پیغام

x boy

محفلین
ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں ان کاحال پو چھنے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،ایک صحابی عمران بن حصین جو کہ قریش کے سردار تھے وہ بھی ساتھ تھے ،دروازے پر جاکر پوچھا کہ بیٹی اندر آئوں میرے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے ،تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں اتنا کپڑا نہیں کہ میں پردہ کرسکوں چادر کوئی نہیں چہرہ چھپانے کیلئے ،
ہمارے علم کے مطابق یہ کیسی بے بسی کی زندگی ہے ۔یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ کپڑا کوئی نہ ہو ،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیٹی جنت کی عورتوں کی سردار اور جنت کے سردار وں کی ماں ،اللہ کے شیر کی بیوی اور محمد کی بیٹی اس حال میں ہے کہ گھر میں چادر پردے کو نہیں ،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مرحمت فرما ئی کہ میری چادر سے پردہ کرلو ،آپ اندر تشریف لائے اور پو چھا بیٹی کیا حال ہے ،انہوں نے عرض کی اباجان بھوک بھی ہے اور بیماری کے علاج کے پیسے بھی نہیں ،
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گلے لگایا اور آپ بھی رونے لگے اللہ اکبر ۔طائف میں پتھر وں کی بارش میں رونا نہیں آیا اور یہاں رونا آیا، بیٹیوں کا غم کتنا رلادینے والا ہوتا ہے اے بیٹی غم نہ کر اس ذات کی قسم جس نے تیرے باپ کونبی بنایا ہے آج تیسرا دن ہے میں نے بھی ایک لقمہ تک نہیں کھایا تیرے گھر میں فاقہ تو تیرے باپ کے گھر میں بھی فاقہ ہے۔ (اللہ اکبر)
یہ اُس نبی اور اس کی بیٹی کے گھر کی حالت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فر مایا تھا :کہ اگر آپ چاہیں تو سارے عرب کے پہاڑ کو سونا بنا دوں ، عرب کے پہاڑ مکہ اورمدینہ کے پہاڑ سونا بن جائیں ۔پھر یہ سونا بنکر کھڑے نہیں رہیں گے بلکہ آپ کے ساتھ چلیں گے۔
آپ کو توڑنے کی اور کاٹنے کی مشقت میں نہیں ڈالوں گا جتنا فرما ئیں گے اتنا ہوکر سامنے آئیں گے ۔
اے بیٹی میں نے انکار کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا :پھر کیا چاہیے ؟میں نے عرض کیا :مجھے یہ چاہیے اجوع یوما واشبع یوما ایک دن بھو کا رہوں اور ایک دن کھانا کھا ئوں ،
اے اُمت کے غریبو !اگر تمہیں روٹی نہیں ملی تو تمہارے نبی کو بھی کئی کئی دن روٹی نہ ملی ، تمہارے بیٹے کے علاج کیلئے پیسے نہیں مل رہے تو تمہارے نبی کی سب سے محبوب بیٹی کی دواکیلئے بھی پیسے نہیں ملے تھے تمہارے بیٹوں کو پہننے کیلئے کپڑے نہیں مل رہے تو تمہارے نبی کی کی سب سے پیاری بیٹی کو بھی پردہ کرنے کیلئے کپڑے نہیں تھے ۔
اب یہاں ہماری عقل برباد ہوگئی اور ہم نے ان گا ڑیوں اور کو ٹھیوں کو عزت کا معیار بنالیا اگر یہی ہے تو پھر قارون سب سے بڑا عزت والاتھا ۔اس جیسا دولت والا شخص دنیا میں کوئی نہیں گزرا نہ آئندہ کوئی آے گا ۔اللہ نے خزانوں سمیت اس کوغرق کردیا ،
آپ نے فرمایا :میرے رب نے تو کہا تھا کہ یہ پہا ڑسونا بنادوں تو میں نے کہا نہیں مجھے جب بھوک لگے گی تو میرے اللہ تجھے یادکروں گا ،
تیرے سامنے آہ وزاری کروں گا اور جب کھا نا کھاوں گاتو تیراشکر ادا کروں گا اور تیری تعریف کروں گا
 

x boy

محفلین
سنہ ۸ ھجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین سے فارغ ھو کر واپس آرھے تھے کہ راستے میں ایک مقام پر نماز کا وقت ھو گیا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وبارک وسلم نے اپنے موذن کو اذان دینے کا حکم دیا.. اتفاق سے وھاں مکہ مکرمہ کے چند ایسے شوخ نوجوان بھی موجود تھے جنہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا..
جب موذن اذان دے چکے تو وہ نوجوان تمسخر کے طور پر اذان کی نقل اتارنے لگے.. ان میں سے ایک نوجوان کی آواز بہت بلند اور دلکش تھی.. سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نوجوانوں کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا.. " تم میں سے کون ھے جو بلند آواز سے اذان کی نقل اتار رھا تھا..؟ "
سب نے اس خوش الحان نوجوان کی طرف اشارہ کر دیا.. حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا.. "میرے سامنے اذان دو.. "
وہ نوجوان حکم کی تعمیل میں کھڑا ھو گیا مگر اذان سے پوری واقفیت نہ تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وبارک وسلم نے اس نوجوان کو خود اذان بتانا شروع کردی..
وہ خوش قسمت نوجوان سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اذان کے کلمات سنتا گیا اور دھراتا گیا.. جوں جوں زباں سے اذاں کے الفاظ ادا ھوتے گئے ' سینے سے کفر و شرک کا زنگ بھی دور ھوتا گیا.. اذان کے ختم ھوتے ھوتے اس نوجوان کے دل کی دنیا بھی بدل چکی تھی.. اسی وقت کلمہ شہادت زبان پر جاری ھو گیا اور اسلام قبول کر لیا..
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوش بخت نوجوان کو ایک تھیلی مرحمت فرمائی جس میں کچھ چاندی تھی.. پھر اس نوجوان کے ماتھے ' چہرے ' سینے اور پیٹ پر ناف کی جگہ تک اپنا دست مبارک پھیرا اور تین مرتبہ یہ دعا دی..
" اللہ تمھارے مونھ میں برکت دے اور تمھارے اوپر بھی برکت نازل فرمائے.."
یہ خوش نصیب نوجوان حضرت سیدنا ابو محزورہ جمحی رضی اللہ تعالی عنہ تھے جو اذان کا مذاق اڑانے کے باوجود رحمت العالمین حضرت محمد مصطفی' صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وبارک وسلم کے اخلاق کریمہ کی وجہ سے اسلام کی عظیم سعادت سے فیضیاب ھوئے..
اللہ ھمیں اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پیروکار بننے کی توفیق عطا فرمائے.. آمین یا رب العالمین
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ جس نے بھی لوڈ کیا
بہت خوبصورت ویڈیوں جو اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھی۔
 

x boy

محفلین
كفار سے مشابہت كے ضوابط و اصول
يورپ والوں سے مشابہت كے ضوابط كيا ہيں ؟؟
كيا ہر وہ نئى اور جديد چيز جو يورپ سے ہمارے ہاں آئے وہ ان سے مشابہت ہے ؟
يعنى دوسروں معنوں ميں اس طرح كہ: ہم كسى چيز پر كفار سے مشابہت ہونے كى بنا پر حكم كيا اطلاق كيسے كر سكتے ہيں كہ وہ حرام ہے ؟



الحمد للہ:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:


" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہي ميں سے ہے "


سنن ابو داود كتاب اللباس حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے حسن صحيح قرار ديا ہے.


المناوى اور العلقمى كہتے ہيں:

يعنى ظاہر ميں ا نكى شكل و صورت اختيار كرے، اور ان جيسا لباس پہنے، اور لباس پہننے اور بعض افعال ميں ان كے طريقہ پر چلے.

اور ملا على القارى كہتے ہيں: يعنى مثلا جو شخص لباس وغيرہ ميں اپنے آپ كو كفار كے مشابہ بنائے، يا فاسق و فاجر قسم لوگوں، يا صوفيوں اور صالح و ابرار لوگوں سے مشابہت كرے، " تو وہ انہي ميں سے ہے " يعنى گناہ اور بھلائى ميں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ " الصراط المستقيم " ميں لكھتے ہيں:

امام احمد وغيرہ نے اس حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس حديث سے كم از كم چيز كفار سے مشابہت كى حرمت ثابت ہوتى ہے، جيسا كہ
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان ميں ہے:
" تم ميں سے جو انہيں اپنا دوست بنائے تو وہ انہي ميں سے ہے "

اور يہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے قول جيسا ہى ہے كہ انہوں نے فرمايا:
" جس نے مشركوں كى زمين ميں گھر بنايا، يا ان كے نيروز اور مہرجان تہوار منائے، اور ان سے مشابہت اختيار كى حتى كہ مر گيا، تو اسے روز قيامت انہيں كے ساتھ اٹھايا جائيگا "

اور اس پر بھى محمول كيا جا سكتا ہے كہ جس قدر وہ ان سے مشابہت اختيار كريگا اسى حساب سے وہ ان ميں شامل ہوگا، اگر تو وہ كفر يا معصيت يا ا نكى علامت اور شعار ہو تو اس كا حكم بھى اسى طرح كا ہو گا.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اعاجم سے مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "


اسے ابو قاضى ابو يعلى نے ذكر كيا ہے، اور اس سے كئى ايك علماء نے غير مسلمانوں كى شكل و شباہت اختيار كرنے كى كراہت پر استدلال كيا ہے " اھ۔
اور پھر كفار سے مشابہت دو طرح كى ہے:
حرام مشابہت.
اور مباح مشابہت.


