چمن میں پھول کھل جائیں، گلستاں میں بہار آئے

نوید اکرم

محفلین
چمن میں پھول کھل جائیں، گلستاں میں بہار آئے
اگر وہ میری کہلائے، اگر وہ میری ہو جائے

نظر آئے نہ تم کو پھر سما یہ خالی خالی سا
بکھر جائے دھنک ہر سو، اگر وہ میری ہو جائے

وہ لمحہ آج بھی خوشبو بکھیرے روح کے اندر
جب اس نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر مجھ کو دی چائے

اکیلا ہوں، میں ٹھوکر کھا کے جب بھی گرنے لگتا ہوں
سہارا مجھ کو دیتے ہیں مرے ہمدم مرے سائے

وظیفے ورد کرنے سے کوئی منزل پہ کیا پہنچے!
جو کوشش ہی نہیں کرتا وہ منزل کو کہاں پائے!

دھرے جاتے ہیں اک دوجے پہ الزامات مرد و زن
شریکِ جرم دونوں ہیں کوئی ان کو یہ سمجھائے

جہالت ہے، خوشی کی جا پہ ماتم ہے ولادت پر
سبب ہے مرد بیٹی کا مگر عورت سزا پائے

وہ کب سے حسن اور کردار لے کے گھر میں بیٹھی ہے
نہ ہو جو لالچی، ایسا کوئی تو شخص آ جائے

ہو استعمال مثبت تو یہ موسیقی، گلوکاری
کرے ایمان تازہ اور لہو لوگوں کا گرمائے

میں عالم ہوںنہ فاضل ہوں، مفکّر ہوں نہ دانشور
کہا ہے جو ، لکھا ہے جو، ہے ادنیٰ سے مری رائے​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ لکھوں گا جسے عزیزی اسامہ اپنی ہدایتوں میں کمپائل کر لیں تو اچھا ہے۔ وہ یہ کہ
طویل بحر کی غیر مردف غزلیں اکثر پسند نہیں کی جاتیں۔ اس لئے ان سے اجتناب بہتر ہے۔
یہ غزل بھی اگر مختصر بحر میں ہوتی تو بہت سے غیر ضروری الفاظ سے بچا جا سکتا تھا، اور روانی اور چستی میں اضافہ ہو جاتا۔ اب بھی نوید انہیں خیالات کو مختصر بحر میں ڈھالنے کی کوشش کریں تو اچھی مشق ہو جائے۔۔

چمن میں پھول کھل جائیں، گلستاں میں بہار آئے
اگر وہ میری کہلائے، اگر وہ میری ہو جائے
÷÷درست

نظر آئے نہ تم کو پھر سما یہ خالی خالی سا
بکھر جائے دھنک ہر سو، اگر وہ میری ہو جائے
÷÷سما؟ شاید مراد سماں بمعنی منظر سے ہے۔ خالی خالی اور دھنک میں تضاد ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔
یہاں بھی ’اگر وہ میری ہو جائے‘ردیف لگ رہی ہے کہ اس سے پچھلے شعر میں ہی استعمال ہوا ہے۔ ایسے اشعار کے درمیان فاصلہ کرنا بہتر ہے۔ یعنی اس شعر کو پانچویں چھٹے نمبر پر لے آیا جائے تو تب تک قاری بھول چکا ہو گا کہ مطلع میں بھی یہی ٹکڑا استعمال کیا جا چکا ہے۔

وہ لمحہ آج بھی خوشبو بکھیرے روح کے اندر
جب اس نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر مجھ کو دی چائے
÷÷بکھیرے، بمعنی بکھیرتا ہے، درست سہی، لیکن مستحسن نہیں۔ اسی طرح روح کے اندر کی بہ نسبت روح میں بہتر ہے۔ یہ طویل بحر میں اوزان مکمل کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ویسے درست ہے۔

اکیلا ہوں، میں ٹھوکر کھا کے جب بھی گرنے لگتا ہوں
سہارا مجھ کو دیتے ہیں مرے ہمدم مرے سائے
÷÷جب اکیلا ہوں تو پھر اب دوسرے مصرع میں ہمدم کہاں سے آ گئے؟ ہمدم اور سائے میں باہمی ربط بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ ’مرے ہمدم‘ محض بحر کے اوزان پورا کرنے کی کوشش ہے۔

وظیفے ورد کرنے سے کوئی منزل پہ کیا پہنچے!
جو کوشش ہی نہیں کرتا وہ منزل کو کہاں پائے!
وظیفہ ورد کرنا محاورے کے خلاف ہے۔
منزل کو کہاں پائے!‘ کی جگہ ’منزل کس طرح پائے‘بہتر ہو گا۔ ’کو‘ محاورے کے خلاف ہے۔

دھرے جاتے ہیں اک دوجے پہ الزامات مرد و زن
شریکِ جرم دونوں ہیں کوئی ان کو یہ سمجھائے
۔۔ اک دوجے؟ کا استعمال مجھے ہمیشہ بالی ووڈ کے گانے کی یاد دلاتا ہے۔ یہ استعمال فصیح نہیں۔ بطور خاص مرد و زن کی غیر ہندی ترکیب کے ساتھ یہ ہندی لفظ عجیب سا لگتا ہے۔

اس کے علاوہ اوپر کے اشعار عشقیہ غزل کے اشعار لگتے ہیں۔ لیکن اس شعر سے غزل کا ماحول بدل جاتا ہے۔ غزل ناصحانہ انداز اختیار کر لیتی ہے۔ غزل کی فضا میں یکسانیت ہو تو بہتر ہے۔

