چادر

زیف سید

محفلین
رات کے بارہ بجے تھے
نیند آنکھوں میں کسی آوارہ بدلی کی طرح آتی تھی، اور انگلی چھڑا کر بھاگ جاتی تھی
اچانک ذہن میں اک نظم کا کوندا سا لپکا
ہڑبڑا کر، پھینک کر چادر میں اٹھا
میز پر سے پین اٹھایا اور کاپی کھول کر
کاغذ پہ پہلا حرف لفظ لکھنا چاہتا ہی تھا
یکایک کان میں آواز آئی

“اے میاں شاعر
ذرا تخلیق کے گھوڑے سے اترو
ایک پل ٹھہرو، کہو کیا لکھ رہے ہو؟
میرے ماتھے پر سیاہی تھوپنے سے پیشتر
سینے پہ اپنا ہاتھ رکھ یہ بتاؤ
تم جو لکھو گے
وہ کیا اس اجلے اجلے پاک دامن سے بھی افضل ہے؟“

یہ سن کر رک گیا میں
میز پر آگے کی جانب جھک گیا میں
سوچ کے گہرے بھنور میں کھو گیا میں
۔۔۔ اٹھ کے پھر بتی بجھا کے
اور چادر کے مطابق پاؤں کو پھیلا کے
گہری نیند کی آغوش میں گم ہو گیا میں
 
Top