چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کے خاندانی حالات اور حسبی و نسبی واقعات

شمشاد

لائبریرین
شعیب بھائی نے یہ کتابچہ دیا تھا برقیانے کو۔

چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کے خاندانی حالات اور حسبی و نسبی واقعات

چھوٹا سا کتابچہ ہے، صرف 32 صفحے۔ آج تک جتنے بھی صفحے ٹائپ کیئے ہیں، ان صفحوں کا متن پہلے کے صفحوں سے خاصا زیادہ ثابت ہوا۔
بہرحال یہ کتابچہ بھی اختتام کو پہنچا۔ متن ادھر ہی پوسٹ کر دیتا ہوں۔

ریختہ پر ربط

لٹل لیڈی گوگل ڈاکس کی ذمہ داری تمہاری ہے۔

شعیب بھائی آپ کو الگ سے ورڈ کی فائل ای میل کر دی ہے۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
صفحہ کتاب 3، صفحہ ریختہ 1

786

چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کے خاندانی حالات اور حسبی و نسبی واقعات

جس زمانہ میں کہ ہندوستان جنتِ نشان کی زمام فرمان راوئی حضرت ابو الفتح نصیر الدین محمد شاہ بادشاہ فردوس اس مگاہ کے دست قدرت مین تھی۔ اور شہر شاہ جھان آباد (دہلی) پر سرسبزی و شادابی کے چاعث جوبن پھٹا پڑتا تھا۔ ایک شخص غریب الوطن مُفلس و آوارہ، لیکن شریف خاندان، عالی ہمت خواجہ محمد حسین خان نام قصبۂ باہہ (جو سادات زیدی کا مسکن و مقام ہے) کا رہنے والا وارد دہلی ہوا۔ چونکہ ملکی و مالی حالات سے ہر سلیقہ شعار، بلند فطرت تھا، اس لیے بہت جلد اپنی جوہر کاردانی کے باعث آحمد آباد (گجرات) کے ناظم کی طرف سے کڑوڑ گیری پر مامور ہوا۔ مزاج میں عیاشی اور حسن پرستی کا چسکا بہت تھا۔ اس لیے عقد کے لیے کسی خوبصورت عورت کی تلاش شروع کی۔ اتفاقاً ایک بزرگ خواجہ زادگان سے کاٹھیاواڑ کے رہنے والے آحمد آباد (گجرات) میں مقیم تھے۔ لیکن غربت کے باعث نہایت مستغنی المزاج دولت دنیا سے فارغ و بیفکر رہتے تھے۔ اون کو ایک لڑکی ماہ پیکر، رشک حور چندا بی بی موجود تھی۔ چنانچہ خواجہ محمد حسین خان نے پیام بھیج کر


صفحہ کتاب 4، صفحہ ریختہ 2

ان بزرگ کو راضی کیا۔ اور اس لڑکی کو اپنے حبالۂ عقد میں لایا۔ ایک مدت کے عیش و کامرانی میں (19) بچے پیدا ہوئے۔ مگر حوادث روزگار کے باعث اکثر کم سنی میں چل بسے۔ صرف پانچ بچے مثل حواس خمسہ زندہ باقی رہے۔ جو آیندہ عمر طبعی کو پہنچے۔ ان میں دو لڑکے غلام حسین و غلام محمد نام تھے۔ اور تین لڑکیا جن کو نور بی بی، بولن بی بی، میدہ بی بی کہتے تھے۔

چونکہ فلک کج رفتار کی چال ایک وضع پر نہیں رہتی۔ اور خواجہ محمد حسین خان کی زندگی ہمیشہ عیش و طرف میں گزرتی تھی۔ اس کے ساتھ اصراف و فضول خرچی بھی طبیعت میں بہت تھی، چنانچہ اس اصراف و فضول خرچی کے بدولت ذاتی رقم کے علاوہ بہت کچھ سرکار کی امانتی رقم بھی خان مذکور کے تصرف میں آ گئی۔ دشمنوں نے اس کی خبر ناظم آحمد آباد کو پہنچائی۔ فوراً حساب کی جانچ پڑتال کی گئی۔ جس میں کچھ واجبی اور کچھ غیر واجبی بدر نکالی گئی۔ بدر کی مقدار ایسی زیادہ تھی کہ جس کی ادائی محال تھی۔ آخر خواجہ محمد حسین خان نے بہ یاس آبرو کمال سرسیمگی کے حالت میں قرار پر کمر باندھی۔ اور اپنے وطن مالوفہ کو روانہ ہو گیا۔ بیوی بچوں کو مصیبت کا شکار بنایا۔ اور بلدۂ آحمد آباد میں بیکس و لاوارث چھوڑ گیا۔ جب ناظم گجرات کو محمد حسین خان کے فرار کی خبر لگی تو تمام نقد و جنس جو کچھ موجود تھا ضبط کر لیا۔ بلکہ چندا بی بی کو بھی معہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے نظر بند کیا۔

چندا بی بی کی فراری

چند روز ان بیکسوں نے تھوڑے بہت متفرق اشیاء جو ضبطی سے بچے ہوئے تھے ان کو بیچ کر غربت کے ساتھ جوار باجرا کھا کر نظر بندی یں گزارا۔ جب کچھ بھی نہ رہا تو چند بی بی نے فاقہ کشی سے تنگ آ کر آخر فرار کی ٹھہرائی اور بچوں کو لیکر آبادی کو چھوڑ جنگل کا راستہ لیا۔

چندا بی بی کا قصبہ دیولیہ میں پہنچنا

چنانچہ چند روا کی صحرا نوردی کے بعد چندا بی بی کا گذر


صفحہ کتاب 5، صفحہ ریختہ 3

بہ مقتضائے قضا و قدر قصبہ دیولیہ میں ہوا۔ جہاں یہ غمزدہ معہ اپنے کم سن بچوں کے اتفاقات و شامت کے باعث بہگتیون کے محلہ میں قیام پذیر ہوئی۔ اور بہگتیوں نے ان غریب الوطنون پر ترس کھا کر چندے ان کی قوبستری کا سامان کر دیا لیکن چند روز کے بعد ان بہگتیوں نے چندا بی بی کو یہ ترغیب دی کہ اب حسب و نسب کو طاق پر رکھ کر ان لڑکیوں کو جو حسن و جمال میں ماہ چہاردہ ہیں رقص و سرود کی تعلیم دلائی جائے۔ تاکہ کسب معاش و تحصیل قوت کا ذریعہ نکلے۔ اور فراغت سے گزرے۔ اول تو چندا بی بی نے اس تجویز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ لیکن جب بیکسی اور فاقہ کشی پر نظر ڈالی تو آخر اوس تجویز پر کاربند ہونا پڑا۔ چنانچہ لڑکیوں کو رقص و سرود کی تعلیم دلانا شروع کی۔

راجہ سالم سنگھ کی خبر گیری

اندنون قصبہ دیولیہ کا حاکم (راجہ) سالم سنگھ نام نہایت نامور شجیع، حسن و جمال میں بنظیر، مال و دولت، حمعیت و حشمت کی زیادتی کے باعث صوبۂ گجرات میں مشہور تھا۔ جب اس کو خواجہ محمد حسین خان کے عیال و اطفال کے بے سر و سامانی کی کیفیت معلوم ہوئی تو بلحاظ سرداری ان کی خبرگیری شروع کی۔ اور ان مصیبت زدوں کے رہنے کےلئے ایک مکان بھی دیا۔ اور اس کے ساتھ ضروری اسباب بھی مہیا کر دیا۔

راجہ سالم سنگھ کا عشق میدہ بی بی کے ساتھ

چند روز کے بعد چندا بی بی کی چھوٹی لڑکی میدہ بی بی کے حسن و جمال نے سالم سنگھ کو ایسا شیفتہ و شیدا کیا کہ صبر و قرار جاتا رہا۔ چنانچہ اس دوشیزہ حور پیکر کے رام کرنے کے لئے تحفہ و تحایف بھیجنا شروع کیا۔ بعد چند روز کے چندہ بی بی سے اپنا مافی الضمیر ظاہر کیا۔ جس کو چندا بی بی نے بمصلحت وقت قبول کیا۔ اور میدہ بی بی کو ہم آغوشی کے لئے راجہ سالم سنگہ کے گھر بھیج دیا۔

مہتاب بی بی کا تولد

کچھ مُدت کے بعد راجہ سالم سنگھ کے صلب سے میدہ بی بی کو ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ جس کا نام مہتاب بی بی رکھا گیا۔ لایق نجومیوں نے


صفحہ کتاب 6، صفحہ ریختہ 4

اس نومولد لڑکی کے متعلق یہ حکم لگایا کہ یہ لڑکی آیندہ کسی امیر ذیشان یا وزیر والا تدبیر کے حرم محترم ہو گی۔ چنانچہ یہ پیشن گوئی بہت صحیح ثابت ہوئی جس کا ذکر آیندہ آئے گا۔

سالم سنگھ کی زوجہ کا میدہ بی بی پر جادو کرنا

الحاصل جب میدہ بی بی کے بطن سے یہ لڑکی پیدا ہوئی تو راجہ سالم سنگہ کی محبت روز بروز زیادہ ہونے لگی۔ ادھر راجہ سالم سنگہ کی منکوحہ رانی نے رشک و و حسد کے باعث میدہ بی بی پر جادو، منتر، جنتر کرنا شروع کیا۔ چنانچہ او کی تاثیر سے ایک روز میدہ بی بی دفعتاً مثل مرض سکتہ کے بیحس و حرکت ہو گئی۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ طائر روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا ہے۔ چونکہ فضل ایزدی شامل حال اور رشتۂ حیات مضبوط تھا، اس لیے تعویذ، فلیتہ، جنتر، منتر سے چند روز کے بعد میدہ بی بی کا مزاج درست ہو گیا۔

چندا بی بی کا انتقال

لیکن اس صدمۂ جانکاہ سے میدہ بی بی کی ماں چندا بی بی نے یکایک انتقال کیا۔ جس سے یہ نوجوان لڑکیاں سخت خایف اور ہراساں ہوئیں۔ اور خیال پیدا ہو کہ کہیں ہمارا حال بھی ایسا نہ ہو جائے۔ اس لئے اپنے اپنے جان کی حفاظت کرنے لگیں۔

بہگتیوں کے ساتھ تینوں لڑکیوں کی فراری

جس زمانہ میں کہ چندا بی بی اپنی لڑکیوں کے ساتھ قصبۂ دیولیہ کے بہگتیوں کے محلہ میں فروکش ہوئی اور بعد از انکار بسیار رقص و سرود کی تعلیم لڑکیوں کو دلانا شروع کی تھی اور میدہ بی بی کو رام سنگھ کی ہمخوابی کے لیے بھیجا تھا تو نور بی بی اکثر شوق و محبت سے بہگتیوں کے گھر جا کر گانے بجانے کی تعلیم حاصل کرتی اور گھر میں آ کر اپنی چھوٹی بہن بولن بی بی کو بھی اس کی تعلیم دیتی تھی۔ چنانچہ یہ دونوں بہنیں علم موسیقی میں اعلیٰ درجہ کے ماہر ہو گئیں۔ اور بہکتیوں کو تعلیم دینے کے باعث ان لڑکیوں پر ہر طرح کی حکومت ہو گئی تھی۔ جب چندہ بی بی کا انتقال ہو گیا تو


صفحہ کتاب 7، صفحہ ریختہ 5

میدان صاف ہو گیا۔ اور ان بہگتیوں نے اپنے کمانے اور نفع پیدا کرنے کی خواہش میں یہ تجویز کی کہ میدہ بی بی کو سالم سنگھ کے گھر سے بھگا کر سب یکساتھ کسی دوسرے ملک میں بھاگ کر چلے جائیں۔ اور وہاں ان لڑکیوں کے ذریعہ خوب کمائیں۔

چونکہ جادو منتر کا خوف ان لڑکیوں کے دل میں بے حد بیٹھا ہوا تھا، اس لئے اس تجویز پر فوراً راضی ہو گئیں۔ اور ایک تقریب کے موقع پر قابو پا کر میدہ بی بی کو راجہ سالم سنگھ کے گھر سےنکال لائے۔ اور سب کے سب معہ بہگتیوں کے فرار ہو گئے۔ چنانچہ صوبۂ مالوا کے راستہ سے دریائے نربدا عبور کر کے ملک دکن کو روانہ ہوئے۔ مگر اس پریشانی اور دوڑ دھوپ میں میدا بی بی کے دونوں بھائی غلام حسین و غلام محمد (جو اس سفر میں ساتھ تھے) کہیں چھوٹ گئے۔ حتی کہ ہمیشہ کے لئے مفقود الخبر ہو گئے۔ اب ان لڑکیوں کے پاس کوئی محرم مرد کی صورت نہ رہی۔

بہگتیوں کا معہ لڑکیوں کے برہان پور پہونچنا اور تبدیل نام کرنا

یہ زمانہ ہندوستان میں فردوس آرامگاہ محمد شاہ کی پادشاہی کا تھا۔ اور نواب نظام الملک آصف جاہ بہادر بز۔۔۔۔ میں معہ لشکر فیروزی رونق افروز تھے۔ چنانچہ یہ بہگتیے لڑکیوں کو لیکر بعد قطع مراحل 1161؁ ۔۔۔ میں اولاً وارد برہان پور ہوئے۔ اور لشکر فیروزی میں قیام کیا۔ جب لشکر فیروزی برہان پور سے کوچ کر کے اورنگ آباد آیا تو یہ بھی لشکر فیروزی کے ساتھ ساتھ اورنگ آباد آئے۔ چونکہ ان لڑکیوں کو تحصیل معاش کا کوئی ذریعہ نہ تھا، اس لئے اورنگ آباد پہونچنے کے بعد بہگتیوں کے ترغیب سے رقاصی کا پیشہ اختیار کر کے اپنے کو شہرت دیں اور اس شہرت کے ساتھ اصلی نام تبدیل کر کے نور بی بی برج کنور بائی =، اور
********************************************************************************
= لفظ کنور کے اختیار کرنے کے اسباب ان لڑکیوں کے دل میں یہ پیدا ہوئے کہ کنور کا لفظ عمدہ اور ۔۔۔ ہے کیونکہ جو راجہ زادگان اور فرزندان راجہ ہوتے ہیں ان کو کنور سے مخاطب کرتے ہیں چنانچہ اس وجہ سے انہوں نے اپنے ناک کے ساتھ یہ عمدہ لفظ ایزاد کیا تھا۔ اور آیندہ ہم بھی ان کو انہیں پیارے ناموں سے یاد کیا کریں گے۔ 12


صفحہ کتاب 8، صفحہ ریختہ 6

بولن بی بی بولن کنور بائی اور میدہ بی بی راج کنور بائی۔ اور مہتاب بی بی مہتاب کنور بائی سے موسوم ہوئیں۔ اور مہتاب کنور بائی کو (جو راجہ سالم سنگھ کے صلب سے تھی) معہ راج کنور بائی کے گھر میں چھوڑ کر یہ دونوں ناچ گانےکو جانے لگیں۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کی شہرت ایسی ہو گئی کہ اکثر امراء و اعزا کے پاس ناچ و مجرے کی طلبی ہونے لگی۔ اور راج کنور بائی کا اختلاط وار تباط امرائے آسف جاہی سے ایسا بڑھا کہ ہر ایک انہیں کا دم بھرنے لگا۔

عماد الدولہ بہاردر و بہادر شاہ اور آصف جاہ بہار کا انتقال

جن ایام میں کہ آصف جاہ نظام الملک بہادر برہان پور میں مشغول سیر و شکار تھے۔ اوایل 1161؁ میں یہ خبر بد آئی کہ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر چڑھائی کی۔ اور عماد الدولہ چین قمر الدین خان مدار المہام سلطنت مقتول ہوئے۔ اور محمد شاہ بادشاہ نے وفات پائی۔

بمجرد استماع اس خبر وحشت اثر کے نواب آصف جاہ بہادر کی خاطر شگفتہ پژمردہ ہو گئی۔ چونکہ سنِ شریف بھی عمر طبعی کو پہونچ چکا تھا۔ اس لئے دفعتاً مزاج مبارک جادۂ اعتدال سے منحرف ہوا۔ اور ضعف و نقاہت کی زیادتی ہوئی۔ اطباء حاذق حاضر ہوئے۔ علاج شروع کیا گیا۔ اور 27 جمادی الاول 1161ھ کو برہان پور سے کوچ کر کے زیناباد کے جنوب رویہ لشکر فیروزی کا مضرب قیام ہوا۔ لیکن افسوس ہے کہ مرض میں افاقہ نہ ہوا۔ روز بروز ترقی پذیر ہوتا چلا گیا۔ آخرہ 5 جمادی الثانی 1161ھ بروز یکشنبہ کو اس اولوالعزم اور نامدار رئیس اعظم (آصف جاہ بہادر) نے اعلی علئین کا راستہ لیا۔ بعد انتقال مغفرتمآب کے لقب سے ملقب ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

محتاب کنور بائی کو ارسطو جاہ بہادر کا اپنے نکاح میں لانا اور صاحب جی صاحبہ خطاب ملنا

اس کے چند روز بعد وہ پیشن گوئی جو نجومیوں نے مہتات کنور بائی کے نسبت کی تھی اس کا ظہور ہوا یعنی احتشام جنگ رکن الدولہ بہادر مدار المہام


صفحہ کتاب 9، صفحہ ریختہ 7

سلطنت آصفیہ مہتاب کنور بائی کے حسن خداداد کے ایسے والہ و شیدا ہوئے کہ اس کی مان (راج کنور بھائی) کو راضی کر کے مہتاب کنور بائی کو اپنے عقد شرعی میں لایا اور صاحب جی صاحبہ خطاب عطا کیا۔

ارسطو جاہ بہادر کے دل میں مہتاب کنور بائی کی محبت و الفت نے ایسا گھر کیا تھا۔ اور اس کے طالع بلند نے ایسی یاوری کی تھی کہ سیر و شکار، سفر و حضر، بلکہ مہمات جنگی میں بھی بہ تجمل و احتشام ہاتھی پر سوار رکن الدولہ کے ہمراہ رہتی تھیں۔ اور جہاں کہیں قیام ہوتا تو تمام فوج شاہی صف باندھ کر آداب بجا لاتی۔

جب ارسطور جاہ بہادر، راؤ اعظم مادہو راؤ پنڈت پردھان کی ملاقات کے لئے پونہ کو روانہ ہوئے تو مہتاب کنور بائی بھی ساتھ تھیں۔

بہر حال ارسطو جاہ بہادر کو مہتاب کنور بائی کی جدائی اور مفارقت ایک منٹ کے لئے بھی گوارا نہ تھی۔ اور ارسطو جاہ بہادر کے خاطر و خوشی کے لئے اکثر امرائے نامدار و منصبدار شاہی، مہتاب کنور بائی کا کمال اعزاز و احترام کرتے تھے۔ چنانچہ ظفر الدولہ مبارز الملک بہادر اور شمشیر الدولہ بہادر جیسے امرائے نامدار زنانی ڈیوڑھی (مہتاب کنور بائی کا محل) پر حاضر ہو کر مراسم سلام و نیاز اور عیدین کے مبارکباد بجا لاتے تھے اور محل سرا (مہتاب کنور بائی) کے اندر سے ان امرائے نامدار کو پاندان رخصت مرحمت ہوتا تھا۔

علاوہ بریں خود رکن الدولہ بہادر بھی نہایت عزت و توقیر فرماتے تھے۔ جس کے باعث رکن الدولہ بہادر کے بھائیان شرف الدولہ شرف الملک بہادر، میر حامد یار خان ارسلان یار جنگ بہادر اور میر ایزدیار خان حشمت جنگ بہادر بھی کمال ادب سے آداب بجا لاتے تھے۔ جب رکن الدولہ بہادر نے شہادت پائی تو مہتاب کنور بائی اپنی اصالت و نجابت کے باعث مثل پردہ نشیناں عفت مآب کی گوشہ نشینی اختیار کی۔ اور ہمیشہ پنجگانہ نماز اور روزہ، وظائف و اوراد، تسبیح و تحلیل میں تمام عمر بسر کی۔


صفحہ کتاب 10، صفحہ ریختہ 8

مان کنور بائی کا تولد

اورنگ آباد کی سکونت کے زمانہ میں راج کنور بائی حاملہ ہوئی اور بعد ایام مقررہ وضع حمل ہونے پر ایک لڑکی پری پیکر، حور منظر پیدا ہوئی، جس کا نام مان کنور بائی رکھا گیا۔ یہ لڑکی ایسی حسین و مہ پارہ تھی کہ ایام دوشیزگی و خورد سالی میں ہی نواب بسالب جگت شجاع الملک بہادر (جو نواب میر نظام علی خان بہادر کے بھائی تھے) نے او کے حسن لاثانی کے والہ و فریفتہ ہو کر اپنے محل میں لا کر رکھا۔ اور نواب ممدوح اس سے اس قدر محبت و دلبستگی رکھتے تھے کہ اگر کبھی کنور بائی بمقتضائے کم سنی لہو و لعب میں مشغول ہوتی تو آپ بھی اس کے پاس خاطر سے او لہو و لعب میں شریک ہوتے۔ مگر افسوس ہے کہ یہ حور منظر ایک لڑکا پیدا ہونے کے بعد انتقال کی۔ جس کا داغ نواب مز کے دل پر بیحد ہوا۔

بسالت خان بخشی صرف خاص سے راج کنور بائی کا تعلق پیدا ہونا

جب ان بہگتیوں نے (کیونکہ پھر لڑکیاں انہیں کے زیر اطاعت تھیں) لشکر آصف جاہی میں اپنے پیدایش و کمائی کی صورت دیکھی تو مستقل طور پر قیام کر لیا۔ اور راج کنور بائی سے اکثر امرائے آصف جاہی محبت و الفت کرنے لگے۔ کیونکہ راج کنور بائی بہ نسبت اپنے دوسرے بہنوں کے نہایت قبول صورت نیک سیرت، صاحب اخلاق اور بامروت تھی۔ مگر کسی کا بھی کمند مدعا راج کنور بائی کے محل مقصور پر نہ پہونچا۔ اور حسب سرنوشت ازلی و تقدیر لم یزلی راج کنور بائی کا نقش موانست امیر نامدار نواب بسالت خان بہادر آصف جاہی بخشی صرفخاص کے لوحِ دل پر درست بیٹھا۔

اب یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ناظرنیون کے دلچسپی اور معلومات کے لئے نواب بسالت خان بہادر بخشی صرف خاص کے حسب و نسب اور خاندانی حالات کا کسی قدر تذکرہ کیا جئے۔ جس اے مہ لقا بئی (جس کی یہ سوانح عمری ہے) کے حسب و نسب کی کیفیت، عالی خاندانی، کا حال، شرافت و نجابت کے اسباب ظاہر ہوں۔

اگر تھوڑا سا غور کر کے انصاف سے کام لیا جائے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مہ لقا بائی کے


صفحہ کتاب11، صفحہ ریختہ 9

عالی خاندانی کا سلسلہ نہایت نامور اور شریف خاندان سے تھا۔ لیکن قضا و قدر کے معاملہ میں کس کو چارہ ہے۔ خواجہ محمد حسین خان کا اصراف و فراری، عیال و اطفال کی بیکسی و بے بسی، خبر گیران مفقود، پرورشی کا ذریعہ مسدود، زمانۂ غربت، رذیل صحبت، مجبور و معذور، نالائق رائے کے باعث رقاصی کا پیشہ اختیار کرنا پڑا۔ جس سے خاندان کی عظمت برباد گئی۔ کلنگ کا ٹیکا ماتھے پر ہمیشہ کے لئے نمایاں رہا۔ ورنہ ماہ لقا بائی کے عادات و اطوار، لیاقت و ہوشیاری، فیاضی و جراءت، گفگتو اور سلیقہ، مروت و اخلاق، اوقاتِ و وضع کی پابندی، صوم و صلوٰۃ کا خیال، یہ سب کچھ اعلیٰ خاندانی اور نجیب الطرفینی کے پورے پورے موید و معین تھے۔

