چاہِ بابل

کعنان

محفلین
چاہِ بابل

دنیا کے قدیم ترین آثار میں چاہِ بابل بھی شامل ہے۔ اس کنویں کا ذکر قرآن مجید کے علاوہ بائبل میں بھی آیا ہے۔ اب جبکہ بابل شہر ہی نہیں رہا، اس کنویں کے وجود کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

لیکن بابل کہاں ہے؟ بابل کا کنواں کس نوعیت کا تھا؟ ہاروت ماروت
(جن کا نام چاہِ بابل کے ساتھ ساتھ لازم و ملزوم کی صورت رکھتا ہے) ان کے سحر کی کیفیت کیا تھی؟ اور خود سحر کیا ہے؟ چاہ بابل اور اس کے کوائف سمجھنے کے لیے اس قسم کے متعدد سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں۔

قرآن مجید کا بیان
ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے ہم قرآن مجید کی سورۂ البقرہ کی طویل ترین آیت (۱۰۲) کا ترجمہ نقل کرتے ہیں جس میں ان بیشتر امور کا ذکر موجود ہے:

’’
اور یہ لوگ اس علم کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ اور سلیمان نے کفر نہیں کیا۔ البتہ شیطان کفر کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے، اور وہ اس علم کے پیچھے لگ گئے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت ماروت پر اتارا گیا تھا۔ اور وہ دونوں کسی کو بھی نہیں بتلاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو بس ایک ذریعۂ امتحان ہیں۔ سو تم کفر اختیار نہ کر لینا۔ مگر ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھتے‘ جس سے وہ خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالتے، حالانکہ وہ کسی کو بھی اس کے ذریعہ نقصان نہ پہنچا سکتے تھے، مگر ہاں ارادۂ الٰہی سے۔

’’اور یہ لوگ وہ چیز سیکھتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اور یہ خوب جانتے ہیں کہ جس نے اسے اختیار کیا،اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور بہت ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انھوں نے اپنے آپ کو فروخت کر ڈالا ہے۔ کاش وہ جانتے۔‘‘

بائبل کے حوالے
بائبل کے مندرجہ ذیل مقامات میں ان امور کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں:
۱۔ کتاب۱، سلاطین ۱۱،۱۲
۲۔ کتاب۲، سلاطین باب ۱۷، آیت ۷۱،۱۹
۳۔ کتاب مکاشفہ باب۱۰ آیت ۴،۵۔ باب ۱۸ آیات ۲۳، ۲۴،۳۰۔

بائبل کے تفصیلی بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم صرف حوالہ جات پراکتفا کریں گے۔ البتہ ان کی روایات کا خلاصہ ’’نقل کفر، کفرنہ باشد‘‘ کے بمصداق پیش ہے۔ اس کی صحت کی ذمے داری لینا ہمارے بس سے باہر ہے اور شاید اس کے لیے خود یہود و نصاریٰ کے علما بھی تیار نہ ہوں۔ اسرائیلی روایات کا خلاصہ یہ ہے:

ہاروت ماروت دو فرشتے تھے۔ انھوں نے اللہ کے سامنے انسانوں کے گناہوں کا مذاق اڑایا کہ تیری مخلوق ہرقسم کے انعام کے باوجود گناہ کرتی ہے۔ اللہ کو ان کا طنز پسند نہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اگر تم دنیا کے ماحول میں ہوتے تو یہی کرتے۔ فرشتوں نے اپنی عصمت کا دعویٰ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں زمین پر بھیج دیا۔ یہاں ایک حسین عورت تھی، جس کا نام زہرہ تھا۔ فرشتے اس پر عاشق ہو گئے۔ اس عورت نے کہا: وصل کی شرط یہ ہے کہ تم شراب پیو، قتل کرو اور بتوں کو سجدہ کرو۔ ان پر عشق کا بھوت ایسا سوار ہوا کہ انھوں نے شراب پی، قتل کیا اور بت پرستی سے بھی گریز نہ کیا۔

زہرہ نے پھر ہاروت ماروت سے آسمان پر جانے کا راز دریافت کیا‘ تو انھوں نے زہرہ کو ’’اسم اعظم‘‘ سکھا دیا۔ وہ اس کی مدد سے آسمان پر چلی گئی اور فرشتے راز الٰہی افشا کرنے کے جرم میں چاہ بابل میں قید کر دیے گئے۔ اس جرم میں وہ قیامت تک کنویں کے اندر لٹکے رہیں گے۔ ساری دنیا کا دھواں ان کی ناک کے ایک نتھنے سے داخل ہو کر دوسرے سے گزرتا رہے گا۔

