محسن نقوی چاہہے دنیا سے ہٹ کر سوچنا

چاہہے دنیا سے ہٹ کر سوچنا
دیکھنا صحرا، سمندر سوچنا

مار ڈالے گا ہمیں اس شہر میں
گھر کی تنہائی پہ اکثر سوچنا

دشمنی کرناہے اپنے آپ سے
آئینہ خانے میں پتھر سوچنا

چاندنی، میں، تو، کنار آب جو
بند آنکھوں سے یہ منظر سوچنا

چند تشبیہیں سجانے کے لیے
مدتوں اس کے بدن پر سوچنا

ایک پل ملنا کسی سے اور پھر
اہل فن کا زندگی بھر سوچنا

چاند ہے یا اس کی پیکر کے خطوط
جھیل کی تہ میں اتر کر سوچنا

رفعت دار و عروج بام کو
دوستو نوک سناں پر سوچنا

جاگتے رستوں میں کیا کچھ کھو گیا
اوڑھ کر خواباں کی چادر سوچنا

خشک پتوں کی طرح محسن کبھی
تم بھی صحرا میں بکھر کر سوچنا۔
 
Top