میدہؔ بی بی عرف راج کنور بائی (ماہ لقا بائی کی ماں) نے بمقتضائے وقت رقاصی کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ لیکن وہ شریف خاندان کی ضرور تھی۔ کیونکہ اس کی ماں چند بی بی آھمد آباد گجرات کے ایک بزرک کی دختر نیک اختر تھیں۔ اور اس کا باپ خواجہ محمد حسین خان قصبۂ بارنہہ کا رہنے والا ایک شریف خاندان کے یادگار تھا۔ بہر حال راج کنور بائی کو صلب اور بطن دونوں پاک و صاف ملے تھے۔ پھر عجب کیا ہے کہ اس کی لڑکی ماہ لقا بائی جو ایک شریف و نجیب خاندان کے رکن امیر نامدار بسالت خان بہادر بخشی صرفخاص کے صلب سے پیدا ہوئی ہو، جملہ اوصاف حمیدہ سے متصف نہ ہو۔ اور حسب و نسب کے عادات و خصائل اس کو ورثہ میں نہ ملے ہوں۔ چنانچہ اسی باعث ماہ لقا بائی من حیث المجوع جملہ صفات حسنہ کا مجموعہ تھی۔ خیر آمدم بر سر مطلب۔

بسالت خان بہادر بخشی صرفخاص کی خاندانی حالات

بسالت خان بخشی صرف خاص کا اصلی نام بہادر خان تھا۔ اور بسالت خان کا موروثی خطاب بہ پیشگاہ سرکار آصف جاہ بہادر سے عطا ہوا تھا۔ آپ (بسالت خان بہادر) میرزا سلطان نظر المخاطب بسالت خان و صلابت خان و معظم خان کے خلف اکبر و ارشد تھے۔ جن کے


صفحہ کتاب 12، صفحہ ریختہ 10

خاندانی واقعات تاریخ فتحیہ میں اس طرح مرقوم ہیں کہ :

مرزا سلطان نظر کے حالات

آپؔ (بسالت خان بہادر) کے دادا میرزا محمد یار قوم چغتہ برلاس جو شہر بلخ کے معزز و عالی خاندان سے تھے۔ صاحب قران ثانی شاہجہان بادشاہ کے عہد میں وارد ہندوستان ہوئے۔ بعد چند روز کے بزمرۂ منصبداران شاہی ملازمت حاصل کی۔ اور ایک شریف خاندان کی بانو سے عقد کیا۔ پروردگار عالم نے ایک فرزند نرینہ عطا فرمایا۔ جس کا نام میرزا سلطان نظر رکھا گیا۔ اور تعلیم و تربیت نہایت عمدگی اور احتیاط سے کی گئی۔ بعد چندے اپنی ذکاوت طبع کے باعث شاہان وقت کے اعلیٰ اور ممتاز خدمات انجام دیں۔ چنانچہ آپ (مرزا سلطان نظر) کو محمد اعظم شاہ کے زمانہ شاہزادگی میں صلابت خان کا خطاب سرفراز ہوا تھا۔ اور حسب الحکم حضرت خلد منزل رسالۂ محمد اعظم شاہ کے متعلق آپ کو ایسا اقتدار حاصل تھا کہ افراد مناصب پر رسالہ کے آپ ہی کی دستخط ہوتے تھے۔ اور یہ بھی حکم تھا کہ جب کسی منصبدار میں لیاقت و فراست موجود ہو تو منصب دوبستی سے دو ہزاری تک اپنی دستخط سے اجرا کریں۔

تاریخ فتحیہ میں لکھا ہے کہ "حضرت خلد منزل نے داروغہ عرض مکرر کو حکم صادر فرمایا کہ "محمد اعظم شاہ کے رسالہ کے ملازموں کا منصب دوبستی سے دو ہزاری تک بسالت خان کی مہر سے جاری کیا جائے کیونکہ ہم نے اس رسالہ کی بخشیگری مثل بخشی اول کے بسالت خان کے سپرد کی ہے۔ اور خدمت داروغگی داغ و تصحیح و اپنی ہفت چوکی و داروغگی خزانہ اس رسالہ کی بزن خان کے نام مقرر کی جاتی ہے۔ علاوہ برین ساتھ لاکھ اشرفی کے توڑے (جو دفتر شاہی میں مہر جلالی لکھی جاتی ہیں) ارابہ پر بار کر کے خان موصوف کو پہونچا دیے جائیں۔ اور تاکید کی جائے کہ یہ رقم ملازمین رسالہ کی تنخواہ میں تقسیم ہو۔ اور رسغ رنگ کے ڈیرے کچہری بخشیگری اور دیوانی داغ و تصحیح و خزانہ کے لئے تیار کر کے اپنے خیمہ کےپاس کھڑے کئے جائیں۔"

چنانچہ ان خدمات و اعزاز کی سرفرازی کے بعد تقریباً دو ہزار تین سو منصدار جن میں اکثر اعظم شاہی


صفحہ کتاب 13، صفحہ ریختہ 11

اور بیدار بختی اور والا جاہی اور باقی اشخاص اجنبی تھے جو شاہزادہ کی سفارش سے خان معز کے رسالہ میں نوکر ہوئے تھے مرحمت ہوئے۔

جب شاہ عالم بہادر نے ہندوستان سے دکن کے جانب محمد کام بخش پر فوج کشی فرمائی تو فوج کا پیش خیمہ خان موصوف کے تفویض کیا گیا۔ اور چغتائی خان (=) پیش خیمہ کے ہمراہ متعین ہوا اور بادشاہ نے چغتائی خان کو ارشاد فرمایا کہ تم کو اس ولایت سے کما حقہ واقفیت نہیں ہے، اس لیے بصوابدید بسالت خان کام کرنا چاہیے چنانچہ ہر دو سردار باتفاق لشکر کے ترتیب اور انتظام کیا کرتے تھے۔

جب بہادر شاہ فوج شاہی کے ساتھ حیدر آباد رونق افروز ہوئے تو محمد کام بخش نے اپنی ضدی طبیعت اور غیور مزاجی کی وجہ سے فوج شاہی کا مقابلہ کیا۔ جس سے ہدف ناوک اجل کا نشانہ بنا۔ اور چغتائی خان بھی انہیں ایام میں بعارضہ جسمانی انتقال کیا۔

اس کے بعد کچھ ایسے امور پیش آئے کہ رسالہ کی تنخواہ چڑھ گئی۔ غلہ کی گرانی، اور گھوڑوں کے کاہ و دانہ کی تکلیف ایسی واقعہ ہوئی کہ بیان سے باہر۔ چنانچہ بسالت خان نے اس تکلیف و پریشان ی کا حال بادشاہ کے بارگاہ میں عرض کیا۔ ارشاد شاہی ہوا کہ اس کا جواب امیر الامرا
*******************************************************************************************
= بہادر شاہ کی شہزادگی کے زمانہ میں ایک شخص ارسلان خان نامی والی مملکت کاشغر اپنے لڑکوں کی دست برد سے آوارہ ہو کر کابل میں آیا۔ اور شاہزادۂ محمد معظم کی ملازمت اختیار کی۔ عالمگیر بادشاہ نے بپاس سفارش فرزند ارجمند کے اس کو منصب دو ہزار و پالضدی اور دو ہزار سوار و علم و نقارہ سے سرفراز فرما کر بادشاہزادہ کے متعین فرمایا تھا۔ اور بعد جُلوس شاہ عالم بہادر کے تخت ہندوستان کے لیے فیما بین محمد اعظم شاہ اور بہادر شاہ کے خوب جگ ہوئی۔ اور اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ محمد اعظم شاہ معہ اپنے فرزند بیدار بخت کے مقتول ہوا۔ اور بہادر شاہ نے فتح پائی۔ چونکہ اس جنگ میں ارسلان خان نے کمال درجہ کی جانفشانی اور بہادری دکھلائی تھی، اس لئے شاہ عالم بہادر نے اس کو منصب ہفت ہزاری اور سات ہزار سوار خطاب چغتائی خان بہادر فتح جنگ روماہی مراتب و پالکی جہالردار سے سرفراز فرمایا تھا۔ مگر اس وقت چغتائی خان کی جمیعت ساٹھ 60 ستر 70 سوار مغلیہ سے زیادہ نرہی تھی۔ اور ۔۔۔ فوج کا سردار کہلاتا تھا۔ 12


صفحہ کتاب 14، صفحہ ریختہ 12

ذولفقار خان میر بخشی کے ذریعہ صادر ہو گا۔ جب چند روز گذرے تو امیر الامرا نے بسالت خان سے کہا کہ مہمات ضروریہ کے باعث اسقدر رقم خزانہ میں موجود نہیں ہے کہ رسالہ کی تنخواہ بیباق کی جائے۔ لہٰذا چندے تامل کیا جائے۔ بہادر شاہ نے معظم خان جمدۃ الملک مدار المہام ریاست کو حکم دیا کہ ان لوگوں کی تنخواہ میں کوئی جاگیر تجویز کر کے پیش کرے۔ ادھر رسالہ کے لوگ فاقہ کشی سے جان بلب اور گرانی غلہ سے سخت مجبور ہوئے اور بسالت خان نے بادشاہ کی خدمت میں مکرر معروضہ پیش کیا کہ "یہ فدوی فرق مبارک کا تصدق جو جاگیر پاتا ہے وہ صرف ذاتی ضروریات کے لئے کافی ہے۔ اس میں سے اسقدر گنجایش نہیں ہے کہ رسالہ کی تنخواہ بھی دی جائے۔ بہرحال نہ خود بھوکا رہنا ممکن ہے اور نہ ان کو بھوکا دیکھ سکتا ہوں۔ پس امیدوار ہوں کہ یہ رسالہ کسی دوسرے کے تفویض فرمایا جائے۔"

بادشاہ نے امیر الامرا کے ذریعہ بسالت خان کی فہمایش بہت کی۔ مگر خان معز نے ایک نہ سنی اور باوجود فہمایش استعفا دیدیا۔ آخر بادشاہ نے اس رسالہ کو مغل (=) ہارسی کے تفویض فرمایا، لیکن چند روز کے بعد بد انتظامی اور عزت کے باعث اس رسالہ میں بجز نام کے کئی باقی نہ رہا۔اکثر آدمی رسالہ کی نوکری سے دست بردار ہو کر شاہزادگان بلند مراتب اور امرائے نامدار کے پاس نوکر ہو گئے۔ چنانچہ اس رواروی کے باعث رسالہ کا شیرازہ پریشان ہو گیا۔

اس کے بعد بادشاہ نے بسالت خان کو میر آتشی دکن کی خدمت سے سرفراز کرنا چاہا۔ مگر خان معز نے قبول نہ کی۔ اور صرف بارگاہ شاہی کی حاضر باشی پر اکتفا کیا۔

اس کے چند روز بعد زمانہ نے گردش کھائی۔ اور بہادر شاہ لاہور میں ساقی کے ہاتھ سے پیمانہ
*******************************************************************************************
= مغل ہارسی کسی وقت میں محمد اعظم شاہ کی سرکار میں نوکر تھا۔ اور بعد برطرف ہو کر ایک مدت تک مرہٹوں کے ساتھ رہزنی کرتا رہا۔ اس کے بعد کابل جا کر شہزادہ محمد اعظم کی سرکار میں نوکر ہوا۔ چنانچہ شاہ عالم بہادر نے اپنے جلوس کے بعد مغل ہارسی کو منصب سہ 3 ہزاری اور خطاب مخلص خان سے ممتاز فرمایا تھا۔


صفحہ کتاب 15، صفحہ ریختہ 13

اجل نوش کیا۔ بمجرد اس واقعہ کے چار دن شاہزادوں میں فتنہ و فساد برپا ہوا اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ بادشاہی کا دم بھرنے لگا۔ اور اپنے اپنے رفیقوں کو خدمات و منصب کی بھی تقسیم شروع کر دی۔ چونکہ بسالت خان ابتدا سے جہان شاہ (شہزادہ چھارمی) کی رفاقت میں بسر کرتا تھا، اس لئے جہان شاہ نے اس موقع پر بسالت کو معظم خان کا خطاب اور اصل و اضافہ منصب شش ہزارہ و پنچہزار سوار و خدمت بخشیگری سے سرفراز و ممتاز فرمایا۔ لیکن افسوس ہے کہ جہان شاہ اس اتشیس کی جنگ میں معہ اپنے دو بھائیوں کے مقتول ہوا۔ اور شہزادہ معز الدین جہاندار شاہ (جو بہادر شاہ کا بڑا بیٹا تھا) کو فتح نصیب ہوئی۔ اور اورنگ شاہی پر جلوس فرمایا۔ امیر الامرا ذوالفقار خان کو قلمدان وزارت عطا ہوا۔