محاکمہ
ہم درج بالا داستان کو حقیقت کے بجائے صرف ایک کہانی تصور کرتے ہیں۔ اس میں حقیقت کم ہے، اور افسانوی رنگ زیادہ جو عقل اور دین دونوں کے خلاف ہیں۔ بھلا فرشتوں کا عشق و سرمستی سے کیا تعلق؟ سب سے بڑی بات یہ کہ قرآن مجید نے فرشتوں کے بارے میں گواہی دی ہے:

’’وہ حکم الٰہی کی نافرمانی نہیں کرتے اور انھیں جو کچھ حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔‘‘
(سورۂ التحریم ۶۶:۶)

امام ابن کثیر نے اپنی مشہور تفسیر ابن کثیر میں درج بالا واقعات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’مسند امام احمد میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی ایک روایت حضورﷺ سے منسوب ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ وہ دراصل کعبِ احبار کا بیان ہے، رسول اللہﷺ کی حدیث نہیں ہے۔ اور کعب احبار نے صرف اسرائیلی قصوں سے نقل کر دیا ہے۔
(تفسیر ابن کثیر جلد، ص۱۴۱)

امام فخر الدین رازی نے ان قصوں کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ سب کچھ فاسد اور مردود ہے۔ عرب عالم دین شہاب عراقی نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو شخص ان قصوں کو مانے وہ اللہ کا منکر ہے۔ وجہ یہی کہ فرشتے معصوم ہوتے ہیں اور قصے میں انھیں گنہگار بلکہ شیطان خصلت پیش کیا گیا ہے۔ قاضی عیاض کی رائے بھی یہی ہے۔

ہاروت ماورت کون تھے؟

چاہ بابل کے سلسلے میں سب سے اہم بحث ہاروت ماروت کے بارے میں ہے کہ وہ کون تھے؟ ان کے بارے میں یہود کے ہاں عجیب و غریب روایات مشہور ہیں۔

آرمینیا کی مذہبی کتابوں میں ہاروت ماروت کو دیوتا بیان کیا گیا ہے۔ ان کا وطن جودی پہاڑی بتلایا گیا جسے عبرانی زبان میں اخری طاغ کہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل خط میخی میں لکھے ہوئے کچھ کتبات دستیاب ہوئے ہیں۔ ان کتبوں میں اس زمانے کے خیالات اور مشہور واقعات کی تفصیل موجود ہے لیکن ان میں ہاروت ماروت کا نام کلگمشن لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ہاروت کا ہی بگڑا ہوا تلفظ ہو۔
(تلمود مدارش یدکوت باب۴۴)

قرآن مجید میں انھیں ’’ملکین‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وما انزل علی الملکین ببابل ہاروت و ماروت

(سورۂ البقرہ: ۲:۱۰۲)

’’ملکین‘‘ کا واحد ’’ملک‘‘ ہے جس کے معنی ہیں فرشتہ۔ بہت سے مفسرین نے اس پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہاروت ماروت اصلاً فرشتے نہ تھے۔ انھیں محض مجازی طور پر مَلَک کہا گیا۔ وہ انسان اور اپنے زمانے کے بااقتدار بادشاہ تھے۔
(تفسیر بیضاوی)

چناںچہ آج کل بھی ہمارے ہاں ’’مَلَک‘‘ کے نام سے ایک گوت (خاندان) موجود ہے۔ تمام ککے زئی اور بہت سے راجپوت بھی اپنے آپ کو ملک کہتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ نام کے ساتھ ملک لگ جانے سے وہ فرشتے نہیں بن جاتے۔

شہربابل
یہ شہر دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ اس پورے علاقے کو بھی بابل ہی کہتے تھے۔ اپنے زمانے میں یہ علاقہ تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ بابل و نینوا کی تہذیب عالمی تاریخ میں بہت اونچا مقام رکھتی تھی۔ ان لوگوں کا رہن سہن دوسروں کے لیے نمونہ تھا۔ بخت نصر کا عہد اس تہذیب کے انتہائی عروج اور ترقی کا دور تھا۔ اس کے بعد یہاں کی تہذیب کو زوال آنا شروع ہو گیا۔

جدید جغرافیہ میں بابل دنیا کے نقشے پر عراق عرب میں واقع ہے‘ لیکن صرف کھنڈروں کی صورت۔ کبھی یہ شہر میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ بابل کے گرد ۵۵ میل لمبی فصیل تعمیر کی گئی تھی۔ انھوں نے اسے ’’ہفت عجائبات عالم‘‘ میں شمار کیا ہے۔ کالڈ یا اور کلدانیہ اس کے پرانے نام تھے۔ انجیل مقدس میں اس شہر کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو:

