چترال میں بولی جانے والی 14 زبانون میں سے بیشتر خطرات سے دوچار

nazir.jpg


تحریر: سید نذیرحسین شاہ نذیر
جفاکشوں کے سر زمین وادی چترال میں 14زبانیں بولی اورسمجھی جاتی ہیں۔ زبانیں کہانیوں، گیتوں اورتاریخی روایات سے بھرپور ثقافت کے خزانوں سے مالامال ہوتی ہیں۔ وادی چترال میں میں بولی جانے والی 14زبانوں میں سے کئی ایسی ہیں جن کی بقاء کوسنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہوچکے ہیں اورجلدہی ان کاوجودچترال سے ختم ہونے کااندیشہ ہے۔
اگریہ زبانین ماضی کی طرح ختم ہوگئیں توان کاانمول خزانہ بھی معدوم ہوجائے گا کیونکہ زبانیں ہی ثقافت پیش کرتی ہیں۔زبانوں کے بولنے والے اپنی خوشی وغم کی کیفیت کااظہارانہیں زبانوں کے ذریعے ایک دوسرے کوکرتے آئے ہیں۔وادی چترال میں کئی زبانیں اب شایدتاریخ کی کتابوں میں بھی نہ ملے کیونکہ اس کے بارے میں نہ کوئی خاص بولنے اورنہ لکھنے والانظرآتے ہیں اورنہ ہی کوئی تحریری ریکارڈ موجودہیں۔سینہ بہ سینہ چلی آئے ہوئے زبان اب بھی موجودہیں۔حکومتی پالیسی کا نہ ہونا:پاکستان میں ابھی تک کوئی پالیسی چھوٹی زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج کیلئے نہیں بنی۔ اس وجہ سے یہ چھوٹی زبانیں اور ثقافتیں حکومتی سرسپرستی سے محروم ہیں۔
ان چھوٹی زبانوں کو معدومیت سے بچانے کیلئے کوئی طریقہ کار وضع نہیں ہوا۔ جو تنظیمین اپنی مدد آپ کے تحت اپنی زبان اور ثقافتوں کی ترقی اور ترویج کیلئے کام کرتی ہیں ان کے کام کی بھی حکومتی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں ہے۔ چترال میں بولی جانے والی زبانوں کا سب سے بڑا مسئلہ پڑھنے کیلئے تحریری مواد کا نہ ہوناہے۔
تحریری صورت
چترال میں بولی جانے والی زبانوں میں زیادہ تر کا مسئلہ یہ ہے کہ ان زبانوں میں بنیادی حروف تک کا تعین نہیں ہواہے۔ کچھ زبانوں میں بنیادی آوازوں تک کا بھی تعین نہیں ہواہے کہ اسے استعمال کرکے حروف تہجی تشکیل دئے جائے۔ چترال میں جن جن زبانوں میں رسم الخط موجود ہیں وہ بھی معیار کے مطابق نہیں ہیں۔ ہر لکھنے والا اپنی مرضی کا املا لکھتاہے جس کی وجہ سے مواد پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ تمام اہل زبان کوخصوصی ہدایت کرنے کی ضرورت ہے کہ ان زبانوں کے بولنے والے اپنی اپنی مادری زبان پر فخر کریں اور اپنی اولاد کو اپنی مادری زبان ایک ورثے کے طور پر منتقل کریں گے۔لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے اپنی زبانوں میں ادب کی تخلیق اور لکھنے پڑھنے کو فروغ دینے کے لیے کام کریں گے، اس مقصد کے لیے ادارے قائم کریں اور پہلے سے موجود اداروں کو مستحکم کریں گے۔چترال کے تمام ثقافتی گروہ اپنی اپنی ثقافت، روایات اور لوک ادب کے تحفظ کو فرض سمجھ کر اس کے لیے کام کریں گے۔ ہمیں اپنی شناخت پیداکرنے کے لئے اپنی مادری بولیوں کوترقی دینے میں کرداراداکرناہوگااوراپنی اس شناخت کوزندہ رکھناہو
چترال میں بولنے والی 14 زبانوں میں
کھوار