پہلى قسم: حرام مشابہت:
وہ يہ ہے كہ كسى ايسے فعل كو سرانجام دينا جو كفار كے دين كے خصائص ميں سے ہے، اور ا سكا علم بھى ہو، اور يہ چيز ہمارى شرع ميں نہ پائى جائے... تو يہ حرام ہے، اور بعض اوقات تو كبيرہ گناہ ميں شامل ہو گى، بلكہ دليل كے حساب سے تو بعض اوقات كفر بن جائيگى.
چاہے كسى شخص نے اسے كفار كى موافقت كرتے ہوئے كيا ہو، يا پھر اپنى خواہش كے پيچھے چل كر، يا كسى شبہ كى بنا پر جو اس كے خيال ميں لائے كہ يہ چيز دنيا و آخرت ميں فائدہ مند ہے.
اور اگر يہ كہا جائے كہ: كيا اگر كسى نے يہ عمل جہالت كى بنا پر كيا تو كيا وہ اس سے گنہگار ہو گا، مثلا جيسے كوئى عيد ميلاد يا سالگرہ منائے ؟
تواس كا جواب يہ ہے كہ:
جاہل اپنى جہالت كى بنا پر گنہگار نہيں ہوگا، ليكن اسے تعليم دى جائيگى اور بتايا جائيگا، اور اگر وہ پھر بھى اصرار كرے تو گنہگار ہوگا.

دوسرى قسم: جائز تشبہ:

يہ ايسا فعل سرانجام دينا ہے جو اصل ميں كفار سے ماخوذ نہيں، ليكن كفار بھى وہ عمل كرتے ہيں، تو اس ميں ممنوع مشابہت نہيں، ليكن ہو سكتا ہے اسميں مخالفت كى منفعت فوت ہو رہى ہو.
اہل كتاب كے ساتھ دينى امور ميں مشابہت كچھ شروط كے ساتھ مباح ہے:


۱- وہ عمل ا نكى عادات اور شعار ميں شامل نہ ہوتا ہو، جس سے ان كفاركى پہچان ہوتى ہے.



۲ - يہ كہ وہ عمل اور امر ا نكى شريعت ميں سے نہ ہو، اور ا سكا انكى شريعت ميں سے ہونے كو كوئى ثقہ ناقل ہى ثابت كر سكتا ہے، مثلا اللہ تعالى ہميں اپنى كتاب قرآن مجيد ميں بتا دے، يا پھر اپنے رسول كى زبان سے بتا دے، يا پھر متواتر نقل سے ثابت ہو جائے، جيسا كہ پہلى امتوں ميں سلام كے وقت جھكنا جائز تھا.


۳ - ہمارى شريعت ميں ا سكا خاص بيان نہ ہو، ليكن اگر موافقت يا مخالفت ميں خاص بيان ہو تو ہم اس پر اكتفا كرينگے جو ہمارى شريعت ميں آيا ہے.


۴ - يہ موافقت كسى شرعى امور كى مخالفت كا باعث نہ بن رہى ہو.


۵ - ان كے تہواروں ميں موافت نہ ہو.


۶ - اس ميں موافقت مطلوبہ ضرورت كے مطابق ہو، اس سے زائد نہ ہو.


ديكھيں: كتاب السنن والآثار فى النھى عن التشبہ بالكفار تاليف سھيل حسن صفحہ ( 58 - 59 ).

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
 

x boy

محفلین
سورة البَیّنَة
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
اہلِ کتاب میں سے کافر اور مشرک لوگ باز آنے والے نہیں تھے یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل آئے (۱) یعنی ایک رسول الله کی طرف سے آئے جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے (۲) جن میں درست مضامین لکھے ہوں (۳) اور اہلِ کتاب نے جو اختلاف کیا تو واضح دلیل آنے کے بعد (۴) اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ الله کی عبادت کریں ایک رخ ہو کر خالص اسی کی اطاعت کی نیت سے اورنماز قائم کریں اور زکواة دیں اور یہی محکم دین ہے (۵) بے شک جو لوگ اہلِ کتاب میں سے منکر ہوئے اور مشرکین وہ دوزخ کی آگ میں ہوں گے اس میں ہمیشہ رہیں گے یہی لوگ بدترین مخلوقات ہیں (۶) بے شک جولوگ ایمان لائے اورنیک کام کیے یہی لوگ بہترین مخلوقات ہیں (۷) ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں ہمیشہ رہنے کے بہشت ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے الله ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہ اس کے لئےہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے (۸)
 

x boy

محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بندہ (مسلمان) جہنم میں ہزار سال تک فریاد کرتے ہوئے کہے گا، یاحنان یا منان، تو اللہ جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیں گے جا میرے اس بندے کو میرے پاس لے کر آ۔
جبرائیل علیہ السلام جائیں گے تو سب اہل جہنم کو اوندھے منہ روتے ہوئے پائیں گے پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کی طرف لوٹیں گے اور اس حال کی خبر کریں گے تو اللہ تعالی فرمائیں گے، تم اسے میرے پاس لے کر آؤ وہ ایسے ایسے مقام پر ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام اس کو لے کر آئیں گے اور رب تعالی کے سامنے کھڑا کردیں گے تب اللہ تعالی پوچھیں گے اے میرے بندے تو نے اپنا ٹھکانا کیسا پایا؟ تو وہ عرض کرے گا بہت بُری جگہ ہے اور بہت بُرا مقام ہے تو اللہ تعالی فرمائیں گے میرے بندے کو واپس لے جاؤ، وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار مجھے یہ امید نہیں تھی کہ آپ مجھے وہاں سے نکال کر پھر واپس ڈال دیں گے، تو اللہ حکم دیں گے کہ میرے بندے کو چھوڑ دو اور جنت میں داخل کردو
(مسند احمد، باب مسند انس بن مالک، حدیث نمبر:۱۲۹۳۱)
 

x boy

محفلین
رزق میں اضافہ اور عمر میں برکت کے لئے ایک عمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !
جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے رزق اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو وہ صلہ رحمی کرے -
صحیح بخاری # 5986


یہ دو چیزیں ہیں جن کی تلاش میں انسان اپنی پوری زندگی لگا دیتا ہے اگر ہم صلہ رحمی کریں تو یہ مرغوب اور پسندیدہ دولت محض اس چھوٹے سے عمل سے حاصل کی جا سکتی ہے
 

x boy

محفلین
اللہ کے پیارے نبی محمد مصطفی خیر الانبیاء ﷺ فرماتے ھیں کہ میرا جی چاھتا ھے کہ نماز میں لمبی قرات کروں مگر کسی خاتون کا بچہ رو پڑتا ھے اور میں سوچتا ھوں کہ اس کی ماں کا دل بچے میں اٹک گیا ھو گا،میں اس کی سہولت کے لئے قرات کو مختصر کر دیتا ھوں،،
کیا بات ھے ھمارے نبیﷺ کی دلجوئی کی کہ نماز میں بھی لوگوں کے احساسات پر نظر ھے، اپنے اعمال سے ویسے لگتا نہیں کہ ھم ان کے امتی ھیں ! اولاد کو والدین کے احساسات کا خیال نہیں تو والدین کو اولاد کے دل کی خبر نہیں حالانکہ وہ اولاد رہ کر آئے ھیں،، والدین کو پتہ ھے اور تجربہ ھے کہ والدین کی کون سی بات گولی کی طرح لگتی ھے ۔۔ مگر پھر بھی وہ یہ گولی اولاد کو مارے بغیر رھتے نہیں کیونکہ یہ گولی بزرگوں کی امانت ھے آگے پہنچانا ضروری ھے ،، شوھر کو یہ احساس نہیں کہ اس کی اک ذرا سی بات،بس اک چھوٹا سا جملہ ان کی پارٹنر کی رات کی نیند اڑا دیتا ھے،، وہ مر مر کے جیتی اور جی جی کے مرتی ھے ،، ھر روز کی یہ ٹینشن اسے ڈیپریشن کا مریض بنا دیتی ھے،اور پھر اس کا ٹائی راڈ ٹوٹ جاتا ھے،،نارمل آدمی جب بولتا ھے تو پتہ چل جاتا ھے اگرچہ غصے میں بولے اور ابنارمل آدمی بھی جب بولتا ھے تو پتہ چل جاتا ھے،،جب بیوی ڈیپریشن میں بولنا شروع کرے تو انسان کو محسوس ھو جانا چاھئے کہ یہ اب اپنے آپ میں نہیں ھے اور مرفوع القلم پوزیشن میں ھے ! لہذا چپ کر کے سنتے رھنا چاھئے،، باھر بھی نہیں بھاگ جانا چاھئے ورنہ مواد عورت کے اندر ھی رھے گا،اب جو پھوڑا پھٹ گیا ھے اس کا پورا مواد نکل جانے دیں ! یہ آپ کی عطا تھی اسے آپ ھی وصول کیجئے ،خط جب واپس آتا ھے تو اسی ایڈریس پر واپس آتا ھے جہاں سے بھیجا جاتا ھے !

