پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند مناظرے

صرف علی

محفلین
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند مناظرے

۱۔ پانچ گروہوں کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مناظرہ[13]
۲۵ / افراد پر مشتمل اسلام مخالفوں کے پانچ گروہ نے آپس میں یہ طے کیا کہ پیغمبر کے پاس جاکر مناظرہ کریں۔

ان گروہوں کے نام اس طرح تھے: یہودی، عیسائی، مادّی، مانُوی اور بت پرست۔

یہ لوگ مدینہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چاروں طرف بیٹھ گئے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت ہی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو بحث کا آغاز کرنے کی اجازت دی۔

یہودی گروہ نے کہا:
”ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”عزیر“ نبی[14] خدا کے بیٹے ہیں، ہم آپ سے بحث و گفتگو کرنا چاہتے ہیںاور اگر اس مناظرہ میں ہم حق پر ہوں تو آپ بھی ہمارے ہم عقیدہ ہوجائیں کیونکہ ہم آپ سے مقدم ہیں، اور اگر آپ نے ہماری موافقت نہ کی تو پھر ہم آپ کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے“۔

عیسائی گروہ نے کہا:
”ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں، اور خدا ان کے ساتھ متحد ہوگیا ہے، ہم آپ کے پاس بحث و گفتگو کرنے کے لئے آئے ہیں، اگر آپ ہماری پیروی کریں اور ہمارے ہم عقیدہ ہوجائیں (تو بہتر ہے) کیونکہ ہم اس عقیدہ میں آپ سے مقدم ہیں، اور اگر آپ نے ہمارے اس عقیدہ میں مخالفت کی تو ہم (بھی) آپ کی مخالفت کریں گے“۔

مادّہ پرست (منکر خدا) گروہ نے کہا:
”ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”موجوات عالَم“ کا کوئی آغاز اور انجام نہیں ہے، اور یہ ”عالَم“ قدیم اور ہمیشہ سے ہے، ہم یہاں آپ سے بحث و گفتگو کے لئے آئے ہیں، اگر آپ ہماری موافقت کریں گے تو واضح ہے کہ برتری ہماری ہوگی، ورنہ ہم آپ کی مخالفت کریں گے“۔

دو گانہ پرست آگے بڑھے اور کہا:
ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس دنیا کے دو مربی، دو تدبیر کرنے والے اور دو مبداٴ ہیں، جن میں سے ایک نور اور روشنی کا خلق کرنے والا ہے اور دوسرا ظلمت اور تاریکی کا خالق ہے، ہم یہاں پر آپ سے مناظرہ کرنے کے لئے آئے ہیں، اگر آپ اس بحث میں ہمارے ہم عقیدہ ہوگئے تو بہتر ہے اور اس میں ہماری سبقت اور برتری ہے، اور اگر آپ نے ہماری مخالفت کی تو ہم بھی آپ کی مخالفت کریں گے“۔

بت پرستوں نے کہا:
ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ ہمارے بت ہمارے خدا ہیں، ہم آپ سے اس سلسلہ میں بحث و گفتگو کرنے آئے ہیں، اگر آپ اس عقیدہ میں ہمارے موافق ہوگئے تو معلوم ہے کہ سبقت اور تقدم ہمارا ہے، ورنہ تو ہم آپ سے دشمنی کریں گے“۔
 

صرف علی

محفلین
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے کلی طور پر جواب میں بیان فرمایا:

(تم نے اپنا عقیدہ بیان کردیا، اب میری باری ہے کہ میں اپنا عقیدہ بیان کروں) ”میرا عقیدہ ہے کہ خداوندعالم وحدہ لاشریک ہے، میں اس کے علاوہ ہر دوسرے معبود کا منکر ہوں، اور میں ایسا پیغمبر ہوں جس کو خداوندعالم نے تمام دنیا کے لئے مبعوث کیا ہے، میں خداوندعالم کی رحمت کی بشارت اور اس کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں، نیز میں دنیا بھر کے تمام لوگوں پر حجت ہوں، اور خداوندعالم مجھے دشمنوں اور مخالفوں کے خطرہ سے محفوظ رکھے گا“۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان گروہوں کو باری باری مخاطب کیا تاکہ ہر ایک سے الگ الگ مناظرہ کریں، چونکہ یہودیوں کے گروہ نے چیلنج کیا تھا اس وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہودیوں کے گروہ کو مخاطب کیا:

ا۔ یہودیوں سے مناظرہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں تمہاری باتوں کو بغیر کسی دلیل کے مان لوں؟

یہودی گروہ: نہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اس بات پر تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ ”عزیر“ خدا کے بیٹے ہیں؟

یہودی گروہ: کتاب ”توریت “مکمل طور پر نیست و نابود ہوچکی تھی اور کوئی اس کو زندہ نہیں کرسکتا تھا، جناب عزیر نے اس کو زندہ کیا، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اگر تمہارے پاس جناب عزیر کے خدا کے بیٹے ہونے پر یہی دلیل ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو توریت لانے والے اور جن کے پاس بہت سے معجزات تھے جن کا تم لوگ خود اعتراف کرتے ہو، وہ تو اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے یا اس سے بھی بالاتر ہوں ! پس تم لوگ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے یہ عقیدہ کیوں نہیں رکھتے جن کا درجہ جناب عزیر سے بھی بلند و بالا ہے؟

اس کے علاوہ اگر خدا کا بیٹا ہونے سے تمہارا مقصود یہ ہے کہ عزیر بھی دوسرے باپ اور اولاد کی طرح شادی اور ہمبستری کے ذریعہ خدا سے پیدا ہوئے ہیں تو اس صورت میں تم نے خدا کو ایک مادّی، جسمانی اور محدود موجودقرار دیدیا ہے، جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کے لئے کوئی خلق کرنے والا ہو، اور اس کو دوسرے خالق کا محتاج تصور کریں۔

یہودی گروہ: جناب عزیر کا خدا کا بیٹا ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ان کی اس طرح ولادت ہوئی، کیونکہ یہ معنی مراد لینا جیسا کہ آپ نے فرمایا کفر و جہل کے مترادف ہے، بلکہ ہماری مراد ان کی شرافت اور ان کا احترام ہے،جیسا کہ ہمارے بعض علماء اپنے کسی ایک ممتاز شاگرد کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے کہتے ہیں: ”اے میرے بیٹے!“ یا ”وہ میرا بیٹا ہے“، یہ بات تو معلوم ہے کہ ولادت کے لحاظ سے بیٹا نہیں ہے کیونکہ شاگرد ،استاد کی اولاد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے کوئی رشتہ داری ہوتی ہے، اسی طرح خداوندعالم نے جناب عزیر کی شرافت اور احترام کی وجہ سے ان کو اپنا بیٹا کہا ہے، اور ہم بھی اسی لحاظ سے ان کو ”خدا کا بیٹا“ کہتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : تمہارا جواب وہی ہے جو میں دے چکا ہوں، اگر یہ منطق اور دلیل اس بات کا سبب ہے کہ جناب عزیر خدا کے بیٹے بن جائیں تو پھر جو شخص مثل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جناب عزیر سے بھی بلند و بالا ہوں اس بات کا زیادہ مستحق ہیں۔

خداوندعالم کبھی بعض لوگوں کو دلائل اور اپنے اقرار کی وجہ سے عذاب کرے گا، تمہاری دلیل اور تمہارا اقرار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تم لوگ جناب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس سے بڑھ کر کہو جو جناب عزیر کے بارے میں کہتے ہو، تم لوگوں نے مثال دی اور کہا: کوئی بزرگ اور استاد اپنے شاگرد سے کوئی رشتہ داری نہیں رکھتا بلکہ اس سے محبت اور احترام کی وجہ سے کہتا ہے:

”اے میرے بیٹے!“ یا ”وہ میرا بیٹا ہے“، اس بناء پر تم لوگ یہ بھی جائز سمجھو کہ وہ اپنے دوسرے محبوب شاگرد سے کہے: ”یہ میرا بھائی ہے“، اور کسی دوسرے سے کہے: ”یہ میرا استاد ہے“، یا ”یہ میرا باپ اور میرا آقا ہے“۔

یہ تمام الفاظ شرافت اور احترام کی وجہ سے ہیں، جس کا بھی زیادہ احترام ہواس کو بہتر اور با عظمت الفاظ سے پکارا جائے، اس صورت میں تم اس بات کو بھی جائز مانو کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بھائی ہیں، یا خدا کے استاد یا باپ ہیں، کیونکہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ جناب عزیر سے بلند و بالا ہے۔

اب میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا تم لوگ اس بات کو جائز مانتے ہو کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بھائی، یا خدا کے باپ یا خدا کے چچا، یا خدا کے استاد ، آقا اور ان کے سردار ہوں، اور خداوندعالم احترام کی وجہ سے جناب موسیٰ (علیہ السلام) سے کہے: اے میرے باپ!، اے میرے استاد، اے میرے چچا اور اے میرے سردار۔۔۔؟

یہ سن کریہودی گروہ لا جواب ہوگیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا، اور وہ حیران و پریشان رہ گئے تھے،چنانچہ انھوں نے کہا: ”آپ ہمیں غور و فکر اور تحقیق کرنے کی اجازت دیں!“

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : بے شک تم لوگ اگر پاک و صاف دل اور انصاف کے ساتھ اس سلسلہ میں غور و فکر کرو تو خداوندعالم تم لوگوں کو حقیقت کی طرف راہنمائی فرمادے گا۔
 

صرف علی

محفلین
۲۔ عیسائیوں سے مناظرہ
عیسائیوں کی باری آئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا:

تم لوگ کہتے ہو کہ خداوندقدیم اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ مسیح کے ساتھ متحد ہے، اس عقیدہ سے تمہاری مراد کیا ہے؟

کیا تم لوگوں کی مراد یہ ہے کہ خدانے اپنے قدیم ہونے سے تنزل کرلیا ہے، اور ایک حادث (جدید خلقت) موجود میں تبدیل ہوگیا ہے، اور ایک حادث موجود (جناب عیسیٰ) کے ساتھ متحد ہوگیا ہے یا اس کے برعکس، یعنی حضرت عیسیٰ جو ایک حادث اور محدود موجود ہیں انھوں نے ترقی کی اوروہ خداوندقدیم کے ساتھ متحد ہوگئے ہیں، یا اتحاد سے تمہارا مقصد صرف حضرت عیسیٰ کا احترام اور شرافت ہے؟!

اگر تم لوگ پہلی بات کو قبول کرتے ہو یعنی قدیم وجود حادث وجود میں تبدیل ہوگیا تو یہ چیز عقلی لحاظ سے محال ہے کہ ایک ازلی و لامحدود چیز، حادث اور محدود ہوجائے۔

اور اگر دوسری بات کو قبول کرتے ہو تو وہ بھی محال ہے، کیونکہ عقلی لحاظ سے یہ چیز بھی محال ہے کہ ایک محدود اور حادث چیز لامحدود اور ازلی ہوجائے۔

اور اگر تیسری بات کے قائل ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) دوسرے بندوں کی طرح حادث ہیں لیکن وہ خدا کے ممتاز اور لائق احترام بندہ ہیں، تو اس صورت میں بھی خداوندکا (جو قدیم ہے) جناب عیسیٰ (علیہ السلام) سے متحد اور برابر ہونا قابل قبول نہیں ہے۔

عیسائی گروہ: چونکہ خداوندعالم نے حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کو خاص امتیازات سے نوازا ہے، عجیب و غریب معجزات اور دوسری چیزیں انھیں دی ہیں، اسی وجہ سے ان کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے، اور یہ خدا کا بیٹا ہونا شرافت اور احترام کی وجہ سے ہے!