کالاشہ
دمیلی
۔کاٹانی زبان یاشیخانی
وخی
یدغا
فارسی مداک لشٹی
۔گوارباتی زبان یاکوہستانی
گوجری
پشتو
پلولہ
۔کرغیززبان وادی بروغل میں
سررقولی بروغل میں
کمروی گبورباخ میں
کھوارزبان
کھوارضلع چترال کی مقامی زبان ہے جو کہ ضلع بھر میں بولی سمجھی جاتی ہیں۔ کھوار زبان پر زیادہ کام ہونے اور خصوصاً کھوار زبان میں زبردست شاعری اور موسیقی کی وجہ سے چترال کی دیگر زبانیں بولنے والے نوجوان اپنی اپنی زبانوں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔2008ء کے عام انتخابات میں صوبہ خیبرپختونخوامیں منتخب ہونے والی صوبائی حکومت نے صوبے کے پانچ زبانوں کونصاب میں شامل کرنے کااعلان کیاجس میں کھوارزبان بھی شامل تھا۔عوامی نیشنل پارٹی اورپاکستان پیپلزپارٹی کے مشترکہ صوبائی حکومت نے پانچ سالہ دور اقتدارمیں مسلسل کوشش کرکے ان پانچ زبانوں کے پرائمری نصاب کاحصہ بنانے میں کامیاب ہوئے ۔کھواروادی چترال کی قدیم ترین زبان ہے۔ ریاست کے دورمیں مہترچترال سرناصرالملک نے پہلی دفعہ کھواررسم الخط اپنے ہاتھوں سے لکھ کرمنظرعام پرلایاگیاجس کے بعدکھوارزبان کے شعراء اوردیگراہل قلم کھوارزبان میں سینکڑوں کتابیں شائع کئے ہیں ۔ نہ صرف چترال بلکہ پاکستان بھر کے بک شاپوں سے ملتی ہیں۔مرکزی انجمن ترقی کہوارچترالی زبان کوفروع دینے کے لئے کوشان تنظیم ہے ۔ اسی طرح دوسرے زبانوں سے محبت رکھنے والے لوگ بھی کھوارزبان کی خدمت میں مصروف عمل ہے جس کے نتیجے میں چترال میں بولی اورسمجھی جانے والے دیگرزبانوں کے لئے متعلقہ لوگوں سے رابطہ کرکے موادلینے کی کوشش کی ہے ۔اگراس میں کوئی غلطی دیکھنے یاپڑھنے کوملے توہماری رہنمائی کریں۔

کالاشہ زبان
چترال کے منفرد ثقافت سے مالامال وادی کالاش میں کالاشہ زبان بولی جاتی ہے۔کالاشہ زبان ضلع چترال کے تین چھوٹی چھوٹی وادیوں بمبوریت، بیریر اور رمبور میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان پر کھوار زبان نے اپنا اثر چھوڑا ہے ۔اس زبان کے لئے حروف تہجی بنائے جاچکے ہیں اور کالاشہ ادب کو بھی محفوظ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ سالوں میں یوایس ایڈ کی سمال گرانٹ کی مدد سے مقامی ایل ایس او نے اس زبان کا قاعدہ مرتب کرنے کے لئے ایک پراجیکٹ کا اہتمام کیا جوکہ کامیابی سے احتتام پذیر ہوئی اور یہ کالاش کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے۔
کالاش قبیلے کی مادری زبان کالاشہ ہے جو دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔ چترال میں جن چھوٹی زبانوں کو خطرات لاحق ہیں ان میں کالاشہ زبان بھی شامل ہے۔چترال میں اس زبان کو خطرات لاحق ہیں اور کالاش کے لوگوں نے اس زبان کو بچانے کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔ کالاشہ وادی کالاش کے تقریبا چھ ہزار افراد کی مادری زبان ہے۔کھوار زبان نے چترال میں بولی جانے والی جن بارہ زبانوں پر اپنا اثر چھوڑا ہے ان میں کالاشہ بھی شامل ہے اور کالاشہ بولنے والے اب کھوار بولنے کو ترجیح دینے لگے ہیں اور اگر یہی صورت حال جاری رہی تو کالاشہ زبان معدوم ہو جائے گی۔
۔ دمیلی زبان: دمیلی زبان ضلع چترال کے جنوبی حصے میں دریائے چترال کی مشرقی جانب کھلنے والی وادی کے کئی دیہات میں بولی جاتی ہے،جیسے دمیل نسار، براو، سواتو، کراگرام، اسپار، لیچی گرام، کمسائی اوردیگردیہات میں دمیلی زبان بولی جاتی ہے۔
دمیلی کے پڑوس میں پلولہ اور گوارباتی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دمیلی زبان بولنے والے ان پڑوسیوں کے ساتھ پشتو میں بات کرتے ہیں جبکہ چترال کی بڑی زبان ‘کھوار’ بولنے والوں کے ساتھ کھوار زبان میں بات کی جاتی ہے لیکن بہت سے دامیلی بولنے والے کھوار بولنے میں دقت محسوس کرتے ہیں تو آپس کی بات اردو میں کرتے ہیں۔کمیونٹی کی روزمرہ کی سرگرمیوں جیسے مساجد میں وعظ، عوامی خطابات، سیاسی جلسے اور اعلانات بھی دمیلی زبان میں کئے جاتے ہیں۔یہ زبان بولنے والوں کی تعداد کے حوالے سے بہت چھوٹی یعنی آٹھ تا دس ہزار نفوس کی زبان ہے لیکن بولنے والے اپنی زبان کے ساتھ بہت لگاوّ رکھتے ہیں۔ برادری کے لوگ اپنی زبان کی حفاظت اور اس کو ترقی دینے کے لیے بہت پرعزم ہیں۔ انہوں نے مشورہ کرکے اپنی زبان کے حروف تہجی پر مشتمل ایک بنیادی قاعدہ اور فرہنگ بھی ترتیب دیا ہے۔
کاٹی زبان یاشیخانی:کاٹی/کاتی چترال کے وادی لٹکوہ کے وادی گبور، وادی ، شیخاندہ وادی بمبوریت شیخاندہ ، وادی ارسون اوردیگرعلاقوں میں بولی جانے والی ایک زبان ہے اس زبان پر کھوار زبان نے اپنا اثر چھوڑا ہے۔ کاٹی/کاتی زبان میں حروف تہجی ایجاد کیے جاچکے ہیں اور کاٹی زبان و ادب کو بھی محفوظ کیا جا رہا ہے ۔بعض لوگ لفظ کاٹی کو کاتی اور شیخانی بھی بولتے ہیں ۔ اس قبیلے کی مادری زبان کاٹی/کاتی کاٹی ہے جو دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔کوہ ہندوکش کے اس پہاڑی سلسلے میں آباداس قبلے کے بارے میں قدیم کافرستان،جدید نورستان اورچترالی میں بشگالی کے نام سے یادکیاجاتاہے۔نورستان کی اپنی لوک داستانوں کے حوالہ سے یہ قبیلہ اپنے آپ کوعرب کے قبیلہ قریش سے منسوب کیاجاتاہے۔
۔وخی پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے علاقے وادی گوجال، وادی اشکومن اور وادی یاسین کے سرحدی علاقوں اور ضلع چترال کی وادی بروغل میں بولی جانے والی زبان ہے۔پاکستان کے علاوہ وخی زبان افغانستان کے صوبہ بدخشان، واخان، تاجکستان کے علاقے گورنو بدخشان اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے سرحدی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وخی بولنے والوں کی آبادی تقریبا ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔وخی کا شمار پامیری زبانوں کے گروہ میں ہوتا ہے۔وخی زبان کے تحفظ اور ترویج کے لیے ویب سائٹ اور جدید سوشل میڈیا کے ذریعے کوشاں ہیں ۔ تاہم اس زبان کو تحریری شکل دینے، ادب کو پروان چڑھانے اور اس کے تحفظ کے لیے مزید اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔
۔مداک لشٹی زبان کو بدخشی، دری، تاجکی اور چترالی فارسی بھی کہا جاتا ہے۔مداک لشٹی چترال کے یوسی شیشی کوہ کے آخری گاؤں مداک لشٹ میں بولی جانے والی ایک زبان ہے۔ چترال میں اس زبان کو خطرات لاحق ہیں اور مداک لشٹ کے لوگوں نے اس زبان کو بچانے کی طرف ابھی تک توجہ نہیں دی ہے۔پاکستان میں مداک لشٹی بولنے والوں کی تعداد تقریبا دس ہزار بتائی جاتی ہیں۔ مداک لشٹی بولنے والے اب کھوار بولنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
۔یدغا ضلع چترال کے سب تحصیل لٹکوہ کے یوسی گرم چشمہ کے دوتین دیہات میں بولی جاتی ہے۔ چترال میں اس زبان کو خطرات لاحق ہیں اور لوٹ کوہ کے لوگوں نے اس زبان کو بچانے کی طرف ابھی تک توجہ نہیں دی ہے۔ لوٹ کوہ کے تقریبا دس ہزار افراد کی یہ مادری زبان ہے۔ یدغا بولنے والے اب کھوار بولنے کو ترجیح دینے لگے ہیں اور اسی طرح یہ زبان آہستہ آہستہ معدوم ہو رہی ہے جس کی اصل وجہ یدغا بولنے والے دیگرزبان بولنے والوں سے رشتہ کرتے ہیں جہاں بیٹی دیتے ہیں وہ سسرالیوں کے زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں سے بہو بیاہ کر لاتے ہیں وہ اپنے زبان کوترجیح دیتے ہیں اورگھروالے بھی بہبوکاخیال رکھتے ہوئے اپنے زبان کوچھوڑکرکھوارزبان کوگھرمیں عام کرتے ہیں۔
۔گوارباتی زبان یاکوہستانی:گوارباتی زبان پاکستان ،افعان نستان کے سرحدی علاقوں اورچترال کے صرف ارندو میں بولی جاتی ہے ۔ اس زبان کے افراد کے تعدادارندومیں لگ بھگ6 ہزار ہے۔اس زبان پرپشتواورکھواراپنااثرچھوڑرہاہے ۔گواربتی بولنے والے تعلیمی میدان میں کافی پیچھے ہونے کی وجہ سے اس زبان کی رسم الخط اوردیگرامورکی کوئی تحریری نسخہ نہیں ملتے ہیں ۔زبانوں کے کام کرنے والے اداروں سے اپیل کی جاتی ہے پاک افعان باڈرمیں بولی جانے والی کواربتی زبان کومعددم ہونے سے بچانے کی ہرممکن کوشش کیاجائے۔
۔گجری ، گوجری زبان قدیم ترین زبان ہے۔گوجری آزاد کشمیر،ہزارہ، سوات، دیر، بونیر، چترال، کوہستان اور بالائی پنجاب میں بسنے والے گوجر کی مادری زبان ہے۔ گوجری برصغیر پاک وہند ، افغانستان تک بولی اور سمجھی جانی والی زبان ہے۔ اردو ادب کی تاریخ میں گوجر یا گجری کا نام کا بار بار زکر آتا ہے ۔گوجر اپنی قدیم تہذیب و ثقافت کے آمین چترال کے مختلف سرحدی اورشہری علاقوں میں پوری آب تاب کے ساتھ زندگیاں گزار رہے۔ گوجری زبان سے مراد کسی خطہ کی علاقائی زبان نہیں۔ بلکہ اس عظیم قوم کی زبان سے ہے۔ باقی علاقوں میں دیگر اقوام کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اپنی زبان کو مکمل طور پر محفوظ نہ رکھ سکے۔لیکن برصغیر میں گوجری زبان اپنے اصل روپ میں آج تک موجود ہے۔چترال کے یوسی شیشی کوہ ،یوسی ارندو،یوسی عشرت،رمبور،ایون اٹانی اوردیگرعلاقوں میں گوجر اپنی قدیم تہذیب و ثقافت کوزندہ رکھتے ہوئے چترال کے مختلف علاقوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندگیاں گزار رہے۔
