ناصر کاظمی پھر لہو بول رہا ہے دل میں

عاطف بٹ

محفلین
پھر لہو بول رہا ہے دل میں
دم بدم کوئی صدا ہے دل میں​
تاب لائیں گے نہ سننے والے
آج وہ نغمہ چھڑا ہے دل میں​
ہاتھ مَلتے ہی رہیں گے گل چیں
آج وہ پھول کِھلا ہے دل میں​
دشت بھی دیکھے، چمن بھی دیکھا
کچھ عجب آب و ہوا ہے دل میں​
رنج بھی دیکھے، خوشی بھی دیکھی
آج کچھ درد نیا ہے دل میں​
چشم تر ہی نہیں محوِ تسبیح
خوں بھی سرگرمِ دعا ہے دل میں​
پھر کسی یاد نے کروٹ بدلی
کوئی کانٹا سا چبھا ہے دل میں​
پھر کسی غم نے پکارا شاید
کچھ اجالا سا ہوا ہے دل میں​
کہیں چہرے، کہیں‌ آنکھیں، کہیں ہونٹ
اک صنم خانہ کھلا ہے دل میں​
اسے ڈھونڈا، وہ کہیں بھی نہ ملا
وہ کہیں بھی نہیں، یا ہے دل میں​
کیوں بھٹکتے پھریں دل سے باہر
دوستو، شہر بسا ہے دل میں​
کوئی دیکھے تو دکھاؤں ناصر
وسعتِ‌ ارض و سما ہے دل میں​
 
ہر شعر کو "زبردست" کی ریٹنگ دینے کو دل کر رہا ہے:daydreaming:

پھر لہو بول رہا ہے دل میں​
دم بدم کوئی صدا ہے دل میں​
تاب لائیں گے نہ سننے والے​
آج وہ نغمہ چھڑا ہے دل میں​
ہاتھ مَلتے ہی رہیں گے گل چیں​
آج وہ پھول کِھلا ہے دل میں​
دشت بھی دیکھے، چمن بھی دیکھا​
کچھ عجب آب و ہوا ہے دل میں​
رنج بھی دیکھے، خوشی بھی دیکھی​
آج کچھ درد نیا ہے دل میں​
چشم تر ہی نہیں محوِ تسبیح​
خوں بھی سرگرمِ دعا ہے دل میں​
پھر کسی یاد نے کروٹ بدلی​
کوئی کانٹا سا چبھا ہے دل میں​
پھر کسی غم نے پکارا شاید​
کچھ اجالا سا ہوا ہے دل میں​
کہیں چہرے، کہیں‌ آنکھیں، کہیں ہونٹ​
اک صنم خانہ کھلا ہے دل میں​
اسے ڈھونڈا، وہ کہیں بھی نہ ملا​
وہ کہیں بھی نہیں، یا ہے دل میں​
کیوں بھٹکتے پھریں دل سے باہر​
دوستو، شہر بسا ہے دل میں​
کوئی دیکھے تو دکھاؤں ناصر​
وسعتِ‌ ارض و سما ہے دل میں​
 
Top