا فرمان سناؤ کہ فوج لے کر رعایا پر چڑھائی کر دے۔
لیکن بھرکم داس نے بتایا کہ سپہ سالار تنخواہ نہ ملنے کے باعث بھاگ گیا ہے ۔ اور دوسرے فوجی اپنا اسلحہ وغیرہ مہاجنوں کے ہاتھ بیچ کر پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔ ہمیں بہت تعجب ہوا کہ ہماری سلطنت کی بنیادیں ہل گئی اور کسی نے ہمیں مطلع تک نہیں کیا۔ بھرکم داس نے بتایا کہ حضور زکام کی شکایت تھی اس لیئے شاہی طبیب کی ہدایت پر حضور کو اطلاع دینے کی گستاخی نہیں کی گئی ۔ ہمیں اپنے زکام اور حکیم دونوں پر سخت طیش آیا۔ جس نے زکام کی دو چار چھینکوں پر ہماری سلطنت قربان کر دی ۔ ہم نے اسی وقت شاہی حکیم کی برخاستگی کا حکم جاری کر دیا۔ (حکم نامہ سارا دن ہمارے پاس پڑا رہا۔ کیونکہ لے جانے والا ہرکارہ نہیں مل رہا تھا)۔
ہم لالہ بھرکم داس کے ساتھ نہت دیر تک سلطنت کی تباہی پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔لیکن سوائے کیلاش پربت پر تپسیا کرنے کے ہمیں کوئی مناسب حل نہ سوجھا۔اس لیئے کیلاش پربت جانے کے لیئے ہم نے اپنی موٹر تیار کرنے کا حکم دیا۔ لاکھن سنگھ ڈرائیور نے انکشاف کیا کہ پٹرول نہیں ہےاور پٹرول پمپ والا سابقہ بلوں کی ادائیگی کے بغیر پٹرول دینے سے انکاری ہے۔ ہمیں بیحد غصہ آیا ۔ لیکن بھرکم داس نے ہمارے ساتھ وفاداری کا اظہار کیا اور کہا :- حضور غصے سے موٹر نہیں چل سکتی کیونکہ غصے اور پٹرول میں ایک ٹیکنیکل فرق ہے۔ اس نے کل صبح تک پٹرول کا بندوبست کرنے کا وعدہ کر لیا۔
ہم لالہ بھرکم داس کی وفاداری پر بے حد خوش ہوئے اور فیصلہ کیا کہ تاج شاہی جاتے جاتے لالہ بھرکم داس کے سر پررکھ دیں گے ۔


قصر شاہی میں رات

ہم نے قصر شاہی میں ساری رات بے چینی میں کاٹی۔ گزشتہ پانچ پشتوں کے خون جگر کی پالی ہوئی سلطنت چھن جانے کے غم میں ساری رات غزلیں لکھتے رہے۔ رات گئے پانچوں رانیاں فلم شو دیکھ کر لوٹیں تو ان سے معلوم ہوا کہ لوٹتے وقت ہماری کار پر رعایا نے سنگ باری کی ۔ ہمارا شاہی دماغ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ رعایا کی بغاوت کا حقیقی سبب کیا ہے۔ مرحوم دادا جان مہاراج گورکھ ناتھ جی کی تحریر کی ہوئی کتاب ،، راجہ اور پرجا،، بہت دیر تک پڑھتے رہے لیکن اس سے بھی کچھ پتہ نہ چل سکا۔ تنگ آکر پھر غزلیں لکھنے لگے ۔
چاروں رانیوں نے ہمارے ساتھ کیلاش پربت جانے کا وعدہ کیا۔ لیکن سب سے چھوٹی رانی بھرت بالا نے کہا کہ میرا تو حضور کے ساتھ بیاہ ہی نہیں ہوا۔ میں تو ایک اغوا شدہ عورت ہوں اور پھر شاہی نسل اور خون سے بھی نہیں ہوں ایک مفلس کسان کی بیٹی ہوں۔ اس لیئے میں تو پرجا ہی میں سے ہوں ۔ پرجا میں جا کر پھر مل جاؤں گی۔
ہم نے رانی بھرت بالا کی اس بے وفائی پر ایک غزل اور لکھ ڈالی۔

نیا منتری منڈل

آج بھرکم داس پھر حاضر ہوا لیکن پٹرول نہیں لایا ۔ بلکہ پٹرول کی بجائے ایک دستاویز لایا اور کہا ،، حضور یہ نئی سرکار کا حکمنامہ ہے ۔ اس پر دست خط کر دیجئے تاکہ اسے حضور کی طرف سے رعایا کے نام بطور شاہی فرمان کے جاری کر دیا جائے ۔
شاہی فرمانوں پر دست خط کرنا ہماری دیرینہ اور خاندانی خصلت تھی اور ہم بغیر سوچے سمجھے فرمان جاری کر دیا کرتے تھے ۔ اس لیئے ہم نے اپنی خصلت کے زیر اثر دستخط کر دیئے۔ لیکن یہ سوچ کر ہمیں ہنسی بھی آئی کہ راجہ کے پاس پٹرول خریدنے کے پیسے نہیں ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہم بدستور راجہ ہیں اور فرمان جاری کر سکتے ہیں ۔

دستخط کرتے ہی ایک حیرت ناک واقعہ ظہور میں آیا۔ پردے کے پیچھے سے دو شخص اچانک نمودار ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں پٹرول کا ایک ایک ٹین تھا ۔دونوں ٹین انہوں نے ہماری نیاز میں گزارے۔ ہم نے پوچھا ،، بھرکم داس ! یہ دونوں حضرات کون ہیں ؟ کیا پٹرول پمپ کے مالک اور مینیجر ہیں؟ بھرکم داس نے بتایا ،، نہیں حضور یہ دونوں جنتا جناردھن پارٹی کے مقبول لیڈر ہیں اور رعایا میں بغاوت پیدا کرنے کا سہرا ان کے سر ہے ۔
یہ سن کر ہماری آنکھوں میں خون اترنے لگا ۔ لیکن کچھ زیادہ نہ اتر سکا کیونکہ ہم کل رات سے بھوکے پیاسے تھے۔لیکن جتنا خون بھی اترا اس کے زور پر ہم نے بھرکم داس کو حکم دیاکہ ان دونوں کو توپوں سے اڑا دیا جائے۔لیکن بھرکم داس نے وضاحت کی کہ اب آپ ایسا حکم نہیں دے سکتے۔کیونکہ ابھی ابھی آپ نے جس دستاویز پر دستخط کیئے ہیں اس کی رو سے آپ اب اس ملک کے راجہ نہیں رہے۔ بلکہ ڈیموکریٹ ہو گئے ہیں اور جنتا جناردھن پارٹی کے سربراہ ہو گئے ہیں ۔
ہماری سوجھ بوجھ پہلے بھی کچھ زیادہ اعلیٰ نہیں تھی لیکن ڈیموکریٹ بن کر اور بھی زیادہ گھٹیا ہو گئی ۔ پوچھا ،، بھرکم داس ! اپنی بات ہمیں سادہ الفاظ میں سمجھاؤ،،
اس نے سمجھایا کہ ہماری خاندانی بادشاہت اب ختم ہو گئی ہے اور عوامی راج قائم ہو گیا ہے۔ یعنی حکومت اب بھی ہماری ہی رہے گی لیکن ہم اسے اپنے نام پر نہیں ، جنتا جناردھن پارٹی کے نام پر چلائیں گے