چونکہ بسالت خان کو امیر الامرا سے قدیمی اتحاد و رابطہ تھا اس لئے امیر الامرا نے بسالت خان کو پیشگاہ جہاندار شاہ میں لے جا کر منصب و خطاب اور جاگیر کی بحالی (جو خلد منزل کے عہد مین تھی) و خلعت فاخرہ و قبضہ شمشیر سے مخلع و ممتاز کرایا۔

اس کے بعد شہزادہ محمد فرخ سیر نے جہاندار شاہ پر فوج کشی کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاندار شاہ قید ہو گیا (جو اس قید میں چند روز کے بعد مر گیا) اور ذوالفقار خان امیر الامرا قتل کیا گیا اور شہزادہ فرخ سیر نے سادات باہہ کی اعانت و امداد سے تخت شاہی پر قدم رکھا۔ اور سید عبد اللہ خان معروف بہ سید حسن علی خان نے وزارت کی خدمت سے سرفرازی پائی اور ان کے بھائی سید حسین علی خان کو بخشیگری کی خدمت اور امیر الامرائی مرحمت ہوئی۔ چنانچہ اس موقع پر امیر الامرا کے ذریعہ بسالت خان نے بلحاظ لیاقت و جوہر شجاعت بارگاہ فرخ سیر سے خلعت و منصب اور خطاب سند بحالی جاگیر حاصل کی اور چند ہی روز کے بعد امیر الامرا کا رفیق خاص ہو گیا۔

جس وقت امیر الامرا حسب فرمان شاہی راجپوتانہ کے راٹھور و کچواہہ کے تنبیہ و تادیب اور طلب ڈولہ کےلئے مامور ہئے اور پچاس ہزار سوار جرار اور تخمیناً تیس 30 اسم امرائے نامدار و صاب قوت


صفحہ کتاب 16، صفحہ ریختہ 14

ہمراہ کئے گئے تو امیر الامرا نے بادشاہ سے سفارش کر کے بسالت خان کو اس فوج کی بخشیگری او وقائے نگاری سرفراز کرا کے ہمراہ لیا۔ مگر اس مہم میں بلا کسی جنگ و جدال کے راجہ اجیت سنگھ راٹھور نے برغبت و خواہش اپنی لڑکی کو ڈولہ دینا پسند کیا۔

اس کے بعد جب امیر الامرا صوبجات دکن کے بند و بست و انتظام کے لئے بھیجے گئے تو اس موقع پر بھی خدمات بخشیگری اور وقایع نگاری دکن کی بسالت خان کو دلوائی۔ چنانچہ خان معز خلعت فاخرہ اور ایک زنجیر فیل مادہ سے سرفراز ہو کر امیر الامرا کے ساتھ دکن روانہ ہوا۔ اکثر موقعوں پر امیر الامرا خان معز کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے۔

جب امیر الامرا دار الفتح بلدہ اوجین میں پہونچے تو فرمان (=) شاہی امیر الامرا کے نام صادر ہوا کہ اندنون والی ایران کے پاس سے سید مرتضیٰ خان ایلچی آیا ہوا ہے۔ پش مابدولت کو لازم ہوا کہ یہاں سے بھی ایلچی روانہ کیا جائے۔ چنانچہ ان اہم خدمات کے انجام دہی کے لئے بسالت خان تجویز کیا گیا ہے۔ پس فوراً خان معز کو دربار شاہی میں روانہ کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا فرمان بسالت خان کے نام اس میں ملفوف تھا کہ تمہارے لئے امیر الامرا کو لکھا گیا ہے۔ پس فوراً روانہ ہو جاؤ۔ جس وقت کہ یہ فرمان امیر الامرا نے دیکھا تو بسالت خان سے کہا کہ ان شاء اللہ تعالٰی جس وقت کہ میں ملک دکن میں داخل ہو جاؤں گا، تو تم کو رخصت کر دوں گا۔

مرزا سلطان نظر المخاطب بسالت خان کا انتقال

مگر التفاقات قضا و قدر سے داؤد خان افغان جو مملکت دکن کا ناظم تھا۔ امیر الامرا کی اطاعت سے انحراف و سرکشی کی۔ حالانکہ بسالت خان نے مصالحت میں بہت کچھ کوشش کی مگر سود مند نہ ہوئی۔
****************************************************************************************
= امیر الامرا کا یہ قاعدہ اور ضابطہ تھا کہ جب فرمان صادر ہوتا تو بسالت خان کو کہتے کہ تم فرمان لے کر رو برو کھڑے رہو۔ تاکہ میں تسلیمات بجا لاؤں۔ اور تسلیمات بجا لانے کے وقت سوائے تمہارے اور کوئی مقابل نہ رہے۔


صفحہ کتاب 17، صفحہ ریختہ 15

آخر جبگ کی نوبت آئی۔ اور داؤد خان مارا گیا۔ لیکن افسوس ہے کہ اس جنگ میں بسالت خان بھی مردانہ وار قتل ہوا۔ اور بلدہ دار السرور برہان پور محلہ سنوارہ میں جو خود مرحوم کی خریدی ہوئی حویلی (جو بزمانہ ملازمت شاہ عالم بہادر خریدی تھی) تھی۔ مدفون ہو، 63 سال کی عمر پائی۔

بسالت خان کے عادات و خصائل وغیرہ

بسالت خان نہایت عظیم الجثہ بلند و بالا۔ خوبرو جوان صالح مروت سے آراستہ اور حسن اخلاق سے پیراستہ تھا۔ پندرہ سال کی عمر سے ( جو سن تمیز کا زمانہ کہلاتا ہے) باوجود تکلفات و تکلیف کے نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز تہجد کبھی قضا نہ ہوئی تھی۔

جس زمانہ میں کہ محمد اعظم شاہ احمد نگر سے عازم اکبر آباد ہوئے (جس کی مسافت تین سو کئی جریبی کوس شمار کی گئی ہے) تو بسالت خان باوصف حدت آفتاب و سختی گرمی ایک لمحہ بھی جلو ریزی سے تخت روان کے منزل مقصود پر پہونچے تک جدا نہ ہوا۔

اور باوصف کثرت مشاغلِ درجوع خلایق و سوال و جواب مقدمات ہر وقت نماز تہجد کو بیدار ہو کر بعد ادائے نماز تہجد طلوع آفتاب تک وظایف و ادعیہ و اوراد میں مشغول رہتا تھا۔

ایک دفعہ عالم کم منصبی میں مرہٹوں کے تعاقت میں تین شبانہ روز متواتر ہوائے سرد و سرما میں گزارنا پڑا تھا۔ چنانچہ مقتضائے تاثیر ہوائے بارد خان موصوف کو سخت درد سر عارض ہوا۔ اور ایک آشنا کی ترغیب سے تخفیف درد سر کے لئے تھوڑی افیون بمجبوری استعمال کرنی پڑی تھی۔ سوائے اس کے مُدت العمر کبھی مسکرات و منہیات کے جانب رغبت نہ کی۔ اور رقص و سرود، لہو و لعب سے نفرت کلی تھی۔ اور بازی نرد و شطرنج، گنجفہ و چوسر کو اعمال تحریمہ و خطائے عظیمہ تصور کرتا تھا۔ مروت و اخلاق میں بے نظیر تھا۔ جو کچھ نقد و جنس ثرد و تدبیر سے پیدا اور فراہم ہوا تھا وہ اکثر خالصتاً للہ خیرات و مبرات میں صرف کیا کرتا۔ دو وقت کا کھانا اس کے رفقائے یکرنگ جن کی تعداد ساٹھ تک ہو گی ساتھ کھاتے تھے۔ کھانا بالکل سادہ ہوتا تھا چنانچہ چاشت کے وقت روٹی، کباب، قلیہ اور شام میں خشکہ، قلیہ، پلاؤ زیب دسترخوان رہتے تھے۔


صفحہ کتاب 18، صفحہ ریختہ 16

اور نماز ظہر کے بعد قہوہ نوشی بھی کی جاتی تھی۔ جس میں میوہ ہائے تر و خشک موجود رہتے تھے۔ لباس میں بالکل سادگی تھی۔ فقط قبائے سفید (گراں بہا) پہنتا تھا۔ جو جامہ اور دستار ایک بار استعمال میں آتے وہ بغیر شوب کے مکرر استعمال میں میں نہ آتے تھے۔ اور یہ بھی عادت تھی کہ ملبوسات فاخرہ اس سال کے دوسرے سال میں فقرا اور محتاجوں، رفقا و آشنایوں میں تقسیم کر دیئے جاتے تھے۔ جس سال کہ بسالت خان مایر الامرا کے ساتھ راجپوتان اجمیر کے تنبیہ کے لئے روانہ ہوا تھا تو اخلاص خان (جو خاص امرائے شاہی سے تھے) نے متعدد رقعات لکھے تھے۔ ازاں جملہ ایک دو کے ترجمے ذیل میں لکھے جاتے ہیں

رقعہ نمبر ا

خان صاحب مہربان کرم فرما سلامت۔ اس آبادی کے اطراف میں جس کی آبادی میں ہمیشہ زیادتی ہوتی رہے۔ ہرنوں کی کثرت بہت ہے جس کے لئے ایک چیتے کی ضرورت ہے۔ سنا گیا کہ وہ سرزمین چیتوں کا معدن کھلاتی ہے۔ پس کوئی چیتا گرفتار کر کے فقیر کے لیے بھیج دیجیے۔ کیونکہ شکار کا لقمہ حلال ہے۔ اگر آپ کے دل میں یہ خیال گزرے کہ دعویٰ تو فقیری کا کرتے ہیں، اور چیتے کے خواستگار ہیں، لیکن اس کوکوئی نسبت نہیں۔ کیونکہ جب تک منصب کا نام باقی ہے، یہ آرزو ہمیشہ ہوتی رہے گی۔ جد دن یہ برطرف ہو گی، تو یہ آرزوئیں بھی اس کے ساتھ پردۂ نسیان میں آئیں گے۔ علاوہ بریں اس سفر میں دل لگی سے زیادہ صحبت رہتی ہے۔ متانت خان اور خواجہ عطاء اللہ صحبت میں رکنے کے لئے بہت اچھے ہیں۔ غالباً آپ جانتے ہوں گے ورنہ آپ جان سکتے ہیں۔ اور محمد مقیم علم طبابت میں کمال رکھتا ہے۔ ایسی لیاقت رکھنے والا نواب صاحب کی خدمت میں رہنا چاہیے۔ خدا کرے کہ ہمارے نواب صاحب اس کا خیال رکھیں۔ اور آپ بھی اس میں توجہ فرمائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
رقعہ نمبر 2

صاحب میرے آپ تصور سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔ جب فرض کر لیا جائے تو یاد سے جانا ناممکن۔ نیکوں کی یاد کے لئے کوشش نہ چاہیے۔ کیونکہ نیکی خداوند تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ جو کچھ کہ حساد و بغض طینتوں کے نسبت لکھا گیا تھا، معلوم ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ



صفحہ کتاب 19، صفحہ ریختہ 17

بعض حسد کیش نیکوں کی برائی چاہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں وہ خود اپنے بدخواہ ہیں۔ حضرت مولوی معنوی کےکلام سے ایک رباعی یہاں حسب مناسب معلوم ہوئی لہذا تحریر میں آئی۔ ایک دن مولانا روم اپنے فرزند سلطان کو فرماتے تھے کہ اے لڑکے کیا تو ہمیشہ بہشت میں رہتا چاہتا ہے، جواب دیا ہاں، فرمایا رباعی یاد رکھ کہ تیرے لیے مفید ہے۔ رباعی :

پیشی خواہی زہیچکس پیش مباش
چوں مرہم و موم باش چوں نیش مباش
خواہی کہ ترا زہیچکس بڈنرسد
بدگو و بد آموز د بد اندیش مباش

الغرض اس شرح و بسط سے بھی ہے کہ میرزا سلطان نظر المخاطب بسالت خان نامداران روزگار و امرائے باوقار سے تھے۔ جو ازروئے نسب چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کے جد اعلیٰ ہوتے ہیں۔ چنانچہ مضمون (کل شئی یرجعُ الےٰ اصلہ) ماہ لقا بائی میں بھی حسن اخلاق اور اطوار پسندیدہ اپنے اجداد کے جلوہ افروز تھے۔

