چند ٹکّوں کے۔

رشید حسرت

محفلین
چند ٹکّوں کے سبب سر جو اکڑ جاتے ہیں
ایسے سر چھوڑ کہیں دور کو دھڑ جاتے ہیں

سچ کے پارس کو پرکھنے کا سلیقہ سیکھو
جھوٹ پھر جھوٹ ہیں لمحات میں گھڑ جاتے ہیں

دل کا یہ زخم نہ بھرنے کا سبب تو ھوگا
سوزِ احساس سے ٹانکے جو اُدھڑ جاتے ہیں

جنگ لڑتے ہیں جو اوروں کے مقاصد کے لیئے
آخرِ کار وہ جنجال میں پڑ جاتے ہیں

جن کے ھونٹوں پہ خموشی کی مُہر ھوتی ھے
زیست کے پیڑ سے چپ چاپ وہ جھڑ جاتے ہیں

نکتہ چینوں سے کہو، بات کا حاصل کیا ھے؟
بات بے بات یہ نکتوں پہ جو اڑ جاتے ہیں

کون ھوتا ھے سدا ساتھ نبھانے والا
سب ہی دو چار قدم چل کے بچھڑ جاتے ہیں

یوں تو پت جھڑ میں سبھی پیڑ اُجڑتے ہیں مگر
ھم سی٘ہ بخت بہاروں میں اُجڑ جاتے ہیں

حسرتِ گل میں سبھی بھول گئے تھے کانٹے
کیا خبر تھی کہ یوں حالات بدل جاتے ہیں۔

رشید حسرتؔ، کوئٹہ۔
 
Top