یہ سن کر ہم مسرور بھی ہوئے اور مغموم بھی۔مسرت تو یہ تھی کہ ہم بدستور حاکم اعلی رہیں گے اور غم بلکہ فریاد یہ کہ ہمارے حکم اور مشورے کے بغیر ہم پر منتری منڈل ٹھونس دیا گیا ۔ چوری چھپے ہم نے ایک سرد آہ بھر کر حکم دیا۔ ہمارے منتری منڈل سے ہمارا تعارف کرایا جائے ۔
دونوں منتری کورنش بجا لائے اور ان میں سے ایک بولا حضور اس ناچیز کا نام اجاڑو سنگھ ہے اور میں آئیندہ سے وزیر جنگ کہلاؤں گا۔
دوسرا بولا،، خاکسار کو گیدڑ جنگ کہتے ہیں اور میں وزیر داخلہ کی گدی سنبھالوں گا۔
ہم نےکہا: اتنی بڑی سلطنت اور صرف دا وزیر! ، ہماری رعایا تو ہمیں بے وقوف سمجھے گی۔
لیکن ہم جنتا جناردھن پارٹی کے فیصلے اور حضور کی اجازت سے ابھی بیس پچیس وزیر اور تعینات کریں گے۔
ہم مطمئن ہوگئے اور بھرکم داس سے کہا ۔ ہم نے جس دستاویز پر دستخط کیئے ہیں ، ہمیں پڑھ کر سناؤ۔
ہمارا فرمان ہمیں سنایا گیا کہ ہم اپنی عظیم رعایا کی آرزوؤں کا احترام کرتے ہوئے اپنے شاہی اختیارات سے دست بردار ہوتے ہیں اور رعایا کی جمہوری جماعت کو راج کاج سونپ رہے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہماری رعایا ہماری چھتر چھایا میں رہے گی ۔
اگرچہ ہمیں اپنا جاری کردہ یہ شاہی فرمان پسند تو نہ آیا لیکن ہمیں بھرکم داس نے بتایا کہ اگر آپ اس فرمان پر دستکط نہ کرتے تو آپ کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔ گیدڑ جنگ اور اجاڑو سنگھ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ۔ اس لیئے ہمیں یقین آگیا کہ ڈیموکریٹک بن کر مرنا پھانسی کی موت سے زیادہ دانشمند انہ ہے۔
جب یہ خبر ہم نے جا کر اپنی رانیوں کو سنائی تو چھوٹی رانی کے سوا سبھوں نے اپنا سر پیٹ لیا اور انہوں نے اپنے سہاگ کی چوڑیاں توڑ دیں۔ لیکن اب ہم ڈیموکریٹ بن چکے تھے۔ اس لیئے ہمیں ان کے سہاگ لٹ جانے کا کوئی خاص افسوس نہ ہوا۔
شام کو ہم نے چھوٹی رانی کے ساتھ بالکونی پر تشریف لا کر بحل کے نیچے کھڑی ہوئی رعایا کے ہجوم کو درشن دئے۔ رعایا نے ہم پر پھول مالائیں پھینکیں۔ چوپٹ راجہ زندہ باد کے محل شگاف نعرے پھینکے اور ہم مسکرا تے رہے اور سوچتے رہے کہ یہ باغی رعایا تو ویسی ہی ہے جیسے پہلے تھی۔
رات کو ہم نے چھوٹی رانی کے ساتھ ۔۔جشن جمہوریت۔۔ میں شمولیت کی ، بھرکم داس نے اس رات جی بھر کر وہسکی پی اور ہماری چھوٹی رانی کے ساتھ ڈانس کرتا رہااور اس کے ساتھ مل کر انقلاب زندہ باد! کے نعرے لگاتا رہا۔ چھوٹی رانی نے ہارمونیم اپنی گردن میں ڈال کر حاضرین کو کچھ فلمی گیت سنائے جن میں جمہوریت وغیرہ کا ذکر تھا۔

کاغذی راج

آج صبح وزیر داخلہ گیدڑ جنگ قدمبوسی کے لیئے حاضر ہوا ، اس سے پہلے وہ بائیسکل پر آیا تھا۔ آج ایک طیارے کی شکل کی خوبصورت موٹرکار اس کے نیچے تھی۔
ہم نے استفسار کیا، گیدڑ جنگ یہ موٹر کہاں سے لائے ہو ؟
وہ بولا ۔ حضور ! وزیر داخلہ بننے کے اعزاز میں یہ کار مجھے عوام نے نذر کی ہے۔
ہمیں تعجب ہوا کہ ہماری رعایا بھی بہت لغو ہے خود تو بسوں میں دھکے کھاتی پھرتی ہے اور اپنے لیڈر کو کار بھینٹ کرتی ہے۔ لیکن گیدڑ جنگنے لفظ عوام کی مزید وضاحت کرتے ہوئےہمیں بتایا کہ یہ کار شری لوبھی رام گوبھی چند انڈسٹریلسٹ نے ہمیں عطا کی ہے۔ کیونکہ وہ بھی عوام میں سے ہے۔
ہم لوبھی رام گوبھی چند کو جانتے ہیں۔ وہ بہت ذہین اور دور اندیش آدمی ہے، عوام کے لیئے مندر اور خواص کے لیئے کاریں بنانا اس کی ہابی ہے۔
گیدڑ جنگ نے آج لباس فاخرہ پہن رکھا تھا ۔ حالانکہ کل وہ مل مزدور کی پوشاک پہنے ہوئے تھا ۔ ہمیں مسرت ہوئی کہ ہمارا وزیر داخلہ ایک پروقار شخصیت ہے، معمولی مل مزدور نہیں ہے۔
گیدڑ جنگ نے قدمبوسی کے بعد ایک خوبصورت مجلد کتاب ہماری نذر میں گزاریاور ہمارے منہ سے ایک عبرت ناک آہ نکل گئی۔ کہاں وہ زمانہ کہ ہماری آستاں بوسی کو آنےوالے جواہرات اور نقد روپے بھینٹ کرتے تھے اور کہاں اب چند کاغذوں کی کتاب شاہی قدموں کے نصیب میں رہ گئی۔ لیکن گیدڑ جنگ نے بتایا کہ حضور ! اب جمہوری راج ہو گیا ہے، جواہرات کا زمانہ لد گیا۔ ہم نے دل ہی دل میں کہا ۔ یہ جمہوری راج نہیں ہے گیدڑ جنگ ! کاغذی راج ہے۔
چار و ناچار ہم نے نذر قبول کر لی۔

گیدڑ جنگ کی نصیحت بلکہ ہدایت پر ہم دن بھر یہ کتاب پڑھتے رہے۔ کتاب کا نام تھا جمہوریت ۔۔ کیوں اور کیسے؟ گیدڑ جنگ نے ہمیں سمجھایا تھاکہ حضور! اب آپ کو جمہور پر جمہوری ڈھنگ سے حکومت کرنی ہے۔ اس لیئے علم جمہوریت سے آپ کا نابلد رہنا، آپ کے لیئے مضرت رساں ہے۔

اس کتاب کو ہم الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔ ایک ایک صفحہ کو تین تین بار پڑھا لیکن ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ نہ جانے اتنی مشکل کتاب کیسے لکھ لیتے ہیں۔ جو سلطنت کے سربراہ کی سمجھ میں بھی نہیں آ سکتی، عوام کیا خاک سمھیں گے؟ ہم نے اپنی سمسیا چھوٹی رانی کے سامنے پیش کی ۔ اس نے یہ کہہ کر میری سمسیا حل کردی کہ میں تو گڈرئیے کی بیٹی ہوں ۔ مجھے تو علم حاصل کرنے سے پہلے ہی اٹھا کر محل پہنچا دیا گیا تھا۔
ہم چھوٹی رانی سے مایوس ہوگئے اور اسے طلاق دینے پر غور کرنے لگے۔
لیکن چھوٹی رانی نے کہا۔ میں حضور کے لیئے ٹیوشن کا اہتمام کر دوں گی۔ کیونکہ تعلیم چاہے جمہوریت کی ہو یا تانا شاہی کی ، دونوں کے لیئے پروفیسر مل جاتے ہیں اور اتنے سستے مل جاتے ہیں جتنی ہماری خادمہ کی دھوتی ۔
 
آخری تدوین:
تبدیلی تبدیلی تبدیلی

کل رات کو ہم نےایک ہنگامی فرمان پر دستخط کئے جس کی رو سے وہ تمام لوگ گرفتار کر لئے گئے جو جمہوریت کے دشمن یا مخالف تھے۔ ان میں جنتا جناردھن پارٹی کے چند وہ رہ نما بھی شامل تھے جو شاہی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ یہ سبھی گرفتار شدگان ہمارے سچے جانثار ہیں۔ لیکن جمہوری رہ نما رہنے کے لئے ہم نے یہ فرمان جاری کر دیا۔