خواتین کا معاملہ بھی کچھ ملتا جُلتا ھے،، کام پر جاتے شوھر کی پیٹھ پر ایسا انگارہ رکھ دیں گی پہلے تو کام پر جاتے ھوئے رستے میں وہ گاڑی کو جہاز سمجھ کر چلائے گا اور ایکسیلیریٹر کو بیوی کا گلا سمجھ کر دبائے گا اور سارا دن ڈیوٹی پر افسروں سے اور دفتر کے ساتھیوں سے منہ ماری کر کے انگارے کی تپش کم کرتا رھے گا،مگر وہ کم ھوتی نہیں ھے،،کیونکہ جس نے رکھا ھے خوب ناپ تول کر رکھا ھے،، سوتے وقت کوئی ایسی بات کر دیں گی کہ ساری رات بستر انگاروں کا بستر بنا رھے گا،،اب جب صبح یہ بندہ ڈیوٹی پہ جائے گا تو نیند کا مارا ھر ایک کے گلے پڑے گا ،، عین کھانا کھاتے ھوئے خود کش حملہ کر دیتی ھیں اور کھانا زھر بنا دیتی ھیں،، مناسب وقت پر غیر معقول بات بھی قابلِ برداشت ھوتی ھے،مگر ڈیوٹی ٹائم،، سوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت کسی قسم کی اختلافی گفتگو نہیں کرنی چاھئے !
خیر بات کہاں کی کہاں نکل گئ ھے ! عرض کرنا چاہ رھا تھا کہ ھمیں جو بات بطور مقتدی ،اپنے امام سے پسند نہ آئی کوشش کی کہ امامت کے وقت میرے مقتدیوں کو اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے،، جب ھم ڈیوٹی پہ جایا کرتے تھے تو فجر کی نماز میں ادھر بس کا ٹائم ھو جاتا،، ادھر مولوی صاحب کا ذوق وجد میں آ جاتا ،، اب ھم پر ایک ایک لمحہ بھاری ھے ،بس نکل گئ تو 35 درھم کی ٹیکسی بک کر کے جانا پڑے گا،، کئ دفعہ ایسا ھوا کہ نماز توڑ کر نکل جانا پڑا اور کام پر جا کر نماز پڑھی،کئی دفعہ نیت کی کہ اگر آج بس نکل گئ تو ٹیکسی کا کرایہ مولوی صاحب سے لیں گے ،، تو عالیجاہ اپنی تو عادت بن گئ ھے کہ چھوٹی چھوٹی سورتوں سے فجر پڑھاتے ھیں، مختصر تسبیحات پڑھتے ھیں تا کہ کسی کی بس نہ نکل جائے،،!
پہلے نماز میں بچے رویا کرتے تھے اب موبائیل روتے ھیں،، اگر بس ڈرائیور ھے تو سواریاں کال کرنا شروع کر دیتی ھیں کہ کہیں سویا نہ رہ گیا ھو ،،سواری ھے تو ڈرائیور کال مارتا ھے،" کہاں مر گئے ھو "؟ بس اپنا حال تو شاعر جیسا ھے جس نے عرض کیا تھا !

اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں !
کبھ۔ی س۔۔وز و س۔۔۔ازِ رومی ،کبھی پیچ و تابِ رازی !

عرصہ تیس سال سے زائد ھوا ھے کہ ھمارے پڑوسی مسکین مرحوم نے پاکستان میں نماز کے بعد ھم سے مسئلہ پوچھا تھا کہ " قاری صاحب اگر ایک آدمی دمے کا مریض ھے اور اس کی سانس سجدے میں رک جاتی ھے تو کیا وہ سر سجدے سے اٹھا کر سانس لے کر دوبارہ مولوی صاحب کے ساتھ سجدے میں شامل ھو سکتا ھے ؟ چونکہ مسکین مرحوم شدید دمے کا مریض تھا،، بھائیو وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی 3 بار سے زیادہ سجدے کی تسبیح نہیں پڑھی،مجھے اپنے پیچھے کئی مسکین نظر آتے ھیں،، میرے بہت اچھے دوست وجاھت ھاشمی صاحب نے رمضان میں تراویح کے بعد کہا کہ قاری صاحب، باقی اماموں کے پیچھے ھم نماز پڑھتے ھیں تو تسبیحات کا دورانیہ بدلتا رھتا ھے،،کبھی تو یوں لگتا ھے مولوی صاحب سو ھی گئے ھیں،،مگر آپ کے پیچھے مدت سے جمعہ اور تراویح پڑھی ھے،ایسا نپا تلا پیمانہ ھے کہ ادھر تین پوری ھوئیں ادھر اللہ اکبر،، میں نے کہا مسکین مرحوم خود تو فوت ھوگیا ھے،مگر میری سپیڈ باندھ گیا ھے !
 

x boy

محفلین
بھابھی پر دل آگیا ہے!وہ اسے اپنے لئے چاہنے لگا ہے، علاج کا کوئی طریقہ ہے؟



سوال؟

میں 26 سال کا نوجوان ہوں،میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی ، میں اور میرے شادی شدہ بھائی ایک ہی مکان میں رہتے ہیں، معاملہ یہ ہے کہ میں اپنی بھابھی سے محبت کرنے لگا ہوں، اور اس حد تک پہنچ گیا ہوں کہ میں اسے اپنے لئے چاہنے لگاہوں، حالانکہ وہ ماں بھی بن چکی ہے، اور ابھی تک میں اس محبت کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہوں۔
سوال یہ ہے کہ: کیا مجھے اس محبت پر گناہ ہوگا؟ حالانکہ یہ محبت غیر ارادی ہے، مجھے بتائیں میں کیا
کروں؟

جواب:
الحمد للہ:

اللہ تعالی کسی بندے سے غیر ارادی افعال پر حساب نہیں لے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: ( لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا )

ترجمہ: اللہ تعالی کسی کو اسکی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا البقرة/ 286

اسی طرح ایک مقام پر فرمایا: ( لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آَتَاهَا )

ترجمہ: اللہ کسی کو اسی کے مطابق تکلیف دیتا ہےجو اس نے اسے دیا ہے۔ الطلاق/ 7

بلکہ صرف انہی افعال کا حساب لیا جائے گا جو اس نے اعضاء سے کئے ہونگے، فرمانِ باری تعالی ہے: ( ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُواْ ذُوقُواْ عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ )

ترجمہ: پھر ان ظالم لوگوں سے کہا جائے گا: ہمیشہ کا عذاب چکھو، تمہیں انہیں اعمال کی جزا دی جا رہی ہے جو تم نے کئے تھے۔ يونس/ 52

آؤ ذرہ کھل کر بات کرتے ہیں کہ چلو مان لیا کہ آپ کا بھابھی کے ساتھ محبت کا کوئی ارادہ نہیں ہے، لیکن کیا آپ ان اسباب کے بارے میں کیا کہیں گے جن کی وجہ سے آپ یہاں تک پہنچے ہو؟!

کیا اس محبت سے پہلے نظریں نہیں ملیں؟ یا اس سے بات نہیں ہوئی؟یا اسکے ساتھ بیٹھے نہیں؟!

آپ کے دل میں اسکی محبت اترنے سے پہلے یہی کام ہوئے ہونگے، اور یہ سب کچھ واضح شرعی نصوص کی رو سے ممنوع ہے، اس لئے ان معاملات پر آپکو مؤاخذے کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اگر آپ کی بھابھی بھی اسی طرح متساہل ہوئی تو اسے بھی برابر کا گناہ ہوگا۔

یاد رکھنا! شیطان تمہیں اسی حد پر اکیلا نہیں چھوڑے گا کہ تم اسکی محبت دل میں لئے پھرو اور بس! بلکہ آپکی زبان سے یا حرکات سے یہ واضح کروا دےگا، اس لئے غافل مت بنو، اور اس سے پہلے کے وقت جاتا رہے اپنے نفس کو بچا لو، اس جیسے مسائل میں نتیجہ انتہائی بھیانک ہوتا ہے، عقل مند افراد ان نتائج کو جانتے ہیں، اس لئے شیطان کے مکرو فریب میں مت آجانا، اس سے بچ کر رہنا، اپنے لئے ، اپنے بھائی کیلئے اور والدین کیلئے اللہ سے ڈرو۔

اب ہم آپکو سنت مطہرہ سے واضح لفظوں میں کچھ مفید مشورے دیتے ہیں:

فرض کرو کہ تمہاری ایک باشعور، پاکباز لڑکی سے شادی ہوجاتی ہے، اور اسکی محبت تمہارے کسی بھائی کے دل میں داخل ہوجائے! تو کیا یہ صورتِ حال آپکو پسند ہوگی؟!

پکّی بات ہے کہ آپ اسے کسی قیمت میں قبول نہیں کرینگے۔

اور پھر کیا آپ اس محبت کے پہلے قدم کو ہی ختم کرنے کی کوشش کروگے!؟

یہ بھی لازمی بات ہے کہ آپ اسکے لئے پہلا قدم اٹھنے ہی نہیں دینگے۔

اچھا یہ بتلاؤ کہ کیا آپ اپنے بھائی کا عذر قبول کروگے کہ یہ محبت غیر ارادی طور پر اسکے دل میں داخل ہوگئی ہے؟!

یہ بھی لازمی بات ہے کہ آپ اس کا یہ عذر قبول نہیں کروگے۔

اس لیے یہ بات ذہن نشین کر لو کہ جو بات آپ کر رہے ہو یہ سب لوگوں کیلئے بارِ گراں ہے، اور اسکے نتائج بھی بھیانک ہیں، پھر شریعت کے مطابق تو اس کے اسباب ہی حرام ہیں، اس لئے اس بیماری کے کنٹرول سے باہر ہونے سے پہلے پہلے اسکا علاج کرو، ورنہ اسکا علاج مشکل ہوجائےگا۔

علاج کیلئے مندرجہ ذیل نقاط مفید ہونگے، ہمیں امید ہے کہ آپ ان نقاط کو عملی جامہ پہنا کر اپنے آپ کو بچا لیں لگے:

1- کچھ بھی ہوجائے اپنی بھابی پر نظر ڈالنے سے قطعاً اعراض کرو، جہاں کہیں بھی ان پر نظر پڑ سکتی ہے وہاں مت جاؤ، چاہے کوئی تقریب ہو یا کچھ اور، وہاں جانے سے معذرت کرلو۔

2- اُن کے ساتھ بالکل بھی بات نہ کرو حتی کہ سلام بھی نہ کرو۔

3- اُن کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو، اور جب بھی یاد آئے تو اپنے دل کو سنبھالا دو ، اور اسے روک دو، اپنے آپ کو یہ مت کہوکہ تمہارے ساتھ ہونے والا معاملہ "محبت" ہے بلکہ اپنے آپ کو یہ سمجھاؤ کہ یہ "حرام" ہے۔

4- جتنی جلدی ہوسکے شادی کرلو، شادی اس سوچ پر لیٹ نہ کرو کہ آپ کی بھابھی آپکی رفیق حیات بنے گی!

5- اپنی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام بھائی اور بھابھی سے دور کسی اور جگہ کرلو ، چاہے شادی کے بعد ہو ؛ یا اگر ابھی ممکن ہوتو اچھا ہے، اور اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے، اس کے لیے آپ اپنے شہر سے دور کسی اور جگہ ملازمت بھی کر سکتے ہو۔

6- اپنے ایمان کو مزید نیکیوں اور تقوی سے مضبوط کرو، احکامات کی پاسداری اور ممنوعہ کاموں سے رک جاؤ، یہ مسلّمہ بات ہے کہ جو اپنے آپ کو اچھی چیزوں میں مصروف رکھے وہ برائیوں سے بچ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایمان سے عاری دل ہی شیطان کا شکار ہوتا ہے، اپنی عقل کو اللہ کی ناراضگی کے متعلق سمجھاؤ، اور اپنے دل کو ایمان سے خالی نہ ہونے دو، کہ کہیں شیطان غلبہ نہ پا لے۔

7- اللہ تعالی سے سچے دل کے ساتھ دعا مانگو کہ اسکے دل کو پاک باز بنادے، اور اُس کے دل کو حُبِّ الہی اور حُبِّ دین سے بھر دے۔

ہم آپ سے امید کرینگے کہ آپ ان لکھی ہوئی باتوں کو کاغذ سے عملی شکل میں تبدیل کردیں گے، اور اس طرح سے آپ اپنے دعوے میں بھی سرخ رو ہونگے کہ آپ گناہ سے بچنے کیلئے مخلص تھے۔

اللہ تعالی آپکی حفاظت فرمائے اور آپکا حامی ناصر ہو۔

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/177292
 

x boy

محفلین
یہ یورپ ، آسٹریلیا، امریکہ اور ترقی یافتہ قومیں ہیں

یہاں پر کوئی بھی بندہ اپنی بیوی کو مارپیٹ کا نشانہ نہیں بناسکتا اگروہ ایسا کرے گا تو اسے جیل یا جرمانے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے
کوئی بھی شوہر اپنی بیوی کوباہرکام کرنے سے نہیں روک سکتا ، اس کو پارٹی یا غیر ضروری لوگوں سے ملنے سے منع نہیں کرسکتا یہ بنیادی حقوق کی پائمالی ہوگی
کوئی بھی شوہر اپنی بیوی کو زبردستی ازدواجی تعلقات کے لیے مجبور نہیں کرسکتا
کوئی بھی شوہراپنی بیوی کو گھر کے اندر ہی رہنے کی ہدایت جاری نہیں کرسکتا
طلاق دینے کی صورت میں بیوی کو جائیداد میں سے پچاس فیصد حصہ دینا ہوگا
طلاق دینے کی صورت میں تقریبا ساری زندگی کے لیے اسے عدالت کی طرف سے طے کردہ ماہانہ خرچہ دینا ہوگا!
طلاق دینے کی صورت میں عدالت و وکلاء کا سارا خرچہ خاوند کو برداشت کرنا ہوگا !
شادی ہوتے ہی بیوی آپ کے جائیداد کے آدھے حصے کی مالک ہے !
بیوی کی کوئی بھی جائیداد ہو جو کے اسے وارثت میں ملی ہو ،یا اس نے کمائی ہو ، یا اس کے والدین نے دی ہو اس پر خاوند کا کسی بھی طرح کاکوئی حق نہیں ہے !!

کتنے اچھے قانون لگتے ہیں! زبردست کیسے اچھے قوانین بنائے ہیں اس مظلوم طبقے کی مدد کے لیے ! بہت سی عورتیں تو یہ قانون سنتے یہ امریکہ کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہوں گئیں !! ظالم مردوں پر اتنی پابندیاں واللہ یورپ ہی ایسے قوانین بنا سکتا ہے

لو جی ان قوانین کا فائدہ جان لو کہ یورپ ، آسٹریلیا، امریکہ اور ترقی یافتہ قومیں
سے ستر فیصد مرد ان قوانین کی وجہ سے شادی کرنے پر راضی ہی نہیں ہیں
یورپ کے اندر ناجائز بچوں کی تعداد 40 فیصد سے بھی اوپر بڑھ چکی ہے ۔ ان میں وہ بچے شامل نہیں ہیں جن کو سنگل پیرینت جیسی سہولت حاصل ہے

انکے نوجوان لڑکے شادی شدہ زندگی کے اخراجات سے ڈرتے ہوئے شادی پر گرل فرینڈ کے رشتے کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ وہ جب چاہیں بغیر کسی قانونی پیچدگی کے اپنے پارٹنر کو چھوڑ سکتے ہیں


انکی ساٹھ فیصد مردوں کو یہ یقین ہے کہ اگر وہ شادی کریں گئیں تو ساری زندگی ایک عورت کے ساتھ نہ گزار سکیں گئیں نتیجتہ انہیں طلاق کا سامنا کرنا پڑے گا اور بہت زیادہ اخراجات کا


انکے مردوں کی ایک کثیر تعداد اپنی بیویوں یا گرل فرینڈز کے کردار پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے ہو شادی سے بھاگتے ہیں

کبھی سنا تھا کہ جہاں سے ایک اللہ کی اطاعت ہٹائی جاتی ہے وہاں پر بدعت آتی ہے اور جہاں پورا دین ہی ہٹا دیا جائے بے شک وہاں ایسا ہونا کوئی باعث تعجب نہیں ہے ۔ تعجب ہے تو یہ کہ یہ سیکولر و لبرل لوگ انہیں قوانین کی دہائی دے رہے ہیں جنہوں نے آدھے سے زیادہ یورپ حرامی بنا دیا ہے اور وہاں کی عورت کو ایک شادی شدہ زندگی سے ایک طوائف والی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے
 

x boy

محفلین
  • انسان میں قوت تخیل اللہ پاک کی مخلوق میں سب سے قوی ھے، باقی سارے نفعے نقصان اسی قوت متخیلہ کے ساتھ جُڑے ھیں ، اس کے مثبت اور منفی استعمال پر جنت اور دوزخ کے فیصلے صادر ھوں گے ! اسی قوت متخیلہ کی کارفرمائی ھے ھر نئی تخلیق اور نئی ایجاد کے پیچھے، اللہ پاک نے صرف انسان کو اپنی تخلیق کی صفت میں سے کچھ بخشا ھے،،

    یہ قوتِ متخیلہ کیا ھے !