الحاصلؔ اب یہاں پر بسالت خان بہادر کا خاندانی تذکرہ ختم کر کے اصل قصہ کے جانب رجوع کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے آگے ہم یہاں تک لکھ چکے تھے کہ راج کنور بائی کے مراسم اتحاد اور روابط و داد بسالت خان بہادر بخشی صرف خاص سے روز افزوں ترقی پذیر ہوتے چلے۔ چنانچہ ایک زمانہ کے بعد کل آرزو شگفتہ ہوا۔ اور راج کنور بائی کو حمل قرار پایا۔

راج کنور بائی کے بطن اور بسالت خان بہادر کے صلب سے چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کا پیدا ہونا

راج کنور بائی کے اسقاط حمل کے متعلق جناب امیر المومنین علیہ السلام کا معجزہ

جس زمانہ میں کہ راج کنور بائی ماہ لقا بائی کے حمل سے حاملہ تھی تو ایک بار جناب امیر علی السلام کے زیارت کے لئے کوہ شریف پر حاضر ہوئی اور شاہ تجلی علی صاحب مؤلف ترزک آصفیہ (جو کمالات ظاہری و باطنی اور خطاطی و مصوسی، بذلہ گوئی و لطیفہ سخجی میں فرد یگانہ تھے) بھی


صفحہ کتاب 20، صفحہ ریختہ 18

بلحاظ علاقہ تابعداری راج کنور بائی کے ہمراہ رکاب تھے۔ دفعتاً کوہ شریف کے مقام پر راج کنور بائی کو اسقاط حمل کے آثار ظاہر ہوئے۔ اور خون جاری ہو گیا۔ فی الفور شاہ تجلی علی صاحب آستانۂ مقدس مرتضوی میں جا کر چند تار ناڑہ کے اور تھوڑی عودی عود دان سے لے کر آئے۔ ناڑہ تو راج کنور بائی کے کمر میں باندھا، اور عودی کھلا دی۔ بمجرد اس عمل کے باعجاز مظہر العجائب والغرایب اسد اللہ الغالب علیہ السلام کے خون بند ہو گیا۔ اور حمل قائم رہا۔

تولد چند بی بی المخاطب ماہ لقا بائی

جب ایام حمل منقضی ہوئے تو بتاریخ 20 ذی قعدہ 1181ھ روز دو شنبہ کو جب آفتاب عالمتاب دو نیزے برابر آیا، ساعت قمر میں ایک ماہ پیکر حور منظر لڑکی تولد ہوئی۔ منجموں نے چندا بی بی نام رکھا۔ مؤرخ کا بیان ہے کہ تولد کے وقت دفعتاً ایسی روشنی ہوئی کہ تمام حجرہ منور ہو گیا۔ تمام حاضرین اس مشاہدہ سے متحیر و متعجب ہوئے۔

جشن چھٹی کا تکلف

تولد کے پانچویں روز چھٹی شب کو رستم دل خان کی حویلی میں حسب فرمان خردی جشن چھٹی مقرر ہوا۔ جہاں شیر جنگ منیر الملک بہادر تشریف رکھتے تھے۔ اور احتشام جنگ رکن الدولہ مدار المہام ریاست آصفیہ نے اس حویلی کو لیکر نہایت تکلف سے آراستہ کیا تھا۔ اور موجب حکم نواب غفران مآب غلام سید خان سہراب جنگ ارسطو جاہ اور راجہ پرتاب ونت وٹہلہ اس دیوان آصفجاہی کے بھتیجے اور دوسرے امرائے نامدار کمال تکلف و اہتمام سے افواج شاہی کے ساتھ چہٹی کی کھچڑی ہاتھیوں پر بار کر کے لائے۔ اور رسم تہینت ادا کئے۔ چنانچہ اس جش کے رسومات ایک مدت تک نہایت تکلف و عمدگی سے ادا ہوتے رہے۔

راج کنور بائی کا چندا بی بی کو صاحب جی صاحبہ (مہتاب کنور بائی) کی آغوش میں دینا


صفحہ کتاب 21، صفحہ ریختہ 19

چونکہ صاحب جی صاحبہ (مہتاب کنور بائی) محل احتشام جنگ رکن الدولہ بہادر کے بطن سے کوئی اولاد نرینہ موجود نہ تھی۔ اس لئے راج کنور بائی نے چند بی بی کو صاحب جی صاحبہ کے آغوش فرزندی میں دے دی۔ اور خود عبادت و خدا طلبی میں مشغول ہوئی۔ اگرچہ میدا بی بی (راج کنور بائی) کا نام بحسب سرنوشت، کسبیوں کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن والا گہری اور نجابت فطری کے باعث ہمیشہ نجیب پروری اور قدر دانی کرتی رہتی تھی۔ اور مدام اپنا وقت نماز پنگانہ، وظائف و اوراد، تسبیح و تحلیل میں گذارتی تھی۔ مشائخین کرام اور علمائے اعلام سے کمال اعتقاد تھا۔ آخر اہل سلوک و اہل باطن کی صحبت نے اپنا رنگ جمایا، چنانچہ اکثر کشف باطنی و مراقبہ و تصور میں محنت کرتی اور آخر شب سے یک پھر دن تک وظیفہ میں مشغول رہتی تھی۔ اس درمیان میں کسی سے بات چیت نہ کرتی تھی۔

راج کنور بائی کی فیاضی

اکثر مشائخین و فقرا کو بقدر مراتب اس فیاض عورت نے فی کس ایک ایک ہزار اور بعض اوقات دو دو ہزار روپیہ تک نقد بخسس و تواضع کرتی تھی۔ چنانچہ اس کی فیاضی کی شہرت بہت دور دور تک تمام ہند و دکن میں مشہور ہو گئی تھی۔ بعض اوقات ہندوستان اور اس کے اطراف و اکناف سے قوال کلاونت۔ گوئیے، بھی آتے تھے۔ جنکو میدہ بی بی (راج کنور بائی) کے خوان کرم سے بمقتضائے قدر دانی و نیکنامی دس 10 دس 10 ہزار روپیہ تک نقد اور خلعت ہائے مکلل و زریں دو شالہ ہائے بیش قیمت، زنجیر ہائے فیل، جواہر وغیرہ مرحمت ہوتے تھے۔ بہر حال کوئی سایل اس کے دروازے سے محروم نہیں گیا۔ کچھ نہ کچھ حسب مقدور ہر ایک کو مل ہی جاتا تھا۔

راج کنور بھای کے تصرفات

اب زہد و تقوی کے تصرفات و کمالات ملاحظہ ہوں۔ ایک دفعہ لشکر فیروزی دریائے کشا سے گنگا کو عبور کر رہا تھا۔ اور دریا نہایت طغیانی پر ہونے کے باعث سیوائے ہاتھی کے عبور مشکل تھا۔ چنانچہ تمام خلایت و لشکر بمشقت مالا کلام گھوڑے اور ہاتھیوں پر سوار شناوری کرتے ہوئے عبور کر رہے تھے


صفحہ کتاب 22، صفحہ ریختہ 20

راج کنور بائی حسب معمول پالکی میں سوار تھیں۔ اور پالکی کی سواری میں دریا کا عبور ناممکن تھا۔ لہذا راج کنور بائی نے رکن الدولہ بہادر کو کھلا بھجوایا کہ ہمارے عبور کے لئے ہاتھ روانہ کیا جائے۔ اتفاقاً ہاتھی کے پہونچنے میں یک گھڑی کی دیر ہو گئی۔ چونکہ راج کنور بائی کا مزاج بہت تیز تھا، اس لئے برآشفتہ ہو کر اپنے ہمراہیوں کے سواری کا رتھ منگا کر سوار ہوئی۔ اور بلا پس و پیش اس دریائے پرجوش و پر خروش میں رتھ کو ڈال دیا۔ حالانکہ دریا کا پانی اس قدر عمیق تھا کہ ہاتھیوں کی گدیاں تر ہوتی تھیں۔ مگر تعجب اور حیرت کا مقام ہے کہ راج کنور بائی کے رتھ کے پایوں سے ایک انچ بھی پانی اونچا نہ ہوا۔ چنانچہ رتھ مع الخیر دریا کے پار ہو گیا۔ اس ماجرائے عجیب و غریب سے نواب رکن الدولہ بہادر کمال متاثر ہوئے۔ گو اس کے آگے بھی راج کنور بائی کی عزت و احترام بلحاظ صاحب جی صاحبہ (مہتاب کنور بائی) کی ماں ہونے کے بہت کچھ کرتے تھے۔ لیکن اس تصرف کے معائنہ سے اور بھی عظمت و بزرگی راج کنور بائی کی آپ کے دل میں جاگزیں ہو گئی۔ اسی قبیل کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ جس زمانہ میں رکن الدولہ بہادر نے قلعہ گوپال پٹہ کا محاصرہ کیا تھا تو پانی ہر روز علی الاتصال بلا فاصلہ افراط و شدت سے ایسا برستا تھا کہ قلعہ مذکعر کی تسخیر لشکریوں کو ناممکن الوقوع ہو گئی تھی۔ چنانچہ اس موقع پر رکن الدولہ نے راج کنور بھائی کو کہلا بھیجا کہ بارش کی زیادتی سے قلعہ کی تسخیر دشوار ہو گئی ہے۔ چونکہ آپ شامل دکا سب ہیں، لہذا دعا کیجیے کہ بارش میں تخفیف ہو۔ اس پیام کے سنتے ہی راج کنور بائی نے اول تو عجز و انکساری سے تاتھ عذر کیا۔ اور بعد میں کی کہ اچھا جاؤ رکن الدولہ بہادر کو مژدہ دو کہ آیندہ پروردگار عالم کی قدرت کاملہ سے ہر روز صبح سے تین بجے تک مطلع صاف رہے گا۔ اور مطلق بارش نہ ہو گی۔ اس عرصہ میں قلعہ گیری کا سامان کر لیا جائے۔ چنانچہ اس کے بعد حسب قول راج کنور بائی بارش نے صبح سے تین بجے تک برابر فرصت دی۔ اور بہ فضل فتاح حقیقی قلعہ فتح ہو گیا۔

اسی طرح اور بہت سے خرق عادات اور تصرفات اس خجستہ صفات سے اکثر ظاہر ہوئے ہیں۔


صفحہ کتاب 23، صفحہ ریختہ 21

جو بلحاظ طوالت نظر انداز کئے جاتے ہیں۔

راج کنور بائی کا انتقال

افسوس ہے کہ یہ عفیفہ دوران خجستہ خصال، عابدہ و زاہدہ کلمہ گویان، شادان و فرحان 19 محرم الحرام کو راہی وصۂ رضوان ہوئی۔ اور اپنے حسن نیت کے باعث کوہ فلک شکوہ مرتضوی علیہ السلام کے پائیں باغ میں دفن کی گئی۔ چانچہ ہر سال ماہ لقا بائی نہایت تکلف و اہتمام سے عرس کرتی تھیں۔ اور عرس کےموقع پر کمال تجمل و احتشام رہتا تھا۔ ہزار ہا مساکین و فقرا و دو وقتہ بریانی اور زردہ کھاتے تھے۔ کلام مجید کا ختم ہوتا۔ چراغوں کی روشنی بکثرت ہوتی۔ ناچ رنگ کا بھی عمدہ تہاٹ رہتا تھا۔ مشاعروں کی بھی ترتیب ہوتی تھی۔

الحاصل چند بی بی (ماہ لقا بائی) علم و فن میں کمال حاصل کی۔ علم موسیقی میں یکتائے روزگار تھی۔ چھرہ سے امارت کے آثار ہویدا تھے۔ امرائے نامدار اور بارگاہ شاہی میں ہمیشہ باریابی کا فخر حاصل رہتا تھا۔ کوئی مجلس بزم و طرب کی ایسی نہیں ہوتی تھی کہ جس میں ماہ لقا بائی شریک نہ ہوتی ہو۔ بندگان حضرت کے الطاف و عنایت بیحد مبذول رہتے تھے۔ اور اکثر سیر و شکار و مہمات میں بھی ماہ لقا بائی کی یاد ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ 1196ھ میں سفر کولاس اور 1197ھ یں تسخیر قلعہ نرمل اور 1217ھ میں مھم قلعہ پالگل میں یہ پری پیکر ہاتی پر سوار حضرت غفران مآب کے ہمراہ رکاب تھی۔