جمہوریت کی یہ ستم ظریفی ہمیں بہت پسند آئی کہ جس شخص کو ۔۔جمہوریت۔۔ کی کتاب سمجھ نہ آئی،وہ جمہوریت کی حفاظت کا فرمان جاری کرتا ہے ۔ ان گرفتار شدگان میں ہمارا ہیڈ باورچی ۔ پانڈے بھی تھا۔ اس کا جرم یہ بتایا گیا تھا کہ وہ شاہی دسترخوان پرایروں غیروں کو کھانا کھلانے کی مخالفت کرتا تھا کہ انہیں آداب محفل نہیں آتے۔ اسے گرفتار کروانے کے بعد ہمیں پانڈے سے اور زیادہ محبت ہو گئی ۔

ہمارے شاہی محل کا جھنڈا اتار دیا گیا اور اس کی بجائے جنتا جناردھن پارٹی کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔اس ذلت پر ہمیں بہت طیش آیا اور اس سے پہلے کہ ہم اپنے طیش کا اظہار کرتے ہمارے محل کی نیم پلیٹ جس پر راج بھون لکھا تھا ہٹا دی گئی اور اس کی بجائے جنتا بھون کی پلیٹ لگا دی گئی اس پر ہمیں دوسری بار طیش آیا اور پھر تیسری بار طیش آیا اس وقت آیا جب ہمارے خاص ہاتھی کی سنہری جھول اتاردی گئی۔ اور اس پر جنتا جناردھن پارٹی کا جھنڈا بطور جھول ڈال دیا گیا۔ ہمیں اپنے ہاتھی کی اس دردشا پر رونا آگیا۔ لیکن بھوکم داس (یہاں اصل کتاب میں بھرکم داس کا نام بھوکم داس لکھا جانا شروع ہو جاتا ہے) نے ہمیں تسلی دی کہ ہاتھی اب بھی آپ کا ہے، محل بھی آپ کا ہے، جھنڈا بھی آپ کا ہے، سلطنت بھی آپ کی ہے۔ ان چیزوں کا صرف نام اور لباس بدلا ہے۔ یہ تبدیلی جمہوریت کے نقطہ نگاہ سے لازمی تھی۔ اس لئے حضور کا طیش میں آنا مناسب نہیں ہے۔ آپ آم کھائیے، پیڑ گننے کا کام گیدڑ جنگ پر چھوڑ دیجئے۔
بھوکم داس کی بات ہماری سمجھ میں آگئی، بھوکم داس جمہوریت کا بہت کامیاب ترجمان ہے۔ ہم نے ہاتھی پر چڑھ کر شہر کا گشت کیا اور جنتا سے سلامیاں لیتے رہے۔ واقعی ہاتھی بھی وہی تھا ، اس کی مستانہ چال بھی وہی تھی، سونڈ اٹھا کر سلام کرنےکا طریقہ بھی وہی تھا ، صرف جھول بدلی تھی ، لیکن جھول بدلنے سے نہ ہاتھی بدلا تھا، نہ ہم بدلے تھے، نہ رعایا بدلی تھی پہلے وہ سنہری جھول کو سلامی دیتی تھی اب جھنڈے والی جھول کو سلامی دیتی تھی۔

ہمارے چاروں طرف تبدیلی ہی تبدیلی کے آثار نظر آ رہے تھے جو ہماری رعایا کو نظر آ رہے تھے اس لئے ہم کو بھی نظر آ رہے تھے۔
 
آخری تدوین:
ہمارا پروفیسر
کل سے ایک پروفیسر کو ہماری ٹیوشن پر مامور کر دیا گیا ہے۔ اس کا نام نشپھل داس ہے۔ وہ ہمیں علم جمہوریت پر سبق پڑھایا کرے گا۔ وہ پستہ قد کا لیکن چمکیلی آنکھوں والا ادھیڑ عمر آدمی ہے۔ ہمیں اس کا لباس پسند نہ آیا۔ لیکن آدمی عالم و فاضل معلوم ہوتا ہے ۔ہم بہت دیر تک یہ سوچ کر پریشان رہے کہ اگر ہم بھی عالم و فاضل ہوتے تو ہمارا لباس بھی کتنا گھٹیا ہوتا۔

سبق پڑھتے پڑھتے اچانک ہمیں ایک خیال آیا کہ نشپھل داس ہمارا گورو ہے۔ اس لئے اسے صوفے پر بیٹھنا چاہیئے اور ہمیں اس کے قدموں میں فرش پر لیکن ہم کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔

سلطنت کے ہیڈ کی حیثیت سے ہمارا مرتبہ بلند کے لیکن شاگرد کی حیثیت سے ہمارا مرتبہ کم تر ہے۔ ہمیں اپنی دو متضاد حیثیتوں پر تعجب ہوا۔ ہمارا خیال ہے کہ وزیر قانون کو بلا کر استفسار کرنا چاہیئے کہ جمہوری نظام میں گورو بلند ہوتا ہے یا ہیڈ آف دی سٹیٹ؟ (یہ جمہوریت بھی ایک مصیبت ہی ہے)۔

پروفیسر نشپھل داس نے ہمیں سب سے پہلے جمہوریت کی تعریف سمجھائی کہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ صرف عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر عوام چاہیں تو ہیڈ آف دی سٹیٹ کو بھی گدی سے اتار سکتے ہیں۔ ہم نے مذاق میں پوچھا ۔ کیا ہمیں بھی؟

ہی ہی ہی! ۔ پروفیسر نشپھل داس سہم گیا اور اپنے خوف کو بیہودہ ہنسی میں چھپاتے ہوئے بولا۔ حضور!۔ آپ تو رعایا میں بے حد مقبول ہیں۔ آپ کو گدی سے کون اتار سکتا ہے؟

پروفیسر نشپھل داس کی تعریفات سے ہمارا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ ہم تو خوامخواہ ڈر رہے تھے۔ ورنہ جمہوریت کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے۔ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کتاب کا ڈسٹ کور رنگین اور خوشنما ہو۔ طباعت اور کاغذ بھی دیدہ زیب ہو لیکن کتاب کا مواد انتہائی معمولی اور عام ہو۔ ہم نے ہنسی ہنسی میں یہ کتاب والی تشبیہہ پروفیسر نشپھل داس کو سنائی تو وہ ہی ہی ہی کر کے ہنسنے لگا۔ حضور آپ تو شاعر بھی ہیں۔

ہمارے متعلق اس شاعرانہ انکشاف پر ہم نے نشپھل داس کی تنخواہ پچیس روپے بڑھا دی ۔ اس لئے اس نے جاتے وقت ہمیں تین بار کی بجائے سات بار سلام کیا۔
 

ہماری کیبنٹ کی میٹنگ

کل رات ہمارے محل میں ہماری جمہوری کابینہ کی ایک ہنگامی میٹنگ ہوئی۔ سبھی وزراء نے زرق برق لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ جسے دیکھ دیکھ کر ہم تعجب فرماتے رہے اور اس شک میں مبتلا ہوتے رہے کہ کہیں یہ لباس فاخرہ انہوں نے شاہی توشہ خانہ سے تو نہیں چرایا۔ لیکن ہم اپنا شک لبوں پر نہ لا سکے۔ کون جانے جمہوری نظام میں چوری چکاری جائز ہو۔ کیونکہ ہمیں جمہوریت پر ابھی پورا عبور تو تھا نہیں، اس لئے چوری کے شک کو دل میں ہی محفوظ رکھا۔

وزیر داخلہ گیدڑ جنگ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم باری باری وزراء کے لباس شاہی کو ایک ایک بوسہ عنایت فرمائیں۔ چوری کے مال کو بوسہ دینے کے تصور سے ہمیں کراہیت ہوئی۔ لیکن ہم نے کلیجے پر ڈیموکریسی کا پتھر رکھ کر تعمیلِ ارشاد کر ڈالی۔ ہم حکم دینے کے عادی تھے لیکن آج ہم حکم کی تعمیل کر رہے تھے۔ ہم نے وزیر داخلہ سے دریافت کیا۔ ہمارے اس بوسے کا جمہوری مفہوم بیان کرو۔
وزیر داخلہ کورنش بجا کر بولا۔ حضور اس کا مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت پر شاہی عاطفت کا سایہ ہمیشہ قائم رہے۔
ہمیں جمہوریت کے اس شاہانہ مفہوم پر مسرت ہوئی۔

جب بوسے کی رسم ختم ہوئی تو باری باری ہمارے ہر وزیر نے تقریر (تقریر کرنے کے بعد ہز وزیر کی وہی حالت ہو جاتی تھی جو بچہ پیدا ہوجانے کے بعد زچہ کی ہوجاتی ہے) ہر وزیر نے کاغذ پر تحریر کی ہوئی تقریر پڑھی اور پھر کاغذ ہمارے حوالے کیا۔ ہر بار تقریر کا کاغذ حوالے کرتے وقت ایک کیمرہ مین اپنا کیمرہ آگے بڑھاتا اور عرض کرتا کہ تبسم فرمائیے۔ پھر کیمرے سے ایک چٹاخ کی آواز نکلتی اور کیمرہ مین شکریہ کہہ کر پیچھے ہٹ جاتا۔ ہم بار بار تبسم فرماتے فرماتے تھک گئے لیکن جمہوری حکم کی تعمیل کے انکار کی جرات نہ کر سکے۔ افسوس کہ ہم کافی بزدل ہوگئے تھے۔
ہر وزیر ایک ہی ساخت کی تقریر کیوں کر رہا ہے؟ ۔ ہم دانت پیس پیس کر سوچتے رہے ۔ لیکن پھر یہ سوچ کر دانتہم نے دانت پیسنا ترک کر دیا کہ جمہوریت میں یکسانیت اور اکتاہٹ کا رواج ہوگا۔ ہمیں جمہوریت کے نئے نئے رواجوں کا علم ہوتا جا رہا تھا۔
ہر تقریر کے خاتمے پر ہمیں یہ فقرہ بے حد پسند آتا رہا۔ میں رعایا کی طرف سے حلف لیتا ہوں کہ میں رعایا کی خاطر مہاراج ادھیراج چوپٹ راجہ کا وفادار رہوں گا۔

اس کے بعد پھر ہمیں حکم دیا گیا کہ مہاراج اب کابینہ کی میٹنگ برخاست کرنے کا حکم عنایت فرمائیں ۔ ہم کیا کرتے حکم عنایت کر دیا۔ حکم ماننے والے کو حکم ماننا ہی پڑتا ہے۔ کابینہ کی میٹنگ ختم ہونے کے بعدوزیر اعظم جو وزیر خزانہ بھی تھا۔ بھوکم داس نے ہماری خدمت میں ایک میمو پیش کیا کہ آج کی کابینہ کی میٹنگ پر ایک لاکھ روپے صرف ہوئے۔ دستخط فرما کر منظوری دے دیجئے۔
ہم نے پوچھا بھوکم داس ! اس میٹنگ میں ہم نے صرف چند بوسے دئے یا وزراء نے تقریریں کیں۔ اس پر ایک لاکھ روپے خرچ کیسے آگیا۔ہمیں تفصیل بتائی جائے
اس پر بھوکم داس نے ایک طویل تقریر کر ڈالی اور ہمیں بڑے آداب و تہذیب کے ساتھ ایک نالائق ، نا اہل ، اور نافرمان جمہوری بادشاہ قرار دے دیا۔ بلکہ یہاں تک کہنے کی گستاخی کر ڈالی کہ آپ بادشاہ ہیں یا بھڑبھونجے؟ کہ تفصیل طلب کرتے ہیں ۔ یہ کابینہ میٹنگ رعایا کے مفاد کے لیئے منعقد کی گئی تھی اور رعایا کا مفاد اسی میں ہے کہ آپ اس میمو پر دستخط فرما دیجئے ورنہ ساری کابینہ آپ کو گدی سے دستبردار کر دے گیاور آپ تخت شاہی کے بجائے بھنے ہوئے چنے بیچتے نظر آئیں گے۔

ہم دل ہی دل میں برہم بھی ہوئے اور سہم بھی گئے۔ لیکن منظوری مرحمت فرما دی، بھنے ہوئے چنے بیچنے سے کیا حاصل؟ زمانے کی رفتار کہتی ہے۔ انقلاب زندہ باد! اس لئے ہم بھی کہہ دیں۔ انقلاب پائندہ باد۔ اگر ہمارے صرف بوسہ دینے اور فوٹو کے وقت تبسم فرمانے سے رعایا کا مفاد محفوظ ہو جاتا ہے تو ہمارا کیا بگڑتا ہے۔۔۔۔۔ چند بوسے اور چند تبسم۔۔۔۔ جمہوریت کا محل کتنی نازک اور نفیس بنیادوں پر استوار ہو رہا ہے اور محل کی تعمیر پر روپیہ تو صرف ہونا ہی ہے ۔ رعایا کا روپیہ رعایا پر صرف ہو ۔ ہماری برہمی صرف جاہلانہ کہی جائے گی۔

جمہوری نظام ہماری جہالت کو آہستہ آہستہ دانشمندی کی طرف بڑھا رہا ہے۔
23​
 
نئی زندگی نئے اصول

آج ہم کئی دنوں بعد روزنامچہ تحریر کر رہے ہیں ۔ فرصت ہی نہیں ملتی تھی ۔ کیا کریں ؟ صبح سے رات تک ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جسے ہم خالص اپنا کہہ سکیں ۔ کبھی کبھی ہم جھنجھلا جاتے ہیں کہ ہم نے اپنی ایک ایک سانس ڈیموکریسی کے ہاتھ بیچ دی ہے ، لیکن بھوکم داس کا کہنا ہے کہ جمہوریت آپ کی ایک ایک سانس کی قیمت ادا کر رہی ہے ۔ احسان کا ہے کا؟
علی الصبح جو گلفام لونڈی اپنی مترنم آواز میں گا کر ہمیں بیدار کیا کرتی تھی ، وہ نہ جانے کدھر بھاگ گئی یا بھگا دی گئی ۔ ایک افواہ ہے کہ اسے وزیر خزانہ بھوکم داس اپنے بنگلے پر لے گیا ہے جہاں صبح اسے بیدار کرنے پر مامور کر دی گئی ہے ۔ لیکن تنخواہ اسے وزارت خزانہ کی طرف سے بطور ٹائپسٹ دی جاتی اور ہمیں بیدار کرنے کے لئے ہماری خواب گاہ میں ایک ریڈیو سیٹ ہے ۔جو صبح صبح بھگتی گان کے ریکارڈ بجا بجا کر ہمیں بیدار کردیتا ہے۔ کہاں گلفام ایسی حسینہ اور کہاں یہ چوب و آہن کا ریڈیو؟
پروفیسر نشپھل داس نے یہ بتا کر ہمیں ششدر کر دیا کہ ریڈیو پو جو آواز بھگتی گان سناتی ہے، وہ دراصل گلفام کی آواز ہے جو اب صرف آپ کو بیدار نہیں کرتی بلکہ ملک کے ہر آدمی کو بیدار کرتی ہے۔باورچی، بیرا، نائی ، موچی ، کلرک ، وکیل ، ڈاکٹردکاندار ہر ایک پر گلفام کی آواز کا حق ہو گیا ہے اور گلفام اب صرف راجہ کی لونڈی نہیں رہی ، عوام کی لونڈی بن گئی ہے۔ہمیں بے چاری گلفام کے حشر پر بہت ترس آیا، اپنے اوپر بھی ترس آیا، لیکن کچھ زیادہ ترس نہ آیا کیونکہ اب ہم ذلیل ہونے کے عادی ہو گئے تھے۔
صبح صبح ناشتے کی میز پر ہمارا چپراسی آجاتا ہے اور ہمارے روزانہ پروگرام کا ایک ٹائپ شدہ کاغذ ہمارے ٹرے میں رکھ جاتا ہے۔ اپنا پروگرام اب ہم طے نہیں کرتے ، کابینہ طے کرتی ہے کہ آج فلاں آدمی فلاں وقت پر مہاراج سے شرف ملاقات حاصل کریں گے۔ گویا ہمیں اتنا بھی اختیار نہ رہا کہ ہم کسی کو شرف ملاقات بخشنے سے انکار کر سکیں ۔ پرسوں ایک صاحب ہم سے شرف ملاقات حاصل کرنے آئے (تانگہ ریڑھا یونین کے کوئی صدر تھے شاید) لیکن ہمیں اس وقت تنہائی میں سگریٹ نوشی کی تمنا ستا رہی تھی۔ اس لئے ہم نے اختیارات خصوصی سے کام لیا کہ ہم اس وقت نہین مل سکتے ۔
دوسرے دن اس ظالم تانگہ بان نے ہمارے خلاف ایک پوسٹر نکلوا دیا کہ ہم فرعون ہیں ، نمرود ہیں ، بھوکم داس دوڑا دوڑا آیا کہ رعایا آپ سے باغی ہو رہی ہے۔ اس لئے اس بیان پر دستخط فرما دیجئے کہ ہم مہاراج چوپٹ راج ملک کے ہر تانگے اور تانگے کے گھوڑے کو اپنا دوست سمجھتے ہیں ۔ہم بھانپ گئے کہ یہ بھوکم داس کی عیاری ہے۔ وہ رعایا کی بغاوت کی دھمکی دے کر ہم پر اپنا اقتدار قائم رکھنا چاہتا ہے۔(یہ نقطہ ہمیں نشپھل داس نے بتایا۔ نشپھل داس کو تو ہمارا وزیر اعظم ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن کیا کریں وہ بزدل ہے اور صرف تعلیم یافتہ ہے)