    یہ قوت متخیلہ ھے تصویر سازی کی صلاحیت،، پھر اس تصویر میں رنگ بھرنے کی صلاحیت، پھر اس تصویر کو بنا کھڑا کرنے کی صلاحیت !
    اللہ کے رسولﷺ نے عورتوں سے کہا ھے کہ مرد کے سامنے دوسری عورتوں کا نین نقشہ نہ بیان کیا کرو، کیونکہ اس طرح ایک تو دوسروں کے گھروں کی بے پردگی ھوتی ھے ، دوسرا مرد فتنے میں مبتلا ھو جاتا ھے، پھر جب وہ نادیدہ معشوق کا عاشق ھو جاتا ھے،جس کی تصویر تم نے خود اس کے دل و دماغ میں بنا کر نقش کر دی ھے، تو پھر روتی پھرتی ھو،، مرد اگر خود دیکھے تو اتنی تباھی نہیں ھوتی، کیونکہ وہ خوبی کے ساتھ عیب بھی نوٹ کر لیتا ھے،،مگر تم نے تو ساری خوبیاں ھی سمیٹ کر بتائی ھیں اور وہ فوٹو شاپ میں اس میں رنگ بھرتا رھا ھے !
    یہ صلاحیت تو دی گئ تھی کہ انسان اس کے ذریعے اپنے رب کی نعمتوں کو دیکھ کر اپنے رب کی ھستی کا ایک ھیولہ بنائے گا ،پھر اس سے پیار کرے گا ،
    قرآن میں کیئے گئے وعدوں اور جنت کی تفصیلات کا اسکیچ بنائے گا اور اسے حاصل کرنے کو محنت کرے گا،، قرآن میں بیان کردہ جھنم کی تفصیلات کو مُشَکَۜل کرے گا ،، اور اس کے ڈر کی وجہ سے برائی سے بچے گا ،،
    اسی کے بارے میں علامہ عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ھے کہ !

    تیرے جان ف۔۔۔راز وع۔۔دے مجھے کیا ف۔۔۔ریب دیتے !
    تی۔۔۔رے کام آ گئ۔۔۔۔ی ھے،می۔۔۔۔ری زود اعتب۔۔۔۔اری !

    پھر اس دکھوں سے بھری زندگی میں شیخ چلی کے خواب بھی نہ ھوتے تو کون جی سکتا تھا،،ھر بندہ اپنے کو سب سے خوبصورت سمجھتا ھے، ھر بندہ اپنے کو سب سے زیادہ عقلمند سمجھتا ھے بقول شاعر !
    بق۔۔درِ پی۔۔۔۔۔۔۔۔مانہء تخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یل ذوق ھ۔۔ر آدمی میں ھے خودی کا !
    گ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ر نہ ھ۔۔و یہ ف۔۔ریبِ ھس۔۔۔۔۔۔۔۔۔تی، تو دم نکل جائے آدمی کا !

    یہ جو شیطان نام کا ولن ھمارے ساتھ لگایا گیا ھے،یہ ھماری ھر کمزوری سے واقف ھے، بلکہ اللہ پاک کے فرمان کے مطابق ،،انہ یراکم ھو و قبیلہ من حیث لا ترونھم ،، تمہاری توقعات سے بڑھ کر وہ تم پر نظر رکھے ھوئے ھے،وہ بھی اور اس کے چیلے چانٹے بھی،، وہ بھی اسی قسم کے نقشے دکھا وکھا کر انسان کو ورغلا لیتا ھے ،،گویا وہ زود اعتباری والی معصومیت کو شیطان ایکسپلائٹ کرتا ھے،، اور سارا دن ھمارے سیٹلائٹ چینل شیطانی وعدوں پر مبنی اشتہارات چلاتے رھتے ھیں ،، اور لوگ پاگل بن بن کر خود کشیاں کرتے رھتے ھیں !

    دنیا میں چونکہ انسان کو دکھوں کی بارش میں جینا تھا،، ضروری تھا کہ اسے ریموو ایبل اور ری رائٹ ایبل میموری عطا فرمائی جائے،، ورنہ دکھ اس کو مار دیں گے،، یوں دکھ تو fade ھوتے چلے جاتے ھیں مگر اسی کا سائڈ ایفیکٹ یہ ھے کہ ساتھ ھی درس قران ، وعظ و نصیحت اور اللہ پاک کی سنائی گئ وعیدیں اور دھمکیاں بھی دھیمی ھوتے ھوتے مٹ جاتی ھیں ،، اسی کو اس طرح بیان کیا گیا ھے کہ ولقد وعدنا ادم من قبل " فَنَسِیَ " و لم یجد لہ عزماً۔۔ یعنی ھم نے آدم سے عہد تو لے لیا اور آدم نے عہد دے بھی دیا مگر" بھول گیا" وہ fade ھو گیا ،اور ھم نے اس میں گناہ کا عزم نہیں پایا،، یعنی وہ ایک ماحول کا رد عمل تھا جس میں وہ وعدہ پسِ منظر میں دب گیا ،،
    اس کو ساغر صدیقی نے اپنی غزل میں بیان کیا ھے !

    میں تلخ۔ئ حیات سے گھب۔را کے پی گیا !
    غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا !

    چھلکے ھوئے تھے جام ،پریشاں تھی زلفِ یار !
    کچھ ایسے ح۔ادثات سے گھب۔۔را کے پ۔۔ی گیا !

    میں آدمی ھوں کوئی فرشتہ نہیں حض۔۔۔ور !
    میں آج اپن۔۔ی ذات سے گھب۔۔را کے پی گیا !

    ساغر "وہ" ک۔۔ہہ رھے تھے، کہ پی لیجئے حض۔۔۔۔ور !
    ان ک۔۔۔۔۔۔۔ی گ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارشات سے گھبرا کے پی گیا !

    پھر اللہ پاک کے ایک موھوم وجود کی طرف اشارہ کر کے کہتا ھے کہ اتنے بڑے بڑے نظر آنے والے پرکشش داعیات کے مقابلے میں ایک ایسے خدا کا تصور جس کا نہ سر ھے نہ منہ ھے نہ ھاتھ ھیں نہ پاؤں ھیں، نہ وہ کسی جگہ ھے، نہ وہ کسی سمت ھے، انسان ایسے خدا پر کیسے اور کتنی دیر تک توجہ کو مرتکز رکھ سکتا ھے ؟ اپنی اس کمزوری کو وہ عذر کے طور پر پیش کرتا ھے ،،

    اتنی دقیق شے ک۔۔۔وئ کیسے سمجھ سکے ؟
    یزداں کے واقع۔۔۔۔۔۔۔ات سے گھب۔۔را کے پی گیا !

    اس پوری غزل میں "پی گیا" سے مراد نافرمانی اور گناہ کا صدور مراد ھے !
    الغرض یہ انسان چوں چوں کا مربہ ھے،، اس کو ودیعت کی گئ صلاحتیں دوا بھی ھیں اور زھر بھی اسی لئے اللہ پاک نے انبیاء جیسے ڈاکٹر بھیجے ھیں جو عملی طور پر ان صلاحیتوں کو مثبت طور پر استعمال کر کے دکھاتے ھیں تا کہ اتمامِ حجت ھو ،، اور زھر اور دوا کا فرق واضح ھو جائے،، نبی کریمﷺ کا اسوہ سب انبیاء سے زیادہ کامل اور مکمل ھے کہ اس میں انسانی زندگی کے ھر پہلو کے بارے میں پریکٹیکل موجود ھے،، شادیاں کیں،، بیویاں رکھ کر دکھائیں،وہ بیویاں اپنی سارے عورت پن کے ساتھ نبی ﷺ کی ازواج اور ھماری مائیں تھیں،ان میں آپس میں سوکناپے کا سارا رشک و غیرت موجود تھی اور گھر میں کھٹ بٹ لگی رھتی تھی،ان میں وہ بھی تھیں جو اپنے گھر کی باری میں دوسری زوجہ کے گھر سے آیا سالن نبیﷺ کو نہیں کھانے دیتی تھیں،، وہ بھی تھیں جو سفر کے دوران خالی اونٹ تو ساتھ لیئے چل رھی تھیں مگر نبیﷺ کے کہنے کے باوجود اپنی سوکن کو اپنا اونٹ دینے پر تیار نہیں تھیں جن کا اونٹ بیمار پڑ گیا تھا، اس کے علاوہ اور بہت سارے واقعات کوٹ کیئے جا سکتے ھیں،، مگر اس ساری کھٹ بٹ کے باوجود نبیﷺ نے اپنی بییوں کو مارا نہیں اور نہ گالی دی اور فرمایا کریم النفس کبھی اپنی بیوی کو نہیں مارتا،، اسی طرح بیٹیاں اپنی زندگی میں بیاھی بھی اور قبر میں بھی اتاریں،، بیٹے پیدا بھی ھوئے اور فوت بھی ھوئے،، خوشیاں بھی آئیں اور غم بھی آئے مگر ھمیشہ اپنے رب کی رضا کے مطابق چل کر دکھا گئے کہ اس دنیا میں یوں بھی جیا جاتا ھے !