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”بعینہ یہی مطلب یہودیوں سے گفتگو کے درمیان بیان ہوا ہے اور تم لوگوں نے سنا کہ اگر یہ طے ہو کہ خداوندعالم نے ان کو امتیاز اور (معجزات) کی بنا پر اپنا بیٹا قرار دیا ہو تو پھر جو شخص جناب عیسیٰ (علیہ السلام) سے بلند تر یا ان کے برابر ہو تو پھر اس کو اپنا باپ، یا استاد یا اپنا چچا قرار دے۔۔۔“۔

عیسائی گروہ یہ اعتراض سن کر لاجواب ہوگیا، نزدیک تھا کہ ان سے بحث و گفتگو ختم ہوجائے، لیکن ان میں سے ایک شخص نے کہا:

کیا آپ جناب ابراہیم( علیہ السلام) کو ”خلیل خدا“ (یعنی دوست خدا) نہیں مانتے؟“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : جی ہاں، مانتے ہیں۔

عیسائی: اسی بنیاد پر ہم جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ”خدا کا بیٹا“ مانتے ہیں، پھر کیوں آپ ہم کو اس عقیدہ سے روکتے ہیں؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : یہ دونوں لقب آپس میں بہت فرق رکھتے ہیں،لفظ ”خلیل“ دراصل لغت میں ”خَلّہ“ (بروزن ذرّة) سے ہے جس کے معنی فقر و نیاز اور ضرورت کے ہیں، کیونکہ جناب ابراہیم( علیہ السلام) بی نہایت خدا کی طرف متوجہ تھے، اور عفت نفس کے ساتھ، غیر سے بے نیاز ہوکر صرف خداوندعالم کی بارگاہ کا فقیر اور نیاز مند سمجھتے تھے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے جناب ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا ”خلیل“ قرار دیا، تم لوگ جناب ابراہیم( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کا واقعہ یاد کرو:

جس وقت (نمرود کے حکم سے) ان کو منجنیق میں رکھا تاکہ ان کو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ کے اندر ڈالا جائے، اس وقت جناب جبرئیل خدا کی طرف سے آئے اور فضا میں ان سے ملاقات کی اور ان سے عرض کی کہ میں خدا کی طرف سے آپ کی مدد کرنے کے لئے آیا ہوں، جناب ابراہیم( علیہ السلام) نے ان سے کہا: مجھے غیر خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مجھے اس کی مدد کافی ہے، وہ بہترین محافظ اور مددگار ہے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے جناب ابراہیم( علیہ السلام) کو اپنا ”خلیل“ قرار دیا، خلیل یعنی خداوندعالم کا محتاج اور ضرورت مند، اور خلق خدا سے بے نیاز۔

اور اگر لفظ خلیل کو ”خِلّہ“ (بروزن پِلّہ) سے مانیں جس کے معنی ”معانی کی تحقیق اور خلقت وحقائق کے اسرار و رموز پر توجہ کرنا ہے“، اس صورت میں بھی جناب ابراہیم( علیہ السلام) خلیل ہیں یعنی وہ خلقت اور حقائق کے اسرار اور لطائف سے آگاہ تھے، اور یہ معنی خالق و مخلوق میں شباہت کی باعث نہیں ہوتی، اس بنا پر اگر جناب ابراہیم( علیہ السلام) صرف خدا کے محتاج نہ ہوتے، اور اسرار و رموز سے آگاہ نہ ہوتے تو خلیل بھی نہ ہوتے، لیکن باپ بیٹے کے درمیان پیدائشی حوالہ سے ذاتی رابطہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر باپ اپنے بیٹے سے قطع تعلق کرلے تو بھی وہ اس کا بیٹا ہے اور باپ بیٹے کا رشتہ باقی رہتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر تمہاری دلیل یہی ہے کہ چونکہ جناب ابراہیم( علیہ السلام) خلیل خدا ہیں لہٰذا وہ خدا کے بیٹے ہیں، تو اس بنیاد پر تمہیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) بھی خدا کے بیٹے ہیں، بلکہ جس طرح میں نے یہودی گروہ سے کہا، اگر یہ طے ہو کہ لوگوں کے مقام و عظمت کی وجہ سے یہ نسبتیں صحیح ہوں تو کہنا چاہئے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے باپ، استاد، چچا یا آقا ہیں۔۔۔ جبکہ تم لوگ کبھی بھی ایسا نہیں کہتے۔

عیسائیوں میں سے ایک شخص نے کہا: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کے حوالہ سے بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: ”میں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“، لہٰذا اس جملہ کی بنا پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے خود کو خدا کا بیٹا قرار دیا ہے!

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اگر تم لوگ کتاب انجیل کو قبول کرتے ہو تو پھر اس جملہ کی بنا پر تم لوگ بھی خدا کے بیٹے ہو، کیونکہ جناب عیسیٰ کہتے ہیں: ”میں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“، اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ میں بھی خدا کا بیٹا ہوںاور تم بھی۔

دوسری طرف یہ عبارت تمہاری گزشتہ کہی ہوئی بات (یعنی چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خاص امتیازات، شرافت اور احترام رکھتے تھے اسی وجہ سے خداوندعالم نے ان کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے) کو باطل اور مردود قرار دیتی ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس جملہ میں صرف خود ہی کو خدا کا بیٹا قرار نہیں دیتے بلکہ سبھی کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔

اس بنا پر بیٹا ہونے کا معیار حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاص امتیازات (اور معجزات میں سے) نہیں ہے، کیونکہ دوسرے لوگوں میں اگرچہ یہ امتیازات نہیں ہیں لیکن خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے نکلے ہوئے جملہ کی بنا پر خدا کے بیٹے ہیں، لہٰذا ہر مومن اور خدا پرست انسان کے لئے کہا جاسکتا ہے: وہ خدا کا بیٹا ہے، تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول کو نقل کرتے ہو لیکن اس کے برخلاف گفتگو کرتے ہو۔

کیوں تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو میں بیان ہونے والے ”باپ بیٹے“ کے لفظ کو اس کے غیر معنی میں استعمال کرتے ہو، شاید جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کی مراد اس جملہ ”میں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“، سے مراد اس کے حقیقی معنی ہوں یعنی میں حضرت آدم و نوح (علیہما السلام) کی طرف جارہا ہوں جو ہمارے سب کے باپ ہیں، اور خداوندعالم مجھے ان کے پاس لے جارہا ہے، جناب آدم و نوح ہمارے سب کے باپ ہیں، اس بنا پر تم کیوں اس جملہ کے ظاہری اور حقیقی معنی سے دوری کرتے ہو اور اس سے دوسرے معنی مرادلیتے ہو؟!

عیسائی گروہ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مستدل گفتگو سے اس قدر مرعوب ہواکہ کہنے لگے: ہم نے آج تک کسی کو ایسا نہیں دیکھا کہ اس ماہرانہ انداز میں اس طرح بحث و گفتگو کرے جیسا کہ آپ نے کی ہے، ہمیں اس بارے میں غور و فکر کی فرصت دیں۔
 

صرف علی

محفلین
۳۔ منکرین خدا سے مناظرہ
مادّیوں اور منکرین خدا کی باری آئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ اس بات کا عقیدہ رکھتے ہو کہ اس موجودات عالم کا کوئی آغاز نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

منکرین خدا: جی ہاں، یہی ہمارا عقیدہ ہے، کیونکہ ہم نے اس دنیا کے آغاز اور حدوث کو نہیں دیکھا، اور اسی طرح اس کے لئے فنا اور انتہا کا مشاہدہ نہیں کیا، لہٰذا ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : میں بھی آپ لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا تم نے موجودات کے قدیم، ہمیشگی اور ابدی ہونے کو دیکھا ہے؟

اگر تم کہتے ہو کہ ہم نے دیکھا ہے تو تمہیں اسی عقل و فکر اور بدنی طاقت کے ساتھ ہمیشہ سے ابد تک رہنا چاہئے تاکہ تمام موجوات کی ازلیت اور ابدیت کو دیکھ سکو، جبکہ ایسا دعویٰ عقل اور عینی واقعیت کے برخلاف ہے ، اور دنیا کے سبھی عقلمند حضرات اس بات میں تمہیں جھٹلائیں گے۔

منکرین خدا: ہم نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ ہم نے موجودات کے قدیم ہونے کو دیکھا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : تم کو ایک طرفہ فیصلہ نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ تم لوگوں نے خود اقرار کیا ہے کہ نہ ہم نے موجودات کو دیکھا ہے اور نہ ان کے قدیم ہونے کو، اور نہ ہی ان کی نابودی کو دیکھا ہے اور نہ ان کی بقاء کو، پس تم کس طرح ایک طرفہ فیصلہ کرسکتے ہو،اور تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ چونکہ ہم نے موجودات کے حدوث اور فنا کو نہیں دیکھا لہٰذا موجودات قدیمی اور ابدی ہیں؟

(اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ایک سوال کیا جس میں ان کے عقیدہ کو مردود کرتے ہوئے ثابت کیا کہ تمام موجودات حادث ہیں) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

کیا تم نے دن اور رات کو دیکھا ہے جو ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اور ہمیشہ آمد و رفت کرتے ہیں۔

منکرین خدا: جی ہاں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا تم لوگ دن و رات کو اس طرح دیکھتے ہو کہ ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہےں گے۔

منکرین خدا: جی ہاں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا تمہاری نظر میں یہ ممکن ہے کہ یہ دن رات ایک جگہ جمع ہوجائیں اور ان کی ترتیب ختم ہوجائے؟

منکرین خدا: نہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : پس اس صورت میں ایک دوسرے سے جدا ہیں، جب ایک کی مدت پوری ہوجاتی ہے تب دوسرے کی باری آتی ہے۔

منکرین خدا: جی ہاں، اسی طرح ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : تم لوگوں نے اپنے اس اقرار میں شب و روز میں مقدم ہونے والے کے حدوث کا اقرار کرلیا ہے بغیر اس کے کہ تم لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہو، لہٰذا تمہیں خدا کا بھی منکر نہیں ہونا چاہئے[15]

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

”کیا تمہاری نظر میں دن رات کا کوئی آغاز ہے یاان کا کوئی آغاز نہیں ہے اور ازلی ہے؟ اگر تم یہ کہتے ہو کہ آغاز ہے تو ہمارا مقصد ”حدوث“ ثابت ہوجائے گا اور اگر تم لوگ یہ کہتے ہو کہ اس کا کوئی آغاز نہیں ہے تو تمہاری اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ جس کا انجام ہو اس کا کوئی آغاز نہ ہو۔

(جب دن رات انجام کے لحاظ سے محدود ہیں تو یہاں پر عقل کہتی ہے کہ آغاز کے لحاظ سے بھی محدود ہے، شب و روز کے محدود ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہیں اور یکے بعد دیگرے گزرتے رہتے ہیں اور پھر ایک کے بعد دوسرے کی باری آتی ہے)

اس کے بعد فرمایا:

تم لوگ کہتے ہو کہ یہ عالم قدیم ہے، کیا تم نے اپنے اس عقیدہ کو خوب سمجھ بھی لیا ہے یا نہیں؟

منکرین خدا: جی ہاں، ہم جانتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا تم لوگ دیکھتے ہو کہ اس دنیا کی تمام موجودات ایک دوسرے سے تعلق اور پیوند رکھتے ہیں اور اپنی بقا ء میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، جیسا کہ ہم ایک عمارت میں دیکھتے ہیں کہ اس کے اجزاء (اینٹ، پتھر، سیمنٹ وغیرہ) ایک دوسرے سے پیوند رکھتے ہیں اور اپنی بقاء میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔

جب اس دنیا کے تمام اجزاء اسی طرح ہیں تو پھر کس طرح ان کو قدیم اور ثابت [16]تصور کرسکتے ہو، اگر حقیقت میں یہ تمام اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ پیوند رکھتے ہوں اور ضرورت رکھتے ہوں، قدیم ہیں اگر حادث ہوتے تو کیسے ہوتے؟