۔پشتو: پشتو یا پختو ایک مشرقی ایرانی زبان ہے جو پٹھانی یا افعانی بھی کہلاتی ہے۔ یہ افغانستان اور پاکستان میں بولی اور پڑھی جاتی ہیں۔جتنی پرانی تاریخ پشتونون کی ہے اتنی ہی پرانی تاریخ پشتو زبان کی ہیں۔ اس لیے پشتو نہ صرف پشتو زبان بلکہ اسکی اچھی ثقافتی مقام بھی ہے ۔ اس لحاظ سے جتنی پشتو پرانی زبان ہے اتنی ہی پرانی تاریخ پشتونوں کی ہے۔چترال کے کچھ لوگ نسلاً پختون تھے یا نہیں مگر پختو زبان بولتے تھے۔ اِس زبان کے بولنے والوں کو پشتون یا پختون اور بسا اوقات افغان یا پٹھان بھی کہا جاتا ہے۔ تحریری شکل میں پشتو ادب صرف عربی رسم الخط میں سامنے آیا۔ضلع چترال کے ارندو،عشریت،دمیل،میرکھنی ،زیارت،ارسون،دروش ،چترال ٹاون اوردیگرمختلف علاقوں میں موجودہیں ۔پشتوزبان کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہیں۔
۔پلولہ زبان:یوسی عشرت کے مختلف علاقو ں میں بولی سمجھی جانی والی زبان ہے ۔پلولہ زبان کے پرایک غیر ملکی محقق نے کئی سال مسلسل کام کرنے کے بعدلکھائی کاایک معیاری نظام وضع کیا ۔ریسرچ کے بعدایک پرائیویٹ سکول قائم کیاگیاجس میں پلولہ زبان میں تعلیم دی جارہی ہے ۔کئی کتابین منظرعام پرآئی ہے اورکئی مسودے چھپائی کے مرحلے میں ہیں ۔علاقے کے اہل قلم پلولہ زبان کومزیدتوسیع دینے کی کوشش میں دن رات سرگرم ہیں۔
۔کرغیزی زبان :ایک ترک زبان ہے جو کرغیزستان کے چالیس لاکھ افراد، اس کے علاوہ یہ زبان چین، افغانستان، قازقستان، تاجکستان، ترکی، ازبکستان، پاکستان اور روس میں بھی بولی جاتی ہے۔کرغیزی زبان چترال کے دورافتادہ وادی بروغل میں بولی جاتی جہاں اس کوبولنے والا تقریبا16,17افرادہیں وہ لوگوں وخی بھی بولتے ہیں اورکرغیزی زبان لاحق خطرات سے بچنے کے لئے اپنے فیملی میں کرغیزی زبان کوترجیحی بنیادوں پربولنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں اس زبان پروخی زبان اپنااثرچھوڑرہاہے مگریہ لوگ وخی کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کوبحال رکھاہے۔
۔وادی بروغل میں بولی جانے والی زبان سراقولی کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں جیساسکوک ہوتاآیاہے ۔اس کوبولنے والے نوجوان نسل اپنے مادری زبان کوچھوڑ کروخی بولنے کوترجیح دے رہے ہیں۔اس زبان کوبولنے والاتقربیا60افراد پرمشتمل ہے ۔یہ زبان چین کے ضلع قشغار، سنکیانگ میں بولی جاتی ،یہ لوگ وہاں سے ہجرت کرکے صدیوں سے وادی بروغل میں آبادہیں ۔وی سی ناظم بروغل امین جان کے مطابق نوجوان نسل اپنے مادری زبان سے لاعلم ہیں ۔اس زبان کوبچنے کے لئے حکومت کوہرممکن کوشش کی ضرورت ہے۔سراقولی زبان چین کے ضلع سنکیانگ میں بولی اورسمجھی جاتی ہے۔
۔کمروی (گبورباخ میں)اس زبان کوگبورباخ میں بہت کم لوگ بولتے تھے ۔اب وہ بھی شیخان وار/کاٹی زبان بولتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ بولی ختم ہوچکاہے ۔اس کوبولنے والے نہیں ملتے ہیں اورسمجھنے والے شاہدکوئی ہوں گے۔اس حوالے (ر) ہیڈ ماسٹر نظام الدین سے رابطہ کیا مگروہ بھی علاج کے سلسلے سے باہرگیا ہے۔
زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے۔سرحدی علاقوں میں بولے جانی والی زبانوں کے ختم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے۔ زبانوں کی معدومیت میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں مقامی زبانوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، کوئی ایسا سافٹ وئیر تیار نہیں کیا گیا جس میں ان زبانوں کو ٹائپ کیا جا سکے۔ پھر نوجوان نسل میں اس زبان کو سیکھنے کا رواج بالکل ناپید ہو چکا ہے کیونکہ یہ زبان مقامی ، قومی یا عالمی سطح پر قطعاً کسی کے کام کی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان زبانوں کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں اورزبان کوبولنے سیکھنے کے لئے حروف تہجی کاہونابہت ضروری ہے ۔اس لئے تمام چھوٹے زبانیں زوال کی طرف تیزی سے جارہے ہیں۔
مقامی زبانوں کوبچانے کے لئے حکومت نے اب تک سنجیدگی سے کوشش نہیں کی ۔بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارے ہاں عجیب ہی صورت حال ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینے کی بجائے ان کو دوسرے زبانوں کے حرف تہجی سیکھایاجارہا ہے۔حالانکہ ماہرین تعلیم کے مطابق بچے کو کم از کم پرائمری کی سطح تک اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جانی چایئے۔
ضلع چترال کے 14زبانیں بولنے والے ہرفردسے گذارش ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو نانی، دادی کی گود میں ڈال دے۔ نانیاں، دادیاں اور خاندان کے دیگر بزرگ زبانوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ بچپن کی لوریاں، سوتے وقت سنائی جانے والی کہانیاں، ہجر و فراق کے نغمے، لوک داستانیں، یہ سب زبان کو تبدیلی اور موت کے منہ سے بچانے کے آسان سے نسخے ہیں۔ نیز یہ طے کر لیا جائے کہ گھر میں صرف مادری زبان میں گفتگو ہوگی۔اوراپنے مادری زبانوں کومعدومیت سے بچانے کی ہرممکن کوشش کریں۔مادری زبانوں کوانسان کی دوسری جلدبھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہرلفظ اور جملے میں قومی روایات، تہذیب وتمدن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں ۔ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات اس کی تہذیب، اس کی تاریخ، اس کی قومیت سب کچھ مٹ جائے گا۔
 

عدنان عمر

محفلین
زبانوں کی معدومیت ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہزاروں زبانیں موت کے دہانے پر ہیں۔
ویسے اگر ہر شخص یہ تہیہ کرلے کہ وہ اپنے گھر میں اپنی مادری زبان میں ہی بات کرے گا تو شاید کوئی زبان ختم نہ ہو۔ دیگر زبانیں تو بچے باہر کے ماحول اور اسکول سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
یعنی چترال کی ان مذکورہ زبانوں میں پڑھنے کے لیے دستیاب مواد تو درکنار بنیادی حروف تہجی ہی کا تعین نہیں۔
 
Top