چندا بی بی کو بارگاہ خسروی سے ماہ لقا بائی کا خطاب اور نوبت و گھڑیال کا عطا ہونا

جب بندگان عالی مع الخیر سفر پالگل سے معاودت فرمائے تو 1217ھ میں حیدر آباد پہونچکر ایک جشن غترت افزا مرتب فرمایا۔ اور تمام امرا و منصدار خطاب و متصب علم و نقارہ سے سرفراز و ممتاز کئے گئے۔ اور بمناسبت نام کے چندا بائی کو ماہ لقا بائی کا خطاب اور نوبت


صفحہ کتاب 24، صفحہ ریختہ 22

و گھڑیال (جو لازمۂ منصبداری ہے) سرفراز فرمایا۔ چنانچہ عطائے نوبت کی تاریخ ایک صاحب نے حسب ذیل لکھی ہے۔

قطعہ
نوید آمد بعالم مہ نقارا
نوازش کرد از نوبت شہنشاہ
ترانہ ساز سالش گفت ناہید
بلند آوزہ نوبت باد دلخواہ

انتقال پرملال نواب نظام علی خان بہادر

نواب نظام علی خان بہادر بعمر 72 سالہ 18 ربیع الثانی 1218ھ کو راہی روضۂ رضوان ہوئے۔ 44 سال حکمرانی کی اور بعد انتقال غفران مآب لقب ہوا۔ اس صدمۂ جانکاہ سے رعایا پرایا، امیر و غریب ہر ایک متاسف و متالم ہوا۔ اور مرشد زادۂ آفاق نواب میر اکبر علی خان سکندر جاہ آصفجاہ ثالث مسند نشین ریاست ہوئے۔ اور ارسطو جاہ بہادر حسب سابق مدار المہام ریاست رہے۔ چنانچہ آصف جاہ ثالث کے عہد سمینت مہدین بھی اس نادرۂ روزگار کا طالع عروج پر رہا اور وہی نوازشات شاہی و الطاف خسروی شامل حال رہے۔ اکثر چوبدار شاہی خیریت و مزاج پرسی کے لئے آتا رہتا تھا۔

ماہ لقا بائی کو میر عالم بہادر کی مصاحبت کا حاصل ہونا

جب ارسطو نے رحلت پائی اور میر ابو القاسم نواب میر عالم بہادر مدار المہام ریاست ہوئے تو یہ عجوبۂ روزگار ان کی مصاحب خاص ہو گئی۔ چونکہ میر عالم بہادر کا مزاج قدردان اہل کمال تھا اور فصاحت و بلاغت میں حسان و سبحان پر گوئے سبقت لیجاتے تھے۔ اس لئے ماہ لقا بائی کی صحبت اور لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی سےکمال محظوظ ہوتے تھے۔ اور اکثر شعر گوئی کی صحبت رہا کرتی تھی۔ میر عالم بہادر کا مقولہ تھا کہ ایسا جلیس و انیس اور تلمیذ ارشد تیز فہم طبع رسا مثل ماہ لقا بائی کے کم دیکھنے میں آیا ہے۔ چنانچہ آپ نے ماہ لقا بائی کے حسن و جمال کی تعریف میں ایک سراپا تصنیف فرمایا تھا۔ جو بخوف طوالت اور زبان فارسی میں ہونے کے نظر انداز کیا گیا۔

ماہ لقا بائی کی شاعری

ماہ لقا بائی کو شعر گوئی سے بیحد شوق تھا۔ اور امیر علیہ السلام کی

صفحہ کتاب 25، صفحہ ریختہ 23

جناب میں کمال اعتقاد رکھتی تھی، چنانچہ اس کا طبعزاد ایک مختصر سا دیوان ہند میں ہدیۂ ناظرین کیا جاتا ہے۔ اور تمام غزلیات بالالتزام پانچ شعری ہیں۔ ہر ایک مقطع میں امیر علیہ السلام کا اسم مبارک موجود ہے۔ ماہ لقا بائی کو میر عالم بہادر کی شاگردی کا فخر حاصل تھا۔ چنانچہ خود بہادر موصوف کو اس کی شاگردی کا اعتراف ہے۔

ماہ لقا بائی کے خصائل و عادات

باوصف سامان ثروت و حشمت ماہ لقا بائی کا اخلاق اور تواضع بہت بڑھا ہوا تھا۔ اکتاب علم کے لئے، اکثر مضحا، علما، شعرا کی صحبت رہتی تھی۔ چونکہ طبعیت موزوں پائی تھی، اس لیے ضلع جگت میں طاق، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی میں شہرۂ آفاق تھی۔ محاورہ درست روزمرہ چست تھا۔ ہمیشہ مکمل لباس سے آراستہ و پیراستہ رہتی تھی۔ بروقت طلبی بارگاہ خردی پر حاضر ہوتی تھی۔ باقی اوقات کتب سیر و کتب متداولہ کے مطالعہ میں گذارتے تھے۔ کتاب خانہ ہر ایک علم و فن کے کتب سے مملو تھا چونکہ اس زمانہ میں مطبع نہ تھا اس لئے اکثر کتابوں کی نقل کر لی جاتی تھی۔ چنانچہ متعدد کاتب ملازم تھے۔ کوئی کتاب نظم و نثر کی تازہ نظر آ جائے تو فوراً اس کی نقل کر لی جاتی۔سخن سنجی اور قدر دانی میں اس محبوبۂ روزگار کی ذات مغتنمات سے تھی۔ ہر روز ہزار دن فقرا اور مساکین کا ہجوم رہتا تھا سادات کرام و شائیخین عظام کو بعنوان نذر و نیاز بہت کچھ عطا کرتی تھی۔

تکلف و اہتمام عرس کوہ شریف

گو جناب شاہ ولایت نے زمین ہندو دکن کو اپنے قدوم ولایت لزوم سے منور نہیں فرمایا ہے لیکن معجزہ طے الارض لازم و ملزوم ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر جناب امیر علیہ السلام حسب الارشاد آن سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم ایک درویش محتاج کی حاجت روائی کے لئے طرفتہ العین میں معہ فقیر محتاج کے قدم رنجہ فرمائے تھے۔ جہاں آپ نے ایک آن واحد میں


صفحہ کتاب 26، صفحہ ریختہ 24

بربر کے بند کو باندھا۔ اژدر کو مارا،خود کو بیچا۔ اور درویش کی حاجت روائی کر کے واپس ہوئے۔ اس لئے تعجب کا مقام نہیں ہے۔ کہ امیر علیہ السلام نے کسی شخص کی مشکل کشائی یا ترویج دین محمدی کے لئے سواد حیدر آباد دکن کو بھی اپنے فعلین سے ضرور شرف بخشا ہو گا۔ جس کی تاثیر سے کوہ پرشکوہ پر عظمت و جلال کے آثار نمایاں ہیں۔ اگرچہ حضر ت کی ولادت باکرامت 13 رجب 30 عام الفیل کو ثابت ہے، لیکن سلاطین قطب شاہیہ کے عہد سے کوہ شریف کا عرس 17 رجب کو انجامپاتا ہے ۔ لاکھوں مرد و زن وغیع و شریف، غنی و فقیر، برباد پیر، صغیر و کبیر، بلدۂ حیدر آباد اور اطراف و اکناف کے اضلاع سے کوہ فلک شکوہ پر جمع ہوتے ہیں۔ اور نذر و نیاز ادا کر کے غربا و مساکین کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور اقسام اقسام کے لذیذ اور میوہ ہائے خشک و تر سے دسترخوان چنا جاتا ہے جو آج تک جاری ہے۔

چنانچہ عرس شریف کے ایام میں ماہ لقا بائی کوہ شریف پر جا کر شاہِ ولایت علیہ السلام کے عرس میں حاضر ہوتی تھی۔ اور ہر گروہ کے فقرا و مشایخین اس عرس میں فراہم ہوتے تھے۔ چار روز تک برابر دو وقتہ اقسا اقسام کے کھانے ماہ لقا بائی کے مطبخ سے کھلائے جاتے اور رخصت کے وقت ہر فقیر کو ایک روپیہ نقد اور بعض کو بقدر مراتب پانچ روپیہ خیرات۔ مشائیخین کو پچاس سے سو روپیہ تک نقد بعنوان نذر اللہ بوجہ اللہ عطا کرتی تھی۔ اور خدام و مجاوران درگاہ شریف کو نقد روپیہ اور پارچہ وغیرہ بخشیش کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ہر ماہ میں حسب دستور و معمول کوہ شریف پر جا کر مبلغ پانصد روپیہ کے قریب صرف کرتی تھی۔

عشرہ شریف میں عزاداری اور سوز خوانی کا اہتمام

جس وقت محرم محترم کا مہینہ آتا تو ماہ لقا بائی حضرت امام حسین علیہ السلام کے غم میں لذیذ غذا کو ترک کرتی تھی۔ اور بلدہ کے تمام عاشور خانوں میں (جن کا شمار ناممکن ہے) یہ راسخ الاعتقاد ایک روپیہ سے پانچ روپیہ بقدر مناسب نذر و نیاز گزرانتی تھی۔ سادات کرام و محبان اہل بیت


صفحہ کتاب 27، صفحہ ریختہ 25

علیہ السلام کو ہزاروں روپیہ کی بخشش ان کے رتبہ کے موافق کرتی تھی۔ چنانچہ غرۂ محرم سے زیارت تک اسی سرمایہ نجات کے جمع کرنے میں رہتی تھی۔ ماہ لقا بائی کا عالیشان محل ایلچی بیگ کی کمان میں واقع تھا۔ جس کے تمام طاق در واق، سقف و کٹگرہدینب و مطلا تھے۔ چونکہ اس مکان میں اکثر تعلیم رقص و سرود کی ہوتی تھی۔ اس لئے بپاس اداب سید الشہدا علیہ السلام علمہائے مبارک کے لئے محل کے محاذی ایک عاشور خانہ تعمیر کرایا گیا تھا اور عاشور خانہ کے سامنے نقار خانہ قایم کیا گیا تھا۔ غرہ محرم سے عاشور خانہ طرح طرح کے نقوش سے آراستہ ہوتا تھا۔ اور وہاں بجز فاتح خوان یا باوضو شخص کے کوئی دوسرا جانے نہیں پاتا تھا۔ یہ بھی تاکید تھی کہ کوئی شخص سرخ لباس پہن کر نہ آئے۔ خطبۂ تعزیت پڑھنے کےلئے سیاہ مخمل منڈہا ہوا ایک منبر استادہ کیا جاتا تھا۔ جہاں روضۃ الشہدا واقعات مقبل۔ بند ملا محتشم پڑھے جاتے تھے۔ اور عاشور خانہ کے مقابل میں روشنی کے لئے ککٹر باندھا جاتا جس کے سامنے کے رخ پر سرخ کپڑا لپیٹ کر بند رومی کی جال وچار خانہ اور ابیات وغیرہ نمایاں کئے جاتے تھے۔ غرہ محرم سے شب عاشور تک اول شب سے صبح تک برابر روشنی رہتی تھی۔ سرشام مرثیہ خوان نہایت خوش الحانی سے سوز خوانی کرتے تھے۔ اس کے بعد روضہ خوان بحکم حدیث شریف۔ من بکار علی الحسین اور ابکی او تباکی وجبت کہ الجنتہ حدیث پڑھتے تھے۔ اس کے بعد تعزیہ داری اور سینہ زنی ہوتی تھی۔ جس سے ہنگامہ محشر بیا ہوتا تھا۔ تعزیہ داری میں جب کوئی شخص بے ہوش ہو جاتا تو اس پر گلاب پاش سے گلاب چھڑکا جاتا تھا۔ اس کے بعد دسترخوان چنا جاتا اور تمام شرکا مجلس کو اقسام اقسام کے کھانے کھلائے جاتے۔ چنانچہ دس روز تک برابر یہ عمل جاری رہتا تھا۔ جب رات زیادہ ہوتی اور خلایق کا ہجوم کم ہوتا تو خاص خاص لوگو تعزیہ داری اور سینہ زنی کے لئے آتے تھے۔


