نوید اکرم
محفلین
چمن میں پھول کھل جائیں، گلستاں میں بہار آئے
اگر وہ میری کہلائے، اگر وہ میری ہو جائے
نظر آئے نہ تم کو پھر سما یہ خالی خالی سا
بکھر جائے دھنک ہر سو، اگر وہ میری ہو جائے
وہ لمحہ آج بھی خوشبو بکھیرے روح کے اندر
جب اس نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر مجھ کو دی چائے
اکیلا ہوں، میں ٹھوکر کھا کے جب بھی گرنے لگتا ہوں
سہارا مجھ کو دیتے ہیں مرے ہمدم مرے سائے
وظیفے ورد کرنے سے کوئی منزل پہ کیا پہنچے!
جو کوشش ہی نہیں کرتا وہ منزل کو کہاں پائے!
دھرے جاتے ہیں اک دوجے پہ الزامات مرد و زن
شریکِ جرم دونوں ہیں کوئی ان کو یہ سمجھائے
جہالت ہے، خوشی کی جا پہ ماتم ہے ولادت پر
سبب ہے مرد بیٹی کا مگر عورت سزا پائے
وہ کب سے حسن اور کردار لے کے گھر میں بیٹھی ہے
نہ ہو جو لالچی، ایسا کوئی تو شخص آ جائے
ہو استعمال مثبت تو یہ موسیقی، گلوکاری
کرے ایمان تازہ اور لہو لوگوں کا گرمائے
میں عالم ہوںنہ فاضل ہوں، مفکّر ہوں نہ دانشور
کہا ہے جو ، لکھا ہے جو، ہے ادنیٰ سے مری رائے
اگر وہ میری کہلائے، اگر وہ میری ہو جائے
نظر آئے نہ تم کو پھر سما یہ خالی خالی سا
بکھر جائے دھنک ہر سو، اگر وہ میری ہو جائے
وہ لمحہ آج بھی خوشبو بکھیرے روح کے اندر
جب اس نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر مجھ کو دی چائے
اکیلا ہوں، میں ٹھوکر کھا کے جب بھی گرنے لگتا ہوں
سہارا مجھ کو دیتے ہیں مرے ہمدم مرے سائے
وظیفے ورد کرنے سے کوئی منزل پہ کیا پہنچے!
جو کوشش ہی نہیں کرتا وہ منزل کو کہاں پائے!
دھرے جاتے ہیں اک دوجے پہ الزامات مرد و زن
شریکِ جرم دونوں ہیں کوئی ان کو یہ سمجھائے
جہالت ہے، خوشی کی جا پہ ماتم ہے ولادت پر
سبب ہے مرد بیٹی کا مگر عورت سزا پائے
وہ کب سے حسن اور کردار لے کے گھر میں بیٹھی ہے
نہ ہو جو لالچی، ایسا کوئی تو شخص آ جائے
ہو استعمال مثبت تو یہ موسیقی، گلوکاری
کرے ایمان تازہ اور لہو لوگوں کا گرمائے
میں عالم ہوںنہ فاضل ہوں، مفکّر ہوں نہ دانشور
کہا ہے جو ، لکھا ہے جو، ہے ادنیٰ سے مری رائے
مدیر کی آخری تدوین: