فیصل عظیم فیصل
محفلین
بغاوت کی خبر
آج ہماراہیڈ خزانچی لالہ بھرکم داس قدم بوسی کو حاضر ہوا۔ ایک طشتری ہیروں کی ، جن پر ملمع چڑھا ہوا تھا ہماری نذر کی اور پھر زاروقطار رونے لگا۔ ہم نے اس اشکباری کا سبب دریافت کیا تو وہ بولا ۔ حضور خزانے کی چابیاں سنبھال لیجئے۔ میں تو کیلاش پربت جا رہا ہوں ۔ باقی عمر یاد خدا میں بسر کروں گا۔ہم سکتے میں آگئے۔ کیونکہ لالہ بھرکم داس کے کنبے کے تعلقات خدا سے ٹوٹے ہوئے ڈیڑھ سو سال ہو چکے تھے ۔ ہم نے اس تجدید تعلقات کی وجہ پوچھی تو ہیڈ خزانچی نے گلو گیر آواز میں بتایا کہ خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ اس لیئے اب وقت آچکا ہے کہ خدا کی پرستش کی طرف توجہ دی جائے۔
یہ سن کر ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور جی چاہا چھوٹی رانی کو ساتھ لے کر ہم بھی کیلاش پربت کی طرف نکل جائیں ۔ بھرکم داس نے ہماری سراسیمگی بھانپ لی اور اس میں اضافے کی نیت سے کہا : حضور رعایا باغی ہو گئی ہے اور ادائیگی ٹیکس سے انکاری ہے۔ ہم نے جلال شاہی میں آ کر کہا ۔ بھرکم داس ! جاؤ اور سپہ سالار اعظم کو بلا کر ہمارا فرمان سناؤ کہ فوج لے کر رعایا پر چڑھائی کر دے۔
لیکن بھرکم داس نے بتایا کہ سپہ سالار تنخواہ نہ ملنے کے باعث بھاگ گیا ہے ۔ اور دوسرے فوجی اپنا اسلحہ وغیرہ مہاجنوں کے ہاتھ بیچ کر پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔ ہمیں بہت تعجب ہوا کہ ہماری سلطنت کی بنیادیں ہل گئی اور کسی نے ہمیں مطلع تک نہیں کیا۔ بھرکم داس نے بتایا کہ حضور زکام کی شکایت تھی اس لیئے شاہی طبیب کی ہدایت پر حضور کو اطلاع دینے کی گستاخی نہیں کی گئی ۔ ہمیں اپنے زکام اور حکیم دونوں پر سخت طیش آیا۔ جس نے زکام کی دو چار چھینکوں پر ہماری سلطنت قربان کر دی ۔ ہم نے اسی وقت شاہی حکیم کی برخاستگی کا حکم جاری کر دیا۔ (حکم نامہ سارا دن ہمارے پاس پڑا رہا۔ کیونکہ لے جانے والا ہرکارہ نہیں مل رہا تھا)۔
ہم لالہ بھرکم داس کے ساتھ نہت دیر تک سلطنت کی تباہی پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔لیکن سوائے کیلاش پربت پر تپسیا کرنے کے ہمیں کوئی مناسب حل نہ سوجھا۔اس لیئے کیلاش پربت جانے کے لیئے ہم نے اپنی موٹر تیار کرنے کا حکم دیا۔ لاکھن سنگھ ڈرائیور نے انکشاف کیا کہ پٹرول نہیں ہےاور پٹرول پمپ والا سابقہ بلوں کی ادائیگی کے بغیر پٹرول دینے سے انکاری ہے۔ ہمیں بیحد غصہ آیا ۔ لیکن بھرکم داس نے ہمارے ساتھ وفاداری کا اظہار کیا اور کہا :- حضور غصے سے موٹر نہیں چل سکتی کیونکہ غصے اور پٹرول میں ایک ٹیکنیکل فرق ہے۔ اس نے کل صبح تک پٹرول کا بندوبست کرنے کا وعدہ کر لیا۔
ہم لالہ بھرکم داس کی وفاداری پر بے حد خوش ہوئے اور فیصلہ کیا کہ تاج شاہی جاتے جاتے لالہ بھرکم داس کے سر پررکھ دیں گے ۔
قصر شاہی میں رات