صفحہ کتاب 28، صفحہ ریختہ 26

ترتیب جشن حیدری

13 رجب کو ہر سال انجمن جشن حیدری منعقد ہوتا تھا۔ جس میں شاہ اولیا کی منقبت خوانی ہوتی تھی۔ اور ہر قسم کا سامان ماکول و مشروب مہیا و موجود رہتا تھا۔

نیاز یاز دھم شریف

11 ربیع الثانی کو جناب سید عبد القادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی نیاز یازدہم شریف نہایت تکلف و اہتمام سے انجام پاتی تھی۔ طرح طرح کی نعمتیں محتاجوں اور مساکینوں کو کھلائی جاتیں۔ علاوہ بریں فقرا و مساکین کو نقد روپیہ اور پارچہ تقسیم کیا جاتا۔

کھٹ درسن کا میلہ

سال میں ایک میلہ کھٹ درسن کے نام سے کیا جاتا۔ جس میں پہلے روز فقرائے نو دکن، ملک ہند و دکن، حفاظ و قرا فصاحت فن و مشایخین معارف مسکن کی دعوت اور تمام مشائخین بلدہ کے گھروں میں ایک سیر مٹھائی بھیجی جاتی۔ اگر کوئی مشایخ صاحب اولاد یا اہل برادر ہوتے تو ہر ایک کے نام بنام (خواہ وہاں 20 شخص کیوں نہ ہوں) وہی سیر سیر مٹھائی بھیجی جاتی۔ حفاظ و قراء کو بھی اسی موافق ایک ایک شیر سیرینی دی جاتی تھی۔

دوسرے روز تمام فقراء آزاد و مداری و قادریہ و چشتیہ و چاردہ خانوادہ و رفاعی و گزر والہ جشیہ و فقرائی بابا پیاری کا میلہ جمع ہوتا تھا۔ ہر ایک کے لئے اکل و شرب کا انتظام کیا جاتا اور شیرنی وغیرہ کی تواضح کی جاتی اس میں سو سو کوس کے فقرا جمع ہوتے تھے۔

تیسرے روز مساکین و غربا و مفلوج و معلول جمع ہوتے جن کی تعداد قریب ستر 70 ہزرا کے ہوتی تھی۔


صفحہ کتاب 29، صفحہ ریختہ 27

ان لوگوں میں فی کس آدھ شیر سیرینی تقسیم کی جاتی تھی۔

چوتھے روز جوگی اور بیراگی جمع ہوتے جن کو اچھی طرح مال پوری کھلائی جاتی تھی۔ بہر حال عجب عالی ہمت اور فیاض عورت تھی۔ کہ جہاں کوئی قوم یا جماعت محروم نہ رہتی تھی۔

اگر سچ پوچھیے تو ماہ لقا بائی نے اپنی زندگی نہایت کامیابی سے گزاری۔ ہمیشہ اس کا ستارۂ اقبال اوج و ترقی پر رہتا تھا۔

ماہ لقا بائی کا انتقال

مگر افسوس ہے کہ یہ فرشتہ خصائل، حور منظر، پری پیکر، حاتم دل 1236ھ میں بعہد سمینت مہد نواب سکندر جاہ بہادر چھپن 56 سال کی عمر میں اس دار ناپائدار سے بعارضہ و باراہی روضہ رضوان ہوئی۔ اور اپنے تعمیر کئے ہوئے مقبرہ واقع پائیں کوہ شریف میں دفن کی گئی۔

محدثات ماہ لقا بائی

ماہ لقا بائی کے محدثات سے ایک عالیشان حویلی ایلچی بیگ کی کمان میں واقع تھی۔ دوسرا ایک حوض موسوم بہ فی سبیل اللہ کوہ شریف کے گذرگاہ میں تیار کیا گیا تھا۔ چنانچہ حوض کی تعمیر کی تاریخ جو کسی شخص نے کی ہے، درج ذیل ہے :

انتخابِ زمانہ ماہ لقا
در جہان شد بکار خیر کفیل
سال این چشمہ خضر گفت ہمیں
باد جاری بآب فیض سبیل

مگر اب نہ وہ عالیشان حویلی باقی رہی ہے او ر نہ وہ حوض ہی موجود ہے۔ یہ دونوں انقلاب زمانہ کے باعث دوسری حیثیت میں ہو گئے ہیں۔ البتہ اب صرف عاشور خانہ باقی ہے۔ جہاں علم مبارک استاد ہوتے ہیں۔

ماہ لقا بائی کے اوقات کی پابندی

ماہ لقا بائی جب صبح میں بیدار ہوتی تو پرستاران یاسمین اندام و کنیزان سوسن فام (جو خدمت گزاری پر مامور تھے) آفتابہ اور سیلابچی وضو کے لئے حاضر کرتے۔ اور بعد از فراغ وضو مُصلا بچھا کر


صفحہ کتاب 30، صفحہ ریختہ 28

نماز ادا کرتی تھی۔ اس کے بعد وضائف میں مشغول ہوتی اور صحیفۂ کاملہ جناب سید الساجدین امام علی زین العابدین علیہ السلام پڑھ کر طلوع آفتاب تک اپنے دل کو جناب کبریا کے طرف رجوع کرتی۔ بعد ازاں کلام مجید کی تلاوت ببر علی مشہور بہ لاڈلے صاحب سے کرتی تھی۔ چاشت کے وقت دسترخوان چنا جاتا۔ اقسام اقسام کے کھانے موجود رہتے۔ خوب بہت کم خوراک تھی۔ تھوڑا کھانے کے بعد تمام باقی حواشین و رفقا میں تقسیم کر دیا جاتا۔ اس کے بعد بالا خانہ پر قیلولہ کے لئے جاتی۔ وہاں سے فارغ ہو کے ظہرین کے نماز ادا کر کے تسبیح و تہلیل میں مشغول ہوتی اور 1 گھڑی دن رہے دیوان خانہ میں بڑا قالین بچھایا جاتا۔ اور اس پر مسند آراستہ کی جاتی۔ منشی، متصدی اور اہلکار کارخانہ حاضر ہو کر، افراد مداخل و مخارج ملاحظہ میں گذرانتے۔ جب اس سے فراغت پاتی تو ایک دو بزرگ قابل و سخندان مجالست ہم بزمی کے لیے حاضر ہوتے۔ چنانچہ علم سیر میں روضۃ الصفا، حبیب السیر جلاء العیون، نادر نامہ وغیرہ کا مطالعہ رہتا۔ اور وواوین فارسی ہو ہندی نہایت مرغوب خاطر تھے۔ جب شام ہوتی تو نماز مغرب و عشاء ادا کرتی۔ بعد ازاں فن موسیقی کے اساتذہ حاضر ہوتے۔ رقص و سرود کی تعلیم ہوتی۔ چنانچہ کنیزان مہ پارہ مردنگ و سارنگ اور قانون و جلترنگ بجاتے اور خوش الحانی میں ہم آواز رباب و چنگ تھے۔

گو خود علم موسیقی میں کامل قلفن تھی۔ لیکن پھر بھی خوشحال خان کانونت (=) سے اس کے نکات
************************************************************************************
= مملکت ہندوستان میں راجپوتوں کی قوم (جو راجگان اولوالعزم کی اولاد ہے) اپنے کو شریف و نجیب جانتی ہے، اصل میں تمام چہتری اور راجپوت کے دو گروہ ہیں۔ ایک اپنے کو آفتاب کی اولاد جانتا ہے اور اسی وجہ سے سورج بنی کہلاتا ہے۔ اور دوسرا چاند سے منسوب کر کے چندربنی کے نام سے موسوم ہے۔ راجپوتوں کے قبائل بہت ہیں جن کی تفصیل کتب براہمہ میں مندرج ہے۔ انہیں میں سے ایک قوم کوت کہندار کہلاتی ہے۔ جو علم موسیقی میں مہارت کامل کہتی ہے۔ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کے زمانہ میں یہ قوم بہ ہدایت ایزدی مشرف باسلام ہوئی۔ اور خطاب خانی و منصب سے سرفرازی پائی۔


صفحہ کتاب 31، صفحہ ریختہ 29

۔۔۔۔۔۔ دریافت کرتی رہتی تھی۔

یوں تو ماہ لقا بائی کے تین سو کنیزیں اور متعدد خانہ زاد تھیں۔ ازانجملہ دو چھوکریاں موسوم بہ حسین افزا بائی اور حسین لقا بائی سربرآوردہ ممتاز نکلیں۔ چنانچہ بعد انتقال ماہ لقا بائی کی یہ دو نوچیاں تمام مال و اسباب کی مالک ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ علاوہ عمارات اور باغات وغیرہ کے صرف نقدی و جواہر و پشمینہ و اسباب وغیرہ ایک کڑوڑ روپیہ کا تھا۔ مزید برآں مواضعات پنپال، سید پلی، حیدر گوڑہ، چندا پئیہ، پلے بہاڑ
******************************************************************************************
(بقیہ نوٹ صفحہ 30) کوت کی معنی نژاد و اولاد و احفاد کے بین، اور اس لفظ کوت کہندارا سے یہ بھی قیاس لگایا گیا ہے کہ زمانہ سلف میں ایک نامور مشہور راجہ قوم راجپوت سے گذرا ہے، جسکی اولاد کو کوت کہندارا کہتے ہیں۔ زبان سنسکرت میں کوت کو کوتر کہتے ہیں جس کے معنی نژاد اور احفاد کے ہیں۔ اور یہ قوم فن موسیقی میں ماہر ہونے کے باعث اکثر بادشاہوں کے مقرب و مصاحب رہی ہے۔ اور کمال کی مناسبت سے کلاونت کے لقب سے ملقب ہوئی۔

کلاونت دو کلمے سے مرکب ہے۔ کلا بمعنی موجد و مخترع ترکیب سے شعبہ شش مقام سرود ہندی۔ دوسرا معنی کلا کا روشنی اور ونت کا معنی مصاحب ہے جیسا کہ فارسی میں مند یعنی طالعمند و ہنر مند۔ صاح ایجاد اور راگون کی ترکیب دینے والا۔

اکبر بادشاہ کے عہد میں میاں تان سین (جو قوم کا راجپوت کوت کہندارا تھا) نے علم موسیقی میں کمال تجربہ حاصل کیا تھا۔ چنانچہ کمال کے بدولت بادشاہ کے بارگاہ سے کلانوت کا خطاب ہوا تھا۔ اور اسکے بعد بان سین کا نواسہ میاں نعمت مشہور بہ سدا رنگ (جو میاں تان سین کا ثانی بلکہ اس سے بھی ممتاز تر کہنا چاہیے) محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں فن موسیقی کی وجہ سے مقرب و مصاحب ہو گیا تھا۔ اور منصب پنج ہزاری و خطاب خانی سے (بزمرہ کلاونت) بھی سرفرازی پائی تھی۔ گانے بجانے میں سدا رنگ کی تعریف و توصیف خارج از بیان ہے۔ چنانچہ محمد شاہ بادشاہ کے مصاحب میں اسقدر اقتدار حاصل ہو گیا تھا کہ ہر وقت بارگاہ خسروی میں باریاب ہوتا تھا۔ بلا قیدا۔۔۔۔۔۔ باریاب ہونے کی اجازت تھی۔ ان کے بعد فیروز خان مشہور بہ اورنگ جو میاں نعمت سید ارنگ کا شاگرد علم موسیقی میں بینظیر اور شہرہ آفاق ہوا ہے۔

چنانچہ فیروز خان اوارنگ کے نغمات مثل ابو نژر فاریابی کے تھے۔ جس وقت چاہتا اپنے گانے سے روتے کو ہنسا دیتا۔ اور اسی راگ کو ایسا مقلوب کرتا کہ ہنستے کو رولا دیتا۔ اس کے پانسو شاگرد تھے جو ہر ایک اپنے فن میں کامل تھا۔ لیکن ان میں کریم خان قوم راجپوت کوت کہندارا (جو رشتہ میں تان سین کا نواسہ تھا) مستثنےٰ اور کامل تھا۔ جس کا شہرہ تمام ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ جس وقت حید علی خان (حیدر نایک) ملک کرناٹک (دکن) پر حکمران تھا، اس کا ایک عزیز حلیم خان افغان میانہ ساتور میں حاکم تھا۔ جس نے کمال اشتیاق کے ساتھ کریم خان کو معقول رقم بھیج کر ہندوستان سے بلط کیا۔ چنانچہ خان مذکور حسب آبخور وارد دکن ہو کر حلیم خان کی ملازمت اختیار کی۔ چونکہ حلیم خان علم موسیقی سے ماثر تھا۔ صرف سننے کا شوق رکھتا تھا، اس لئے کریم خان برداشتہ خاطر ہو کر حیدر آباد آیا۔ اور نو سال تک ۔۔۔۔ گہناتھ داس و راجہ بہواجی داس (جو راجہ چندو لعل کے چچا زاد بھائی تھے) کے سرکار میں بوجہ جوہر شناسی ق قدردانی کے ملازمت اختیار کی ۔ اس کے بعد


