38057-JavedChaudhryNew-1350491245-616-640x480.JPG
پھر بھی ہم مجرم ہیں از جاوید چودھری
اللہ تعالیٰ نے عطاء الحق قاسمی صاحب کو مزاح کی دولت سے بے انتہا نواز رکھا ہے‘
یہ جہاں بیٹھ جاتے ہیں وہاں پھلجھڑیاں بھی چھوٹتی ہیں اور قہقہے بھی گونجتے ہیں‘ آپ اگر بات کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو قاسمی صاحب کی شاگردی اختیار کرنا ہوگی کیونکہ یہ بڑی سے بڑی اور بری سے بری بات اس خوبصورتی سے کہہ دیتے ہیں کہ بری بات بری نہیں رہتی اور بڑی بات مزید بڑی ہو جاتی ہے‘ میرے ایک دوست نے قاسمی صاحب سے پوچھا ’’ بوڑھی بیوی کے جوان خاوند کو کیا کرنا چاہیے‘‘ قاسمی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا ’’ بیرونی امداد‘‘ اسی طرح جب بھی کوئی بزرگ شخص خوبصورت خاتون کو دیکھ کر ماشاء اللہ کہتا ہے تو قاسمی صاحب کے منہ سے بے اختیار ’’ انشاء اللہ‘‘ نکل جاتا ہے‘ یہ محبت‘ لگائو اور کشش کی کان بھی ہیں‘ آپ اگر ان کے لگائو کے دائرے میں آ گئے تو پھر یہ پوری زندگی ماں کی طرح آپ پر اپنی محبت نچھاور کرتے رہیں گے‘
ہم زندگی میں بے شمار لوگوں کو دیکھتے ہیں‘ ان میں سے کچھ لوگ محض لوگ ہوتے ہیں‘ کچھ لوگ اچھے تخلیق کار‘ ہنر مند یا پرفارمر ہوتے ہیں اور کچھ محض پبلک ریلیشننگ کا شاہکار اور آپ کو ان کے قریب جا کر معلوم ہوتا ہے ان کی رنگین شخصیت محض سایہ تھی لیکن عطاء الحق قاسمی ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں آپ جن کا کام دیکھتے ہیں تو مبہوت ہو جاتے ہیں اور آپ جب ان کے حلقہ ارادت میں قدم رکھتے ہیں تو آپ کو ان کی شخصیت گنگ کر دیتی ہے‘ قاسمی صاحب کا کام ان کی شخصیت سے بڑا ہے اور شخصیت ان کے کام سے کہیں بلند‘ یہ زندہ لیجنڈ ہیں جن کے بغیر پاکستانی صحافت مکمل ہوتی ہے‘ نہ ادب اور نہ ہی محفل۔
عطاء الحق قاسمی پچھلے تین برسوں سے لاہور آرٹس کونسل کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین ہیں‘ تین برسوں سے ہی لاہور میں ادبی اور ثقافتی کانفرنس منعقد کر رہے ہیں‘ انھوںنے 12 سے 14 اکتوبر 2012ء کو تیسری ادبی اور ثقافتی کانفرنس کا اہتمام کیا‘ اس میں پاکستان بھر سے ادیب‘ شاعر‘ مصور‘ گلوکار‘ ایڈیٹر‘ کالم نگار ‘ اینکر پرسنز‘ اداکار اور موسیقار جمع کیے‘ 14 اکتوبر کی سہ پہر ’’میڈیا کے ادب اور معاشرے پر اثرات‘‘ کے عنوان سے میڈیا کانفرنس تھی‘ اس میں چوٹی کے صحافی‘ کالم نگار اور اینکرز پرسنز شریک ہوئے‘ عوام نے کبھی اتنے نامور صحافیوں کو کسی ایک جگہ اکٹھے نہیں دیکھا ‘ یہ قاسمی صاحب کی محبت اور تعلق کا کمال تھا ورنہ یہ وہ لوگ ہیں جو اکٹھے حج تک نہیں کر سکتے‘ عوام بھی الحمرا کے ہال سے لے کر لان تک جمع تھے‘
میں قاسمی صاحب کے لاکھوں کروڑوں عقیدت مندوں میں سے ایک ہوں چنانچہ میں بھی اس محفل میں شریک تھا‘ یہ کانفرنس سنجیدہ موضوع پر سنجیدگی سے شروع ہوئی لیکن جلد ہی میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر اعتراضات میں تبدیل ہو گئی اور شرکاء نے اسٹیج پر بیٹھے حضرات کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا جو یہ سوشل میڈیا پر روزانہ کرتے رہتے ہیں‘ وہی پرانے اعتراضات میڈیا یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ ہے‘ یہ لوگ چھوٹے ایشو کو بڑا بنا دیتے ہیں‘ یہ ہمیشہ برائی کو بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں‘ یہ لوگ سب کا احتساب کرتے ہیں لیکن کسی کو اپنا احتساب نہیں کرنے دیتے‘ یہ ریٹنگ کی دوڑ میں اخلاقیات‘ انسانیت اور مشرقیت کی حدود روندتے چلے جارہے ہیں‘ یہ عالمی ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں اور یہ جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ‘ عوام نے ملالہ کا ایشو بھی اٹھایا‘