ہمارا دل چاہا کہ بھوکم داس کو نادم کریں کہ یہ تمہاری کیسی ڈیمو کریسی ہے جس میں سلطنت کے سربراہ کو ایک سگریٹ پینے کی بھی اجازت نہیں ؟ لیکن خاموش رہے ۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری سگریٹ نوشی پر کسی نشہ بندی کمیٹی کی طرف سے پوسٹر نکلوا دے ۔
اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہر الم غلم شخص کو شرف ملاقات بخشیں گے اور اپنی مقبولیت کو بچاتے رہیں گے۔

کل ایک حسین و جمیل ملاقاتی ہم سے ملنے آیا۔ ہم نے فرمایا ۔ اے حسینہ ! ملاقات کا مقصد؟
وہ اپنے موتیوں جیسے دانت نکال کر مسکرائی اور بولی: مقصد کچھ نہیں ، آپ کے ساتھ صرف فوٹو کھچوانے کی آرزو ہے۔۔۔۔ وہ کافر ادا ستمگر ، فوٹو گرافر کو بھی اپنے ساتھ لائی تھی ، مفر کی کوئی صورت نہ تھی۔اس لئے ہم نے اس کے ساتھ فوٹو کھنچوا لیا۔دوسرے دن وہی فوٹو ہمیں ایک اخبار میں نظر آیا ۔ جس کے نیچے لکھا تھا : مہاراج چوپٹ ناتھ جی ، مسز کپلا دیوی پروپرائیٹر بواسیر سپیشل کلینک ، کے ساتھ مرض بواسیر کی عوامی اہمیت پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں ۔

ملاقاتوں کے بعد ہمیں لنچ کرنے کا حکم ملتا ہے۔ ہمارا لنچ کیا ہونا چاہیئے یہ ہمارے تین باورچیوں اور ایک پولیٹیکل ایڈوائزر کی سب کمیٹی طے کرتی ہے۔ وہ اکثر و بیشتر انتہائی احمقانہ فیصلے کرتی ہے۔ہم نے بھوکم داس کو حکم دیا کہ اس سب کمیٹی میں شاہی نسل کے ایک فرد کو شامل کیا جائے کیونکہ وہ شاہی دسترخوان کی روایات سے واقف ہوتا ہے۔ بھوکم داس نے جواب دیا ۔ ہم آپ کی تجویز خوارک کی منسٹری کو بھیج دیں گے ۔

ہمارا کھانا انتہائی بیش قیمت لیکن انتہائی غیر متوازن ہوتا ہے ۔ ایک مرتبہ ہم نے بطور احتجاج فاقہ کیا اور حکم دیا کہ وزیر خوراک کو شرف ملاقات کے لئے ہمارے حضور پیش کیا جائے ۔ لیکن معلوم ہوا کہ وزیر خوراک ہوائی جہاز پر قحط زدہ علاقے کا دورہ کرنے گئے ہیں ۔یہ عجیب جمہوری نظام ہے کہ ہماری رعایا خوراک کی کمی سے بھوکی مر رہی ہے اور ہم خوراک کی فراوانی سے بھوکے مر رہے ہیں ۔

دورے کے بعد وزیر خوراک ہم سے ملاقات کے لئے آیا۔ ہم نے انتہائی طیش میں آکر کہا تم ہمارے کیسے نالائق وزیر ہو ؟ ہماری رعایا کو قحط کے ذریعے موت کا شکار بنا رہے ہو ؟ اگر اسی طرح ہماری رعایا قحط میں مرتی رہی تو ایک فرد بھی باقی نہ بچے گا ۔ ہم حکومت کس پر کریں گے؟

وزیر خوراک نے ہمیں آگاہ کیا کہ سراسیمگی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کیونکہ قحط زدہ علاقے میں صرف ایک ہزار افراد لقمہ اجل ہوئے ہیں لیکن اسی قحط کے دوران پانچ ہزار نئے بچے پیدا بھی ہوئے ہیں اس لئے قحط کی وجہ سے رعایا میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا ہے۔
لنچ زہر مار کرنے کے بعد ہمیں کہا جاتا ہے ۔ اب استراحت فرمائیے۔ ہمیں استراحت کے وقت رونا آجاتا ہے اور ہم ابھی پوری طرح کھل کر رو بھی نہیں پاتے کہ استراحت کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور ہمیں ایک ریشمی قالین پر با پیادہ چلا کر ہمارے دفتر لے جایا جاتا ہے۔جہاں ہمارے پندرہ سیکرٹری باری باری مختلف قسم کے کاغذات لے کر آتے جاتے رہتے ہیں ۔ سیکرٹری ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ کاغذات ملک کے اہم مسائل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔ ضرور رکھتے ہوں گے، اس لئے ہم ان سے مداخلت یا بحث مناسب نہیں سمجھتے۔ اگرچہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیکرٹری ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں ۔ لیکن وہ اتنے با اخلاق ہیں کہ انہوں نے ہماری بےوقوفی کا کبھی احساس نہ ہونے دیا۔بڑے احترام و عقیدت سے آداب و کورنش بجا لاتے ہیں اور ہم بھی بڑے وقار اور دبدبے کے ساتھ ہر کاغذ پر دستخط کر دیتے ہیں۔
ایک مرتبہ ایک سیکرٹری کی نظر بچا کر ہم نے ایک کاغذ ملاحظہ فرما لیا، جس پر لکھا تھا: ہم مہاراج چوپٹ ناتھ جی فرمان جاری کرتے ہیں کہ ملک بھر میں گھڑیاں سمگل کرنے کے جرم میں جتنے آدمی قید کئے گئے ہیں ۔ انہیں ووٹ کے حق سے محروم نہ کیا جائے ۔ کیونکہ ہماری شاہی جمہوریت کی فراخ دلی ایک سمگلر کو بھی شہری حقوق عطا کرتی ہے۔ ہم نے شاہی جلال میں آکر سیکرٹری سے کہا، ۔۔ ہم اس کاغذ پر دستخط نہ کریں گے ، کیا ہم اتنے کائر اور بد کردار ہو گئے ہیں کہ بد کرداروں کو بھی شرفاء میں شمار کرنے لگے ہیں۔
سیکرٹری نے عرض کیا: حضور ! ملک میں سمگلروں اور چوروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جس سے ووٹر وں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہےاس لئے ووٹروں کی تعداد بڑھانا سلطنت کے قیام کے لئے لازمی ہے۔

کیا ہماری سلطنت سمگلروں کے ووٹوں پر کھڑی ہے؟

زیادہ تر!