ہم نے قصر شاہی میں ساری رات بے چینی میں کاٹی۔ گزشتہ پانچ پشتوں کے خون جگر کی پالی ہوئی سلطنت چھن جانے کے غم میں ساری رات غزلیں لکھتے رہے۔ رات گئے پانچوں رانیاں فلم شو دیکھ کر لوٹیں تو ان سے معلوم ہوا کہ لوٹتے وقت ہماری کار پر رعایا نے سنگ باری کی ۔ ہمارا شاہی دماغ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ رعایا کی بغاوت کا حقیقی سبب کیا ہے۔ مرحوم دادا جان مہاراج گورکھ ناتھ جی کی تحریر کی ہوئی کتاب ،، راجہ اور پرجا،، بہت دیر تک پڑھتے رہے لیکن اس سے بھی کچھ پتہ نہ چل سکا۔ تنگ آکر پھر غزلیں لکھنے لگے ۔
چاروں رانیوں نے ہمارے ساتھ کیلاش پربت جانے کا وعدہ کیا۔ لیکن سب سے چھوٹی رانی بھرت بالا نے کہا کہ میرا تو حضور کے ساتھ بیاہ ہی نہیں ہوا۔ میں تو ایک اغوا شدہ عورت ہوں اور پھر شاہی نسل اور خون سے بھی نہیں ہوں ایک مفلس کسان کی بیٹی ہوں۔ اس لیئے میں تو پرجا ہی میں سے ہوں ۔ پرجا میں جا کر پھر مل جاؤں گی۔
ہم نے رانی بھرت بالا کی اس بے وفائی پر ایک غزل اور لکھ ڈالی۔
نیا منتری منڈل
آج بھرکم داس پھر حاضر ہوا لیکن پٹرول نہیں لایا ۔ بلکہ پٹرول کی بجائے ایک دستاویز لایا اور کہا ،، حضور یہ نئی سرکار کا حکمنامہ ہے ۔ اس پر دست خط کر دیجئے تاکہ اسے حضور کی طرف سے رعایا کے نام بطور شاہی فرمان کے جاری کر دیا جائے ۔
شاہی فرمانوں پر دست خط کرنا ہماری دیرینہ اور خاندانی خصلت تھی اور ہم بغیر سوچے سمجھے فرمان جاری کر دیا کرتے تھے ۔ اس لیئے ہم نے اپنی خصلت کے زیر اثر دستخط کر دیئے۔ لیکن یہ سوچ کر ہمیں ہنسی بھی آئی کہ راجہ کے پاس پٹرول خریدنے کے پیسے نہیں ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہم بدستور راجہ ہیں اور فرمان جاری کر سکتے ہیں ۔
دستخط کرتے ہی ایک حیرت ناک واقعہ ظہور میں آیا۔ پردے کے پیچھے سے دو شخص اچانک نمودار ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں پٹرول کا ایک ایک ٹین تھا ۔دونوں ٹین انہوں نے ہماری نیاز میں گزارے۔ ہم نے پوچھا ،، بھرکم داس ! یہ دونوں حضرات کون ہیں ؟ کیا پٹرول پمپ کے مالک اور مینیجر ہیں؟ بھرکم داس نے بتایا ،، نہیں حضور یہ دونوں جنتا جناردھن پارٹی کے مقبول لیڈر ہیں اور رعایا میں بغاوت پیدا کرنے کا سہرا ان کے سر ہے ۔
یہ سن کر ہماری آنکھوں میں خون اترنے لگا ۔ لیکن کچھ زیادہ نہ اتر سکا کیونکہ ہم کل رات سے بھوکے پیاسے تھے۔لیکن جتنا خون بھی اترا اس کے زور پر ہم نے بھرکم داس کو حکم دیاکہ ان دونوں کو توپوں سے اڑا دیا جائے۔لیکن بھرکم داس نے وضاحت کی کہ اب آپ ایسا حکم نہیں دے سکتے۔کیونکہ ابھی ابھی آپ نے جس دستاویز پر دستخط کیئے ہیں اس کی رو سے آپ اب اس ملک کے راجہ نہیں رہے۔ بلکہ ڈیموکریٹ ہو گئے ہیں اور جنتا جناردھن پارٹی کے سربراہ ہو گئے ہیں ۔