    آج ھم 63 من کا تین منزلہ کیک تو بنا سکتے ھیں،، 63 بکروں کا صدقہ بھی دے سکتے ھیں،، بڑے بڑے جلوس نکال کر ٹریفک تو جام کر سکتے ھیں،، کنڈے ڈال کر مساجد کو تو بقعہ نور بنا سکتے ھیں ،مگر مح۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔د ﷺ کا جینا نہیں جی سکتے،، ان کی طرح کی زندگی نہیں اپنا سکتے،، ان کی طرح سب کے حقوق ادا نہیں کر سکتے !

    وجہ صرف یہ ھے کہ ھم چلنا ھی نہیں چاھتے ! ورنہ نبیﷺ کی زندگی کوئی ناقابلِ عمل تو نہیں ھے،، !!!

 

x boy

محفلین
سب جہانوں كا پروردگار رب العالمين


الحمد للہ :

ايك اللہ تعالي ہي رب ، خالق ورازق ، اور سب امور ميں تصرف كرنے والا مالك وبادشاہ ہے، وہي علم والا اور خبر ركھنےوالا ہے، وہ اللہ ہي حيي اور قيوم سميع وبصير سننےوالا اورديكھنےوالا ہے، وہ باريك بان اور خبرگيري كرنےوالا، وہي بہت مہربان اوررحم كرنے كرنےوالے، وہ اللہ بردباروحليم اور بہت بخشنےوالا ہے، وہ غالب اور زبردست ہے، وہ معاف كرنےوالا اور بڑا كرم كرنےوالا ہے، وہ قوت وطاقت والا اور قدرت والا ہے، وہ ہي ابتداء سےپيدا كرنے اور صورتيں بنانےوالا ہے.

۔ آسمان وزمين ميں اسي كي بادشاہي ہے، اس كےہاتھ ميں خيروبھلائي ہے اور وہ ہر چيزپر قادر ہے.

۔ اس كےعلاوہ كوئي اور معبود برحق نہيں، اس كےاچھےاچھے نام اور بلند صفات ہيں فرمان باري تعالي ہے:

{وہي اللہ ہےجس كےعلاوہ كوئي معبود برحق نہيں جو عبادت كےلائق ہو اس كے اچھے اچھے نام ہيں} طہ ( 8 ) .

وہ جو چاہتا ہے كرتا ہے اور جس كا چاہےحكم كرتا ہے فرمان باري تعالي ہے:

{اورآپ كا رب جوچاہتا ہے پيدا كرتا اورجسےچاہتا ہے چن ليتا ہے} القصص ( 68 ) .

وہ مالك الملك اور تمام جہانوں كا مالك ہے، جسےچاہتا عزت ديتا اور جسے چاہتا ذليل كرتا ہے .. فرمان باري تعالي ہے:

{آپ كہہ ديجئے اے اللہ ! اےتمام جہان كےمالك ! تو جسےچاہے بادشاہي دے اورجس سےچاہےسلطنت چھين لے اور تو جسےچاہے عزت جے اور جسے چاہے ذلت دے، تيرے ہي ہاتھ ميں سب بھلائياں ہيں، بےشك تو ہر چيز پرقادر ہے} آل عمران ( 26 ) .

وہي زندہ كرنے اور مارنےوالا ہے، آسمان وزمين ميں كوئي بھي چيزاس مخفي نہيں... فرمان باري تعالي ہے:

{اللہ تعالى ہي زندہ كرتا اور وہي مارتا ہے، اورجوكچھ تم عمل كررہے ہو اسےديكھ رہا ہے} آل عمران ( 156 ) .

وہي اكيلا حاكم اور خالق ہے... ارشاد باري تعالي ہے:

{ياد ركھو اللہ ہي كےلئے خاص ہے خالق ہونا اورحاكم ہونا، بڑي خوبيوں والا ہے اللہ جو تمام عالم كا پروردگار ہے} الاعراف ( 54 ) .

وہي اول ہے اس سےقبل كوئي چيز نہيں.. اور وہي آخر ہے اس كےبعد كوئي چيز نہيں، وہي ظاہر ہے اس كےاوپر كوئي چيز نہيں، وہي باطن ہے اس كےپرے كوئي چيز نہيں ... ارشاد باري تعالي ہے:

{وہي اول ہے اور وہي آخر ہے، وہي ظاہر ہے اوروہي باطن، اوروہي ہر چيز سے باخبر ہے} الحديد ( 3 )

وہ ہرچيز كا خالق اور ہر چيز كوجاننےوالاہے... ارشاد رباني ہے:

{يہ اللہ تعالي تمہارا رب ہے! اس كےعلاوہ كوئي عبادت كےلائق نہيں، وہ ہر چيز كو پيدا كرنےوالا ہے لھذا تم بھي اسي ہي كي عبادت كرو، اور وہ ہرچيز كا كارساز ہے} الانعام ( 102 ) .

وہ باريك بين، عظيم الشان اور ہر چيز كا احاطہ كرنےوالا ہے... فرمان باري تعالي ہے:

{اور اللہ تعالي ہر چيز كو گھيرنےوالا ہے} النساء ( 126 ) .

وہ حيي وقيوم زندہ اور سب كوتھامنےوالاہے.... آسمان وزمين ميں جوكچھ ہے وہ اسي كي ملكيت ہے... اس پر كوئي چيز مخفي نہيں... اور نہ ہي كوئي چيز اسےعاجز كرسكتي ہے... اور نہ ہي كوئي چيز اس كا احاطہ كرسكتي ہے، فرمان رباني ہے:

{اللہ تعالي ہي معبود برحق ہے جس كےسوا كومعبود نہيں، جو زندہ اور سب كو تھامنےوالا ہے، جسےنہ تو اونگھ آئےاور نہ ہي نيند، اس كي ملكيت ميں زمين وآسمان كي تمام چيزيں ہيں، كون ہے جو اس كي اجازت كےبغير اس كے سامنے شفارش كرسكے، وہ جانتا ہےجوان كےسامنےہے اور جوان كےپيچھے ہے، اور وہ اس كےعلم ميں سےكسي چيز كا بھي احاطہ نہيں كرسكتےمگرجتنا وہ چاہے، اس كي كرسي كي وسعت نےزمين وآسمان كو گھير ركھا ہے، اور اللہ تعالي ان كي حفاظت سےنہ تھكتا اور نہ اكتاتا ہے، وہ تو بہت بلند اوربہت بڑا ہے} البقرۃ ( 255 ) .

اس نےہرچيز كوجانا اوراسےشمار كرركھا ہے.. فرمان باري تعالي ہے:

{اور ہم نے ہر چيز كوايك واضح كتاب ميں ضبط كرركھا ہے} يس ( 12 ) .

وہ بڑي سخاوت اور كرم والا ہے، ساري روزي ورزق اسي كي جانب سے ہے... فرمان رباني ہے:

{اور زمين پر چلنےپھرنےوالےجتنےبھي جاندار ہيں ان كي روزياں اللہ تعالي پر ہيں} ھود ( 6 ).

اس كي نعمتيں گني اورشمار نہيں كي جاسكتيں ... فرمان باري تعالي ہے:

{اوراس نےتمہيں وہ سب كچھ عطا كيا ہے جوتم نےاس سےمانگا، اوراگر اللہ تعالي كي نعمتيں شمار كرو توانہيں شمار نہيں كرسكتے} ابراہيم ( 34 ) .

اس كےخزانوں سےآسمان وزمين بھرے ہوئےہيں... رب ذوالجلال كا فرمان ہے:

{آسمان وزمين كےخزانےاللہ ہي كےلئےہيں} المنافقون ( 7 ).

وہ بےنياز اورخوبيوں والا ہے، اپنےبندوں كو عطا كرتا ہےليكن اس كےخزانوں ميں كوئي كمي نہيں ہوتي .... ارشاد باري تعالي ہے:

{اےلوگوں تم اللہ تعالي ہي كےمحتاج ہو اور اللہ تعالي بےنياز اور خوبيوں والا ہے} فاطر ( 15 ) .