ہم نے سلطنت کی بقاء کی خاطر دستخط کر دئے اور پھر شام لو پروفیسر نشپھل داس کے سامنے اس بات کا ذکر کیا ، وہ ایک دردناک آہ بھرنے لگا ، اور جواب سے احتراز کیا ، ہم نے اصرار کیا ۔۔ جواب کیوں نہیں دیتے پروفیسر؟

وہ بولا ۔۔ مہاراج رموز شاہاں ، شاہاں بدانند ! ہم غریب لوگ ان رموز پر اپنی رائے ظاہر کر کے دو روٹیوں سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔

ہم نے پروفیسر کو دو روٹیوں سے محروم کرنا مناسب نہ سمجھا۔

بہرحال ہم بے حد دکھی ، بے حد مصروف اور بے حد بے وقوف انسان بنتے جا رہے ہیں ۔ ہم بادشاہ ہو کر غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس صورت حال پر ہماری چھوٹی رانی کے علاوہ کوئی خوش نہیں ہے۔۔


ہم چھوٹی رانی کو ایک بار پھر طلاق دینے کے متعلق سوچ رہے ہیں ۔
 
آخری تدوین:
ایک غیر ملکی سفیر
آج ایک غیر ملکی سفیر ہم سے ملنے آیا۔ وہ ہماری زبان نہیں جانتا تھا ۔ ہم اس کی زبان نہیں جانتے تھے ۔ ہمارے درمیان ایک تیسرا آدمی تھا جو کم بخت دونوں زبانیں جانتا تھا ۔ بات چیت کے دوران شک ہوا کہ وہ ہم تک وہ باتیں پہنچا رہا ہے جو ہمارے منہ سے نہیں نکلیں ۔ ایک بار سفیر مذکور قہقہہ مار کر ہنسنے لگا ، حالانکہ ہم نے اسے یہ کہا تھا کہ آپ کے شہنشاہ کون سے سگریٹ پیتے ہیں ؟ اسی طرح سفیر مذکور نے مکا تان کر کوئی بات کہی تو انٹر پریٹر نے ہمیں بتایا کہ سفیر مذکور کہہ رہے ہیں کہ ہمارا بادشاہ آپ کے بلے سے اپنی بلی کا عقد کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس پر ہم بھی قہقہہ مار کر ہنسے (لیکن اس کم بخت نے مکا کیوں تانا تھا؟) اس کے باوجود یہ ملاقات بے حد دل چسپ رہی اور ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے دو بہرے باتیں کر رہے ہوں ۔ اس نے ہماری خدمت میں ہتھنی کا ایک بچہ بطور ہدیہ پیش کیا ۔ ہم نے سیکرٹری کی ہدایت پر اسے ایک اعلی نسل کا گدھا پیش کیا کیونکہ ان کے ملک میں گدھے تو تھے لیکن اعلیٰ نسل کے نہ تھے۔ اور پھر ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ملک کے ساتھ جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے ۔ ہم نے سوچا ہتھنی اور گدھے میں جنگ ہونا ویسے بھی ممکن نہیں ہے۔
پانچ عجیب و غریب ملاقاتی

چند دن پہلے پانچ عجیب و غریب ملاقاتی ہماری قدم بوسی کو حاضر ہوئے۔ انہوں نے ہم پر انکشاف کیا کہ وہ پرانے انقلاب پسند ہیں اور شاہی تخت الٹانے میں ان کا نمایاں ہاتھ ہے۔ ہمارا جی چاہا کہ وزیر ڈیفنس کو بلا کر ان پانچوں کو قید خانے میں ڈال دیں ۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ مہاراج انہیں ایک بار قید خانے میں ڈال چکے ہیں۔ہم حیران ہوئے کہ ہم تو ان کی شکل بھی پہلی بار دیکھی ہے۔ اس کا مطلب ہے ہم ایسے ایسے انسانوں کو بھی گرفتار کرتے رہے ہیں جن کی صورت تک سے ہم آگاہ نہیں ہوتے۔ہمیں اپنے اس غیر انسانی کرتوت پر افسوس ہوا۔ لیکن ان پانچ انقلابیوں نے کہا کہ اب افسوس کرنا لاحاصل ہے۔کیونکہ اب ہم مہاراج کے وفادار خادم ہو چکے ہیں ۔ہمارا تختہ الٹنے والے ہمارے خادم بن جائیں ؟ یہ ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ ہماری عقل کتنی ناقص ہے۔
انہوں نے ہماری خدمت میں میمورنڈم پیش کیا۔ کیا دردناک زمانہ آیا ہے کہ پہلے میرے سامنے لوگ ہیرے جواہرات کے تھال پیش کرتے تھے ۔ آج کل کاغذ کے میمورنڈم پیش کرتے ہیں ۔ میمورنڈم کے پہلے حصے میں ہمارے دادا مرحوم سے ہمارے ننھے راج کمار تک کی تعریف و توصیف کی گئی تھی ۔یہ پہلا حصہ ہمیں بہت پسند آیا۔
 
دوسرے حصے میں ہم سے التجا کی گئی تھی کہ شاہی خاندان کے اندھا دھند اخراجات سے پرجا کی پیٹھ کبڑی ہوگئی ہے اس لئے شاہی اخراجات کم کریں ۔ مطالبے کی شدت کو نرم کرنے کے لئے ۔۔رضاکارانہ کمی ۔۔کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ یہ دوسرا حصہ ہماری توہین کے برابر تھا اور لفظ۔۔رضاکارانہ۔۔ کو ہم نےزندگی میں پہلی بار سنا تھا اس لئے یہ حصہ نہ ہماری سمجھ میں آیا نہ خاص پسند آیا اور ایک بار پھر ہمارا جی چاہا ، سپہ سالار کو بلا کر ان پانچوں کو گرفتار کروائیں ۔

لیکن ہمارے سیکرٹری نے ہمیں کان میں بتایا کہ سپہ سالار کو بلانے کے لئے کیبنٹ کی پیشگی منظوری لینی پڑے گی۔ہمیں بہت طیش آیا اور ہم نے میمورنڈم کے پرزے پرزے کر کے انقلاب پسندوں کے منہ پر پھینک دیئے۔ہمیں طیش میں دیکھ کر پانچوں انقلابی دم دبا کر بھاگ گئے۔

ہم نے بھوکم داس کو ٹیلی فون پر یاد فرمایا تو معلوم ہوا وزیر اعلیٰ اپنی نوجوان سٹینو گرافر مس رمبھا کو ساتھ لے کر چوہے مارنے کی مہم کی رسم افتتاح کرنے کے لئے ہل اسٹیشن پر گئے ہوئے ہیں ۔یہ ہماری سلطنت میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا اب چوہے بھی ہماری سلطنت کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہوگئے ہیں ؟
ہمارے خاندان نے ڈیڑھ سو برس اس ملک پر حکومت کی تھی ہمیں تو چوہوں نے کبھی پریشان نہ کیا تھا۔ شاید ڈیمو کریسی میں چوہے بھی شہ پا کر شیر ہوگئے ہیں ۔بلکہ انقلابیوں اور چوہوں دونوں میں یہ جرات پیدا ہوگئی ہے کہ ہمارےمنہ آئیں ۔لیکن یہ مس رمبھا وزیر اعلیٰ کے ساتھ کیوں گئی ہے ؟ کیا اب بازاری چھوکریاں بھی سلطنت کے مسائل میں دخل دینے لگی ہیں ؟ ہم نے چھوٹی رانی سےاس کا ذکر کیا تو وہ الٹا ہمارے منہ آنے لگی کہ حضور نے بھی تو مجھ جیسی بازاری چھوکری کو اپنے حرم میں داخل کر لیا تھا۔اب وزیر اعلیٰ کی باری ہے۔

ہمیں تاریخ ، انقلابیوں ، اور چوہے تینوں پر غصہ آگیا اور ہم ساری رات کروٹیں بدلتے رہے ۔

(چھوٹی رانی کو طلاق دینا ہی پڑے گی)
 

وزیر اعظم کی محبوبہ
وزیر اعظم بھوکم داس کے متعلق بہت تشویشناک رپورٹیں آ رہی ہیں۔ وہ چوہے مار مہم کے افتتاح کے بعد اپنی سٹینو گرافر مس رمبھا کو ساتھ لیکر ہی اسٹیشن چلے گئے ہیں۔ افواہ ہے کہ اس افتتاح پر وزیر اعظم کی گردن میں ایک ہزار روپے کے نوٹوں کا ہار ڈالا گیا تھا ، جو اس نے مس رمبھا کی گردن میں ڈال دیا اور کہا کہ مس رمبھا نے ہی چوہے مار دوا ایجاد کی تھی۔یہ بھی افواہ ہے کہ نوٹوں کا یہ ہار ان سمگلروں کی طرف سے بھینٹ کیا گیا تھا۔ جنہیں وزیر اعظم کے ایک فرمان کی رو سے ووٹ کا حق دیا گیا تھا۔