لوگوں کا کہنا تھا ملالہ ایک عام سی بچی تھی لیکن میڈیا نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اسے ہیروئن بنا دیا‘ یہ بھی کہا گیا ملالہ پر حملہ شمالی وزیرستان کے خلاف آپریشن کی سازش ہے وغیرہ وغیرہ اور ہم یہ اعتراضات سن سن کر مسکراتے رہے کیونکہ بدقسمتی سے اعتراضات اب ہماری ڈیلی روٹین کا حصہ بن گئے ہیں اور اعتراض اٹھانے والا کوئی شخص ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ ہمیں لوگ ہمیشہ کہتے ہیں آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بات نہیں کرتے‘ میں ان لوگوں سے پوچھتا ہوں آپ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس پر ہونے والے ظلم کی خبر کس نے دی تھی‘
یہ ایک لمحہ سوچتے ہیں اور اس کے بعد بے بسی سے جواب دیتے ہیں ’’میڈیا نے‘‘ اور میں اس جواب پر ہنس پڑتا ہوں کیونکہ پاکستانی عوام 2004ء تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام سے بھی واقف نہیں تھے‘ یہ میڈیا تھا جس نے عین اس وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا پرچم اٹھایا جب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سوا نیزے پر چمک رہا تھا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے لے کر مذہبی تنظیموں تک کوئی عافیہ صدیقی کا نام لینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ میڈیا نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے اس قدر لکھا اور اس کے بارے میں اس قدر بات کی کہ امریکی حکام اسے بگرام سے امریکی عدالت میں لانے اور اسے امریکی قانون کے مطابق تمام مراعات دینے پر مجبور ہو گئے لیکن آج یہ میڈیا برا ہے اور وہ تمام لوگ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بھائی ہیں جو 2007ء تک عافیہ صدیقی کا نام تک نہیں لیتے تھے‘
عوام کو ڈرون حملوں کی اطلاع کون دیتا ہے؟ پاکستان میں18 جون2004ء میں پہلا ڈرون حملہ ہوا اور یہ یہود و نصاریٰ کا ’’ ایجنٹ‘‘ میڈیا تھا جس نے ایک گھنٹے میں عوام کو اس ڈرون حملے اور اس میں شہید ہونے والے افراد کی شہادت کی اطلاع دی‘ پاکستان میں آخری ڈرون حملہ 11 اکتوبر2012ء کو ہوا اور ہم نے جون 2004ء سے 2012ء کے آخری حملے تک قوم کو اطلاع دی اور اس اطلاع کے لیے ہمیں دبائو کی کس کس چکی سے گزرنا پڑتا ہے ‘ یہ ہم جانتے ہیں اور ہمارا خدا۔ پاکستان کا کون سا لیڈر‘ کون سا سیاسی اور مذہبی ورکر ہے جو ڈرون حملوں کے شکار لوگوں کے آنسو پونچھنے شمالی اور جنوبی وزیرستان گیا‘
عوام میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ڈرون کے شکار لوگوں کے جنازے پڑھے جب کہ میڈیا کے ورکرز ان علاقوں میں بھی پہنچے‘ انھوں نے جنازوں کی تصاویر اور فلمیں بھی بنائیں اور ملک کے ان مشکل ترین علاقوں میں پروگرام بھی کیے‘ آج جب پارلیمنٹ اور حکومت ڈرون حملے کی مذمت تک نہیں کرتی ہم لوگ آپ کو حملے کے چند سیکنڈ بعد اس کی اطلاع بھی دیتے ہیں اور قوم اور حکومت دونوں کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن قوم اٹک کا پل تک پار نہیں کرتی اور وہ لوگ جو گولیوں کی باڑ میں قوم کو اطلاع فراہم کرتے ہیں وہ برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔
آپ مسنگ پرسنز کے ایشو کولیں‘ ہماری ایجنسیاں لوگوں کو غائب کر رہی ہیں‘ آپ کو یہ اطلاع کس نے دی اور یہ خبر روزانہ کون دے رہا ہے؟ مسنگ پرسنز کے کیمپس کی کوریج کون کر رہا ہے؟ وہاں کھڑے ہو کر پروگرام کون کر رہا ہے؟ آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ 2005ء سے کون کھڑا ہے؟ بلوچستان کے مسنگ پرسنز کی بات کون کر رہا ہے؟ ہمارے ملک‘ جس میں وزیراعظم اور صدر تک ایجنسیوں کے خلاف منہ نہیں کھولتے‘ جس میں بڑے بڑے مذہبی اور سیاسی رہنما بھی آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی کا نام نہیں لیتے میڈیا اس ملک میں پچھلے سات برسوں سے نہ صرف ان اداروں کا نام لے رہا ہے بلکہ ان پر براہ راست الزام بھی لگا رہا ہے‘
اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک‘ جس میں مسنگ پرسنز کے لیے اٹھارہ ہزار لوگ گھروں سے نہیں نکلے ‘ ہم چند مٹھی بھر لوگ اس ملک میں روزانہ بم کو ٹھوکریں ماررہے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔ پاکستان میں جس وقت صدر‘ وزیراعظم اور آرمی چیف کو ایبٹ آباد میں امریکی فوج کی آمد اور اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر حملے کی اطلاع نہیں تھی ہم نے عوام کو اس وقت جلتا ہوا امریکی ہیلی کاپٹر دکھایا تھا‘ بھارتی حکومت اور میڈیا نے ممبئی اٹیکس کے بعد جس وقت پاکستان کے خلاف محاذ کھول دیا اور ملک کا کوئی شخص‘ کوئی ادارہ اس کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں تھا پاکستانی میڈیا اس وقت نہ صرف بھارتی پروپیگنڈے کے سامنے سینہ سپر ہوا بلکہ اس نے بھارتی حکومت اور انڈین میڈیا کو پاکستان سے معذرت کرنے پر مجبور کیا‘
آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے‘ آپ یہ بتائیے جنرل پرویز مشرف نے جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کیا تو آپ کو یہ خبر کس نے دی اور عدلیہ نے جس وقت اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا افتخار محمد چوہدری کے ساتھ اس وقت کون کھڑا تھا اور آج جب چوہدری اعتزاز احسن اور علی احمد کرد تک افتخار محمد چوہدری کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اس وقت چیف جسٹس کے ساتھ کون کھڑا ہے اور جب افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کا اسکینڈل سامنے آیا تو چیف جسٹس کو کس نے اپنے صاحبزادے کے خلاف سوموٹو ایکشن لینے پر مجبور کیا اور جب ہمارے اپنے اینکرز ساتھیوں نے اسپانسر پروگرام کیا تو کس نے ٹیلی ویژن اسکرین پر آپ کو ان کی یہ غیر اخلاقی حرکت دکھائی اور جب لال مسجد پر فوجی آپریشن ہوا تو کیا یہود و نصاریٰ کا یہ ’’ ایجنٹ‘‘ میڈیا نہیں تھا جو برستی گولیوں میں نہ صرف لال مسجد کے سامنے کھڑا تھا بلکہ یہ قوم کو مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی کی آواز بھی سنا رہا تھا‘
آپ آج بھی یو ٹیوب پر چلے جائیں آپ کو لال مسجد کے آپریشن کی ٹی وی رپورٹس بھی ملیں گی‘ شہداء کی آخری تقریریں بھی اور مظلوم بچیوں کی سسکیاں بھی اور ہم آپ کو یہ سب کچھ اس وقت دکھا رہے تھے جب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اکثر رہنما ملک سے باہرتھے‘بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف‘ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اس وقت لندن میں تھے اور خاموش تھے جب کہ عوام کو فیض آباد تک آنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی لیکن ہم لوگ اس وقت بھی ان بچیوں کے ساتھ کھڑے تھے ہمارے سیاستدان‘ ہماری سیاسی جماعتیں اور ہماری سپریم کورٹ جب فوج کے خوف سے لال مسجد کا نام نہیں لیتی تھی‘ میڈیا نے اس وقت آپ کو مدرسے کی بچیاں بھی دکھائیں اور مسجد کی زخمی ہوتی دیواریں بھی لیکن آج لال مسجد کے لیے فوج اور پولیس بھجوانے اور مولانا عبدالعزیز کو برقعہ پہنا کر ٹی وی اسٹیشن لانے والے اچھے ہیں اور میڈیا برا اور یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ‘ واہ کیا یہ ہے آپ کا انصاف۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
 
حصہ دوم
آپ ریمنڈ ڈیوس کی مثال لیجیے‘ ریمنڈ ڈیوس نے 27 جنوری 2011ء کو لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو سرِ عام گولی مار دی۔
پنجاب حکومت‘ وفاقی حکومت اور ہمارے خفیہ ادارے اس واقعے کو چھپانا چاہتے تھے لیکن میڈیا نے ریمنڈ ڈیوس کو تین منٹ میں قوم کے سامنے پیش کر دیا‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے وہ کون تھا جو روز آپ کو محمد فہیم کی بیوہ‘ اس کے والدین اور اس کا خاندان دکھاتا تھا اور وہ کون تھا جس نے آپ کو امریکی قونصل خانے کی گاڑی کے نیچے کچلے جانے والے عبادالرحمن کا خاندان دکھایا؟ یقیناً وہ میڈیا تھا اور کیا اس وقت ہم پر پاکستان کے خفیہ اداروں‘ وفاقی اور صوبائی حکومت کا دبائو نہیں تھا؟ اور کیا امریکی حکام نے میڈیا سے رعایت کرنے کی درخواست نہیں کی تھی؟ یہ سب کچھ ہوا لیکن میڈیا اس کے باوجود آپ کو حقائق دکھاتا رہا۔
