چوری سے یاری تک

”چوری سے یاری تک“





ڈاکٹر انور سدید انشائیہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں،
” انشائیہ زندگی کے موجودہ مظاہر، تجربات اور معمولات کو آزاد روی ، خوش خیالی اور زندہ دلی سے دیکھنے اور اس کے انوکھے گوشوں کو نثر کے تخلیقی اسلوب ، کفایت لفظی ، غیر رسمی انداز اور دوستانہ ماحول میں پیش کرنے سے عبارت ہے۔“
انشائیے کے ابتدائی نقوش قدماءکے ہاں نظرآتے ہیں مثلاً ملاوجہی کی ”سب رس“ ، غالب کے خطوط کے چند ٹکڑے ، مضامین سرسید ، ابولکلام آزاد کی کتاب ”غبار خاطر‘ ‘ کے کچھ حصے اور کرشن چندر کے چند مضامین میں انشائیے کی خوبیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
لیکن انشائیے کو الگ اور انفرادی حیثیت سے منوانے کا سہرا وزیر آغا کے سر ہے۔ اردو ادب میں ڈاکٹر وزیر آغا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ سرگودھا مکتبہ فکر کے بانی ہیں۔وہ ایک باشعور نقاد ، محقق ، شاعر اور انشائیہ نگار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عمدہ ادب کو آگے بڑھانے کے لئے ایک ادبی رسالے ”اوراق “ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا نام انشائیے سے کچھ اس طرح جڑ گیا ہے کہ جیسے ہی انشائیے کا نا م سامنے آتا ہے ۔ ذہن فوراً وزیر آغا کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے انہوں نے جس محنت ، لگن اور انہماک کے ساتھ اس صنف کے انفرادیت کو ابھارنے کی کوشش کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اب تک اُن کے انشائیوں کے چار مجموعے ”خیال پارے “ ” دوسرا کنارا“ ، ” سمندر میر ے اندر گرے“ اور ”چوری سے یاری تک“ کے عنوان سے منظر عام پر آچکے ہیں۔ان چاروں مجموعوں کو ”پگڈنڈی سے روڈ رولر تک“ کے نام سے ایک جلد میں جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کے انشائیوں سے متاثر ہو کر انشائیہ نگاروں کی ایک کھیپ اس صنف ادب میں تخلیقی صلاحیتیں آزما رہی ہے۔ آئیے اُن کی انشائیہ نگاری کا کی خصوصیات کا جائزہ اُن کی کتاب ”چوری سے یاری “ کی روشنی میں لیتے ہیں۔

رنگا رنگ موضوعات:۔

ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے رنگا رنگ موضوعات کے حامل ہوتے ہیں ۔ وہ جس موضوع پر بھی انشائیہ لکھتے ہیں وہ ان کے ذہنی ، فکری اور جذباتی ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر انشائیہ ان کے شخصی تجربے اور مشاہدے کا حاصل ہوتا ہے۔ اُن کی اپنی زندگی کی رنگا رنگی ان کے انشائیوں میں کشادگی کا باعث بنی ہے اور اُن کی تخلیقی جوہر نے انشائیے کو نیا زوایہ نظر عطا کیا ہے۔ وہ اپنے دلچسپ اور انوکھے تجربے میں قاری کو شریک ہی نہیں کرتے بلکہ اسے اپنا ہم خیال بنا لیتے ہیں۔ ”سیاح“ ،”چیخنا“ ”فٹ پاتھ“ ، ”کچھ رشتہ داروں کی شان میں“ ، ”درمیانہ درجہ“ ، اور ” طوطا پالنا“ ایسے انشائیے ہیں جن میں انہوں نے چھپے ہوئے ایسے تعجب خیز پہلوئوں کی طرف اشارہ و انکشاف کیا ہے کہ قاری اُن کے تجربے اور مشاہدے میں شریک ہو کر مسرت محسوس کرتا ہے۔ یہ تمام انشائیے اپنی انفرادیت کے باعث قابل توجہ ہیں ۔ اور کسی نہ کسی چھپی ہوئی صداقت کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً انشائیہ”چیخنا“ میں ہنسی ، غم اور چیخ کا موازنہ کرکے اس اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ،
چیخ ایک معمولی تحریک سے وجود میں نہیں آتی ۔ یہ تو صرف زندگی اور موت کے سنگم پر نمودار ہوتی ہے۔ جب ایک طرف موت کا خونی جبڑا ظاہر ہوتا ہے اور دوسری طرف زندہ رہنے کی شدید آرزو اُبھرتی ہے۔“

