سلیم کوثر پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلیم کوثر

بنگش

محفلین
پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے
اک خزانہ ہے میرے پاس لٹانے کے لیے
یاد کے زخم ہیں وعدوں کی دھنک ہے میں ہوں
یہ بہت ہے تیری تصویر بنانے کے لیے
ہم بھی کیا لوگ ہیں خوشبو کی روایت سے الگ
خود پہ ظاہر نہ ہوے تجھ کو چھپانے کے لیے
راستہ روک ہی لیتا ہے تغیر کا غبار
ورنہ ہر راہ کھلی ہے یہاں جانے کے لیے
کتنی صدیوں کا لہو صفحہ مقتل پہ رہا
ایک سچائ کو تحریر میں لانے کے لیے
ترک دنیا کا ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ شخص
آگیا خواہش دنیا کو جگانے کے لیے
ایک ہی آگ کا ایندھن نہیں بجھنے پاتا
دوسری آگ ہے تیار جلانے کے لیے
اب کہیں تازہ مسافت پہ نکلتے ہیں سلیم
اب تو وعدہ بھی نہیں کوئ نبھانے کے لیے
 
Top