آپ ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر حکومتوں اور عوام کی صورتحال بھی ملاحظہ کیجیے‘ حکومت ریمنڈ ڈیوس کو جیل میں پیزا فراہم کرتی تھی‘ اسے فائیو اسٹار ہوٹل سے کھانا بھجوایا جاتا تھا‘ وفاقی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو لے جانے کے لیے امریکی جہاز کو لاہور ائیرپورٹ پر اترنے کی اجازت دے دی‘ پنجاب حکومت ڈیل کے دوران خاموش بھی رہی اور پولیس‘ جیل خانہ جات اور پنجاب کی ہوم منسٹری نے ریمنڈ ڈیوس کے ریلیز آرڈر بھی جاری کیے اور ہمارے خفیہ اداروں نے اپنے اکائونٹس سے اپنے شہریوں کا خون بہا بھی ادا کیا‘ ریمنڈ ڈیوس کے جانے کے بعد پورے ملک میں اس واقعے کے خلاف کوئی مظاہرہ نہیں ہوا‘ جنرل حمید گل نے 17 مارچ 2011ء کو اسلام آباد میں مظاہرے کا اعلان کیا۔
اس مظاہرے میں میڈیا موجود تھا لیکن عوام کی طرف سے صرف 14 لوگ شریک ہوئے‘ میڈیا اس سارے معاملے کے دوران آپ کو پل پل کی خبر دیتا رہا مگر شاہ محمود قریشی کے سوا کسی نے کریکٹر کا مظاہرہ نہیں کیا‘ حکومت کی حالت یہ ہے کہ یہ آج تک قونصل خانے سے وہ گاڑی برآمدنہیں کر سکی جس نے عبادالرحمن کو سرِ راہ کچل دیا تھا اور آپ کے جمہوری حکمرانوں نے ریمنڈ ڈیوس کو پاسپورٹ کے بغیر جہاز پر سوار کر دیا تھا لیکن ہم‘ ہمارے مائیک اور ہمارے کیمرے چیختے رہے مگر اس کے باوجود ہم برے بھی ہیں اور یہود ونصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔
آپ جنرل پرویز مشرف کے دور کا جائزہ لیجیے‘ ہماری محترمہ بے نظیر بھٹو اور ہمارے محترم میاں نواز شریف اس دور میں کہاں تھے‘ میاں صاحب جنرل پرویز مشرف سے تحریری معاہدہ کرکے جدہ چلے گئے تھے اور انھوں نے 2006ء تک جنرل پرویز مشرف کے خلاف منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا تھا‘ یہ جاوید ہاشمی تک کا فون نہیں سنتے تھے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو لندن اور دوبئی میں بیٹھی تھیں لیکن میڈیا باوردی جرنیل کے سامنے کھڑا تھا‘ میڈیا نے اس وقت بھی رول آف لاء اور جمہوریت کی بات کی جب جمہوریت کے چیمپیئن کلمہ تک بریگیڈیئر نیاز اور طارق عزیز سے پوچھ کر پڑھتے تھے‘ جمہوریت کے ان پہلوانوں نے پاکستان میں اس وقت تک قدم نہیں رکھا جب تک سعودی عرب‘ یو اے ای‘ برطانیہ اور امریکا نے انھیں ضمانت نہیں دے دی اور جنرل پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس ضمانت کی تصدیق نہیں کی‘ یہ لوگ اقتدار سے فارغ ہو کر ملک سے باہر چلے گئے تھے اور واپس آ کر دوبارہ مسند اقتدار پر بیٹھ گئے‘ یہ باہر بھی محفوظ تھے اور اندر بھی۔
میڈیا نے میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کواس وقت بھی زندہ رکھا جب ان کے تیس تیس سال کے ساتھی اور بھائی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور یہ اپنے سائے سے بھی ڈر رہے تھے مگر ہم اس کے باوجود برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔ آپ بارہ مئی 2007ء کے واقعے کو لے لیجیے وہ کون تھا جو آپ کو ٹی وی پر کراچی میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی دکھا رہا تھا‘ کیا اس وقت اینکرز‘ رپورٹرز اور کیمرہ مینوں پر سیدھی گولیاں نہیں برس رہی تھیں‘ کیا ہم نے آپ کو الزام لگانے والوں کی تقریریں نہیں سنائیں لیکن آج بارہ مئی کے دن ایک دوسرے پر گولیاں برسانے اور خون بہانے والے بھائی بھائی ہیں اور ہم برے بھی ہیں اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔
آپ اگر حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو پھر سنیے 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے دن جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت رمضان میں ناشتہ فرما رہی تھی لیکن میڈیا آپ کو ملک بھر میں آنے والی تباہی دکھا رہا تھا‘ ہمارے کیمرے اس وقت دیواروں اور چھتوں کے نیچے دبے لوگوں تک پہنچے جب فوج کو بھی اپنی یونٹوں کا علم نہیں تھاہم اس وقت بھی زلزلہ زدہ لوگوں کے ساتھ تھے اور ہم نے پچھلے ہفتے بھی ان لوگوں کی یاد منائی۔ ہمارے صدر جس وقت قوم کو سیلاب میں چھوڑ کرلندن چلے گئے تھے اور وزیراعظم سفید شلوار قمیض اور اطالوی جوتے پہن کر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرتے تھے اور واپسی پر ان کے جوتوں کے تلوے تک گیلے نہیں ہوتے تھے اور یہ جب جعلی میڈیکل کیمپس میں تصویریں بنوا کر واپس چلے جاتے تھے ہم لوگ اس وقت عوام کے ساتھ پانی میں کھڑے تھے۔