وہ معاف كرنےوالا اورگناہوں كوبخشنےوالا ہے، اپنےبندوں پر رحم كرتا اور ان كي برائيوں سے درگزر كرتا ہے... رب ذوالجلال نےفرمايا:

{يقينا اللہ تعالي معاف كرنےوالا اوربخشنےوالا ہے} الحج ( 60 ).

وہ عالم غيب اور ظاہر كي باتوں كا جاننےوالا ہے، اپنےبادشاہي ميں غالب اور تدبير ميں بہت حكمت والا ہے... فرمان باري تعالي ہے:

{وہ پوشيدہ اورظاہركا جاننےوالا ہے، زبردست حكمت والا ہے}التغابن ( 18 ) .

وہ پوشيدہ اورظاہري احوال اورجومخفي ہے اسے بھي جانتا ہے .. فرمان باري تعالي ہے:

{اور وہي ہے معبود برحق آسمانوں ميں بھي اور زمين ميں بھي، وہ تمہارے پوشيدہ احوال كوبھي اورتمہارے ظاہر كوبھي جانتا ہے، اور تم جو كچھ عمل كرتے ہو اس كوبھي جانتا ہے} الانعام ( 3 ) .

وہ باريك بين اورخبردار ہے... فرمان باري تعالي ہے:

{مخلوق كي نگاہيں اس كا ادراك نہيں كرسكتيں، اور وہ ان كي نگاہوں كا پورا ادراك كرتا ہے اور وہي بڑا باريك بين اور باخبر ہے}الانعام ( 103 ) .

وہ اپني ذات ميں واحد ہے اور صفات ميں بھي اور اپنے افعال ميں بھي واحد ہے... فرمان باري تعالي ہے:

{كہہ ديجئے كہ وہ اللہ ايك ہي ہے، اللہ تعالي بےنياز ہے، نہ اس سےكوئي پيدا ہوا اور نہ وہ كسي سے پيدا ہو، اور نہ ہي اس كا كوئي ہمسر ہے} الاخلاص ( 1-4 ) .

وہ اللہ پاك ہے اس كےاچھے اچھے نام اور وہ بلند صفات كا مالك ہے اس كا كوئي شريك نہيں... ارشاد باري تعالي ہے:

{يہي اللہ تعالي تمہارا رب ہے، اسي كےلئے بادشاہت ہے، اس كےسوا كوئي عبادت كےلائق نہيں، پھرتم كہاں بہك رہےہو} الزمر ( 6 ).

جس كي يہ بادشاہي .. اور جس كي يہ صفات ہيں... اور جس كي يہ مخلوق .. اور جس كي يہ نعمتيں ہيں وہي حمد وتعريف اور شكركا مستحق ہے اورخالصتا اسي كي عبادت ہوني چاہئےكسي اوركي نہيں.. فرمان باري تعالي تعالى ہے:

{يقينا تمہارا رب وہ ہےجس نے آسمان وزمين كو چھ دنوں ميں پيدا فرمايا پھر عرش پر مستوى ہوا، وہ ہركام كي تدبير كرتا ہے، اس كي اجازت كےبغير كوئي اس كےپاس كوئي سفارش كرنےوالا نہيں، يہي اللہ تمہارا رب ہےلھذا تم اسي كي عبادت كرو، كيا تم پھر بھي نصيحت نہيں پكڑتے} يونس ( 3 ) .

اس نےپيدا كيا اوربالكل صحيح سالم بنايا، اور جس نےٹھيك ٹھاك اندازہ كيا اورپھر راہ دكھائي، اور روزي دي اورغني كرديا.. اللہ تبارك وتعالى كا ارشاہے:

{وہ اللہ ہي ہے جس نے تمہارے لئے زمين كو ٹھرنے كي جگہ اور آسمان كو چھت بناديا، اور تمہاري صورتيں بنائيں اور بہت اچھي بنائيں، اور تمہيں عمدہ عمدہ چيزيں كھانےكو عطا فرمائيں يہي اللہ تمہارا پروردگارہے، پس بہت ہي بركتوں والا اللہ سارے جہان كي پرورش كرنےوالا} غافر ( 64 ) .

اےاللہ عظيم بادشاہي پر تيري حمد وثنا ہے... رب ذوالجلال كا فرمان ہے:

{تمام تعريفيں اس اللہ كےلئےہيں جس كي ملكيت ميں وہ سب كچھ ہے جو آسمانوں اور زمين ميں ہے} سبا ( 1 ) .

اے اللہ تيرا شكر ہے كہ تونےہميں دين اسلام كي ہدايت نصيب فرمائي اور ہم پر قرآن مجيد نازل فرمايا... اور اچھي اور پاكيزہ اشياء سےروزي عطا فرمائي... اور ہميں سب امتوں سےاچھي اوربہتر امت بنايا... اوربہت ساري نعمتوں سےنواز كرہميں عزت بخشي ... تيرے علاوہ كوئي بھي عبادت كےلائق نہيں ... اور حكم بھي تيرے ليے اور پيدا كرنا بھي تيرے لئے ... سارے كا سارا فضل تيرا ہے... اور ساري تعريفيں اورشكر تيرے لئے ہيں.. فرمان باري تعالي ہے:

{سب تعريفيں اس اللہ كےلئےہيں جو سب جہانوں كا پالنےوالا ہے، بہت رحم كرنےوالا بڑا مہربان ہے، يوم جزا كا مالك ہے، اے اللہ ہم صرف تيري عبادت كرتےہيں اور تجھ ہي سے مدد مانگتےہيں} الفاتحۃ ( 2-5 ) .

از: كتاب اصول الدين الاسلامي۔
تاليف: الشيخ محمد بن ابراہيم التويجري .
 

x boy

محفلین
علامہ شبیر احمد عثمانی جو کہ آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ممتاز عالمِ دین جنہوں نے قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ قائدِ اعظم کے متعلق فرماتے ہیں۔ "شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو"۔اور اُس نے ایک دِن بھی اپنا حلیہ تک نہ بدلا کہ لوگ مجھے مولانا اور اعلی حضرت کہیں،،،ریلوے اسٹیشن پر نعرہ لگایا گیا،،مولانا محمد علی جناح،،،،زندہ باد آپ نے نعرہ لگانے والےکو ڈانٹ دیا ،اور فرمایا میں نے یہ ٹائٹل کبھی کلیم نہیں کیا،،پلیز میں جو ھوں،،مجھے اسی طرح قبول کریں،،ملاوٹ ھمارے نبی کو سخت ناپسند تھی ،،وہ اناج میں ھو یا کردار میں،،،
قائد زندہ باد پاکستان پائندہ باد
 

x boy

محفلین
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں كے شايان شان نہيں كہ وہ مشركوں كے ليے دعائے استغفار كريں، چاہے وہ ان كے قريبى عزيز ہى كيوں نہ ہوں التوبۃ ( 113 ).

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" ميں نے اپنے رب سے اپنى والدہ كى استغفار كے ليے دعا كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت نہ ملى، اور ميں نے اس كى قبر كى زيارت كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت دے دى گئى "

مسند احمد ( 2 / 441 ) ( 5 / 355 ) صحيح مسلم ( 2 / 671 ) حديث نمبر ( 976 ) سنن ابو داود ( 3 / 557 ) حديث نمبر ( 3234 ) سنن نسائى ( 4 / 90 ) حديث نمبر ( 2034 ) سنن ابن ماجۃ ( 1 / 501 ) حديث نمبر ( 1572 ) ابن ابى شيبۃ ( 3 / 343 ) ابن حبان ( 7 / 440 ) حديث نمبر ( 3169 ) مستدرك الحاكم ( 1 / 375 - 376 ) البيھقى ( 4 / 76 ).
 

x boy

محفلین
اللہ پاک نے جبریل علیہ السلام کو انسانی شکل میں بھیجا اور صحابہؓ کے مجمعے میں نبی پاک ﷺ کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر دو زانو کر کے بٹھا کر ایمان اور اسلام سکھایا ! بس ایمان بھی وھی ھے ! اسلام بھی وھی ھے !
بخدا اس کے علاوہ جو بھی مزید کی لالچ میں ڈبل شاہ کے ہتھے چڑھ گیا وہ پہلا اور اصلی والا بھی گنوا بیٹھا !

ایمان یہ ھے کہ !

1- ایمان باللہ ،، اس کی ذات و صفات کے ساتھ !

2- ایمان بالملائکۃ !

3- ایمان بالرسل !

4- ایمان بالکتب !

5- ایمان بالیوم الآخر !

6- ھر اچھی اور بری تقدیر رب کی ھی مقرر کردہ ھے !

7- اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا ھے !

اسلام یہ ھے کہ !

1- بندہ شہادتین کے بعد !

2 نماز کا اھتمام کرئے !

3- روزوں کا اھتمام کرے !

4- زکوۃ اگر صاحب نصاب ھے تو ادا کرے !

5 - استطاعت رکھتا ھو تو حج بیت اللہ کرے !