زندگی سے محبت:۔

یاسیت اور قنوطیت کا انشائیے کے فن سے دور کا واسطہ نہیں۔ ناول ، ڈرامہ اور افسانہ ، شاعری وغیرہ میں غم و دکھ کو بیان کرنے کی بے پناہ گنجائش موجود ہوتی ہے۔ لیکن یہ دکھ درد انشائیے کا سنجیدہ پہلو موجود نہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیوں میں غم لطیف صورت میں نمودار ہو کر قاری کو مضمحل کر نے کے بجائے سبک خیال بنا دیتا ہے۔ وہ زندگی کے روشن اور صحت مند پہلوئوں پر توجہ دیتے ہیں وہ ہمیں زندگی سے محبت اور وابستگی سکھاتے ہیں ۔ ہمیں دکھ درد اور مصیبت میں امید کی کرنیں دکھاتے ہیں ۔ ان کے ہاں فتح میں عظمت کی دلیل نہیں بلکہ شکست میں بھی مردانگی، امیری میں عزت و افتخار کا نشان نہیں بلکہ غربت و افلاس میں شانِ فقیری ہے۔
انشائیہ ”سیا ح “ میں مسافر اور سیاح کے بنیادی فرق کو گرفت میں لیتے ہوئے قاری کی توجہ اس طرف دلاتا ہے ۔ وہ سفر کے دوران بھی زندگی کی تمام آسائشوں کی خواہش کرتا ہے۔ اس طرح سفر کرتے ہوئے سفر کی نفی کرتا ہے۔ جبکہ سیاح ہر بندھن اور پابندی سے آزاد اپنی خوشی کے لئے سفر کرتا ہے اور نئے مناظر کو دیکھنے کی لگن اُسے ہر سہولت اور ہر آسائش کو تج دینے پر آمادہ کرتی ہے۔

زندگی کے نئے پہلو اور گوشے:۔

ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے میں زندگی کی نئی پرتیں ، نئے پہلو ، نئے گوشے اور نئے زاویے نمایاں ہیں۔ اُن کا ہر انشائیہ زندگی کے کسی بڑے اہم مسئلے کی طرف لطیف انداز میں اشارہ کرتا ہے۔ ”چوری سے یاری تک“ میں پوری پاک و ہند کی تہذیب و ثقافت کا احاطہ بڑے دلفریب انداز میں کیا گیا ہے۔ ”بس اتنی سی بات “ میں فطرت اور سماج کے اُس لامتناہی سلسلے کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ہمارے دیکھتے ہی جانے پہچانے بچپن کے دوست احباب اور دوسرے لوگ مختلف سانچوں میں ڈھل کر ہمارے سامنے جلوہ نمائی کرتے ہیں۔
” کوئی خان بہادرہے کوئی زمیندار ہے کوئی ساہو کار ہے کسی نے مجسٹریٹ ، تھانیدار یا پروفیسر کا لباس پہن لیا ہے۔ اور کوئی بے یار و مدد گار ہے۔“

فطرت سے محبت:۔

وزیر آغا فطرت کے شیدائی ہیں۔ اُن کی فنی اور شخصی زندگی میں ” دیہات“ اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ دیہاتی زندگی کو پسند کرتے ہیں ۔ کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ شہر کی محفلوں میں تنہائی ہے جبکہ دیہات کی تنہائی میں بھی فطرت کی جلوہ گری کی وجہ سے انسان اکیلا نہیں ہے۔ دیہات ایک ایسی محفل ہے جہاں ہر انسان فطرت کے قریب ہے اور اُس سے براہ راست ہم کلام ہو سکتا ہے۔ اُن کے لئے یہ احساس خاصہ تلخ ہے کہ فطرت اور انسان کے درمیان شہر وں نے اونچی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔اس کا اظہار وہ اپنے انشائیے ”فٹ پاتھ “ میں کچھ یوں کرتے ہیں۔
”جب سرخ ساڑھی میں لپٹی ہوئی شام آسمان کے بام و در سے لحظہ بھر کے لئے جھانکتی ہے تو میں چھڑی ہاتھ میں لئے گنجان سڑک کے ساتھ چمٹے ہوئے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کے لئے نکل آتا ہوں۔ اس اُمید کے ساتھ کہ شائد میں آج اُس حسینائے فلک کے درشن کر سکوں لیکن آسمان سے آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی دیواروں کے شہر میں میری نظر اُس حد تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔“