ہماری ڈی ایس این جی‘ ہمارے رپورٹر اور ہمارے اینکرز اس وقت کیمپوں میں کھڑے ہوتے تھے‘ ہم نے عیدیں تک پانی میں گزاریں اور میں یہ بھی دعوے سے کہتا ہوں ہم لوگ اگر آج سیلاب کی کوریج بند کر دیں تو حکومت جعلی کیمپوں تک کا دورہ نہ کرے! کیا ہم نے قوم کو2011ء میں کراچی میں گرنے والی بارہ سو نعشیں نہیں دکھائیں‘ کیا ہم قوم کو کٹی پہاڑی اور اورنگی ٹائون تک نہیں لے کر گئے‘ کیا ہم نے آپ کے سامنے میمو اسکینڈل نہیں رکھا‘ کیاآپ کو حج اسکینڈل نہیں بتایا‘ کیا آپ کو ایفی ڈرین کیس میڈیا کے ذریعے معلوم نہیں ہوا‘ کیا ہم آپ کو گلگت ‘ بلتستان اور بلوچستان میں شیعہ کمیونٹی کے مرنے والوں کی نعشیں نہیں دکھا رہے‘ کیا ہم نے ہر بم دھماکے‘ ہر خودکش حملے اور مناواں والا سے لے کر جی ایچ کیو‘ مہران بیس اور کامرہ ائیر بیس پر حملے کی لائیو فوٹیج نہیں دکھائی‘ مقامی آبادی جب گھروں میں پناہ لے لیتی ہے کیا آپ کو اس وقت ہمارے رپورٹر‘ ہمارے کیمرہ مین گولیوں کی باڑ میں تن تنہا دکھائی نہیں دیتے۔
کیا ہم آپ کو بلوچستان اور سندھ میں لگی ہوئی آگ نہیں دکھا رہے‘ کیا ہم نے آپ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے 3500 فوجی اور ان کے اہل خانہ نہیں دکھائے‘ کیا ہم نے آپ کو کراچی میں جل کر مرنے والے تین سو فیکٹری ورکرز کی چیخیں نہیں سنائیں‘ کیا ہم نے جعلی ڈگریوں والے ایم این اے‘ ایم پی اے اور سینیٹرز آپ کے سامنے پیش نہیں کیے‘ کیا ہم نے ارکان پارلیمنٹ کی دوہری شہریت کا ایشو نہیں اٹھایا اور کیا ہم نے 10 اکتوبر 2012ء تک سوئس اکائونٹس اور صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات آپ کے سامنے پیش نہیں کیے اور کیا ہم نے آپ کو وحیدہ شاہ کا تھپڑ‘ ایم پی اے اسلم مڈھیانہ کے ہاتھوں اسکول ٹیچر کی تذلیل‘ شمائلہ رانا کی چوری‘ ایم این اے حاجی پرویز خان کا جعلی امتحان اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی صاحبزادی کے گارڈز اور ایلیٹ فورس کے ہاتھوں بیکری ملازم پر تشدد نہیں دکھایا اور پیچھے رہ گئی ملالہ تو کیا یہ سچ نہیں!
سوات میں جب بچیوں کے اسکول گرائے جا رہے تھے تو ملالہ علاقے کی واحد بچی نہیں تھی جس نے اپنے حق کے لیے آواز لگائی‘ کیا یہ حقیقت نہیں جس وقت فوج‘ وفاقی حکومت اور غیرت مند پختون حکومت سوات کا تماشا دیکھ رہی تھی ملالہ اس وقت دنیا کو علاقے کی بچیوں پر ہونے والا ظلم سنارہی تھی‘ ہم نے اس وقت اس بچی کا ساتھ دیا کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا بولنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یہ بچی جب 9 اکتوبر 2012ء کو زخمی ہوئی تو ہم ایک بار پھر اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ ہم نے ملالہ کا کیس اس وقت آپ کی عدالت میں پیش کیا جب ملالہ کا والد سیدو شریف کے ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور کوئی اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا‘
کیا یہ کسی جاگیردار‘ کسی سرمایہ دار یا کسی سیاستدان کی بچی ہے؟ کیا اس کا والد لوئر مڈل کلاس سے تعلق نہیں رکھتا؟ اور اگر ہم اس وقت اس بچی کا ساتھ نہ دیتے تو کیا یہ اب تک اسپتال کے کوریڈورز میں نہ مر چکی ہوتی‘ یہ حقیقت ہے اس کا والد اسے کبھی پشاور‘ اسلام آباد اور لندن نہ لے جا سکتا چنانچہ کیا ہم نے غلط کیا؟ اگر میڈیا کی وجہ سے ایک غریب اور معصوم بچی کی جان بچ گئی تو کیا یہ غلط تھا؟ اور کیا ہم کائنات اور شازیہ کو بھول گئے‘ کیا میڈیا کے شور کی وجہ سے حکومت ان دونوں بچیوں کا نوٹس لینے پر مجبور نہیں ہوئی اور کیا آج حکومت ان کا علاج بھی مفت نہیں کروا رہی اور کیا یہ اب ان کی تعلیم کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور کیا میڈیا نے پوری قوم کو‘ پوری پارلیمنٹ کو ایک معصوم اور غریب بچی کے سرہانے کھڑا کر کے غلط کیا؟
کیا یہ حقیقت نہیں یہ واقعہ اگر خدانخواستہ مریم نواز شریف یا آصفہ بھٹو زرداری کے ساتھ پیش آتا تو ان کے لیے ائیر ایمبولینس نہ آتی اور ان کا علاج کوئین الزبتھ اسپتال میں نہ ہوتا؟ اگر ہاں تو پھر ہم نے حکومت کو ملالہ کے لیے ائیر ایمبولینس منگوانے اور اس کا برطانیہ میں مفت علاج کرانے پر مجبور کر کے کیا غلطی کی؟ کیا میڈیا پر صرف آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی بیٹیوں کا حق ہے؟ کیا میڈیا غریب ہونے یا سوات کا شہری ہونے کی وجہ سے ملالہ‘ شازیہ اور کائنات کو کوریج نہ دیتا؟ کیا آپ کا انصاف یہ کہتا ہے؟ اگر نہیں توکیا اس کے باوجود ہم برے بھی ہیں اور یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ بھی! کیا ہم اس کے باوجود گالی کے حق دار ہیں؟
بشکریہ ایکسپریس
 

یوسف-2

محفلین
میڈیا کو جاوید چوہدری سے بہتر کوئی ”وکیل“ نہیں مل سکتا ۔ لیکن یہی جاوید چوہدری جب ”میڈیا کی دائی“ بن کر میڈیا کے ”جائز و ناجائز پیٹ“ کی کہانی سناتا ہے، تب بھی اس کی بات اسی طرح سنجیدگی سے سننی چاہئے۔ وہ ہر ادارے کی خوبیاں و خامیاں بے لاگ انداز میں بیان کرتا ہے۔ کالمز کی اس سیریز میں وہ ”میڈیا کی افادیت“ بیان کر رہا ہے، جو ہشت پہلو میڈیا کا ایک اہم پہلو ہے
 
حصہ سوم
میڈیا پر ایک اوراعتراض بھی کیا جاتا ہے‘ آپ کہتے ہیں صحافی یہ تمام خدمات مفت انجام نہیں دیتے ‘ یہ معاوضہ لیتے ہیں۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر کیا ہم سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں؟‘ کیا ہم عوامی پیسہ لوٹ رہے ہیں یا پھر عوام ہر مہینے چندہ کر کے ہمیں تنخواہ دیتے ہیں؟ ہم پرائیویٹ ملازم ہیں اور صحافت بھی ہزاروں دوسرے شعبوں کی طرح ایک پروفیشن ہے لیکن اگرآپ اس کے باوجود یہ سمجھتے ہیں ہمیں اپنی خدمات کا معاوضہ نہیں لینا چاہیے تو ٹھیک ہے‘ ہم نہیں لیتے مگر پھر ہمارے ساتھ ساتھ ان لوگوں کوبھی قربانی دینی چاہیے جو قرآن مجید پڑھانے‘ اذان دینے اور نماز پڑھانے کا معاوضہ لیتے ہیں‘دنیا میں ڈاکٹر شفا دینے کی فیس وصول کرتے ہیں‘ جج انصاف دینے‘ وکیل مظلوم کی وکالت کرنے‘ فوجی رائفل اٹھانے‘ استاد علم دینے‘ سرکاری ملازم سرکاری وقت ضایع کرنے حتیٰ کہ سیاستدان قومی مفاد کے نام پر قومی حمیت کو پائوں میں روندنے تک کا معاوضہ لیتے ہیں ‘
کیا یہ تمام پیشے صحافت سے زیادہ مقدس ہیں؟ اگر ہیں تو پھر آپ ان پر اعتراض کیوں نہیں کرتے ؟ آپ سیاستدان‘ سرکاری ملازمین‘ وکلاء‘ جج‘ استاد اور امام مسجد سے کیوں نہیں پوچھتے آپ معاوضہ کیوں لیتے ہیں؟ آپ یہ دلیل بھی چھوڑ دیجیے‘ آپ بتائیے ‘ کیا ہم کوالی فائیڈ لوگ نہیں ہیں؟ کیا ہم میں اکثریت پاکستان کی بہترین یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نہیں آئی اور کیا ہم روزانہ علم حاصل نہیں کرتے‘ یہ ملک جس میں پروفیسر‘ سیاستدان‘ بیوروکریٹس اور علماء کی اکثریت کتاب نہیں پڑھتی ہم اس ملک میں اپنے بجٹ اور وقت کا ایک بڑا حصہ کتابوں پر خرچ کرتے ہیں مگر آپ اس کو بھی جانے دیجیے ‘
آپ پاکستان کے صف اول کے صحافیوں کا ڈیٹا نکال لیجیے‘ آپ کو ان میں سے کوئی شخص ٹپکا ہوا نہیں ملے گا‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی فٹ پاتھ سے شروع کی‘ جو فرش پر اخبار بچھا کر سوتے تھے اور ایک چمچ چینی کھا کر دوبارہ کام پر چلے جاتے تھے‘ پاکستان میں چالیس سال سے اوپر تمام صحافیوں نے پندرہ پندرہ سو روپے ماہانہ پر کام شروع کیا اور یہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر کے اس لیول تک پہنچے‘ ہم میں سے کسی شخص نے فیملی لائف نہیں گزاری‘ ہمارے بچے کب بڑے ہوئے‘ یہ بیچارے کس طرح اسکول جاتے رہے اور انھیں کس کس جائز ضرورت کے لیے کتنا کتناانتظار کرنا پڑا‘ آپ تصور نہیں کر سکتے مگر آپ اس کو بھی جانے دیجیے ‘ پاکستان میں سیاستدان اپنے بیٹے کو سیاستدان ‘ ڈاکٹر اپنے بیٹے کو ڈاکٹر‘ بیوروکریٹ بیوروکریٹ اور فوجی اپنے ولی عہد کو فوجی بنانا چاہتا ہے لیکن پاکستان میں کسی بڑے صحافی کا بیٹا صحافی نہیں بنتا؟ کیوں؟
اس کی وجہ اس شعبے کے دکھ ہیں‘ ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں قدرت جن کا رزق ڈائنوسارس کے پنجروں میں اگاتی ہے اور ہم روزانہ ڈائنوسارس کے کھروں پر گدگدی کر کے ان کے پائوں سے اپنا رزق نکالتے ہیں‘ ہم جانتے ہیں یہ پیشہ کتنا مشکل‘ پرخطر اور بے آرام ہے چنانچہ کوئی صحافی اپنے بچوں کو صحافی نہیں بنانا چاہتا‘ یہ اسے اس پروفیشن میںنہیں لانا چاہتا جس میں گولی سے بچ جائیں تو گالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم برے بھی ہیں اور یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ بھی ۔
ہم پر یہ الزام بھی لگتا ہے اینکرز لاکھوں روپے معاوضہ لیتے ہیں ‘ یہ الزام بھی درست ہے لیکن آپ نے کبھی سوچا لاکھوں روپے معاوضہ لینے والے لوگ کتنے ہیں! پانچ‘ سات یا دس۔ پاکستان میں اس وقت چھوٹے بڑے تین لاکھ صحافی ہیں‘ تین لاکھ صحافیوںمیں سے اگر65 سال کی صحافتی تاریخ میں پہلی بار دس لوگ اتنے معاوضے تک چلے گئے ہیں تو کیایہ انتہائی پست شرح نہیں؟۔اس ملک جس میں تین سو جرنیل ‘ دو سو سیکریٹری اور سو حکمران ہیں اور جس میں قلفیاں بیچنے والے چٹے ان پڑھ ان اینکرز سے زیادہ پیسے کمارہے ہیں ‘ ان میں دس لوگ زیادہ ہیں؟ اور آپ ہمیشہ ان دس لوگوں کو میڈیا بھی سمجھتے ہیں۔
یہ دس لوگ میڈیا نہیںہیں‘ میڈیاوہ دو لاکھ ننانوے ہزار نو سو نوے لوگ ہیں جن کے بارے میں آج تک اس معاشرے کے کسی شخص نے نہیں سوچا ‘ آپ نے کبھی سوچا! صحافت پاکستان کا واحد پیشہ ہے جس میں کوئی پنشن‘ کوئی بعداز مرگ مراعات نہیں‘ ہم بیمار ہو جائیں‘ ہم مر جائیں اور ہمیں کسی بھی وقت نوکری سے نکال دیا جائے ‘ ہماری پرواہ کوئی نہیں کرتا ‘ اس ملک میں کوئی عدالت ہمارا کیس تک نہیں سنتی اور پاکستان دنیا میں صحافیوں کے لیے تیسراخطرناک ترین ملک ہے‘ دس سال میں ہمارے 85 صحافی بھائی ڈیوٹی کے دوران مارے گئے اور سیاستدانوں سے لے کر عوام تک کسی نے ان کا جنازہ تک نہیں پڑھا‘ آج ان صحافیوں کے بچے کس حال میں ہیں یاان کی بیوائیں کیا کر رہی ہیں‘ کیا 18کروڑ لوگوں کے اس ملک میں کسی نے سوچا؟ اس ملک میں فوجی اور سپاہی ڈیوٹی کے دوران مارا جائے تو اس کے بچوں کو جاب بھی ملتی ہے‘ اس کی بیوہ کو پنشن بھی اور مکان بھی۔
ملک میں سرکاری ملازمین کے لیے میڈیکل اور تعلیم فری ہوتی ہے لیکن پاکستان کے نوے فیصد صحافیوں کو یہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں اور باقی دس فیصد بھی یہ سہولتیں اپنی جیب سے خریدتے ہیں مگر آپ اس کو بھی جانے دیجیے ‘ آپ یہ بھی ملاحظہ کیجیے ‘ہم لوگ ہر مرنے والے کے لیے موم بتیاں بھی جلاتے ہیں اور موم بتیاں جلانے والوں کی کوریج بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے لیے اس ملک میں کوئی موم بتی نہیں جلتی‘ ہماری قبروں پر کوئی فاتحہ پڑھنے نہیں آتا‘ عوام کی مہربانی کا یہ عالم ہے ارشاد احمد حقانی ملک کے سب سے بڑے کالم نگار تھے‘ حقانی صاحب چالیس سال تک عوام کو انفارمیشن اور نالج دیتے رہے‘ یہ24جنوری 2010ء کو وفات پا گئے اور عوام انھیں چالیس گھنٹے میں بھول گئے ‘آج آپ میں سے کتنے لوگوں کو ارشاد احمد حقانی کا نام یاد ہے۔
آپ حمید اختر صاحب‘ احمد بشیر اور وارث میر صاحب کو بھی بھول گئے ہیں‘ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پوری زندگی آپ کی سچ تک رہنمائی کی ۔آپ لوگ ان کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں تو وہ بیچارے جو پوری زندگی سانپوں کے بل میں ہاتھ ڈال کر خبریں نکالتے اور آپ تک پہنچاتے ہیں اور کسی روز چپ چاپ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور آپ کوان کا نام تک معلوم نہیں ہوتا‘ آپ کا ان کے بارے میں کیا رویہ ہو گا! کیا آپ سلیم شہزاد کو جانتے ہیں؟ کیا آپ کو حیات اللہ اور چشتی مجاہد یاد ہیں ؟ آپ اس کو بھی جانے دیجیے ‘ آپ ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجیے ‘ یہ پاکستان کی واحد فیلڈ ہے جس میں ایلیٹ کلاس کا کوئی بچہ نہیں آتا‘ پاکستان کی خوشحال کلاس اپنے بچوں کو بیوروکریسی‘ فوج‘ سیاست اور بزنس میں بھجواتی ہے‘