منکرین خدا لاجواب ہوگئے، اور حدوث کے معنی کو بیان نہیں کرسکے، کیونکہ جو کچھ بھی حدوث کے معنی میں کہہ سکتے تھے، اورجن چیزوں کو قدیم مانتے تھے ان پر یہ معنی صادق آتے تھے، لہٰذا بہت زیادہ حیران اور پریشان ہوگئے ، اور انھوں نے کہا: ہمیں غور و فکر کرنے کا موقع دیں۔[17
 

صرف علی

محفلین
۴۔دوگانہ پرستوں سے مناظرہ
ان کے بعد دوگانہ پرستوں کی باری آئی جن کا عقیدہ یہ تھا کہ دنیا کے دو مبداء اور دو مدبر بنام ”نور“ اور ”ظلمت“ ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا: تم کس بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے ہو؟

دوگانہ پرستوں نے جواب دیا: ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دنیا دو چیزوں سے تشکیل پائی ہے،اس دنیا میں یا خیر و نیکی ہے، یا شرّ اور برائی، جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اسی وجہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا خالق بھی الگ الگ ہے، کیونکہ ایک خالق دو متضاد چیزیں خلق نہیں کرتا، مثال کے طور پر: برف سے گرمی پیدا ہونا محال ہے، جیسا کہ آگ سے سردی پیدا ہونا بھی محال ہے، لہٰذا یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں دو قدیم خالق ہیں ایک نور کا خالق (جو نیکیوں کا خالق ہے) اور دوسرا ظلمت کا خالق (جو برائیوں کا خالق ہے)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا تم لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ اس دنیا میں مختلف رنگ موجود ہیں جیسے کالا، سفید، سرخ، زرد، سبز اور مائل بہ سیاہی جبکہ یہ رنگ ایک دوسرے کی ضد ہیں کیونکہ ان میں دو رنگ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، جیسا کہ گرمی اور سردی ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔

دوگانہ پرستوں نے جواب دیا: جی ہاں ہم تصدیق کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : تو پھر تم لوگ ہر رنگ کے عدد کے مطابق اتنے ہی خدا کے معتقد کیوںنہیں ہو؟ کیا تمہارے عقیدہ کے مطابق ہر ضد کا ایک مستقل خالق نہیں ہے؟ اس پر تم ہر ضد کی تعداد کے مطابق خالق کا کیوں عقیدہ نہیں رکھتے۔؟!

دوگانہ پرست اس دندان شکن سوال کے جواب دینے سے حیران و پریشان ہوگئے، اور غور و فکر میں غرق ہوگئے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی باتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: تمہارے عقیدہ کے مطابق نور اور ظلمت دونوں کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس دنیا کو چلا رہے ہیں، جبکہ نور کی فطرت میں ترقی ہے اور ظلمت کی فطرت میں تنزلی ہوتی ہے، کیا دو شخص جن میں سے ایک مشرق کی طرف جارہا ہو اور دوسرا مغرب کی طرف جارہا ہو ، کیا یہ دونوں اسی طرح چلتے چلتے ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں؟!

دوگانہ پرستوں نے جواب دیا: نہیں ، ایسا ممکن نہیں ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اس بنا پر کس طرح نور اور ظلمت جو ایک دوسرے کے مخالف اور متضاد ہیں آپس میں متحد ہوکر اس دنیا کی تدبیر کا کام انجام دے رہے ہیں؟ آیا اس طرح کی چیز ممکن ہے کہ یہ دنیا جو دو متضاد اور مخالف اسباب کی وجہ سے پیدا ہو؟ مسلّم طور پر ایسا ممکن نہیں ہے، پس معلوم یہ ہوا کہ یہ دونوں چیزیں مخلوق اور حادث ہیں اور خداوندقادر و قدیم کی تدبیر کے ماتحت ہیں۔

دوگانہ پرست مجبوراً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لاجواب ہوگئے، اور انھوں نے اپنا سر جھکالیا، اور کہنے لگے: ہمیں غور و فکر کرنے کی فرصت عنایت فرمائیں
 

صرف علی

محفلین
۵۔ بت پرستوں سے مناظرہ
اب پانچویں گروہ یعنی بت پرستوں کی باری آئی ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”تم لوگ کیوں خدا کی عبادت سے روگرداں ہو اور ان بتوں کی پوجا کرتے ہو؟“

بت پرست: ہم ان بتوں کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا یہ بت کچھ سنتے بھی ہیں؟ اور کیا یہ بت خدا کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں، اور کیا اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں؟ جس سے تم ان کے احترام کرنے کی بدولت خدا کا تقرب حاصل کرتے ہو؟

بت پرست: نہیں یہ تو نہیں سنتے اور نہ خداوندعالم کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں!

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : کیا تم لوگوں نے ان کو اپنے ہاتھوں سے نہیں تراشا ہے اور ان کو نہیں بنایا ہے؟

بت پرست: کیوں نہیں، ہم نے ان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اس بنا پر تم لوگ ان کے صانع اور بنانے والے ہو، مناسب تو یہ ہے کہ یہ تمہاری عبادت کریں نہ کہ تم لوگ ان کی عبادت اور پرستش کرو، اس کے علاوہ جو خدا تمہاری مصلحت اور تمہارے انجام نیز تمہارے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اس کو چاہئے کہ بتوں کی پرستش کا حکم تمہیں دے، جبکہ خداوندعالم نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔

جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو بت پرستوں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔

ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: خدا نے ان بتوں کی شکل و صورت والے مردوں میں حلول کیا ہے اور ہم ان بتوں کی پرستش اور ان پر توجہ اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ ان شکلوں کا احترام کرسکیں۔

ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: ہم نے ان بتوں کو پرہیزگار اور خدا کے مطیع بندوں کی شبیہ بنایا ہے، ہم خدا کی تعظیم اور اس کے احترام کی وجہ سے ان کی عبادت کرتے ہیں!

تیسرے گروپ نے کہا: جس وقت خداوندعالم نے جناب آدم کو خلق کیا، اور اپنے فرشتوں کو جناب آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا، لہٰذاہم (تمام انسان) اس بات کے سزاوار ہیں کہ جناب آدم کو سجدہ کریں اور چونکہ ہم اس زمانہ میں نہیں تھے، اس وجہ سے ان کو سجدہ کرنے سے محروم رہیں، آج ہم نے جناب آدم کی شبیہ بنائی ، اور خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں تاکہ گزشتہ محرومیت کی تلافی کرسکیں، اور جس طرح آپ نے اپنے ہاتھوں سے (مسجدوں میں) محرابیں بنائی اور کعبہ کی طرف منھ کرکے سجدہ کرتے ہیں، کعبہ کے مقابل خدا کی تعظیم اور اس کے احترام کی وجہ سے سجدہ اور عبادت کرتے ہیں اسی طرح ہم بھی ان بتوں کے سامنے در حقیقت خدا کا احترام کرتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تینوں گروہوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا: تم سبھی لوگ حقیقت سے دور غلط اور منحرف راستہ پر ہو، اور پھر ایک ایک کا الگ الگ جواب دینے لگے:

پہلے گروہ کی طرف رخ کرکے فرمایا:

تم جو کہتے ہو کہ خدا نے ان بتوں کی شکلوں کے لوگوں میں حلول کررکھا ہے اس وجہ سے ہم نے ان بتوں کو انھیں مردوں کی شکل میں بنایا ہے اور ان کی پوجا کرتے ہیں، تم لوگوں نے اپنے اس بیان سے خدا کو مخلوقات کی طرح قرار دیا ہے اور اس کو محدود اور حادث مان لیا، کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتاہے اور وہ چیز (جو کہ محدود ہے) خدا کو اپنے اندر سما لیتی ہے؟ لہٰذا کیا فرق ہے خدا اور دوسری چیزوں میں جو جسموں میں حلول کرتی ہیں جیسے رنگ، ذائقہ، بو، نرمی، سختی، سنگینی اور سبکی، اس بنیاد پر تم لوگ کس طرح کہتے ہو کہ جس جسم میں حلول ہوا ہو وہ تو حادث اور محدود ہے لیکن جو خدا اس میں واقع ہوا ہو وہ قدیم اور نامحدود ہے، جبکہ اس کے برعکس ہونا چاہئے یعنی احاطہ کرنے والا قدیم ہونا چاہئے اور احاطہ ہونے والا حادث ہونا چاہئے۔

اس کے علاوہ کس طرح ممکن ہے جو خداوندعالم ہمیشہ سے اور تمام موجودات سے پہلے مستقل اور غنی ہو، نیز محل سے پہلے موجود ہو ، اس کو محل کی کیا ضرورت ہے کہ خود کو اس محل میں قرار دے!۔

اور تمہارے اس عقیدہ کے پیش نظر کہ خدا نے موجودات میں حلول کر رکھا ہے ، تم نے خدا کو موجودات کی صفات کے مثل حادث اور محدود فرض کرلیا ہے، جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کا وجود قابل تغییر و زوال ہے، کیونکہ ہر حادث اور محدود چیز قابل تغییر اور زوال ہوتی ہے۔

اور اگر تم لوگ یہ کہو کہ کسی موجود میں حلول کرنا تغییر اور زوال کا سبب نہیں ہے، تو پھر بہت سے امور جیسے حرکت، سکون، مختلف رنگ، سیاہ و سفیداور سرخ وغیرہ کو بھی ناقابل تغییر اورناقابل زوال کے سمجھو، اس صورت میں تمہارے لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ خدا کے وجود پر ہر طرح کے عوارض اور حالات پیدا ہوتے ہیں، جس کے نتیجہ میں خدا کو دوسرے صفات کی طرح محدود اور حادث سے توصیف کرو اور خدا کو مخلوقات کی شبیہ مانو۔

جب شکلوں میں خدا کے حلول کا عقیدہ بے بنیاد اور کھوکھلا ہوگیا، تو چونکہ بت پرستی کی بنیاد بھی اسی عقیدہ پر ہے تو پھر وہ بھی بے بنیاد اور باطل ہوجائے گی۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان دلائل اور انداز بیان کے سامنے بت پرستوں کا پہلا گروہ لاجواب ہوگیا، اور سرجھکاکر غور و فکر کرنے لگا اور کہا: ہمیں مزید غور و فکر کی فرصت دیں۔

اس کے بعدپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے گروہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: مجھے بتاؤ کہ جب تم نیک اور پرہیزگار بندوں کی شکل و صورت کو پوجتے ہو اور ان شکلوں کے سامنے نماز پڑھتے ہو اور سجدہ کرتے ہو، اور ان شکلوں کے سامنے سجدہ کے عنوان سے اپنے سربلند چہروں کو زمین پر رکھتے ہو، اور مکمل خضوع کے ساتھ پیش آتے ہو، تو پھر خدا کے لئے کیا خضوع باقی رہا، (واضح الفاظ میں سب سے زیادہ خضوع سجدہ ہے، اور تم ان شکلوں کے سامنے سجدہ کرتے ہو تو پھر تمہارے پاس اور کیا خضوع باقی ہے جس کو خدا کے سامنے پیش کرو؟) اگر تم لوگ کہتے ہو کہ خدا کے لئے بھی سجدہ کرتے ہیں تو پھر ان شکلوں اور خدا کے لئے برابر کا خضوع ہوجائے گا، تو کیا حقیقت میں ان بتوں کا احترام خدا کے احترام کے برابر ہے؟

مثال کے طور پر:

اگر تم لوگ کسی حاکم اور اس کے نوکر کا برابر احترام کرو، تو کیا کسی عظیم انسان کو چھوٹے انسان کے ساتھ قرار دینا عظیم انسان کی بے احترامی نہیں ہے؟

بت پرستوں کا دوسرا گروہ: کیوں نہیں، بالکل اسی طرح ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اس بنا پر تم لوگ ان بتوں (کہ تمہارے عقیدہ کی بنا پر خدا کے نیک اور پرہیزگار بندوں کی صورت پر ہیں) کی پوجا سے در حقیقت خدا کی عظمت اور اس کے مقام و مرتبہ کی توہین کرتے ہو۔