جس نے ان چیزوں کا اھمتام کر لیا ! اور ان بڑے بڑے گناھوں سے اجتناب کیا جن کی وجہ سے اعمال غارت ھو جاتے ھیں ! جنت اس کی مشتاق ھے اور اس کے اور جنت کے درمیان صرف موت حائل ھے !

جو رب کو دیکھنے کے چکر میں پڑے ! لوحِ محفوظ کو پڑھنے کے مشتاق ھوئے !
فرشتوں کی سرگرمیوں کو سی سی ٹی وی کیمرے میں محفوظ کرنے کی طرف متوجہ ھوئے ! قبروں میں مردوں کی کیفیات جاننے کی مشقیں کیں ! دلوں کے راز جاننے کے شوقین ھوئے - لوگوں کی تقدیریں چیک کرنے لگ گئے !

وہ متاع ایماں بھی کھو بیٹھے ! یاد رکھیں ھر قوم کے دیوتا ان کی اپنی قوم میں سے نیک لوگ ھی ھوا کرتے تھے ! اور وھی واردات اس امت کے ساتھ بھی ھوئی ھے ! نبی ﷺ پاک کی وحی اور الہام کا روٹ لگتا تھا ،،ستر ستر ھزار فرشتہ پورے روٹ کی نگرانی اور نگہبانی کرتا تھا،، یہ دنیا نادیدہ شیاطین سے بھری پڑی ھے،، اگر وہ ھمارے لئے عیاں ھو جائیں تو ھمارا کلیجہ پھٹ جائے ! مگر جب تک ھم اس بدن میں ھیں اللہ پاک نے ھمارے تحفظ کے لئے فرشتے مقرر فرما رکھے ھیں،، جو لوگ اس بدن کی حدود کو توڑ کر باھر نکلتے ھیں ،، وہ بھرا میلہ دیکھ کر خوش تو ھوتے ھیں،، اپنے آپ کو خواص میں سے تو شمار کرتے ھیں مگر پھر وہ شیاطین کے ھاتھ کا کھلونا بن جاتے ھین،،اگر شیطان کسی انسان کو لمبے لمبے نفل پڑھا کر لوگوں کا مقتدا بنا دے اور پھر اس کی وجہ سے ھزاروں انسانوں کا ایمان سلب کر کے انہیں جہنم رسید کر سکے تو وہ ایسے آدمی کو نماز میں بھی تنگ نہیں کرتا اور اسے مزید سکون لینے دیتا ھے تا کہ وہ سمجھے کہ وہ شیطان کی دست برد سے محفوظ ھو گیا ھے اس کی دلیل اس کا نماز میں پرسکون ھونا ھے ! یاد رکھیں شیطان نیک کو نیکی سے مارتا ھے،، وہ اپنی مرضی کا گناہ کرانے کے لئے 99 نیکیاں بندے کی مرضی کی کرنے دیتا ھے تا کہ وہ بے احتیاط ھو جائے !

اور ایسے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ھوتا ھے کہ وہ آنکھوں دیکھے پر پھر کسی دلیل کو اھمیت نہیں دیتے چاھے وہ قرآن سے ھو یا حدیث سے ! ان کے نزدیک ایک قرآن کے الفاظ ھیں جو عوام کے لئے ھیں اور دوسرے قرآن کی حقیقت یا باطن ھے !قرآن کے الفاظ ھم پر حجت نہیں کیونکہ ھم حقیقت کے تابع ھیں ! ھم نے جن حقائق کا مشاہدہ کر لیا ھے ان کے بعد اب خبر( قرآن ) کی حیثیت ثانوی ھو گئ ھے ! کیونکہ آنکھوں دیکھا سنے جیسا نہیں ھوتا ،،قرآن و حدیث کی توحید اب صرف عام انسانوں کی توحید رہ جاتی ھے ،، جن کی اھمیت ان کی نظر میں کتوں کے برابر ھوتی ھے جسے ھڈی تو ڈالی جا سکتی ھے مگر گوشت سے محروم رکھا جاتا ھے !

گل خاصاں دی عاماں اگے نئیں مناسب کرنی !
مِٹھ۔۔ی کھ۔۔یر پکا مح۔۔۔۔مد کتیاں اگے دھ۔۔رنی !

پھر خاص توحید ،، پھر اخص الخواص کی توحید ،،
جس میں سب کچھ ھوتا ھے مگر خدا کوئی نہیں ھوتا کیونکہ اس میں سب خدا ھوتے ھیں !

یاد رکھیں نجات کا تعلق اگر ایمان کے ساتھ ھے تو پھر ایمانیات کو اتنا سادا اور عام فہم ھونا چاھئے کہ وہ ایک عام فہم بکریاں چرانے والے سے لے کر بڑے سے بڑے فلسفی کی عقل میں آ جائے ورنہ اتمام حجت نہیں ھوتا ! وہ کونسے ایمانیات و عقائد و مکاشفات ھیں کہ جن کا تانا بانا صرف 2٪ لوگوں کی سمجھ کے لئے بُ۔نا گیا ھے اور باقی 98٪ کو شیطان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ھے !

یہ تو اللہ پر الزام ھے کہ وہ آؤٹ آف سلیبس امتحان لیتا ھے ! بندے پیدا کرتا ھے بکریاں چرانے والے اور سائیکل پنکچر لگانے والے اور تندور پر روٹیاں پکانے والے،سیمنٹ بجری کرنے والے اور باتیں کرتا ھے وہ جو صرف درختوں سے الٹے لٹک کر سمجھ آئیں،، اس چھوٹی سی عمر میں بندہ حلال رزق کما کر بچے پالے یا چمکادڑ کی طرح درختوں اور اندھے کنوؤں میں لٹکے ؟

از: خطیب، شیخ و قاری حنیف ڈار صاحب ابوظہبی
 

x boy

محفلین
اعلانِ ع۔۔ام !

بذریعہ اشتہار ھذا !

ھر خاص و عام کو آگاہ کیا جاتا ھے کہ مسمی محم۔۔د حنیف عرف قاری حنیف کسی کےلئے بھی استخارہ نہیں کرتا ! اور نہ کسی کے لئے استخارہ کرنے کو مسنون و مشروع جانتا و مانتا ھے !

جس کا کام ھے اسی کو استخارہ کرنا ھے ، وہ نیک ھو یا بد چھوٹا ھو یا موٹا کالا ھو یا گورا ،مرد ھو کہ عورت ! سب سے پہلے کام کی نوعیت دیکھے ! اگر وہ کام اجتماعی ھے تو سب سے مشورہ کرے اور پھر اللہ پر توکل کرے ! شادی بیاہ سے متعلق سب سے مشورہ کرے خاص طور پر بچی کی رائے معلوم کرے،، اور لڑکے والوں کے بارے میں تحقیق کرے ،، اگر دوسری شادی ھے تو پہلی بیوی سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے ،، پھر نفل نماز اور دعا کا اھتمام کرے ! کاروبار کےبارے میں کاروباری حضرات سے مشورہ کرے ،،پھر نفل اور اللہ سے دعا کا اھتمام کرے ،، اگر نوکری کا مسئلہ ھے تو پہلے پیکیج پر غور کرے جو پیکیج اچھا ھے اسے اللہ پر توکل کر کے قبول کر لے ! اگر دونوں جگہ پیکیج برابر ھے اور سہولیات و مشاھرے میں بھی مساوات ھے اور فیصلہ کرنا دشوار ھے تو پھر دو رکعت نماز اور دعا کا اھتمام کرتا رھے تا آنکہ دل کسی ایک پر ٹھ۔ُ۔ک جائے ،،جس پر دل جم جائے اس کو قبول کر لے !

استخارے کے لئے نفل نماز اور دعا کا اھتمام کسی وقت بھی کیا جا سکتا ھے اور دعا چلتے پھرتے ، وضو بے وضو ھر حالت میں کی جا سکتی ھے ! استخارے کا نیکی بدی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،ھر شخص اپنا استخارہ خود کرے ،،یہ عمل اصل میں اللہ اور بندے کے درمیان صلح کرانے کے مترادف ھے ! کہ بندہ کسی بہانے بھی اللہ سے مکالمہ شروع کر دے ،،پھر اللہ پاک بھی ویسا ھی معاملہ کرتے ھیں،،فاذکرونی اذکرکم !!

استخارے اور خواب کا کوئی تعلق نہیں ! اس کا تعلق دل کے اطمینان کے ساتھ ھے ،، جب تک دل مطمئن نہ ھو استخارہ جاری رکھے ! حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما نے ایک ایک ماہ استخارہ کیا ھے ،، جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تین سال استخارہ کیا ھے ! اس لئے سبز یا گیروہ عمامہ دیکھ کر انہیں معصوم اور اللہ کا پی اے سمجھ کر ان سے استخارہ نہ کرایں خود دعا کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کریں !!

اللہ پاک ھمیں صواب کی راہ دکھائے آمین !

اعلان خت۔۔۔۔۔م شد !
 
Top