صفحہ کتاب 32، صفحہ ریختہ 30

مقطعہ علی باغ۔ مقطعہ اڈی یٹیہ، جاگیرات بھی تھیں۔ چنانہ بعد انتقال ماہ لقا بائی کے نواب سکندر جاہ بہادر کا حکم مہاراجہ چندو لال بہادر کے نام پہ صادر ہوا۔ کہ ماہ لقا بائی کی تمام جائیداد اور جاگیرات نگرانی میں لے لیے جاویں اور کنیز کون و خانہ زادوں کو حسب مناسب تنخواہ کر دی جائے۔ پس مہاراجہ بہادر نے حسب فرمان شاہی ماہ لقا بائی کا تمام مال و اسباب جواہر و نقدی وغیرہ کو منگا لے کر جاگیرات پر ضبطی بھیج دی اور خالصہ کا عمل کر لیا گیا۔ اس کے بعد کنیز کو ن اور خانہ زادوں کو نائکہ دس (=) دس روپیہ فی کنیز پانچ روپیہ فی خانہ زاد سات روپیہ کے حساب سے تنخواہ اجرا فرما دی۔
*****************************************************************************
= دس سال تک نواب شکوہ جنگ بہادر (جو غفرانمآب کے پہلے داماد تھے) کے سرکار میں بسر کیا۔ بعد ازاں بقضاء الٰہی فوت ہوا جس کا ضرار کوہ شریف کے رہگذر میں موجود ہے۔ مرحوم کے دو فرزند تھے۔ ایک رضا خان دوسرا خوشحال خان انوب تخلص فرزند آخر الذکر علم موسیقی اور زبان ہندی مثلبرج بھا کا و تصنیف کبت روؤہہ غیرہ میں باپ سے بہتر اور کامل تھا۔ جس کی تصدیق ہر ایک ماہر فن نے کی تھی۔ لیکن چند روز کے بعد برداشتہ خاطر ہو کر وطن مالوفہ کا ارادہ کیا۔ مگر ماہ لقا بائی نے بمقتضائے قدر دانی جانے نہ دیا۔ چنانچہ خان مذکور بھی اس کی قدر دانی پر حویلی خاصہ رنگ میں (جو ماہ لقا کا مکان تھا) سکونت اٰتیار کی۔ اگرچہ راجہ چندو لعل بہادر خان مذکور کو پچاس سوار سے سرفراز فرمایا تھا۔ لیکن سکونت ماہ لقا بائی کے پاس تھی۔ کبھی کبھی یاد آوری کے موقع پر مہاراجہ بہادر کے پاس جاتا تھا۔

اس کے سوا کبھی نہیں۔ یا کبھی عیدین کے موقع پر نذر کے لئے حاضر ہوتا۔ اور مہ لقا بائی اس کی دلدہی اور دلجوئی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتی تھی اور ہزارہا روپیہ سے سلوک کرتی تھی۔ آخر خوشحال خان نے ماہ لقا بائی کے گھر ہی میں انتقال کیا۔ جس کے محدثات سے اس وقت زنانی پھاٹک کے اندر ایک مسجد سر بفلک کشیدہ یادگار اور خوشحال خان کی مسجد کے نام سے موسوم ہے۔

اس کے قبل ہم نے بقول گلزار آصفیہ بیان کیا ہے کہ ماہ لقا بائی کا انتقال 1236 ھ میں ہوا۔ مگر ایک سن رسیدہ صاحب (جو ماہ لقا بائی کے علاقہ دار ہیں) کا بیان ہے کہ ماہ لقا بائی نے 1240ھ میں انتقال کیا ہے اور اپنے بیان کی تصدیق میں انہوں نے ماہ لقا بائی کے مقبرہ کی کند تاریخ کے دو مصرعے حسب ذیل پیش کرتے ہیں و ہواہذا۔

(ہاتف غیبی ندا داد بتاریخ او، راہی جنت شدہ ماہ لقائی دکن) اور انہیں صاحب سے ہم کو راج کنور بائی کے مقبرہ کی تاریخ بھی دستیاب ہوئی جو نذر ناظرین ہے۔ (کنیز شاہ مروان راج کنور، سخاوت پیشہ و اخلاق آرا، چو محمل بسبت انہیں دنیائے فانی، عجب بگذاشت دختر سر و بالا، بخوبی بہتر ازیسی و سیریں، حظابش مہ لقا و عرف چند، برائے انبساط روح مادر، بنا کرواین مکان فرحت افزا، بسال رحلتِ او گفت ہاتف، بیا سرزد خدا این عاجزہ،


صفحہ کتاب 33، صفحہ ریختہ 31

ایک مدت تک یہی عمل جاری رہا۔ لیکن جب نواب سکندر جاہ بہادر مغفرت منزل نے 1224ھ میں انتقال فرمایا۔ اور نواب ناصر الدولہ بہادر سریر آرائے سلطنت دکن ہوے تو حسین افزا اور حسین لقا مثل ماہ لقا بائی کے باریاب بارگاہ خسروی ہوئیں۔ اور روز بروز نوازشات شاہی مبذول ہونے لگیں اور ماہ لقا بائی کا تمام مال و اسباب ان دونوں کو واپس ملا۔ اور جاگیرات وغیرہ بھی ان دونوں کے نام بحال کر دیئے گئے۔ چنانچہ یہ دونوں اپنے اپنے زمانہ زندگی تک نجیب پرور صاحب سلوک و قدردان و فیاض رہیں جو اب تک ان کی فیاضی اور قدر دانی کا فسانہ بعض بعض کبرسن حضرات کے زبان زد ہے۔ اور ان دونوں کی احداثات سے نام پلی کے راستہ میں ایک عالیشان باغ و مکان حسین لقا کے باغ سے موسوم اور لنگم پلی میں ایک عمدہ باغ و مکان حسین افزا کے نام سے اب تک مشہور ہے۔

حسین افزا اور حسین لقا کے پاس بھی پروردہ لڑکیوں کی تعداد بے حد و بے شمار تھی۔ مگر ان میں سے حسین افزا کے تین پروردہ نگینہ بائی 1، کامنی بائی 2، سالو بائی 3، اور حسین لقا کے دو پروردہ موتی بائی 1، دلا رام بائی 2 داخل محلات نواب افضل الدولہ بہادر مغفرت مکان ہوئیں۔ چنانچہ وقت حضرتہ سالو بائی صاحبہ و حضرتہ دلا رام بائی صاحبہ (محلات حضرت مغفرت مکان) زندہ وحی القایم ہیں۔ باقی نگینہ بائی صاحبہ و کامنی بائی صاحبہ و موتی بائی صاحبہ انتقال کر گئیں۔

حسین افزا نے 1260ھ میں انتقال کیا۔ اور حسین لقا نے 1262 میں وفات پائی۔ جب ان دونوں کا انتقال ہو گیا تو بمصداق اس کے کہ آن قدح یشکسبت و آن ساقی نماند کے طائفہ کا وجود باقی رہا۔ اور سب مثل اوراق پریشان کے ادھر اُدہر ہو گئیں۔ اور ان دونوں کے بعد کوئی ایسی لایق و قابل نائکہ نہ رہی کہ ان اوراق پریشان کو اکٹھا کر کے شیرازہ باندھتی۔ اور ماہ لقا کے نام کو زندہ کرتی۔ بہرحال ماہ لقا بائی کے واقعات اس وقت ایسے ہیں کہ خواب تھا جوکچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔

یہاں یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ حسین لقا و حسین افزا کے انتقال کے بعد مہاراجہ بہادر نے محمد مقبولہ مرحوم (جو ماہ لقا بائی کی پرورش یا فتہ متبنیٰ بہ نسبت دوسروں کے لایق و سربرآوردہ تھے) کو ایک زنجیر فیل ایک مادہ اسپ، ایک منزل میانہ، ساٹھ روپیہ ماہوار اور مواصفات چنال و ٹرچرلہ و مقطعہ اڈی مٹیہ و علی باغ عطا و سرفراز کر کے ماہ لقا بائی کے عاشور خانہ و مقبرہ و عرسات کا انتظام و اہتمام تفویض فرمایا۔ چنانچہ محمد مقبولہ بعہد نواب ناصر الدولہ بہادر صاحب عرض اور بارنایاب گاہ سلطانی تھے۔ اور خوب عروج و ترقی پائے جب 19 ذی حجہ 1271ھ کو محمد مقبولہ کا انتقال ہو گیا، ان کے چار بیٹوں کے نام فی کس پندرہ روپیہ کے حساب سے پورے ساٹھ روپیہ اجرائے ہوا۔ ایک مدت کے بعد تین بیٹوں کا انتقال ہو گیا۔ اب ایک بیٹا مسمی غلام علی اس وقت زندہ وحی القایم ہے۔ چھبیس روپیہ ماہور ملتی ہے، جن کو دو لڑکے ہیں۔ اب یہی ماہ لقا بائی کے عرس کو سرکار سے پانچ سو روپیہ اور عاشور خانہ کو ایک سو روپیہ سالانہ ملتے ہیں۔


صفحہ کتاب 37، صفحہ ریختہ 32

اس کے قبل لکھ چکے ہیں کہ ماہ لقا بائی لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی میں یکتائے روزگار تھیں۔ چنانچہ اس وقت بھی ماہ لقا بائی کے اور لطیفے اکثر معمر اشخاص کے نوک زبان ہیں۔ جن میں سے ایک دو ناظرین کے دلچسپی کے لئے ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ماہ لقا بائی دربار شاہی میں پہونچیں تو ان کے اکلائی کے پلو سے ایک جوتی اٹک کر آنے لگی۔ ایک ظریف امیر دربار میں موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ بائی جی صاحبہ آپ کا جوڑا تو آپ کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ جس کا جواب فوراً ماہ لقا بائی نے یہ دیا کہ واقعی ہم غریبوں کا جوڑا ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ مگر آپ جیسے امروں کا جوڑا خدمتگار کے بغل میں رہتا ہے۔

ایک بار ماہ لقا بائی کی سواری راستہ سے جا رہی تھی۔ چہار مینار کے متصل پالکی میں سے چونےکی ڈبیا نیچے گری۔ ایک ظریف وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہ کہ بائی جی صاحبہ کا انڑا گر گیا۔ ماہ لقا بائی نے پلٹ کر جواب دیا کہ کیا خوب گرتے ہی بانگ دینے لگا۔

ایک وقت ماہ لقا بائی دربار خسروی میں حاضر ہوئیں تو وہاں نواب بہرام المل بہادر معہ اپنے چار صاحبزادوں کے (جو نہایت ہی عظیم الجثہ اور زبردست تھے) تشریف رکھتے تھے۔ نواب صاحب نے ماہ لقا بائی سے مزاحاً کہا کہ بائی جی صاحبہ آپ نے ان شیر بچوں (اپنے فرزندوں کی طرف اشارہ کر کے) کو دیکھا تو ماہ لقا بائی نے کیا برجستہ جواب دیا کہ ہاں نواب صاحب شیر بچوں کو تو میں نے دیکھا، مگر اول اس گوی کی تعریف کرنا چاہیے کہ جس سے زیر بچے برآمد ہوئے۔ اس جواب سے نواب صاحب بہت خفیف ہوئے۔

بہر حال اسی قسم کے اور لطیفے بھی موجود ہیں۔ مگر بلحاظ طوالت نظر انداز کئے جاتے ہیں۔ اور انہیں مختصر حالات پر ماہ لقا بائی کی سوانح عمری ختم کی جاتی ہے۔ فقط۔
 
ماہ لقا کو اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے حیات اور حالات پر مشتمل یہ کتاب انتہائی اہمیت کی حامل اور بنیادی ماخذ ہے۔ اس کتاب کو برقیانے کے لیے انتہائی شکریہ! :)
 
Top