بت پرست ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منطقی دلائل کے سامنے لاجواب ہوگئے، اور کہا ہمیں اس سلسلہ میں غور و فکر کی فرصت عنایت کریں۔

اس کے بعد بت پرستوں کے تیسرے گروہ کی باری آئی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا:

تم نے مثال کے ذریعہ خود کو مسلمانوں کے شبیہ قرار دیا ہے، اس بنیاد پر بتوں کے سامنے سجدہ کرناحضرت آدم (علیہ السلام) یا خانہ کعبہ کے سامنے سجدہ کی طرح ہے، لیکن یہ دو چیزیں مکمل طور پر فرق رکھتی ہیں اور قابل موازنہ نہیں ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
مزید وضاحت:
ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایک خدا ہے، ہم پر فرض ہے کہ اس کی اس طرح اطاعت کریں جس طرح وہ چاہتا ہے،اس نے جس طرح حکم دیا ہے اسی طرح عمل کریں، اور اس کی حدود سے آگے نہ بڑھیں، ہمیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ اس کے حکم اور اس کی مرضی کے بغیر اس کے حکم کے آگے بڑھ کر اپنی طرف سے (قیاس اور تشبیہ کے ذریعہ) اپنے لئے فرائض اور تکالیف معین کریں، کیونکہ ہم تمام پہلوٴوں سے آگاہ نہیں ہیں، شاید خدا اس چیز کو چاہتا ہے اور اس چیز نہیں چاہتا، اس نے ہمیں آگے بڑھنے سے منع کیا ہے۔

اور چونکہ اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ خانہ کعبہ کے سامنے عبادت کریں، ہم بھی اس کی اطاعت کرتے ہیں، اور اس کے حکم سے تجاوز نہیں کرتے، اسی طرح اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں خانہ کعبہ کی سمت عبادت کریں،چنانچہ ہم اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں، اور جناب آدم (علیہ السلام) کے بارے میں اس نے اپنے ملائکہ کو حکم دیا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کریں نہ کہ آدم کی شکل و صورت پر بنے کسی دوسرے کے سامنے، لہٰذا تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ ان کی شکل و صورت کو اپنے سے مقائسہ کرو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ جو کام تم انجام دیتے ہو شاید وہ اس سے راضی نہ ہو، کیونکہ ممکن ہے اس نے تمہیں اس کام کا حکم نہ دیا ہو۔

مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص تمہیں کسی خاص دن میں کسی خاص اور معین مکان میں جانے کی اجازت دیدے، تو کیا تمہارے لئے کسی دوسرے دن بھی اس مکان میں جانے کی اجازت ہے، یا اس معین دن میں کسی دوسرے مکان میں چلے جاؤ؟ یا کوئی شخص تمہیں لباس، غلاموں، یا حیوانوں میں سے کوئی لباس، غلام یا حیوان تمہیں بخش دے۔

تو کیا تمہیں اس بات کا حق ہے کہ دوسرے لباس، یا دوسرے غلام یا دوسرے حیوان میں جوکہ اس کے مثل ہیں تصرف کر وجن میںاس کی اجازت نہیں ہے۔؟

بت پرستوں کا تیسرا گروہ: نہیں، ایسا ہمارے لئے جائز نہیں ہے، کیونکہ صرف ہمیں مخصوص کام میں اجازت دی گئی ہے کسی دوسرے میں نہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : مجھے بتاؤ کہ کیا خداوندعالم سزاوار تر ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور اس کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیت میں تصرف کریں یا دوسرے لوگ؟

بت پرستوں کا تیسرا گروہ: یقینی طور پر خدا اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور اس کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیت میں تصرف نہ کیا جائے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : پس تم نے خدا کے حکم کے بغیر ہی ان بتوں کی پوجا کیوں شروع کردی، اور اس کی مرضی کے بغیر ہی ان بتوں کے سامنے سجدہ کرنے لگے؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بہترین دلائل کے سامنے بت پرستوں کا تیسرا گروہ لاجواب ہوگیا اور وہ خاموش ہوگئے، اور انھوں نے بھی عرض کی: ہمیں اس سلسلہ میں غور و فکر کی اجازت دیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان پانچ گروہوں سے مناظرہ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث برسالت کیا، کہ ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ یہ پانچوں گروہ کے تمام ۲۵/ افراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے اور انھوں نے واضح طور پر اعلان کیا:

”مَارَاٴَیْنَا مِثْلَ حُجَّتِکَ یَا مُحَمَّد! نَشْہَدُ اٴَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ“[18]

”اے محمد!ہم نے آپ جیسی مستدل گفتگو نہیں دیکھی ہے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے برحق پیغمبر ہیں“۔
 

صرف علی

محفلین
۲۔ قریش کے سرداروں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مناظرہ
عجیب و غریب واقعات میں ایک واقعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قریش کے سرداروں کے درمیان ہونے والا درج ذیل مناظرہ[19] ہے:

ایک روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چند اصحاب کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اور قرآنی آیات اور اسلامی احکام کی تعلیم میں مشغول تھے، اس موقع پر قریش کے چند مشرک اور بت پرست سردار جیسے: ولید بن مغیرہ، ابو البختری ، ابو جہل ، عاص بن وائل، عبد اللہ بن حذیفہ، عبد اللہ مخزومی، ابوسفیان، عتبہ اور شیبہ وغیرہ، تمام لوگ جمع ہوکرکہنے لگے کہ روز بروز محمد (ص) کا کام ترقی پر ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے پاس جاکر پہلے ان کی سرزنش اور ملامت کریں اور پھر ان سے بحث و جدل کریں اور ان کی باتوں کو ردّ کرتے ہوئے ان کے کھوکھلے پن اور بے بنیاد ہونے کو ان کے اصحاب اور دوستوں کے سامنے واضح کریں، اگر انھوں نے ہماری باتیں سمجھ لیں اور اس انحراف اور کج روی سے باز آگئے تو ہم اپنے ہدف میں کامیاب ہوگئے، ورنہ تلوار کے ذریعہ ان کا کام تمام کردیں گے۔

ابوجہل نے کہا: ہم میں سے کون ایسا شخص ہے جو ہماری طرف سے ان کے ساتھ جدل اور بحث و مناظرہ کرے؟

عبد اللہ مخزومی نے کہا: میں ان سے بحث کرنے کے لئے تیار ہوں، اگر مجھے کافی سمجھتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ابو جہل نے بھی اس کو پسند کیا، اور سب لوگ وہاں سے اٹھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئے۔

عبد اللہ مخزومی نے گفتگو کا آغار کیا اور اپنی گفتگو میں اعتراض بیان کرنے شروع کئے، ہر دفعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے جاتے تھے: ”کیا ابھی تمہاری گفتگو باقی ہے؟“، اور وہ کہتا تھا: ہاں، اور اپنی باتیں بیان کرتا جاتا تھا، یہاں تک کہ اس نے کہا: ہاں بس اتنا کافی ہے، اگر آپ کے پاس کوئی جواب ہے تو ہم سننے کے لئے تیار ہیں۔

اس کی گفتگو میں دس عدد اعتراض درج ذیل ترتیب سے تھے:

۱۔ تم دوسرے لوگوں کی طرح کھانا کھاتے ہو، پیغمبر کو دوسرے لوگوں کی طرح کوئی چیز نہیں کھانا چاہئے۔

۲۔ تمہارے پاس کیوںمال و دولت نہیں ہے، حالانکہ تمہیں خدا کے نمائندے اور ایک طاقتور بادشاہ کی طرح صاحب جاہ و ثروت ہونا چاہئے۔

۳۔ تمہارے ساتھ ایک فرشتہ ہونا چاہئے جو تمہاری تصدیق کرے، اور وہ فرشتہ ہمیں بھی دکھائی دے بلکہ مناسب ہے کہ پیغمبر کو بھی ملائکہ کی جنس سے ہو۔

۴۔ تم پر جادو کا اثر ہے، اور تم جادو ہوئے افراد کی طرح ہو۔

۵۔ قرآن کریم کسی مشہور و معروف شخص جیسے ”ولید بن مغیرہ مکّی“ یا ”عروہٴ طائفی“پرکیوں نازل نہیں ہوا۔

۶۔ ہم اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ سخت اور پتھریلی زمین سے پانی کا چشمہ جاری نہ کردیں! اور خرما اور انگور کا باغ تیار نہ کردیں تاکہ ہم لوگ اس چشمہ سے پانی پئےں اور اس باغ کے پھل کھائیں۔

۷۔ یا آسمان کو سیاہ بادلوں کی طرح ہمارے سروں پر نیچے لے آئیں۔

۸۔ یا خدا اور فرشتوں کو ہمیں اپنی آنکھوں سے دکھائیں۔

۹۔ یا سونے سے بھرا ہوا گھر آپ کے پاس ہو!

۱۰۔ یا آپ آسمان پر جائیں اور خدا کی طرف سے کوئی خط لے کرآئیں تاکہ ہم اس کو پڑھیں (یعنی خدا مشرکین کے لئے خط لکھے کہ محمد(ص) میرے پیغمبر ہیں لہٰذاان کی اطاعت کرو)

ان دس چیزوں کو انجام دینے کے بعد بھی ہم وعدہ نہیں کرتے کہ ہمارے دل کو اطمینان حاصل ہوجائے کہ آپ پیغمبر ہیں، کیونکہ ممکن ہے کہ یہ تمام کام آپ جادو اور چشم بندی کے ذریعہ انجام دیں۔

مشرکین کے اعتراضات اور خواہشوں کے مقابل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جواب

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبد اللہ مخزومی کی طرف رخ کرکے فرمایا:

۱۔ کھانا کھانے کے سلسلہ میں تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ صلاح اور اختیار خدا کے ہاتھوں میں ہے، وہ جس طرح چاہے حکومت کرے، اس پرکسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے، وہ بعض کو فقیر، بعض کو غنی، بعض کوعزیز اور محترم، بعض کو ذلیل و خوار، بعض و صحیح و سالم اور بعض کو بیمار کرتا ہے،(البتہ یہ تمام چیزیں انسان کی صلاحیت کی بنا پر ہیں) اس صورت میں ان میں سے کوئی شخص خدا پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا۔

اور اگر کوئی شخص خدا پر اعتراض کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ خداوندعالم ہی تمام عالم کا صاحب اختیار ہے، وہی تمام چیزوں کی صلاح اور بھلائی کو بہتر جانتا ہے، جو انسان کے لئے خیر ہوتا ہے اس کو عطا کرتا ہے، اور سبھی کو اس کے حکم کے سامنے تسلیم رہنا چاہئے ، جس شخص نے خدا کے حکم کی اطاعت کی وہ مومن ہے اور جس نے اس کے حکم کی مخالفت کی وہ گناہگار ہے اور اس کے لئے سخت سزائیں معین ہیں۔

اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن مجید کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

”قُلْ اِنَّمَا اٴَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوحَی اِلَیَّ اِنَّمَا اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ“[20]

”(اے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارا ہی جیسا ایک بشر ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ایک اکیلا ہے“۔

جیسا کہ ہر انسان کو ایک خاص چیز سے مخصوص کیا ہے، جس طرح تمہیں فقیر، غنی، صحت مند، خوبصورت اور شریف وغیرہ کے بارے میں اعتراض کا حق نہیں ہے اور اس کا فرمانبردار رہنا ضروری ہے، اسی طرح نبوت اور رسالت کے سلسلہ میں بھی خدا کے فرمان کے سامنے سر تسلیم جھکانا چاہئے۔