ہمارے محل کے اردگرد چہ میگویاں ہو رہی ہیں کہ بھوکم داس مس رمبھا کی زہد شکن زلفوں کا اسیر ہو چکا ہے۔ خفیہ طور پر شادی کرنے کے بعد وہ ہنی مون کے لئے ہل اسٹیشن پر چلے گئے ہیں ۔اگرچہ وزیر اعظم کے ہیڈ کوارٹر سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم ملک کے چند پیچیدہ سیاسی مسائل پر غور کرنے کے لئے مہاڑ کی شگفتہ فضاؤں میں چلے گئے ہیں۔

لیکن ہمارے ہیڈ باورچی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اور اس کا ہیڈ کوارٹر دونوں دروغ گو ہیں ۔ درحقیقت وزیر اعظم نے اپنی پہلی بیوی کو پاگل قرار دے کر طلاق حاصل کر لیا ہے اور مس رمبھا کو اپنے حرم میں داخل کر لیا ہے۔لیکن ہمارے ہیڈ ڈرائیور کی اطلاع یہ ہے کہ مس رمبھا اور ہیڈ باورچی میں دیرینہ عداوت تھی۔ غضب خدا کا ڈرائیور اور باورچی بھی ہمارے امور سلطنت میں دخل دینے لگےہیں ۔
ادھر جن انقلابیوں کو ہم نے بے عزت کر کے نکال دیا تھا ۔وہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مس رمبھا کو اغوا کر لیا گیا ہے اور اس اغوا میں مہاراج چوپٹ ناتھ کی آشیرواد بھی شامل ہے۔ہم نے اس تشویشناک صورت حالات سے پریشان ہو کر اپنے وزیر داخلہ گیدڑ جنگ کو یاد فرمایا اور پوچھا:-
گیدڑ جنگ ! بھوکم کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔
وہ بولا۔ مہاراج ! وہ شخص طاقت کا بھوکا ہے اور میری خفیہ پولیس کی اطلاع ہے کہ وہ حضور کو گرفتار کر کے خود ڈکٹیٹر بننا چاہتا ہے۔ اس لئے اس سے پہلے کہ آپ جیل میں جائیں ، اسے جیل میں ڈال دیجئے !

ہم نے اس خطرناک تجویز پر غور کرنے کا وعدہ کیا اور پھر اپنے سپہ سالار اعظم کو بلا بھیجا۔اس کمبخت نے ایک نیا انکشاف کیا کہ یہ ساری افواہیں وزیر داخلہ گیدڑ جنگ نے پھیلائی ہیں کیونکہ وہ خود وزیر اعظم بننا چاہتا ہے۔اس لئے راج نیتی کا تقاضا یہ ہے کہ وزیر داخلہ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے۔
ہم نے پوچھا ۔ یہ مس رمبھا کون ہے؟
وہ بولا ۔ وہ ایک پاک طینت دیوی ہے۔
۔ لیکن ہم نے سنا ہے کہ وہ ایک سمگلر کی بیٹی ہے۔
اس نے کہا ۔ جمہوری آئین کی رو سے سمگلر کی بیٹی ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔

ہم نے اس پر صاد کیا اور وزیر اعظم کی واپسی تک کسی کو بھی گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہ جمہوری راج نیتی ہمارے اندر بھی پروان چڑھتی جا رہی ہے۔جلال شاہی کا ہنگامی غصہ ہمارے اندر کم ہوتا جا رہا ہے۔

راجکمار کا ظہور
بڑی رانی کنچن بالا نے لونڈی کے توسط سے ہمیں آگاہ کیا کہ بطنِ شاہی سے ایک اور راج کمار کا ظہور ہونے والا ہے۔اس لئے جشن چراغاں کا اہتمام کیا جائے۔ہم نے لونڈی سے اپنے افلاس کا تذکرہ مناسب نہ سمجھا اور اسے کہہ دیا کہ بڑی رانی کو اس کی دور اندیشی پر ہماری طرف سے مبارکباد دو۔

لونڈی کے جانے کے بعد ہم مہارانی کی حماقت اور اپنی بے بسی پر زاروقطار روتے رہے۔ایک جمہوری راجہ اپنے راجکمار کا جشن منا سکتا ہے یا نہیں ، اس کے متعلق ہماری معلومات صفر کے برابر تھیں۔ہم نے توضیح کے لئے وزیر داخلہ کو بلا بھیجا۔اس کی آنکھیں اور مونچھیں بلی کی طرح تیکھی ہیں ۔اس لئے وہ ماتھے پر شکن ڈال کر بولا۔ مہاراج ! مجھے بھی جمہوریت میں شاہی حقوق کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے۔ البتہ ذاتی طور پر مشورہ ضرور دے سکتا ہوں کہ جشن کے اخراجات آپ کو خود برداشت کرنے چاہیئں۔

ہم نے دھمکی دی کہ ۔ شاہی روایات کا احترام کرنا چاہیئے اور رواج کے مطابق ہماری رعایا پر جشن ٹیکس لگا دیا جائے تاکہ ساری رعایا اپنے راج کمار کے جشن میں شرکت کرے۔
وہ بولا ۔ لیکن مہاراج! پرجا تو پہلے ہی ٹیکسوں اور مہنگائی سے نالاں ہے۔ نیا ٹیکس لگا دیا تو پرجا میں بغاوت پھیل جائے گی۔ آپ اس مسئلہ پر دوبارہ غور کیجئے۔

ہم غور کرنے لگے تو معلوم ہوا کہ مہنگائی کے ہاتھوں پرجا اور راجہ دونوں دکھی ہیں ۔ ہمارے شاہی خاندان کو جس میں چار رانیاں ، پندرہ راج کمار اور راج کماریاں ، پندرہ راج کماروں کے پندرہ کتے ،اور پندرہ کتیاں شامل ہیں ۔صرف دس لاکھ روپیہ سالانہ ملتا ہے۔جس سے بمشکل گوشت روٹی چلتی ہے۔مہینے کے آخر میں ہمیں سگریٹ تک ادھار منگوانے پڑتے ہیں۔اور صرف اپنی عزت کی خاطر اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر گزارہ کئے جا رہے ہیں ۔

ہم نے وزیر داخلہ سے کہا۔ تم ہمارے دانش مند وزیر ہو ۔ اس لئے کوئی معقول طریقہ سوچ کر ہمیں آگاہ کرو
وزیر داخلہ نے اپنی دانشمندی کے جوش میں ہمیں فوراً آگاہ کر دیا اور کہا ۔ مہاراج ایک طریقہ تو یہ ہے کہ حضور اپنی رعایا کے نام راجکمار فنڈ کی اپیل جاری کریں ۔ اس سے جمہوری سپرٹ قائم رہے گی اور جشن کے اخراجات بھی وصول ہو جائیں گے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ راج کمار کی پیدائش سے پہلے پہلے راج کمار کے نام ایکسپورٹ امپورٹ کا لائسنس منظور کردیا جائے اور اس لائسنس کو کسی بڑے تاجر کے ہاتھ بلیک میں بیچ دیا جائے۔

ہمیں دونوں تجویزیں ایک دوسرے سے بڑھ کر پسند آئیں اور ہمارا جی چاہا دونوں تجویزوں پر بیک وقت عمل کیا جائے۔ہم نے اپنا خیال وزیر داخلہ پر ظاہر کیا تو وہ اچھل کر بولا ۔ہاں اس سے رعایا اور تاجر دونوں اس راجکمار کو اپنا راجکمار سمجھیں گے۔