وٹ(wit):۔

ڈاکٹر وزیر آغا اپنے انوکھے تجربے اور مشاہدے کو تخلیقی گرفت میں لے لیتے ہیں اسی لئے ہم اُن کے انشائیوں میں فطرت انسانی کو تاریخی ، سماجی ، سیاسی مذہبی اور ثقافتی پس منظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح اُن کے انشائیے ہمیں زندگی کی عام سطح سے بلند کر کے زندگی کو وسیع اور کشادہ تناظر میں دیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اُن کے انشائیوں میں وٹ(wit) کا خاص عمل دخل ہے۔ ”چور ی سے یاری تک “ کے تمام انشائیے اس زمرے میں آتے ہیں ۔ وہ اپنی پراسرار ذہنی صلاحیت سے بظاہر غیر مشابہ چیزوں میں باہم ربط تلاش کر لیتے ہیں اور اس طرح ایک چھپی ہوئی حقیقت کا نکشاف ہو جاتا ہے۔ جو انشائیے کی بنیادی ضرورت ہے۔ ان کے ”چوری سے یاری تک“ ، ”طوطا پالنا“ ، میں انسانی زندگی میں نئی جہت ”چیخ “ میں نغمگی اور مسافر سے سیاح تک کا سفر ہر جگہ متضاد پہلوئوں میں نئی معنی دریافت کیے گئے ہیں۔ اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیت میں (Wit) کی آمیزش سے انشائیوں کو خوشگوار مزاج اور لطیف طنز سے آشنا کراتے ہیں۔ لیکن اُن کے طنز میں نرمی ، شائستگی اور تہذیب ہے۔ کسی کی دل آزاری مقصود نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ انشائیے کا نازک آبگینہ غیر شائستگی اور عامیانہ پن کا متحمل بھی نہیں۔ اس لئے انشائیے میں ان کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اور پھر ڈاکٹر وزیر آغا جیسے انشائیہ نگار تو بطور خاص انشائیہ کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔

شاعرانہ اسلوب:۔

یہاں ہندی ڈکشن اور شاعرانہ اسلوب قابل توجہ ہے۔ وزیر آغا کے شاعری کے چار مجموعے منظر عام پر آئے ہیں۔ شام اور سائیں ، دن کا ذرد پہاڑ، آدھی صدی کے بعد ، نردبان۔
اس لئے اُن کا شاعرانہ اسلوب نثر میں بھی نمایاں ہے۔ وزیر آغا کے ہاں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ وہ ”کیا کہہ رہے ہیں“ لیکن ایک انشائیہ نگار کی حیثیت سے وہ اس حقیقت پر بھی کڑی نظر رکھتے ہیں کہ وہ”کس طرح کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ اُن کے انشائیوں میں فکر و فن کا حسین امتزاج ملتا ہے۔

تہذیب و تمدن:۔

وزیر آغا کی تمام تخلیقات میں انسانی تمدن و تہذیب کے خاص پہلو نظر آتے ہیں۔ وہ تہذیب اورشائستگی کو معاشرہ کے لئے لازمی سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے اُن کے ہاں آزادی اور پابندی ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ لازم و ملزوم ہے۔ کیونکہ کھلی آزادی انسانوں کو بے راہ روی اور انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔ جبکہ بے جا پابندیاں بھی معاشرے میں مفید افراد پیدا نہیں کر سکتیں۔ اس لئے ان دونوں کو توازن کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس اہم حقیقت کا انکشاف علامتی انداز میں انشائیہ ”دیوار “ میں کیا گیا ہے۔
” مجھے یہ سب دیواریں پسند ہیں، یہ دیواریں میری آوار ہ خرامی اور بے راہ روی کے راستے میں سینہ تان کر کھڑی ہو گئیں ہیں۔ ان دیواروں نے میری ذات کی حدود کو متعین کردیا ہے۔ میری آواز کی بے مقصد پرواز کو روکا اور میرے جذبے کے اندھے طوفان کے راستے میں بند باندھ دیا ہے۔“