۲۔ لیکن تم لوگوں کی یہ بات کہ ”کیوں تمہارے پاس مال و دولت نہیں ہے جبکہ تم خدا کے نمائندہ ہو، اور خدا کے نمائندہ کو بادشاہ روم و ایران کی طرح صاحب زر و سیم ہونا چاہئے اور سلطان روم اور سلطان ایران کی طرح صاحب جاہ و مقام اور مال و دولت ہوناچاہئے، بلکہ خدا کو اس سلسلہ میں سلاطین سے بھی زیادہ توجہ دینا چاہئے“، تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا یہ اعتراض خدا پر ہے، اور یہ اعتراض بے جا اور غلط ہے، کیونکہ خداوندعالم عالِم اور خبیر ہے، وہ اپنی تدبیر اور اپنے کاموں کی اچھائی کو جانتا ہے، اس میں دوسروں کی دخالت کی ضرورت نہیں ہے، خدا کا لوگوں کے ساتھ موازنہ نہیں کرنا چاہئے۔

اس کے علاوہ انبیاء کی بعثت کا مقصد لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دینا ہے، پیغمبر کو چاہئے کہ شب و روز لوگوں کی ہدایت کے لئے کوشاں رہے، اگر کوئی پیغمبر لوگوں کی طرح صاحب جاہ و مقام ہو (دوسرے مستکبروں اور صاحبان جاہ کی طرح) تو پھر عام انسان اور غریب عوام ان کے پاس نہیں آسکتے، کیونکہ مالدار افراد ہمیشہ اونچے محلوں میں رہتے ہیں اور اونچے اونچے محل غریب عوام کے درمیان فاصلہ کردیتے ہیں، اور سادہ انسان ان سے ملاقات بھی نہیں کرسکتے۔

اس صورت میں بعثت انبیاء کا ہدف پورا نہیں ہوسکتا، اور انبیاء کی تعلیم و تربیت رک جائے گی، اور نبوت کا معنی مقام ظاہری جاہ و مقام سے آلودہ ہوکر بے اثر ہوجائے گا، جی ہاں جس وقت بادشاہ اور رئیس عوام الناس سے دور ہوجائیں تو پھر ملکی نظام درہم و برہم ہوجائے گا، نیز معاشرہ میں جاہل اور ناچار لوگوں کے لئے پریشانیاں کھڑی ہوجائیں گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ خداوندعالم نے مجھے جاہ و مقام اور مال و دولت نہیں دی ہے تاکہ میں تمہارے سامنے اپنی قدرت و طاقت کا مظاہرہ کرو، جبکہ خداوندعالم نے اپنے رسول کی نصرت و مدد کی ہے، اور اس کو دشمنوں اور مخالفوں پر فتح دی ہے، یہ بات خود نبی کی نبوت کے صادق ہونے پر دلیل ہے، اور قدرت خدا اور تمہارے عاجزی کی حکایت کر رہی ہے، (کہ اس نے اپنے پیغمبر کو بغیر مال و دولت اور فوج و سلطنت کے تم پر غلبہ عطا کیا)اور خداوندعالم بہت جلد ہی مجھے تم پر غلبہ عنایت کرے گا، تم لوگ میری ترقی کو نہیں روک سکتے، اور نہ ہی مجھے قتل کرسکتے ہو، میں بہت جلد ہی تم پر غلبہ کرلوں گا،تمہارے شہر میرے اختیار میںہوں گے اور سبھی مخالف اور د شمن مومنین کے سامنے تسلیم اور شرمسار ہوں گے۔ (انشاء اللہ)

۳۔ اب رہی تمہاری یہ بات کہ ”میرے ساتھ کوئی فرشتہ ہو اور تم اس فرشتہ کو دیکھ کر میری تصدیق کرو بلکہ پیغمبر فرشتہ کے جنس سے ہو“تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ فرشتہ کا جسم ہوا کی مانند لطیف ہوتا ہے جو دید کے قابل نہیں ہوتا، اور اگر فرض کریں کہ تمہاری آنکھوں کی روشنی بڑھادی جائے تاکہ تم لوگ فرشتہ کو دیکھ سکو تو بھی تم لوگ کہو گے کہ یہ تو انسان ہی ہے نہ کہ فرشتہ، (یعنی وہ بھی انسان کی شکل میں ہوگا) تاکہ تم سے رابطہ برقرار رکھ سکے، تم سے گفتگو کرسکے، تاکہ اس کی باتوں اور اس کے ہدف کو سمجھ سکو، ورنہ تو تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ وہ فرشتہ ہے نہ کہ انسان، اور جو کچھ بھی کہہ رہا ہے وہ حق ہے۔

اس کے علاوہ خداوندعالم اپنے پیغمبر کو معجزہ دے کر بھیجتا ہے اور کوئی اس معجزہ کی مثل نہیں لاسکتا، اور یہی پیغمبر کے صادق ہونے کی نشانی ہے، لیکن اگر فرشتہ بھی معجزہ دکھائے تو پھر اس کو تم کیسے سمجھ سکتے ہو کہ اس فرشتہ نے جو اعجاز دکھایا ہے دوسرے فرشتے انجام دینے پر قادر نہیں ہیں؟! اس بنا پر فرشتہ کا نبوت کا دعویٰ کرنا خود اس کے معجزات کے ساتھ اس کے دعویٰ کی سچائی پر دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ فرشتوں کا معجزہ پرندوں کی پرواز کی مانند طرح پرواز کرنا ہے کہ جسے انسان انجام نہیں دے سکتا، لیکن یہی کام فرشتوں کے درمیان معجزہ نہیں ہے، اور اگر انسان بھی پرندوں کی طرح پرواز کرے تو یہ اس کے لئے معجزہ ہے۔

اور یہ بات بھی مدّ نظر رہے کہ خداوندعالم نے انسان کو نبی بنا نے میں تم لوگوں کی سہولت کو پیش نظر رکھا ہے کیونکہ انسان سے بغیر کسی زحمت کے رابطہ برقرار کرسکتے ہو تاکہ وہ تم پر اپنے دلائل اور برہان واضح کرسکے، جبکہ تم لوگ اس طرح کے اعتراضات سے اپنی مشکل میں اضافہ کررہے ہو ،لوگ اس صورت میں حجت اور برہان تک نہیں پہنچ سکتے۔

۴۔ اب رہا تمہارا یہ کہنا کہ ”مجھ پر سحر و جادو کا اثر ہوگیا ہے“، تو یہ بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے جبکہ میں صحت عقل اور تشخیص کے لحاظ سے تم لوگوں پر برتری رکھتا ہوں، میں نے تمہارے درمیان اپنی عمر گزاری ہے شروع سے اب تک چالیس سال تمہارے درمیان زندگی بسر کی ہے، تم نے اس مدت میں چھوٹی سے چھوٹی غلطی، لغزش، جھوٹ، خیانت اور گفتگو و نظریہ میں ضعف نہیں دیکھا، کیا جو شخص تمہارے درمیان چالیس سال تک اپنے طاقت و قوت یا خدا کی طاقت و قوت سے صدق و صداقت اور صحیح راستہ پر قدم بڑھائے ہوں کیا اس کے لئے ایسی تہمت لگانا صحیح ہے؟! اسی وجہ سے خداوندعالم تمہارے جواب میں ارشاد فرماتا ہے:

” انظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوا لَکَ الْاٴَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلاَیَسْتَطِیعُونَ سَبِیلًا“ [21]

”ذرا دیکھو کہ انھوں نے تمہارے لئے کیسی مثالیںبیان کی ہیں اور اس طرح ایسے گمراہ ہوگئے ہیں کہ کوئی راستہ نہیں مل رہا ہے“۔
 

صرف علی

محفلین
۵۔ اور تمہارا یہ کہنا کہ ” قرآن کریم کسی مشہور و معروف شخص جیسے ”ولید بن مغیرہ مکّی“ یا ”عروہٴ طائفی“ پر کیوںنازل نہیں ہوا“، تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خداوندعالم کے نزدیک جاہ و مقام کی کوئی قیمت اور اعتبار نہیںہے ، اور اگر دنیاوی لذتیں اور نعمتیں ایک مکھی کے پر کے برابر ارزش رکھتی ہوتیں تو پھر خداوندعالم ذرہ برابر بھی کافروں اور مخالفوں کو عطا نہ کرتا۔

اس کے علاوہ یہ تمام تقسیمات خداوندعالم کے قبضہ قدرت میں ہے ، اس سلسلہ میں کسی کو کوئی اختیار، اعتراض اور شکوہ اورشکایت کا حق نہیں ہے، خداوندعالم اپنی نعمتوں کو اپنے لحاظ سے اور اپنی مرضی سے تقسیم کرتا ہے جس کو وہ چاہے بغیر کسی خوف کے عطا کرتا ہے ، یہ تم لوگ ہو جو اپنے کاموں میں مختلف چیزوں کو مدّ نظر رکھتے ہو اور تمہارے کام ہواو ہوس اور لوگوں کے خوف سے ہوتے ہیں، نیز تمہارے کام حقیقت و عدالت کے بر خلاف ہوتے ہیں تم لوگ بلا وجہ دوسروں کا احترام کرتے ہو اور غلط راستہ پر چلتے ہو، لیکن خداوندعالم کے تمام کام حقیقت اور عدالت کے تحت ہوتے ہیں دنیاوی جاہ و مقام اس کے ارادہ میں ذرہ برابر بھی تاثیر نہیں رکھتے۔ یہ تم لوگ ہو کہ ظاہری لحاظ سے مشہور و معروف اور صاحبان حیثیت افراد کو پیغمبری کے لئے دوسروں سے زیادہ مستحق سمجھتے ہو، لیکن خداوندعالم نبوت و رسالت کو اخلاقی کمالات اور معنوی و روحی عظمت، حقیقت ، فرمانبرداری اور خدمت گزاری کی بنیاد پر قرار دیتا ہے۔

ان کے علاوہ جیسا کہ میں نے کہا کہ خداوندعالم اپنے کاموں میں خود مختار ہے، ایسا نہیں ہے کہ اگر اس نے کسی کو دنیاوی نعمت یا ظاہری منزلت عطا کی ہے تو مقام نبوت بھی اسی کو عطا کرے، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس کو خداوندعالم نے مال و دولت عطا کی ہے لیکن اس کو جمال اور خوبصورتی نہیں دی ہے اور اس کے برعکس اگر کسی کو جمال اور خوبصورتی دی ہے اس کو مال و دولت نہیں دی ہے۔۔۔ کیا ان میں سے کوئی خداوندعالم پر اعتراض کرنے کا حق رکھتا ہے؟![22]

۶۔اور تمہارا یہ کہنا: ” ہم اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک سخت اور پتھریلی زمین سے پانی کا چشمہ جاری نہ کردیں! اور کھجوروں اور انگوروں کا باغ تیار نہ کردیں تاکہ اس چشمہ سے پانی پئےں اور اس باغ کے پھل کھائیں“، تو تمہارا یہ تقاضا جہل و نادانی کی بنا پر ہے، کیونکہ سر زمین مکہ میں پانی کا چشمہ جاری کرنے اور باغ اگانے کا تعلق پیغمبری سے نہیں ہے، جیسا کہ تم لوگ شہر طایف میں زمین اور باغ کے مالک ہو لیکن نبوت کا دعویٰ نہیں کرتے ہو اور ایسے بہت سے لوگوں کو تم جانتے بھی ہو جنھوں نے زحمت اٹھاکر باغات لگائے اور چشمے بھی جاری کئے لیکن انھوں نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور اس طرح کے تمام کام معمولی کا موں میں شمار ہوتے ہیں اور اگر میں ایسا کروں بھی تب بھی یہ کام میری نبوت کے لئے دلیل نہیں بن سکتے۔

تمہارا یہ تقاضا اس طرح کا ہے کہ تم کہتے ہو ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ تم لوگوں کی طرح کھانا کھاتے ہو اور لوگوں کے ساتھ راستہ چلتے ہو اور اگر میں اپنی نبوت کے اثبات کے لئے اس طرح کے معمولی کام انجام دوں اور اس پر تکیہ کر لوں تو گویا میں نے لوگوں کو دھوکا دیا اور ان کی جہل ونادانی سے غلط فائدہ اٹھایا اور مقام نبوت کو ہیچ اور معمولی کام سمجھا جب کہ مقام نبوت فریب ، حیلہ اور دھوکہ دھڑی سے بالکل پاک و پاکیزہ ہے۔