(کتاب دانیال۴:۲، کتاب مکاشفہ۱۰:۵،۱۷،۱۳،۱۸:۲۳ تا ۲۴)

شہر بابل موجودہ بغداد سے قریباً ساٹھ میل دور جنوب کی سمت دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ اس کے کھنڈروںکے قریب ہی آج ہلّہ (حلّہ) کا شہر آباد ہے۔ ان کھنڈروں میں نہروں کے آثار، پانی کے نلکوں کے نشان، شاہی محلات کی بنیادیں اور مضبوط قلعوں کے نشانات اب بھی موجود اور اپنی تہذیب و تمدن کے کمال کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

شہر بابل کی مشہور عمارات میں مندرجہ ذیل خاص اہمیت کی حامل تھیں:
قصرِ سمیرا میس، بخت نصر کا محل، برج نمرود، معلق باغ جو کئی طبقات پر مشتمل تھا، ایک عالی شان رصد گاہ، لعبوس کا مقبرہ‘ شہر کی طویل و عریض سہ طرفہ حیرت انگیز فصیل اور برج بابل وغیرہ۔

برج بابل کے متعلق مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس برج میں سات رنگ کے طبقے تھے۔ ان کا تعلق سات اجرام سماوی سے تھا:
پہلا طبقہ سیاہ رنگ کا تھا: یہ زحل سے منسوب تھا۔
دوسرا طبقہ سفید رنگ کا تھا: یہ زہرہ سے نسبت رکھتا۔
تیسرا طبقہ نارنجی رنگ کا تھا: اس کی نسبت مشتری سے تھی۔
چوتھا طبقہ نیلے رنگ کا تھا: یہ عطارد سے میلان رکھتا۔
پانچواں طبقہ قرمزی رنگ کا تھا: اس کا مریخ سے میل تھا۔
چھٹا طبقہ نقریٔ تھا: اس کا تعلق چاند سے تھا۔
ساتواں طبقہ طلائی تھا: اس کی نسبت سورج سے تھی۔

بابل کے لوگ معبودانِ باطل کے پرستار تھے۔ ان کے خیال میں یہ معبود آسمان کی فضائوں میں رہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی قسمت ان سے وابستہ سمجھتے ۔ اسی لیے وہ نجوم شناسی اور علم افلاک میں بڑے ماہر تھے۔ ان کے بت کدوں میں ستاروں کی پرستش ہوتی تھی۔

بابل کے کھنڈر اور چاہِ بابل

جنگ عظیم دوم کے دوران ہمارے عزیز محترم‘ چودھری علی احمد سرور عراق گئے۔ انھوں نے بابل کے کھنڈر اور چاہ بابل کا بغور مشاہدہ کیا۔ ہم اس عنوان کے تحت انہی کے غیر مطبوعہ سفرنامہ کے اقتباسات شکریہ کے ساتھ نقل کر رہے ہیں:

"آج یہ سب کھنڈر کے ڈھیر" لیکن چشم بینا کے لیے سرمۂ بصیرت ہیں۔ ان پُرہول ڈھیروں میں عجیب ہیبت پنہاں ہے اور ساتھ ہی ایک اندوہناک اور نہایت حسرت آمیز درسِ عبرت بھی۔

بابل بغداد سے شہر حلّہ کو جانے والی سڑک پر چون (۵۴) میل دور واقع ہے۔ اس سڑک کو ایک چھوٹی سی نہر کاٹتی ہے۔ یہیں سے بابل کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہرکی فصیل تھی۔ آدھ میل آگے چلیں، تو ایک چھوٹا سا عجائب گھر ہے اور اس کے متصل ایک ریسٹ ہائوس بنا ہوا ہے۔ یہ دونوں عمارتیں حکومت عراق کے محکمہ آثار قدیمہ نے تعمیر کرائی ہیں۔

عجائب گھر میں بابل کے کچھ عجائبات، تصویر کشی اور نقاشی کے نادر نمونے اور قدیم شہر کا مٹی سے بنا ہوا ماڈل رکھا ہے۔ عجائب گھر کی پشت پر ایک ٹیلہ ہے جس پر نشان راہ کی تختیاں نصب ہیں۔ کچھ آگے شاہ بنو کدنصر (بخت نصر) کے جلوس کا راستہ ہے۔ مشرق کی سمت ’’نین ماخ‘‘ کا ایک چھوٹا سا معبد ہے۔ گزرگاہِ جلوس کے مغرب میں ایک عمارت ہے جو جنوبی محل کے نام سے مشہور ہے۔