جہالت ہے، خوشی کی جا پہ ماتم ہے ولادت پر
سبب ہے مرد بیٹی کا مگر عورت سزا پائے
÷÷محض ولادت سے یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ بیٹی کی ولادت کا ذکر ہو رہا ہے۔ ہر شخص تمہاری یا میری طرح عقل مند نہیں ہوتا کہ بغیر بتائے سمجھ جائے کہ بیٹی کی ولادت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اور محض مرد کو سبب قرار دینا؟

وہ کب سے حسن اور کردار لے کے گھر میں بیٹھی ہے
نہ ہو جو لالچی، ایسا کوئی تو شخص آ جائے
÷÷جہاں ’کر‘ اور ’پر‘ وزن میں آ سکیں، وہاں ’کے‘ اور ’پہ‘استعمال کرنا بھی غلط ہے۔ ۔ لے کر گھر میں بیٹھی ہے‘ کہو۔ دوسرے مصرع میں روانی کی سخت کمی ہے۔

ہو استعمال مثبت تو یہ موسیقی، گلوکاری
کرے ایمان تازہ اور لہو لوگوں کا گرمائے
÷÷درست
میں عالم ہوںنہ فاضل ہوں، مفکّر ہوں نہ دانشور
کہا ہے جو ، لکھا ہے جو، ہے ادنیٰ سے مری رائے
÷÷درست
ایک بات اور، جو ’بکھیرے‘کے سلسلے میں لکھ چکا ہوں، وہ دوسرے اشعار میں بھی ہے، لیکن میں نے ہر بار نہیں لکھا ہے۔ یہ اندازَ بیان قدیم ہے۔ آج کل محض صیغہ تمنائی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن کیونکہ مکمل غزل میں اسی طرح کا انداز بیان استعمال کیا گیا ہے، اس لئے چل بھی سکتا ہے۔
 

نوید اکرم

محفلین
اتنے مفصل تجزیے کا بہت بہت شکریہ!
نظر آئے نہ تم کو پھر سما یہ خالی خالی سا
بکھر جائے دھنک ہر سو، اگر وہ میری ہو جائے
÷÷سما؟ شاید مراد سماں بمعنی منظر سے ہے۔ خالی خالی اور دھنک میں تضاد ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔
یہاں سما سے مراد "آسمان " ہے
وہ کب سے حسن اور کردار لے کے گھر میں بیٹھی ہے
نہ ہو جو لالچی، ایسا کوئی تو شخص آ جائے
÷÷جہاں ’کر‘ اور ’پر‘ وزن میں آ سکیں، وہاں ’کے‘ اور ’پہ‘استعمال کرنا بھی غلط ہے۔ ۔ لے کر گھر میں بیٹھی ہے‘ کہو۔ دوسرے مصرع میں روانی کی سخت کمی ہے
اس طرح کیسا رہے گا؟

وہ کب سے حسن اور کردار لے کر گھر میں بیٹھی ہے
بھرا جو ہو نہ لالچ سے، کوئی آدم تو آ جائے
 

الف عین

لائبریرین
تو یہ عربی کا سماء تھا، مجھے لگا کہ "سماں‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اگر آسماں ہی ہے تو پھر یہی کیوں استعمال نہ کیا جائے، جس سے روانی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ یوں :
دکھائی دے
یا
نظر آئے نہ پھر یوں آسماں یہ خالی خالی سا
دوسرے شعر میں آدم کی جگہ مرد لانا ہی بہتر ہو گا، یا دولہا، جس سے بات واضح ہو جائے اور روانی بھی بہتر ہو۔ کچھ اور سوچو۔
 

نوید اکرم

محفلین
ہالت ہے، خوشی کی جا پہ ماتم ہے ولادت پر
سبب ہے مرد بیٹی کا مگر عورت سزا پائے
÷÷محض ولادت سے یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ بیٹی کی ولادت کا ذکر ہو رہا ہے۔ ہر شخص تمہاری یا میری طرح عقل مند نہیں ہوتا کہ بغیر بتائے سمجھ جائے کہ بیٹی کی ولادت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اور محض مرد کو سبب قرار دینا؟
ترمیم کے بعد شعر پیش خدمت ہے:
جہالت ہے کہ بیٹی کی ولادت جرم کہلائے
سبب ہے مرد بیٹی کا مگر عورت سزا پائے

مرد کو بیٹی کا سبب اس لئے قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ سائنس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بچے کی جنس کا تعین مرد کے تولیدی مادے سے ہوتا ہے، اور عورت کا بچے کی جنس کے تعین میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ شعر بہتر ہے اور چلو میں مان لیتا ہوں کہ مرد ہی بچے کی جنس کا ذمہ دار ہے۔
لیکن بہتر ہو کہ اس غزل کو توڑ کر دو غزلیں بنا دو۔ یہ شعر دوسری غزل کا مطلع ہو سکتا ہے۔ جس میں غزل کے محض اخلاقی اشعار شامل کرو۔ اور موجودہ مطلع کو محض رومانی غزل کے لئے استعمال کرو۔
 

نوید اکرم

محفلین
میرا بھی یہی خیا ل تھا کہ ایک دو مزید رومانوی شعر لکھ کر غزل کو دو حصوں میں تقسیم کر دوں تو زیادہ بہتر رہے گا۔
 
Top