۷۔اور تمہارا یہ کہناکہ ”آسمان کو بادل کی صورت میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے سروں پر لے آوٴں“تو تمہیں یہ جان لینا چاہئے کہ آسمان کا نیچے گرنا تمہارے لئے ہلاکت کا سبب بنے گا جب کہ بعثت اور پیغمبری کا ہدف لوگوں کی راہنمائی ،سعادت، خوشبختی اور خدا کی نشانیوں کی عظمت لوگوں واضح کرنا ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حجت اور برہان کو خدا کے معین کرتاہے کیونکہ ممکن ہے کہ لوگ اپنی سطحی اور ظاہری فکر کی بنا پر ایسے تقاضے کریں جو نظام و مصلحت کے خلاف ہوں اس لئے کہ ہر شخص اپنی ہوا ھوس اور خواہش کی بنیاد پر تقاضے کرتا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہر انسان کے تقاضے ایک دوسرے کے برخلاف ہوتے ہیں۔

کیا تم نے کسی ڈاکٹر کو دیکھا ہے کہ وہ مریض کا علاج کرتے وقت مریض کی خواہش کے مطابق نسخہ لکھے؟ یا کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ وہ کسی بات کا دعویٰ کرے لیکن دلیل اس کے منکر کی خواہش کے مطابق لائے ؟یہ بات مسلم ہے کہ اگر علاج میں ڈاکٹر مریض کا پیرو ہو تو مریض کی بیماری کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتی اور اسی طرح اگر مدعی اس بات پر مجبور ہو کہ اپنے مخالفوں کی خواہش کے مطابق اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے دلیل لائے تو اس صورت میں کسی ایک کی بھی بات ثابت نہیں ہو گی،اور مظلوم وناچار اور سچے افراد کی بات کبھی ظالم اور جھوٹے انسان کے سامنے ثابت نہیں ہو سکے گی۔

۸۔اور تمہارا یہ کہنا کہ ”خدا اور فرشتوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ ہم انھیں دیکھ سکیں “تو تمہاری یہ بات بے بنیاد اور غیر منطقی ہے یہ چیز بالکل محال ہے کیونکہ خدا وندمتعال اس صفت سے پاک ہے جس کے ذریعہ اسے دیکھا جا سکتا ہے بلکہ وہ مخلوقات کی تمام صفات سے پاک وپاکیزہ ہے۔

تم خدا وند متعال کو ان بتوں سے تشبیہ دیتے ہو جن کی تم پرستش کرتے ہو اور ان سے اسی طرح کا تقاضا کرتے ہو ان بتوں میں بے حد نقص و ضعف پائے جاتے ہیں اور یہ(بت) تمہارے ان تقاضوں کے لئے مناسب ہیں نہ کہ خداوند پاک۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے لئے ایک ایسی مثال پیش کی جو بہت ہی واضح اور اچھی طرح مفہوم کو سمجھانے والی تھی کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ خدا کو دکھانا محال نہیں ہے تو بھی ان کی یہ بات معقول نہیں ہے ،وہ مثال یہ ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبد اللہ مخزومی سے کہا: ”کیا مکہ میں تمہارے پاس زمین وجائداد اور باغ وغیرہ ہے؟اور اس کی دیکھ بھال کے لئے اپنی طرف سے کوئی نمائندہ بنایا ہے یا نہیں؟“

عبد اللہ: ”ہاں میرے پاس باغ وزمین اور نمائندہ ہے“۔

رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم : ”کیا تم خود باغ وزمین کی دیکھ بھال کرتے ہو یا نمائندے کے ذریعہ کراتے ہو“۔

عبد اللہ: نمائندہ کے ذریعہ“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”اگر ایک نمائندہ کو زمین اجارہ دو یا بیچ دو تو کیا دوسروں کایہ اعتراض کرنا اور یہ کہنا بجاہے کہ ہم خود مالک سے رابطہ کریں گے اور ہم تمہاری نمائندگی اس وقت قبول کریں گے جب تمہارا مالک خو د نہ آجائے اور تمہاری باتوں کی تصدیق نہ کرے ؟ “

عبد اللہ: ”دوسرے لوگ اس طرح کا اعتراض نہیں کر سکتے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ’ہاں یہ ضروری ہے کہ تمہارے نمائندہ کے پاس کوئی ایسی دلیل ہونا چاہئے کہ جس سے پتہ چلے کہ وہ واقعی تمہارا نمائندہ ہے، اب تم یہ بتاوٴ کہ اس کے پاس کیا ہونا چاہئے جس سے اس کی نمائندگی ثابت ہو کیونکہ یہ بھی مسلم ہے کہ بغیر کسی دلیل کے اس کی نمائندگی کی لوگ تصدیق نہیں کریں گے“۔

عبد اللہ: ”بےشک اس کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل ضرورہونا چاہئے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”اگر لوگ اس کی سچی دلیل کو قبول نہ کریں تو کیا وہ اس بات پر حق رکھتا ہے کہ اپنے مالک کو لوگوں کے سامنے حاضر کرے اور اس پر یہ فریضہ عائد کرے کہ تم ان کے سامنے حاضر ہو ؟سچ بتاوٴ کیا کوئی عقلمند نمائندہ اس طرح اپنے مالک کے لئے کر سکتا ہے؟“

عبد اللہ: ”نہیں اسے چاہئے کہ وہ اپنے فرائض پر عمل کرے اور اسے یہ حق نہیں کہ وہ مولا پر کوئی حکم لگائے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”جب تم ان تمام باتوں کا اعتراف کر رہے ہو تو کس طرح خدا کے نمائندے اور رسول کے لئے انھیں باتوں پر اصرار پر کرتے ہو کہ رسول کو چاہئے کہ اپنے مولا کو ہم لوگوں کے سامنے پیش کرے ،میں بھی خدا وند متعال کے نمائندہ اور رسول سے زیادہ کچھ نہیں ہوں، میں کس طرح اپنے مولا (خدا)پر کوئی حکم لگا سکتا ہوں اور اس کے لئے کوئی فریضہ معین کر سکتا ہوں کیونکہ خداوند متعال پر کسی طرح کا کوئی حکم لگانا رسالت کی ذمہ داری کے خلاف ہے“۔

اور اس طرح تمہارے تمام سوالوں کے جوابات جیسے فرشتوں کو حاضر کرنا وغیرہ واضح ہو جاتے ہیں۔

۹۔اور تم نے جو یہ کہا کہ میرے پاس سونے سے بھرا ہوا گھر ہونا چاہئے تو یہ بھی بالکل بے بنیاد بات ہے کیونکہ دولت و ثروت ،سونا اور چاندی سے مقام رسالت کو کوئی تعلق نہیں ہے مثال کے طور پر بادشاہ مصر کے پاس سونے سے بھرا ہوا گھر ہے تو کیا وہ اسی دلیل سے نبوت کا دعویٰ کر سکتا ہے؟“

َََعبد اللہ: ”نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتا ہے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : میرے پاس بھی سونا چاندی ہونا میری پیغمبری کے سچائی پر کوئی دلیل نہیں بن سکتا ہے میں خدا کی حجتوں اور نشانیوں کو چھوڑ کر ایسی بے بنیاد دلیل کے ذریعہ کم علم اور نادان لوگوں پر اپنی رسالت ثابت نہیں کر سکتا“۔

۱۰۔اور تمہارا کہنا کہ ”میں آسمان پر جاوٴں اور خدا کی طرف سے تمہارے لئے ایک خط لاوٴں“ تو اس طرح کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ تم لوگوں میں کوئی بھی ایسانہیں جو حق قبول کرے کیونکہ تم لوگ صرف آسمان پر جانے سے اکتفا نہیں کر رہے ہو بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہو کہ ہمارے لئے آسمان سے خط بھی لایاجائے۔

یہ بات مسلم ہے کہ اگر میں خط بھی لادوں تو بھی تم اسے قبول نہیں کروگے اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر میں ان تمام کاموں کو انجام دے بھی دوں تب بھی یہ ممکن ہے کہ تم لوگ ایمان نہ لاوٴ،لیکن یہ جان لو کہ اس بغض وعناد کا نتیجہ صرف عذاب ہے اور تم لوگ اپنے ان کا موں کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہو کہ خداوند متعال تمہیں عذاب میں مبتلا کرے۔

تمہارے تمام سوالوں کے جواب خدا وند متعال کے صرف اس جملہ میں خلاصہ کے طور پر بیان ہوجاتے ہیں”میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں اور خدا کی طرف سے اس بات کے لئے معین کیا گیا ہوں کہ تم تک اس کے احکام پہنچاوٴں ،[23] اور میرے پاس یہی قرآن معجزہ اور میری نبوت کی دلیل ہے اور میں تمہارے بے جا تقاضوں کی وجہ سے خدا پر نہ کوئی حکم لگا سکتا ہوں اور نہ کسی بھی طرح کی اس پر تکلیف عائد کر سکتاہوں“۔
 

صرف علی

محفلین
ابو جہل کا سوال
ابو جہل نے کہا: ”کیا تم یہ نہیں کہتے کہ جب قوم موسیٰ نے اس بات کی خواہش کی کہ موسیٰ انھیں اپنا خدا دکھائیںتو خداوند عالم ان پر غضبناک ہو ااور بجلی کے ذریعہ انھیں خاکستر کردیا۔؟“

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”کیوں نہیں، ایسا ہی ہے“۔

ابو جہل: ”ہم قوم موسیٰ سے بلند اور بڑی خواہش رکھتے ہیں ہم ہر گز اس وقت تک نہیںا یمان نہیں لائیں گے جب تک تم اپنے خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر نہیں کروگے ،اب تم ہماری اس خواہش کی بنا پر اپنے خدا سے کہو کہ وہ ہمیں جلادے یا نابود کردے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”کیا تم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی داستان میں یہ نہیں سنا ہے کہ وہ مقام وعظمت میں بہت ہی بلند تھے اور خداوند متعال نے انھیں خاص بصیرت عطا کی تھی کہ وہ زمین پر لوگوں کے ظاہری اور باطنی اعمال کا مشاہدہ کرتے تھے ،اسی دوران جناب ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک مرد اور عورت زنا کر رہے ہیں، آپ نے ان کے لئے بددعا کی وہ ہلاک ہو گئے، پھر دیکھا کہ دوسرے مر د و عورت زنا کر رہے ہیں ان کے لئے بھی بددعا کی وہ بھی ہلاک ہو پھر تیسرے مرد و عورت کو یکھا کہ یہ بھی زنا میں مشغول ہیں ان کے لئے بھی بددعا کی وہ بھی ہلاک ہوگئے ،اس کے بعد

خداوند عالم نے ان پر وحی کی کہ اے ابراہیم ! بددعا نہ کرودنیا ہمارے اختیار میں ہے تمہارے اختیار میں نہیں۔

گنہگار بندوں کی تین حالتوں سے زیادہ چوتھی حالت نہیں ہوتی ہے،یا توبہ کرتے ہیں اور میں انھیں بخش دیتا ہوں یا ان کی آئندہ آنے والی نسلوں میں کوئی بندہ مومن ہوتا ہے جس کی وجہ سے میں انھیں مہلت دے دیتا ہوںاور پھر میرا عذاب انھیں گھیرلیتا ہے اور ان دوصورتوں کے علاوہ جتنے بڑے عذاب کا تم تصور کر سکتے ہو اسے میں نے ان کے لئے مہیا کر رکھا ہے“۔

اے ابو جہل !اسی وجہ سے خداوند عالم نے تجھے مہلت دی ہے کہ تیری نسل میں ایک مومن پیدا ہوگا جس کانام عکرمہ ہوگا۔[24]