دوسری عمارت معلق باغ
(Hanging Garden) کی ہے جسے ’’محل اعظم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس سے تھوڑی دور آگے ایک تہ خانہ ہے۔ کہتے ہیں یہاں نمرود نے حضرت شعیب علیہ السلام کو شیر کے آگے ڈالا تھا۔ اس تہ خانہ کی دیواروں پر تصاویر بنی ہیں جو اس دور کے ماہرین فن کی فنکاری کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔ جو اینٹیں یہاں استعمال ہوئیں‘ وہ اپنی شناخت اور مضبوطی کے اعتبار سے دور حاضر سے بہت بہتر ہیں۔ چند قدم آگے چل کر ایک کنواں آتا ہے جو اوپر سے مربع شکل کا ہے۔ اسی کنویں کو "چاہ بابل" کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔

چاہ بابل کے قریب پتھر کا ایک بڑا مجسمہ ہے اور ساتھ ہی چند معبد ہیں، جن کو ’’نی نورتا‘‘ اور ’’گلا‘‘ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ’’برج بابل‘‘ بھی اس کے قریب ہی واقع ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سکندر اعظم نے ہندوستان سے واپسی پر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔

کھنڈروں سے دو تین میل کے فاصلے پر ایک مسجد کا گنبد نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ مسجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تعمیر کرائی تھی۔اس کے گنبد اور در و دیوار پر نہایت نفیس نقش و نگار ہیں۔ انھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کاریگر ابھی چند دن پہلے کام سے اٹھ کر گئے ہیں۔

بابل کے حکمران
بابل کے بانی کا نام نمرود بیان کیا گیا ہے۔ اس کا زمانہ قریباً چار ہزار سال قبل مسیحؑ پہلے آیا۔ اس کے باپ کا نام کوش اور دادا کا نام حام تھا۔ حضرت مسیح سے کوئی پونے چار ہزار سال قبل بنوعاد کے سامی قبیلے نے بابل پر قبضہ کر لیا۔ دو یا ڈھائی سو سال ان کی حکومت رہی۔
سامیوں کے بعد اس پریلامی خاندان کا قبضہ ہو گیا۔ وہ نمرود اسی خاندان کا ایک حکمران تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ نمرود اس کا خاندانی لقب تھا، اس کا اصل نام ذوالامر بیان کیا گیا ہے۔ نمرود کا زمانہ ۲۳۰۰سال قبل مسیح میں آیا۔ اسی نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ آگ میں جلا دینے کا حکم دیا تھا۔

اس خاندان کے بعد بابل کے بادشاہوں میں بنوکد نصر بہت مشہور ہوا۔ اسے بخت نصر بھی کہتے ہیں۔ اس نے بہت سے علاقے بزور شمشیر فتح کیے۔ اسی کے ہاتھوں فلسطین میں یہودیوں پر تباہی آئی اور بیت المقدس کا شہر اجڑا۔ اس نے کتاب مقدس کا ایک ایک نسخہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلا ڈالا۔ اس خاندان کا آخری تاجدار بیل شغر تھا۔

حضرت مسیح سے ۵۳۸
(اور بعض روایات کے مطابق ۵۴۹) سال قبل فارس کے بادشاہ نے بابل پر حملہ کر دیا اور اس طرح یہ ملک ایران کا باج گزار بن گیا۔

بابل کا جادو

حضرت سلیمان علیہ السلام جب وفات پا گئے‘ تو بنی اسرائیل بالعموم سحر و طلسم میں مصروف رہنے لگے۔ انھوں نے حقیقت چھوڑ کر جادوگری، شعبدہ بازی، طلسم بندی کو اختیار کر لیا۔ بابل کے باشندے اس سلسلے میں سب سے آگے بڑھ گئے۔

انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس کے فاضل محققین کا بیان ہے کہ اس شہر کے باشندے بہت بڑے جادوگر تھے۔ ان کی مذہبی اور دینیات کی کتابوں میں بھی جگہ جگہ جادو منتر ہی نظر آتے ہیں۔ گویا یہ لوگ سحر اور طلسم کو مذہب کا درجہ دے چکے تھے

(ملاحظہ ہو کتاب مذکور جلد ۲صفحہ۱۱۶)

مختصر یہ کہ بابل جادو منتر اور سفلی عملیات میں دور دور تک مشہور تھا۔ کالڈ یہ اس شہر کا پرانا نام تھا۔ اسی لیے انگریزی میں آج بھی جادوگر کو ’’کالڈین‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ اس شہر کا باشندہ ہونا ہی جادوگر ہونے کی علامت تھی۔


ح
 
Top