ہماری سوجھ بوجھ پہلے بھی کچھ زیادہ اعلیٰ نہیں تھی لیکن ڈیموکریٹ بن کر اور بھی زیادہ گھٹیا ہو گئی ۔ پوچھا ،، بھرکم داس ! اپنی بات ہمیں سادہ الفاظ میں سمجھاؤ،،
اس نے سمجھایا کہ ہماری خاندانی بادشاہت اب ختم ہو گئی ہے اور عوامی راج قائم ہو گیا ہے۔ یعنی حکومت اب بھی ہماری ہی رہے گی لیکن ہم اسے اپنے نام پر نہیں ، جنتا جناردھن پارٹی کے نام پر چلائیں گے
یہ سن کر ہم مسرور بھی ہوئے اور مغموم بھی۔مسرت تو یہ تھی کہ ہم بدستور حاکم اعلی رہیں گے اور غم بلکہ فریاد یہ کہ ہمارے حکم اور مشورے کے بغیر ہم پر منتری منڈل ٹھونس دیا گیا ۔ چوری چھپے ہم نے ایک سرد آہ بھر کر حکم دیا۔ ہمارے منتری منڈل سے ہمارا تعارف کرایا جائے ۔
دونوں منتری کورنش بجا لائے اور ان میں سے ایک بولا حضور اس ناچیز کا نام اجاڑو سنگھ ہے اور میں آئیندہ سے وزیر جنگ کہلاؤں گا۔
دوسرا بولا،، خاکسار کو گیدڑ جنگ کہتے ہیں اور میں وزیر داخلہ کی گدی سنبھالوں گا۔
ہم نےکہا: اتنی بڑی سلطنت اور صرف دا وزیر! ، ہماری رعایا تو ہمیں بے وقوف سمجھے گی۔
لیکن ہم جنتا جناردھن پارٹی کے فیصلے اور حضور کی اجازت سے ابھی بیس پچیس وزیر اور تعینات کریں گے۔
ہم مطمئن ہوگئے اور بھرکم داس سے کہا ۔ ہم نے جس دستاویز پر دستخط کیئے ہیں ، ہمیں پڑھ کر سناؤ۔
ہمارا فرمان ہمیں سنایا گیا کہ ہم اپنی عظیم رعایا کی آرزوؤں کا احترام کرتے ہوئے اپنے شاہی اختیارات سے دست بردار ہوتے ہیں اور رعایا کی جمہوری جماعت کو راج کاج سونپ رہے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہماری رعایا ہماری چھتر چھایا میں رہے گی ۔
اگرچہ ہمیں اپنا جاری کردہ یہ شاہی فرمان پسند تو نہ آیا لیکن ہمیں بھرکم داس نے بتایا کہ اگر آپ اس فرمان پر دستکط نہ کرتے تو آپ کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔ گیدڑ جنگ اور اجاڑو سنگھ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ۔ اس لیئے ہمیں یقین آگیا کہ ڈیموکریٹک بن کر مرنا پھانسی کی موت سے زیادہ دانشمند انہ ہے۔
جب یہ خبر ہم نے جا کر اپنی رانیوں کو سنائی تو چھوٹی رانی کے سوا سبھوں نے اپنا سر پیٹ لیا اور انہوں نے اپنے سہاگ کی چوڑیاں توڑ دیں۔ لیکن اب ہم ڈیموکریٹ بن چکے تھے۔ اس لیئے ہمیں ان کے سہاگ لٹ جانے کا کوئی خاص افسوس نہ ہوا۔
شام کو ہم نے چھوٹی رانی کے ساتھ بالکونی پر تشریف لا کر بحل کے نیچے کھڑی ہوئی رعایا کے ہجوم کو درشن دئے۔ رعایا نے ہم پر پھول مالائیں پھینکیں۔ چوپٹ راجہ زندہ باد کے محل شگاف نعرے پھینکے اور ہم مسکرا تے رہے اور سوچتے رہے کہ یہ باغی رعایا تو ویسی ہی ہے جیسے پہلے تھی۔
رات کو ہم نے چھوٹی رانی کے ساتھ ۔۔جشن جمہوریت۔۔ میں شمولیت کی ، بھرکم داس نے اس رات جی بھر کر وہسکی پی اور ہماری چھوٹی رانی کے ساتھ ڈانس کرتا رہااور اس کے ساتھ مل کر انقلاب زندہ باد! کے نعرے لگاتا رہا۔ چھوٹی رانی نے ہارمونیم اپنی گردن میں ڈال کر حاضرین کو کچھ فلمی گیت سنائے جن میں جمہوریت وغیرہ کا ذکر تھا۔
کاغذی راج
آج صبح وزیر داخلہ گیدڑ جنگ قدمبوسی کے لیئے حاضر ہوا ، اس سے پہلے وہ بائیسکل پر آیا تھا۔ آج ایک طیارے کی شکل کی خوبصورت موٹرکار اس کے نیچے تھی۔
ہم نے استفسار کیا، گیدڑ جنگ یہ موٹر کہاں سے لائے ہو ؟
وہ بولا ۔ حضور ! وزیر داخلہ بننے کے اعزاز میں یہ کار مجھے عوام نے نذر کی ہے۔
ہمیں تعجب ہوا کہ ہماری رعایا بھی بہت لغو ہے خود تو بسوں میں دھکے کھاتی پھرتی ہے اور اپنے لیڈر کو کار بھینٹ کرتی ہے۔ لیکن گیدڑ جنگنے لفظ عوام کی مزید وضاحت کرتے ہوئےہمیں بتایا کہ یہ کار شری لوبھی رام گوبھی چند انڈسٹریلسٹ نے ہمیں عطا کی ہے۔ کیونکہ وہ بھی عوام میں سے ہے۔
ہم لوبھی رام گوبھی چند کو جانتے ہیں۔ وہ بہت ذہین اور دور اندیش آدمی ہے، عوام کے لیئے مندر اور خواص کے لیئے کاریں بنانا اس کی ہابی ہے۔
گیدڑ جنگ نے آج لباس فاخرہ پہن رکھا تھا ۔ حالانکہ کل وہ مل مزدور کی پوشاک پہنے ہوئے تھا ۔ ہمیں مسرت ہوئی کہ ہمارا وزیر داخلہ ایک پروقار شخصیت ہے، معمولی مل مزدور نہیں ہے۔
گیدڑ جنگ نے قدمبوسی کے بعد ایک خوبصورت مجلد کتاب ہماری نذر میں گزاریاور ہمارے منہ سے ایک عبرت ناک آہ نکل گئی۔ کہاں وہ زمانہ کہ ہماری آستاں بوسی کو آنےوالے جواہرات اور نقد روپے بھینٹ کرتے تھے اور کہاں اب چند کاغذوں کی کتاب شاہی قدموں کے نصیب میں رہ گئی۔ لیکن گیدڑ جنگ نے بتایا کہ حضور ! اب جمہوری راج ہو گیا ہے، جواہرات کا زمانہ لد گیا۔ ہم نے دل ہی دل میں کہا ۔ یہ جمہوری راج نہیں ہے گیدڑ جنگ ! کاغذی راج ہے۔
چار و ناچار ہم نے نذر قبول کر لی۔
گیدڑ جنگ کی نصیحت بلکہ ہدایت پر ہم دن بھر یہ کتاب پڑھتے رہے۔ کتاب کا نام تھا جمہوریت ۔۔ کیوں اور کیسے؟ گیدڑ جنگ نے ہمیں سمجھایا تھاکہ حضور! اب آپ کو جمہور پر جمہوری ڈھنگ سے حکومت کرنی ہے۔ اس لیئے علم جمہوریت سے آپ کا نابلد رہنا، آپ کے لیئے مضرت رساں ہے۔
اس کتاب کو ہم الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔ ایک ایک صفحہ کو تین تین بار پڑھا لیکن ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ نہ جانے اتنی مشکل کتاب کیسے لکھ لیتے ہیں۔ جو سلطنت کے سربراہ کی سمجھ میں بھی نہیں آ سکتی، عوام کیا خاک سمھیں گے؟ ہم نے اپنی سمسیا چھوٹی رانی کے سامنے پیش کی ۔ اس نے یہ کہہ کر میری سمسیا حل کردی کہ میں تو گڈرئیے کی بیٹی ہوں ۔ مجھے تو علم حاصل کرنے سے پہلے ہی اٹھا کر محل پہنچا دیا گیا تھا۔
ہم چھوٹی رانی سے مایوس ہوگئے اور اسے طلاق دینے پر غور کرنے لگے۔
لیکن چھوٹی رانی نے کہا۔ میں حضور کے لیئے ٹیوشن کا اہتمام کر دوں گی۔ کیونکہ تعلیم چاہے جمہوریت کی ہو یا تانا شاہی کی ، دونوں کے لیئے پروفیسر مل جاتے ہیں اور اتنے سستے مل جاتے ہیں جتنی ہماری خادمہ کی دھوتی ۔
آخری تدوین: