پھر خریدارِ جنوں سرمدِ مجذوب ہوا

سید عاطف علی

لائبریرین
ذیشان بھائی۔
خضر والے شعر میں ۔۔ملادی۔۔ کی نسبت کو آب کے بجائے شاید حیات کی طرف کر کے تانیث استعمال کیا گیا ہے جو(مجھے) درست نہیں لگ رہا۔۔یہاں ۔ملا دیا۔ کر کے مذکرموزوں نہیں ہونا چاہیے ؟
 

سید ذیشان

محفلین
ذیشان بھائی۔
خضر والے شعر میں ۔۔ملادی۔۔ کی نسبت کو آب کے بجائے شاید حیات کی طرف کر کے تانیث استعمال کیا گیا ہے جو(مجھے) درست نہیں لگ رہا۔۔یہاں ۔ملا دیا۔ کر کے مذکرموزوں نہیں ہونا چاہیے ؟

بات میں وزن ہے۔ مگر مجھے، معلوم نہیں، کیوں لگتا ہے کہ آب مونث ہے۔ اور ”آب ملا دی“ کی ترکیب درست ہے۔ باقی دیکھتے ہیں کہ اساتذہ کیا فرماتے ہیں۔ شائد میں ہی غلط ہوں۔ :)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بات میں وزن ہے۔ مگر مجھے، معلوم نہیں، کیوں لگتا ہے کہ آب مونث ہے۔ اور ”آب ملا دی“ کی ترکیب درست ہے۔ باقی دیکھتے ہیں کہ اساتذہ کیا فرماتے ہیں۔ شائد میں ہی غلط ہوں۔ :)
ابھی لغت میں دیکھا تو یہ مصرع نظر آیا:
؎ آب حیات بن گئی ناسخ شراب صاف
آب اگر چمک کے معنی میں ہو تو مونث ہو سکتا ہے جیسے دھونے سے موتی میں آب آگئی ۔اگر پانی ہو تو مذکر ہی ہونا چاہیے۔جیسے آب حیات پی لیا۔
ناسخ کے مصرع کا جہاں تک تعلق ہے ۔ تو یہاں بننے کا فعل شراب کی طرف لوٹایا جا سکنا بھی ممکن ہے۔
چناں چہ کہا جاسکتا ہے کہ ۔شراب ِ صاف آبِ حیات بن گئی۔ اور کہا جاسکتا ہے۔آبِ حیات شراب صاف بن گیا۔واللہ اعلم۔
 

سید ذیشان

محفلین
آب اگر چمک کے معنی میں ہو تو مونث ہو سکتا ہے جیسے دھونے سے موتی میں آب آگئی ۔اگر پانی ہو تو مذکر ہی ہونا چاہیے۔جیسے آب حیات پی لیا۔
ناسخ کے مصرع کا جہاں تک تعلق ہے ۔ تو یہاں بننے کا فعل شراب کی طرف لوٹایا جا سکنا بھی ممکن ہے۔
چناں چہ کہا جاسکتا ہے کہ ۔شراب ِ صاف آبِ حیات بن گئی۔ اور کہا جاسکتا ہے۔آبِ حیات شراب صاف بن گیا۔واللہ اعلم۔

غالب نے اس کو مذکر ہی استعمال کیا ہے۔ تو درست ترکیب یہی ہے۔ شکریہ :)

یا لگا کر خضر نے شاخِ نبات
مدتوں تک دیا ہے آبِ حیات
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اب اس مصرع کو تبدیل کر دیا ہے:
خضر نے ڈال دیا اس میں نہ ہو آبِ حیات
بہت اچھا۔ لیکن یہاں زہر کے ساتھ ملانا کا استعمال زیادہ اچھا تھا۔مثلاً۔
خضر نے اس میں ملایا تونہیں آبِ حیات۔۔۔وغیرہ۔بہر حال اب بہتر ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
بہت اچھا۔ لیکن یہاں زہر کے ساتھ ملانا کا استعمال زیادہ اچھا تھا۔مثلاً۔
خضر نے اس میں ملایا تونہیں آبِ حیات۔۔۔ وغیرہ۔بہر حال اب بہتر ہے۔

زہر تو شراب میں آبِ حیات ملانے یا شراب کی پیالی میں آبِ حیات ڈالنے (کے اندیشے) سے بن گیا۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب میاں، کافی استادانہ کلام ہے، بہتری کے لئے مشورے:
عشق میں مرنے یہ دے گی نہ ہی جینے دے گی
زیست کا روزِ ازل سے یہی اسلوب ہوا
÷÷پہلا مصرع یوں ہو تو۔۔۔
عشق میں مرنے ہی دے گی نہ یہ جینے دےگی


خضر نے اس میں ملا دی نہ کہیں آبِ حیات
کاسۂ زہر، ہر اک، ساغرِ مشروب ہوا
÷÷خضر نے اس میں ملا دی ہو کہیں ۔۔۔۔

داستاں سن کے ہوئے کوہ و فلک گریہ کناں
وہ بتِ سنگ کسی طور نہ مرعوب ہوا
۔۔کوہ و فلک میں تعلق۔ اگر اس کی جگہ ارض و سما کر دیا جائے تو۔ یا پھر کوہ و دمن؟
مقطع سمجھ میں نہیں آ سکا
 

سید ذیشان

محفلین
بہت خوب میاں، کافی استادانہ کلام ہے، بہتری کے لئے مشورے:
عشق میں مرنے یہ دے گی نہ ہی جینے دے گی
زیست کا روزِ ازل سے یہی اسلوب ہوا
÷÷پہلا مصرع یوں ہو تو۔۔۔
عشق میں مرنے ہی دے گی نہ یہ جینے دےگی


خضر نے اس میں ملا دی نہ کہیں آبِ حیات
کاسۂ زہر، ہر اک، ساغرِ مشروب ہوا
÷÷خضر نے اس میں ملا دی ہو کہیں ۔۔۔ ۔

داستاں سن کے ہوئے کوہ و فلک گریہ کناں
وہ بتِ سنگ کسی طور نہ مرعوب ہوا
۔۔کوہ و فلک میں تعلق۔ اگر اس کی جگہ ارض و سما کر دیا جائے تو۔ یا پھر کوہ و دمن؟
مقطع سمجھ میں نہیں آ سکا

جی بہت بہتر۔ :)

آبِ حیات پر اشکال ہوا تھا کہ اس کو مونث باندھا ہے اور اصل میں مذکر ہے، تو اس مصرعے کو بھی تبدیل کر دیا تھا۔

خضر نے ڈال دیا اس میں نہ ہو آبِ حیات
 

فاتح

لائبریرین
سفرِ ہند کا وہ جوہری، مطلوب ہوا
پھر خریدارِ جنوں سرمدِ مجذوب ہوا
اول تو مطلع کے دونوں مصرعوں کا ربط نہیں سمجھ سکا اور دوم یہ کہ مطلوب کیا طلب کرنے والے کے معنوں میں استعمال کیا ہے آپ نے؟

چاہِ کنعانِ دلِ من، میں نہیں، یوسفِ من!
یوسفِ من سے کیا مراد ہے

خضر نے اس میں ملا دی نہ کہیں آبِ حیات
آب جب پانی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو اسم مذکر ہے۔۔۔ ہاں آب دینا بمعنی چمکانایا دھار لگانا مونث ہے۔

خونِ اصغر سے رخِ شاہ پہ مرطوب ہوا
مرطوب صفت ہے اور یہ مصرع اگر پہ نکال کر پڑھا جائے تو معنی کے لحاظ سے درست ہے یعنی پہ اضافی ہے اور اس کے ساتھ معنی ہی نہیں بن رہا
خونِ اصغر سے رخِ شاہ مرطوب ہوا
 
Top