ساغر صدیقی چند اشعار - ساغر صدیقی

چند اشعار

آؤ بادہ کشوں کی بستی سے
کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں
میں فسانے تلاش کرتا ہوں
آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں


انقلابِ حیات کیا کہیے
آدمی ڈھل گئے مشینوں میں
میرے نغموں ک دل نہیں لگتا
ماہ پاروں میں، مہ جبینوں میں
جاؤ اہلِ خرد کی محفل میں
کیا کرو گے جنوں نشینوں میں


رہبروں کے ضمیر مجرم ہیں
ہر مسافر یہاں لٹیرا ہے
معبدوں کے چراغ گْل کر دو
قلب انساں میں اندھیرا ہے


جامِ عشرت کا ایک گھونٹ نہیں
تلخی آرزو کی مینا ہے
زندگی حادثوں کی دنیا میں
راہ بھولی ہوئی حسینہ ہے


نور و ظلمت کا احتساب نہ کر
وقت کا کارو بار سانجھا ہے
اس طلسمات کے جہاں میں حضور
کوئی کیدو ہے کوئی رانجھا ہے


وقت وارث کا صفحہء قرطاس
ہیر دنیا کا اجنبی قصہ
جھنگ سہتی کے مکر کی نگری
اور کیدو خیال کا حصہ


کوئی تازہ الم نہ دکھلائے
آنے والی خوشی سے ڈرتے ہیں
لوگ اب موت سے نہیں ڈرتے
لوگ اب زندگی سے ڈرتے ہیں


چند غزلوں کے روپ میں ساغر
پیش ہے زندگی کا شیرازہ


ساقیا تیرے بادہ خانے میں
نام ساغر ہے مے کو ترسے ہیں


اس منزلِ حیات سے گزرے ہیں اس طرح
جیسے کوئی غبار کسی کارواں کے ساتھ


ساغر صدیقی​
 
Top