ہم نے دونوں تجویزوں پر صاد کیا (ہم کافی بے ایمان ہو گئے تھے ) اور پھر پوچھا ۔ شاہی روایات کے مطابق راجکمار کی پیدائش پر قیدیوں کی رہائی بھی ضروری ہے۔
گیدڑ جنگ بولا ۔۔ یہ ذرا مشکل ہے ۔ کیونکہ آئین اور جمہوریت میں راجکمار کی پیدائش کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے۔ البتہ اگر آپ کی ساری کابینہ یہ فیصلہ کر دے کہ ملک میں پیداوار بڑھ جانے کی خوشی میں قیدی رہا کئے جا رہے ہیں تو کوئی اعتراض نہ کرے گا۔
ہم نے کہا۔ لیکن ہم نے سنا ہے پیداوار تو گھٹ گئی ہے
وہ بولا۔ پیداوار کے اعداد و شمار میں ماہرین کی مدد سے تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے وزیر اعظم کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔
۔ اگر وہ کمبخت نہ مانے ؟
۔ تو حضور اپنے خصوصی اختیارات سے کام لیتے ہوئے اسے برطرف کر دیں ۔
ہم نے اس پر صاد کیا اور حیران ہوئے کہ اگر دانائی برتی جائے تو ، واقعی جمہوریت اور شاہی روایات شانہ بشانہ چل سکتی ہیں
 

دو ملاؤں میں مرغی
ہم نے وزیر اعظم بھوکم داس کی برطرفی کا فرمان جاری کر دیا اور اس کی بجائے گیدڑ جنگ کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کر دیا۔اس پر دار الخلافہ میں بڑی اتھل پتھل مچ گئی ۔ ایک ہی رات میں گیدڑ جنگ کے ڈھائی سو حمایتی اور بھوکم داس کے تین سو حمائتی لقمہ اجل ہو گئے ! ہم نے ان بے گناہوں کی موت پر ہمدردی کا پیغام جاری کر دیا۔نئے وزیر اعظم نے ہمارے فرمان اور پیغام ہمدردی دونوں کی لاکھوں کاپیاں چھپوا کر پرجا میں مفت تقسیم کر دیں لیکن مفت کاپیاں حاصل کرنے کے باوجود پرجا کا غصہ کم نہ ہوا۔گیدڑ جنگ نے مرنے والوں کے کنبوں کو پانچ پانچ سو روپے امداد دینے کا اعلان بھی کر دیامگر یہ امداد صرف گیدڑ جنگ کے حمایتیوں میں بانٹی گئی ۔ اور بھوکم داس کے حمایتیوں کے بارے میں ایک ہائی پاور کمیشن مقرر کیا کہ وہ ان کی موت کی تصدیق کرے۔
بھوکم داس جھک مار کر اپنا رومانی پروگرام کینسل کر کے دار الخلافہ لوٹ آیا ہے۔ اس نے ایک لاکھ آدمیوں کو اکٹھا کر لیا اور ایک جلسہ میں نہایت زہر آلود اور خطرناک تقریر کر ڈالی اور صاف کہہ دیا کہ مہاراج چوپٹ ناتھ پرجا کا لہو پی پی کر اپنا پیٹ پال رہا ہے۔اور ڈیموکریسی میں اسے کوئی حق نہیں کہ پرجا کے لہو سے اپنے راج کمار کا جشن منائے جبکہ پرجا کے بچوں کو ایک چھٹانک دودھ بھی میسر نہیں ہے۔
عوام (جو جاہل ہوتے ہیں ) اشتعال میں آگئے اور فلک شگاف نعرے لگائے۔
ہم چوپٹ ناتھ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔ ! !
اور مشتعل ہجوم پر بدمعاش بھوکم داس نے ایک اور جلتی ہوئی مشعل پھینکی۔ اٹھو ایک لاکھ مظلوم اور مفلس انقلابی جنتا مہاراج کے محل کا رخ کرے تو یہ شہنشاہی جبروستم پر جمہوریت کی آخری ضرب ہوگی۔ساتھیو ! ہمیں مہاراج چوپٹ ناتھ سے کوئی ذاتی کد نہیں ہے۔ ہمیں تو بچے کھچے شاہی نظام کی جڑ کاٹنا ہے۔ یہ شاہی محل عوام کی جائیداد اور ملکیت ہے! اس کی اینٹیں ہماری اینٹیں ہیں ہم انہیں توڑنا نہیں چاہتے۔آپ مجھے حکم دیجئے کہ میں ایک لاکھ کی مقدس آواز کوساتھ لے کر شاہی محل میں گونجا دوں؟

۔ گونجا دی جائے !۔ مقدس آوازوں نے حکم دیا ۔
۔حکم دیجئے کہ مہاراج کو آخری موقع دیا جائے ؟
۔ دے دیا جائے !

اس جلسے کی ساری رپورٹ گیدڑ جنگ نے نمک مرچ لگا کر ہمارے سامنے پیش کی اور ہم سے ایک وارنٹ گرفتاری پر دستخط کروالئے کہ ۔ دیش اور رعایا کے محافظ اعلیٰ مہاراج چوپٹ ناتھ جمہوریت کو فاشسٹ ہاتھوں سے بچانے لے لئے غدار بھوکم داس کو گرفتار کر کے جیل میں بند کردیا جائے۔

وارنٹ پر دستخط کرنے کے بعد ہمارا دل اس دنیا سے اکتا گیا۔ جی چاہا کہ چوری چھپے محل سے نکل کر بن باس چلے جائیں۔جہنم میں جائے یہ جمہوریت اور اس کے جنم داتا یہ بے ایمان لیڈر۔۔۔ اپنی اکتا ہٹ کا اظہار ہم چھوٹی رانی سے کرنے ہی والے تھے کہ دربان نے آ کر اطلاع دی ۔۔ بھوکم داس حضور سے شرف ملاقات کا متمنی ہے ۔
ہم حیران ہو گئے۔کیا وہ ہمارے بجھتے ہوئے چراغ کو آخری پھونک مارنے آیا ہے؟ ہم نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی اور ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی ، جب آتے ہی اس نے ہمارے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا۔ پانچ مزید سر اور پانچ لاکھ روپے کی ایک تھیلی بھی ہمارے قدموں پر آن گری۔
ہم نے کہا ۔ بھوکم داس ! یہ کیا ہے؟
وہ کتے کے زخمی پلے کی طرح کراہ کر بولا۔ مہاراج میں آپ کا قدیمی نمک خوار ہوں ۔ آپ کی زندگی خطرے میں ہے! غنیم آپ کو قتل کر کے خود راج گدی پر قبضہ کرنے کی نیت رکھتا ہے!
ہم نے استفسار کیا ۔۔ مگر یہ پانچ لاکھ روپے کس لئے ہیں؟
اس نے پانچوں آدمیوں کی طرف اشارہ کیا ۔ (جو خاصے موٹے تازے تھے)۔
یہ پانچ لاکھ روپے ان پانچ نمک خواروں کی پیش کش ہے۔ یہ سوداگر زادے ہیں ۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ راجکمار کا جشن منانے کے لئے مہاراج اپنی پرجا سے گڑگڑا کر مالی امداد کی اپیل کر رہے ہیں تو یہ کانپ اٹھے اور مجھے اپنے ساتھ کھینچ کر یہاں لے آئے۔حالانکہ مہاراج میں جانتا تھا کہ میرے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں ۔ لیکن مہاراج! آپ مجھے بے شک جیل میں ڈال دیجئے۔لیکن یہ پانچ لاکھ روپے ضرور قبول فرما لیجئے۔
یہ کہہ کر بھوکم داس کا گلا بھر آیا، ان پانچوں نمک خواروں کے گلے بھی بھر آئے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارا گلا بھی بھر آیا اور ہم نے بے اختیار بھوکم داس کو اپنے گلے سے لگا لیا۔اپنی پہلی بے وقوفی پر پچھتائے۔ اور اپنے سیکرٹری خاص کو بلا کر دو نئے فرمان جاری کئے ۔ ایک تو بھوکم داس کو پھر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنے کا اور دوسرا گیدڑ جنگ کو دھوکہ دینے کے جرم میں معطل کرنے کا!

بن باس کا پروگرام مسترد کر دیا گیا۔اور اس کی بجائے راج کمار کے جشن کا پروگرام منانے کا فیصلہ کر دیا گیا۔کیونکہ ان نمک خواروں نے عرض گزاری کہ یہ پانچ لاکھ روپے تو جشن کی صرف ابتدائی قسط کے اخراجات کے لئے دئے گئے ہیں ۔ پورے جشن کے اخراجات بھی ہم ہی ادا کریں گے۔

جمہوری نظام سے ہم ناحق ہی خوفزدہ ہورہے تھے۔اس نظام کی ڈھکی چھپی خوبیاں یہاں آہستہ آہستہ منظر عام پر آرہی تھیں
 
آخری تدوین:
Top