علامتی انداز:۔

معاشرے میں انسانوں کے لئے سیاسی ، سماجی اور اخلاقی پابندیاں ایسی ہی دیواریں ہیں جو ہمیں دوسروں کے حقوق کا احساس دلاتی ہے اور ہماری حد کو متعین کرتی ہے۔ اس طرح انشائیہ”فٹ پاتھ“ کو طبعاً اور مزاجاً مرد اور عورت کی علامتوں کے طور پر پیش کیاگیا ہے۔ مرد سیماب صفت سڑک ہے اور عورت چنچل اور سست گام فٹ پاتھ کی طرح ہے۔ اس مماثلت کے بعد زمانی اور مکانی سطح پر ماضی کی یادوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ فٹ پاتھ کی طرح دوسرا انشائیہ ”حقہ پینا“ ہے۔ اس میں سیماب صفت اخلاقیات کے مقابلے میں وزیر آغا دیرپا انسانی قدروں کا انتخاب کرتے ہیں اور یوں” حقہ پینا“ بین الاقوامی بھائی چارے کی علامت بن کر اُبھر تا ہے۔ ”کچھ رشتہ داروں کی شان میں “ دلچسپ انشائیہ ہے۔ جس میں ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ دوست تو ہم اپنی مرضی سے بناتے ہیں لیکن رشتہ دار آسمانی آفات کی طرح آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں وہ ہماری رشتہ داری میں رہتے ہیں ۔ عام زندگی میں اکثر لوگ رشتہ دار کی گزیدہ نظر آتے ہیں۔ اس لئے اس عمومی موضوع کا انتخاب کرکے وزیر آغا نے قاری کو اپنا ہم خیال بنا لیا ہے۔
”طوطا پالنا“ ایک معمولی اور پامال موضوع ہے۔ لیکن وزیر آغا نے اس معمولی موضوع کو زندگی کے تین مدارج سے جو ڑ کر اس میں انوکھا پن پیدا کیا ہے۔ وہ علامتی انداز اختیار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”پہلا دور وہ جس میں آپ کبوتر پالتے ( بلکہ اڑاتے ہیں) دوسرا وہ دور جس میں آپ مرغ پالتے ( بلکہ لڑاتے ہیں) تیسرا وہ دور جس میں آپ طوطاپالتے اور گھنٹوں بڑبڑاتے ہیں۔ اڑانے ، لڑانے اور بڑبڑانے کے انہی تین مدارج سے یہ زندگی عبارت ہے۔“
یہی علامتی انداز” درمیانہ درجہ“ میں بھی اختیار کرکے معاشرے کے تین طبقوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ معاشرے کی طبقاتی تقسیم میں امیر ، متوسط اور غریب لوگ شامل ہیں۔ا ور اس تقسیم میں سب سے زیادہ پسنے والا طبقہ متوسط ہے ۔ کیونکہ ایک طرف اُسے اپنے سفید پوشی کا بھرم رکھنا پڑتا ہے۔ اور دوسر ی طرف نچلے طبقے کا زہر بھی اُس کے گلے میں اترتا رہتا ہے۔ ان تین طبقوں کی ریل گاڑی کے تین درجوں کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ اور اس طرح سماجی سطح پر ان تین طبقوں کا نفسیاتی تجزیہ اس انشائیے کی خاص بات ہے وہ لکھتے ہیں،
” اونچے درجے کا مسافر آرام سے گہرے نیند سوتا ہے اور نچلے درجے کا مسافر سونے کی بدعادت میں مبتلا ہی نہیں ۔ اسی لئے خواب ان میں سے کوئی بھی نہیں دیکھتا۔ خواب تو صرف درمیانے درجے کے مسافر کے لئے مختص ہے۔“

عرفان ذات:۔

انشائیے میں انکشاف ذات کا عمل کچھ اس طرح سے ظہور پذیر ہوتا ہے کہ فنکار کی ذات کے دلکش اور لطیف گوشے ظاہر ہو جاتے ہیں جن سے قاری لطف انداوز ہو جاتا ہے۔ فنکار اور قاری کی شخصیت ہم آہنگ ہو کر زندگی کی بے زاری سے الگ ہو کر نئی حقیقت سے آشنا ہونے کی مسرت اُٹھاتی ہے۔ انشائیہ نگار کے لئے ذاتی حوالے کی جو شرط عائد کی گئی ہے۔ اُس کے روشن نقوش وزیر آغا کے انشائیوں میں جابجا ملتے ہیں اور اکثر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا انشائیے کے وسیلے سے اپنی ہی ذات یاترا کرا رہے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی اُن کے بارے میں درست لکھا ہے،
” وزیر آغا کا انشائیہ ان کی رنگا رنگ شخصیت کا عکس ِ جمیل ہے۔ ان کی طبیعت میں جو دل آویزی ، نرمی ، رچائو اور شائستگی ہے۔ زمین کے رشتوں کو انہوں نے جس طرح چاہا اور نبھایا ہے وہ ایک ایک سطرسے جھلکتا ہے۔“

حقیقت کی تلاش:۔

”چوری سے یاری تک“ کے تمام انشائیوں میں وہ حقیقت کے متلاشی اور مظاہر فطرت کا عرفان حاصل کرنے کا آرزو مند دکھائی دیتے ہیں ۔ اُن کے انشائیوں میں زندگی گزارنے کا ڈھنگ ،زندگی کا فلسفہ ، نئی اور پرانی اقدار کا تقابلی جائزہ ، اقتصادی مسائل سے آگاہی ، تہذیبی سلسلوں کا شعور ، معتدل انداز بیان ، تشبیہات کا استعمال اور ہلکے پھلکے طنز و مزاح کی چاشنی سبھی کچھ ملتا ہے۔ جو ذہن کو سوچ کا مواد مہیا کرتا ہے اور تازگی اور راحت کا باعث بنتا ہے۔ اُن کے انشائیوں میں ایسی تازگی ہے کہ دن بھر کا تھکا دینے والا کام کاج کے بعد ذہن میں آسودگی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ اُن کے انشائیے ہمارے موجودہ مسائل کی ایسی یک رخی تصویر ےں ہیں جن کا دوسرا رخ پڑھنے والا خود ڈھونڈ سکتا ہے اور ایسا کرنے میں مسرت بھی محسوس کرتا ہے۔
وزیر آغا اپنے انشائیوں میں مخفی معنی تلاش کرنے اور انہیں اجاگر کرنے پر زور دیتے ہیں ۔ اور اس طرح اُن کے ہاں تازگی اور ندرت پیداہوجاتی ہے۔ اُن کی انشائیوں میں عرفان زات بھی ہے اور انکشاف ذات بھی اُن میں دعوت فکر بھی ہے۔ سنجیدگی بھی اور اسلوب کی شگفتہ کاری بھی۔

مجموعی جائزہ:۔

اردو کی کسی صنف کی مکمل اور حتمی تعریف ابھی تک وضع نہیں ہوئی ۔ اس کے باوجود وزیر آغا نے انشائیے کی ایک ایسی تعریف وضع کی ہے جو اس کے کئی پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔اُن کا خیال ہے کہ،
”انشائیہ اُس صنف نثر کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار ، اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہر کرتے ہوئے مظاہر فطرت کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طرح سے گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آکر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔“
سچ تو یہ ہے کہ اُن کے بیشتر انشائیے اس تعریف پر پورے اُترتے ہیں کیونکہ وہ اپنے تخلیقی عمل کو سوچ سمجھ کر اس کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر پورا کرتے ہیں۔ اُن کے ہاں اسلوب کی تازہ کاری، معنی کے نئے اُفق اور انسانی شعور کی نئی سمتیں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے انشائیے ہماری ذہنی بالیدگی میں اضافہ کرتے ہیں اور ہمارے تہذیبی شعور کو جلا بخشتے ہیں۔ صنف انشائیے کے افق پر جو نمایاں روشنی ہے اُس کا ماخذ وزیر آغا کی شخصیت ہے۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ جناب ۔۔
اس قدر مفصل اور پر مغز گفتگو پیش کرنے کیلئے ۔
میرے پاس رات ہی ۔۔ فکرِ نو شمارہ آیا ہے ۔۔ اس میں انشائیہ پر
ڈاکڑ وزیر آغا صاحب ایک تحقیقی مضمون شامل ہے ۔
کیا میں‌اسے اسکین کر کے یہں پیش کرسکتاہوں ؟
 
Top