چند اشعار بغرض اصلاح

دھوپ میں ہم جو کھڑے رہتے ہیں
یار سائے میں پڑے رہتے ہیں

اب بھی زندہ نہ ہو تُو مجھ میں کہیں
کان آہٹ پہ کھڑے رہتے ہیں

اُونگھ آئے توبسا لیتا ہوں گھر میں
خواب رستے میں پڑے رہتے ہیں

زخم دشنوں کے تو بھر جاتے ہیں
تیر لہجوں کے گڑے رہتے ہیں

درد خوشیوں سے تصادم کے لیے
دل کی چوکھٹ پہ کھڑے رہتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ بس ایک مصرع بحر سے نکل گیا ہے۔
اُونگھ آئے توبسا لیتا ہوں گھر میں
اس کو
اُونگھ آئے توبسا لوں گھر میں
کر لیں
 
Top