قارئین کرام! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مناظرہ کرنے والے اسلام کے سخت ترین دشمن تھے، لیکن اس کے باوجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکمل صبر و حوصلہ سے ان کی تمام باتیں سنیں اور نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ان کا جواب دیا اور ایک تفصیلی اور استدلالی بحث کے ساتھ اپنی حجت تمام کر کے اسلام کی منطقی اور اخلاقی روش کا ثبوت دیا۔
 

صرف علی

محفلین
۳۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا یہودی دانشوروں سے مناظرہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت سے پہلے یہودیوں کی مذہبی محفلوں میں آپ کی علامتوں کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ یہودی علماء توریت کی آیتوں کی بنیاد پر آنحضرت کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے تھے اور بڑے ہی اعتماد کے ساتھ اس طرح کے پیغمبر کے آنے کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے۔

اور یہ تمام علامتیں اور نشانیاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی اور آپ کے کاموں سے مطابقت کر گئیں یہودیوں کے بزرگ مذہبی افراد اس فکر میں رہتے تھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدد کر کے انھیں اپنی طرف کھینچ لیں اور نتیجہ میں ان کے اطراف کی مذہبی قدرت کو حاصل کر لیں لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی توبڑی تیزی سے اسلام پھیلا اور یہودیوں کی طاقت سے زیادہ پیغمبر کو قدرت وطاقت حاصل ہوئی اور اسلام کے منتقل ہونے کی وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی بھی صورت میں اس بات پر راضی نہیں تھے کہ یہودیوں کے پرچم تلے اپنی زندگی گزاریں یہی بات یہودیوں کی محفلوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کا سبب بنی۔

یہودیوں نے طرح طرح سے اسلام کو نقصان پہنچانا چاہا جیسا کہ سورہٴ بقرہ اور سورہ ٴ نساء کی آیتوں میں ان کاا سلام سے بغض و عناد بیان ہوا ہے مثلاًان کے کاموں میں سے ایک کام یہ تھا کہ وہ ”اوس“ و”خزرج“کے درمیان ۱۲۰ سالہ پرانے اختلاف(۱)[25] کوپھر سے ابھاریں اور مسلمانوں کی متحد صفوں کو انتشار کا شکار بنائیں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کی ہوشیاری نے ان کے اس عزم وارادہ کوخاک میں ملادیا اور اسی طرح ان کی بہت سی دوسری سازشوں کو بھی پورا نہیں ہونے دیا۔

ایک راستہ جس کے ذریعہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام کو مغلوب کرنا چاہتے تھے وہ مناظرہ یا آزادانہ بحث[26] بھی تھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس پیش کش کو ہنسی خوشی قبول کر لیا وہ آئے اور پیغمبر سے مجادلہ اور پیچیدہ سوال کر کے انھیں لا جواب بنا دینا چاہتے تھے لیکن اس آزاد بحث سے خود انھیں ہی نقصان اٹھا نا پڑا، اور لوگوں کو پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے علمی مقام اور غیبی اطلاعات کی آگاہی حاصل

ہوئی جس کی وجہ سے بعض یہودی اور بت پرست اسلام کے گرویدہ ہوگئے۔

لیکن وہ لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بحث سے قانع ہونے کے باوجود بڑی دلیری کے ساتھ کہنے لگے کہ ہم تمہاری باتوں کو نہیں سمجھ رہے ہیں: ” قُلُوبُنَا غُلْفٌ“[27] ہمارے دلوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔
 

صرف علی

محفلین
یہودیوں کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مناظرے اور مجادلے بہت ہیں جن کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑی ہی ہمت کے ساتھ انجام دیا اور ان کی قضاوت و فیصلے نے پوری دنیا کو دعوت فکر دی۔

بطور نمونہ ان میں سے صرف دو یہ مناظرے ملاحظہ فرمائیں:

پہلا نمونہ
جب عبد اللہ بن سلام ایمان لے آیا:یہودیوں کے بزرگ علماء میں سے ایک مشہور و معروف عالم دین جس کا نام ”عبد اللہ بن سلام“ اور یہودی قبیلہٴ بنی قینقاع سے تعلق رکھتا تھا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے پہلے سال ایک روز عبد اللہ بن سلام[28] آپ کی نشست میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ آپ اپنے موعظہ میں اس طرح کی چیزیں بیان کر رہے ہیں۔

”اے لوگو! آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرو اوران تک کھانا پہنچاوٴ،اپنے رشتہ داروں سے مل جل کر رہو،آدھی رات کو جب ساری دنیا سو جایا کرے تو اٹھ کر نماز شب پڑھو اور خداوند متعال سے راز ونیاز کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ خدا وند متعال کی بہشت میں داخل ہو سکو“۔

عبد اللہ نے دیکھا کہ آپ کی باتیں اچھی ہیں جس کہ وجہ سے وہ اس نشست کا گرویدہ ہو گیااور اس نے اس میں شرکت کا ارادہ کر لیا [29]ایک روز عبد اللہ نے مذہب یہود کے چالیس بزرگ علماء کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ ہم پیغمبر کے پاس جا کر ان کی نبوت کے بارے میں بحث کریں اور انھیں زیر کریں۔

اس ارادے سے جب وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ نے عبد اللہ بن سلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”میں بحث کے لئے تیار ہوں“۔

یہودیوں نے موافقت کی اور بحث ومناظرہ شروع ہوا ،تمام یہودی پیغمبر پر پیچیدہ سوالوں کی بوچھار کررہے تھے ،آپ ایک ایک کرکے ان جواب کا دیتے،یہاں تک کہ ایک روز عبد اللہ بن سلام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تنہا حاضر ہوا اور کہنے لگا“۔میرے پاس تین سوال ہیں جن کا جواب پیغمبر کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا ،کیا اجازت ہے کہ میں انھیں بیان کروں؟ “

عبد اللہ نے سوال کیا: ”مجھے بتایئے کہ قیامت کی پہلی علامت کیا ہے؟جنت کی خاص غذا کیا ہے؟اس کی کیا وجہ ہے کہ بیٹا کبھی باپ کے اور کبھی ماں کے مشابہ ہوتا ہے؟“

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”ابھی جبرئیل تمہارے جوابات خدا کی طرف سے لارہے ہیں اور میں تمہیں بتاوٴں گا“۔

جیسے ہی جبرئیل کا نام درمیان میں آیا عبد اللہ نے کہا: ”جبرئیل تو یہودیوں کا دشمن ہے کیونکہ اس نے متعدد مقامات پر ہم سے دشمنی کی ہے بخت نصر جبرئیل کی فوج کی وجہ سے ہم پر غالب ہوا اور شہر بیت المقدس میں آگ لگا دی ۔۔۔۔وغیرہ“۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے جواب میں سورہٴ بقرہ کی ۹۷ ویں آیت کی تلاوت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے:

”جبرئیل جنھیں تم اپنا دشمن سمجھتے ہو وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے اور انھوں نے قرآن کو خدا کے اذن سے قلب پیغمبر پر نازل کیا ہے وہ قرآن جو ان کتابوں سے مطابقت رکھتا ہے جن میں رسول خدا کی نشانیوں کا تذکرہ ہے ،وہ ان کی تصدیق کرنے والا ہے ،فرشتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں اگر کوئی ان میں سے کسی ایک سے دشمنی رکھتا ہے تو گویا وہ تمام فرشتوں ،پیغمبروں اور خدا کا دشمن ہے کیونکہ فرشتے اور پیغمبر سب کے سب خدا کے فرمانبردارہوتے ہیں۔[30]

اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبد اللہ کے جواب میں فرمایا:

”قیامت کی پہلی علامت دھوئیں سے بھری ہوئی آگ ہے جو لوگوں کو مشرق ومغرب کی طرف لے جائے گی اور جنت کی خاص غذامچھلی کا جگر اور اس کا اضافی ٹکڑا ہے جو نہایت ہی اچھی اور لذیذ ترین غذا ہے،اور تیسرے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”انعقاد نطفہ کے وقت عورت یا مرد کے نطفہ میں جس کا نطفہ غلبہ پاجاتا ہے بچہ اسی کی شبیہ ہوتا ہے ، اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفہ پر غالب آگیا تو بچہ ماں کی طرح ہوگا اور اگر مرد کا نطفہ عورت کے نطفہ پر غالب آگیا تو بچہ باپ کی طرح ہوگا“۔

عبد اللہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان جوابوں کی تطبیق جب توریت اور انبیاء سابق کی خبروں سے کی تو یہ تمام جوابات صحیح ثابت ہوئے ،جس کے نتیجہ میں اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور اپنی زبان پر کلمہ شہادتین جاری کیا۔

اس وقت عبد اللہ بن سلام نے پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم سے عرض کیا: ”میں یہودیوں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں اور بہت ہی پڑھے لکھے شخص کا بیٹا ہوں اگر انھیں میرے اسلام قبول کرنے کی خبر ہوگئی تو وہ مجھ کو جھٹلائیں گے، لہٰذا ابھی آپ میرے ایمان کو پنہاں رکھئے تاکہ آپ یہ معلوم کر سکیں کہ یہودی میرے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں“۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس فرصت کو غنیمت جان کر کہ عبد اللہ کا اسلام لانا مجادلہ اور آزاد بحث کے لئے خود ایک طرح کی دلیل بن سکتا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن سلام کو وہیں قریب میں پردے کی آڑ میں بٹھا دیا یہودیوں سے گفتگو کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”میں پیغمبر ہوں خدا کو حاضر ناظر جانو اور ہواوہوس کو ترک کرکے اسلام قبول کر لو“۔

جواب میں کہا گیا: ”دین اسلام کے صحیح ہونے کے بارے میں ہم بالکل بے اطلاع ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”تمہارے درمیان عبد اللہ بن سلام کیسا شخص ہے ؟“

گروہ یہود: ”وہ ہمارا رہبر اور ہمارے رہبر کا بیٹا ہے وہ ہمارے درمیان ایک بہت ہی پڑھا لکھا شخص ہے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”وہ اگر مسلمان ہو جائے تو کیا تم لوگ اس بات پر تیار ہو کہ اس کا اتباع کرو؟“

گروہ یہود: ”وہ ہر گز مسلمان نہیں ہوگا“۔

رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے عبد اللہ کو آواز دی، عبد اللہ بن سلام پردے سے باہر لوگوں کے سامنے حاضر ہو کر کہنے لگا: ”اشھد ان لا الہ الااللہ وان محمد رسول الله“۔

اے گروہ یہود! خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاوٴجب تم جانتے ہو کہ وہ پیغمبر خدا ہے تو تم کیوں ایمان نہیں لاتے ؟“

یہودیوں نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے اس کی تعریف کی تھی مگر اب وہ اسے بد ترین شخص اور ذلیل آدمی کا بیٹا بتانے لگے۔

آپ کا یہ طرز استدلال نہایت عمدہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا منہ چھپانے لگے لیکن در حقیقت وہ شکست کھا چکے تھے ،عبد اللہ کے لئے اگر چہ اسلام اس زمانہ میں بہت دشوار ثابت ہوا لیکن وہ حقیقتاً اسلام لایا تھا،اسی لئے آنحضرت نے اس کا نام عبد اللہ رکھا تھا[31] اس کا ایمان قبول کرنا بعد میں اور دوسرے ایمان لانے والوں کے لئے ہی موٴثر ثابت ہوا، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک یہودی دانشور جس کانام ”مخَیرِق“ تھا وہ بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا۔[32]
 

صرف علی

محفلین
دوسرا نمونہ
۴۔ قبلہ کے سلسلہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کایہودیوں سے مناظرہ
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں بیت المقدس (یہودیوں کے قبلہ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی آپ ۱۶ مہینے تک بیت المقدس ہی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔

اسلام دشمن ،یہودیوں نے اسلام کو بُرا بھلا کہنے اور اسے بے اہمیت کر نے کے لئے ایک اچھا بہانہ تلاش کر لیا اور کہنے لگے: ”محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماس بات کو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مستقل شریعت لائے ہیں جبکہ ان کا وہی قبلہ ہے جو یہودیوں کا قبلہ ہے“۔

اس طرح کے اعتراضات سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رنجیدہ خاطر ہوئے آنحضرت راتوں کو گھر سے باہر آتے اور آسمان کی طرف نگاہ کرکے وحی کے منتظر رہتے تھے یہاں تک کہ سورہٴ بقرہ کی ۱۴۴ ویں آیت نازل ہوئی جس میں قبلہ کی جہت بیت المقدس سے بدل کر خانہ کعبہ کی طرف کردی گئی۔

ہجرت کے ۱۶ ماہ بعد نیمہٴ رجب میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے چند صحابیوں کے ساتھ مسجد بنی سلمہ (جو مسجد احزاب سے ایک کلو میٹر شمال کی طرف واقع ہے)میں ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے ،دو رکعت نماز تمام ہونے کے بعد جبرئیل سورہٴ بقرہ کی ۱۴۴ ویں آیت لے کر نازل ہوئے:

” قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوہَکُمْ شَطْرَہ“[33]

”اے رسول ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہٰذا آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی جہت کی طرف موڑ دیجئے اور جہاں بھی رہئے اس طرف رخ کیجئے“۔

تو آپ حالت نماز ہی میں کعبہ کی طرف پلٹے اور دو رکعت نماز کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی، اسی طرح آپ کی اقتداء کرنے والوں نے بھی کیا ،اور اسی نماز کی وجہ سے مسجد بنی سلمہ کو مسجد ”ذو قبلتین“ کہا جانے لگا“۔

اس واقعہ کے بعد یہودی ہر جگہ قبلہ بدلنے کے سلسلہ میں اعتراض اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور یہودیوں کے درمیان طے پایا کہ وہ ایک جلسے میں اس موضوع پر آزاد انہ طور پر بحث کریں ،اس جلسہ میں چند یہودیوں نے شرکت کی اور جلسہ کی شروعات یہودیوں نے کی اور سوال کی صورت میں انھوں نے اس طرح کہا:”آپ کو مدینہ آئے اور بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو گیا لیکن اب آپ بیت المقدس سے رخ موڑ کر کعبہ کی طرف نماز پڑ ھ رہے ہیں آپ ہمیں اس کا جواب دیں کہ آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے جو نمازیں پڑھی ہیں وہ درست تھیں یا باطل؟ اگر وہ درست تھیں تو لا محالہ آپ کا دوسرا عمل باطل ہے اور اگر باطل تھیں تو ہم کس طرح آپ کے دوسرے اعمال (جو بدلنے کی صورت میں ہیں)پر مطمئن ہوں کہ اس طرح آپ کا یہ قبلہ بھی باطل نہ ہو؟“

پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم : ”دونوں قبلے اپنے موقع کے لحاظ سے درست اور حق ہیں ان چند مہینوں میں بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا حق تھا اور اب ہم خدا کی طرف سے اس بات پر مامور کئے گئے ہیں کہ خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ قرار دیں“، اور خدا کے لئے مشرق ومغرب ہیں تم جس طرف بھی رخ کرو وہاں خدا ہے اور بیشک خدا بے نیاز اور دانا ہے“۔[34]

گروہ یہود: ”اے محمد ! کیا خدا کے لئے بداء واقع ہوا؟(یعنی ایک کام گذشتہ زمانہ میں اس پر مخفی تھا اور اب ظاہر ہوگیا اور اس نے اپنے پہلے حکم سے پشیمان ہو کر ددوسرا حکم دیا ہے)اور اس بنا پر اس نے تمہارے لئے نیا قبلہ معین کیا؟اگر اس طرح کی بات کرتے ہو تو گویا تم نے خدا وند متعال کو عام انسانوں کی طرح نادان تصور کر لیا“۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم :خدا کے یہاں بداء اس معنی میں نہیں پایا جاتا ہے ،خدا ہر چیز سے آگاہ اور قادر مطلق ہے اس سے کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی جسکی وجہ سے وہ پشیمان ہو اور تجدید نظر کرے نیز اس کے راستہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی جس کی وجہ سے وہ اوقات میں تبدیلی کرے،میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ ”کیا مریض صحت یاب نہیں ہوتا یا تندرست آدمی غمگین اور مریض نہیں ہوتا؟ یا زندہ مرتا نہیں اور موسم گرما موسم سرما میں تبدیل نہیں ہوتا؟ کیا خداوندمتعال اس



طرح کے تمام امور میں تبدیلی لاتا رہتا ہے تو اس کے یہاں بداء واقع ہوتا ہے؟ “

پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم : قبلہ کی تبدیل بھی انھیں چیزوں میں سے ہے خدا وند متعال ہمیشہ اور ہر زمانہ میں اپنے بندوں کی فلاح وبہبود کے لئے خاص حکم رکھتا ہے جو شخص بھی اطاعت کرے گا جزاکا مستحق ہوگا ورنہ اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا،اس کی تدبیر اور مصلحت میں کسی کو مخالفت کرنے کا حق نہیں۔[35]

اور تم سے میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا تم سنیچر کے دن اپنے تمام کا موں کی چھٹی نہیں کرتے ہو اور پھر اتوار سے اپنے کاموں میںمشغول ہوجاتے ہواس میں سے تمہارا کون ساعمل صحیح ہے کیا پہلا درست ہے اور دوسرا باطل ہے یا دوسرا صحیح ہے اور پہلا باطل یا دونوں صحیح یا دونوں باطل ؟

گروہ یہود: ”دونوں صحیح ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”میں بھی اسی طرح کہتا ہوں کہ دونوں حق ہیں چند ماہ اور چند سال پہلے بیت المقدس کی طرف قبلہ قرار دینا صحیح تھا لیکن آج کعبہ کو قبلہ سمجھنا صحیح ہے۔

تم لوگ بیماروں کی طرح ہو اور تمہارا طبیب حاذق خدا ہے اور بیماروں کی صحت اور عافیت اس میں ہے کہ وہ طبیب حاذق کی پیروی کرےں اور اس کے حکم کو اپنے ہواو ھوس پر مقدم کریں“۔

اس مناظرہ کے ناقل امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ روز اول سے ہی کعبہ مسلمانوں کا قبلہ کیوں نہیں ہوا؟“

امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: ”خداوند متعال نے قرآن میں سورہٴ بقرہ کی ۱۴۳ ویں آیت میں اس کا جواب دیا ہے اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی:

”اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنا یا تھا کہ دیکھیں کہ کون رسول کا اتباع کرتا ہے اور کون پچھلے پاوٴں پلٹ جاتا ہے اگر چہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی اللہ نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہتا ،وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے“۔

اس آیت میں مومنین کے لئے یہ حکم آیا ہے کہ ہم مشرکین سے مومنین کو جدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ پہچانے جائیں اور ان کی صفیں جدا اور الگ ہوں، خداوندمتعال نے بیت المقدس کو مسلمانوں کا قبلہ اس لئے قرار دیا تھا کیونکہ اس زمانہ میں خانہ کعبہ مشرکین کے بتوں کا مرکز تھا اور مشرکین جاکران کے سامنے سجدہ کرتے تھے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب مدینہ ہجرت فرمائی اور وہاں ایک مستقل حکومت کی تشکیل دی تو مسلمانوں کی صفیں خود بخود مشرکوں سے الگ تھلگ ہوگئیں۔[36] اور اب اس چیز کی ضرورت نہیں رہی کہ مسلمان بیت المقدس کی طرف سر جھکائیں، لہٰذا مسلمانوں نے کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا شروع کردیا، یہ بات بھی واضح ہے کہ بیت المقدس کی طرف خداوندعالم نے سجدہ کرنے کا حکم اس لئے دیا تھا کہ نئے نئے مشرک جو مسلمان ہوئے تھے ان کے لئے اپنی عادتیں چھوڑنا ایک بہت ہی مشکل کام تھا کیونکہ ابھی ان میں پرانے رسوم باقی تھے اور جب تک انسان میں یہ قوت وصلاحیت نہ پیدا ہو کہ وہ اپنی عادت اور خرافات کو باآسانی ترک کرسکے وہ حق کی طرف مائل نہیں ہو سکتا لہٰذا جب انھیں پوری طرح آزمالیا گیا تو انھیں بیت المقدس کی طرف سے ہٹا کر کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ،اور در حقیقت شروع شروع میں بیت المقدس کو قبلہ قرار دینا اسلام کی ایک فکری اور معنوی تحریک تھی جس کے ذریعہ اسلام نے مشرکین کی پرانی عادتوں کو ختم کر دیا ،لیکن مدینہ میں اس طرح کی مصلحتیں نہیں پائی جاتی تھیں یا کعبہ کی طرف رخ کرنے میں زیادہ مصلحتیں تھیں۔[37]
 

صرف علی

محفلین
۵۔قرآن مجید پر اعتراض اور اس کا جواب
ایک روز کچھ لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ”ہم قرآن کے سلسلہ میں چند اعتراضات لے کر حاضر ہوئے ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”اپنے اعتراضات بیان کرو“۔

ایک نے کہا: ”آیا آپ خدا کے رسول ہیں؟“

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”ہاں“۔

گروہ: ”سورہ انبیاء کی ۹۸ ویں آیت میں خدا فرماتا ہے:

”إِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ حَصَبُ جَہَنَّمَ“

”یاد رکھو کہ تم لوگ خود اور جن چیزوں کی تم پرستش کررہے ہو سب کو جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔۔۔“۔

” ہمارا اعتراض یہ ہے کہ اس مفہوم کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اہل دوزخ ہوئے کیونکہ کچھ لوگ ان کی بھی عبادت کرتے ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سنجیدگی اور متانت سے ان کی باتیں سنیں اور فرمایا:

”قرآن عرب کی رائج زبان کے مطابق نازل ہوا ہے عربی زبان میں لفط ”من“ اکثر ذوالعقول (وہ افراد جو عقل رکھتے ہیں) کے لئے اور لفظ”ما“غیر ذوالعقول (حیوانات، جمادات اور اشجار) کے لئے استعمال ہوتا ہے تم جس آیت کے سلسلہ میں اعتراض کر رہے ہو اس میں لفظ ”ما“استعمال ہوا ہے جس سے مراد عقلا ء نہیں بلکہ وہ معبود ہیں جو عقل نہیں رکھتے جیسے بت جنھیں مٹی،لکڑی اور پتھر سے بنایا جاتا ہے ،اس طرح آیت کے معنی یہ ہوں گے:

”غیر خدا کی عبادت کرنے والے لوگ جنھیں تم نے اپنے ہاتھوں سے مختلف قسم کے معبود بنا رکھا ہے وہ سب کے سب جہنمی ہوں گے“۔

وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جواب سے مطمئن ہوگئے اور آپ کی تصدیق کر کے رخصت گئے۔[38]
 

کعنان

محفلین
شائد ممبر بھائی نے جو مضمون لگایا ھے اس میں ٹائپنگ میں حوالوں کے نمبر ایرر ہو گئے ہیں نہیں تو میں صرف حوالے ہی دیتا مگر ایرر ہونے سے میں ویب لنک دے رہا ہوں

ہر فارم کا اپنا اپنا اصول ہوتا ھے میرے یہ پوسٹ پہلے موڈ کے پاس جائے گی اگر موڈ سمجھے کہ لنک دینا ٹھیک نہیں تو وہ اس کو ڈلیٹ کر سکتی ھے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

والسلام



http://www.sadeqeen.com/KOTOB KHANA/RASOOL AKRAM/monazrat Rasool akram.html
 
Top