یہ لوگ اپنے بچوں کو ڈاکٹر‘ انجینئر‘ آرکی ٹیکٹ حتیٰ کہ مولوی بنا لیں گے لیکن یہ انہیںصحافی نہیں بنائیں گے ‘ کیوں؟کیونکہ یہ لوگ اس پیشے کی سختیوں اور مجبوریوں سے واقف ہیں‘ یہ جانتے ہیں پاکستان میں صحافی کی عمرتمام شعبوں سے کم ہوتی ہے چنانچہ صحافت ملک کا واحد پیشہ ہے جس میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ آتے ہیں۔ آپ نے زندگی میں سیلف میڈ کا صرف لفظ سنا ہوگا‘ آپ نے اگراسے کھلی آنکھوں سے دیکھنا ہے توآپ اس ملک کے ان صحافیوں کو دیکھئے جنھیں آپ برا بھی کہتے ہیں‘ یہودو نصاریٰ کا ایجنٹ بھی ‘ منافق بھی‘ بکے ہوئے بھی اور بے شرم بھی۔ لیکن یہ اس کے باوجود آگ میں ہاتھ ڈال کر آپ کے لیے خبر لے کر آتے ہیں۔ شرم تو ان لوگوں کو آنی چاہیے جو اس وقت چھینک نہیں مارتے جب تک ان کے سامنے مائیک اور کیمرے نہیں لگ جاتے یا پھر ان لوگوں کو آنی چاہیے جو بجلی بند ہونے یا گیس نہ آنے پر بھی ٹی وی چینل میں فون کر دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی میڈیا کو برا بھی کہتے ہیں اور یہودو نصاریٰ کا ایجنٹ بھی۔ اگر ہم ایجنٹ ہیں تو پھر اس ملک میں کوئی پاک باز نہیں اور اگر میڈیا کے لوگوں کا رزق حرام ہے تو پھر اس ملک میں کسی شخص کو رزق حلال کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔
آپ لوگ کہتے ہیں میڈیا کا احتساب کون کرے گا؟ بھائی اگراس ملک میں کسی کا احتساب ہو رہا ہے تو وہ صرف اور صرف میڈیا ہے‘ ہمارا احتساب تو ریمورٹ کنٹرول کے بٹن اور ہاکر کو ایک ٹیلی کال سے ہوجاتا ہے‘ ہمارا کل اثاثہ کریڈیبلٹی ہوتی ہے ہم جس دن کریڈیبلٹی کھو بیٹھتے ہیں‘ ہم اسی دن اس فیلڈ سے فارغ ہو جاتے ہیں‘ اس ملک میں کرپٹ بیوروکریٹ کو زیادہ سے زیادہ کیاسزا ملتی ہے؟اسے او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے‘ معطل افسر کو چند ہفتے بعد نئی پوسٹنگ مل جاتی ہے‘ جعلی ڈگری والے دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی پہنچ جاتے ہیں‘ دوہری شہریت کے ارکان کے لیے قانون بدل جاتا ہے‘ طیارہ سازش کیس میں سزا یافتہ میاں نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آ جاتے ہیں‘ کرپشن کیسز میں جیل میں بند آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن جاتے ہیں اور حد تو یہ کہ معاشرہ میچ فکسنگ میں سزا پانے والے کرکٹرز تک کو بھی معاف کر دیتا ہے لیکن صحافی ‘یہ اگر ایک بار اپنے مقام سے گر جائے‘ یہ اگر ایک بار اپنی کریڈیبلٹی کھو بیٹھے تو اسے کوئی معاف نہیں کرتا۔ اس ملک میں ایک مسجد سے نکالے ہوئے مولوی کو دوسری مسجد مل جاتی ہے لیکن کریڈیبلٹی کی دوڑ سے نکلے صحافی کو دوبارہ نوکری نہیں ملتی۔
ہم صحافیوں میں بھی احتساب کی کڑی ویلیوز موجود ہیں‘ ہم لوگ ’’کریڈیبلٹی لوز‘‘ کرنے والے لوگوں میں نہیں بیٹھتے‘ آپ دیکھ لیجیے کیا پاکستان کے کسی بڑے صحافی نے کبھی کریڈیبلٹی لوز کرنے والے کسی صحافی کا ساتھ دیا؟‘ یہاں اس ملک میں چوہدری شجاعت حسین بے نظیر بھٹو کو عدالتی فیصلوں سے بچانے کے لیے ملک سے باہر بھجوا دیتے ہیں اور میاں نواز شریف اپنے والد کو دفتر سے کرسی سمیت اٹھوانے والے رحمان ملک کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف ’’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘‘ کے نعرے لگانے کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میز پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کوئی صحافی ایک بار‘ جی ہاں ایک بار کسی سیاسی جماعت کی جیب میں چلا جائے تو دوسرے صحافی اس کے ساتھ نہیں بیٹھتے ‘ یہ اس کی سپورٹ نہیں کرتے لیکن ہم اس کے باوجود برے بھی ہیں اور یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ بھی۔ خدا خوفی کریں‘ کچھ تو رحم کریں‘ گالی دینے سے پہلے ایک بار‘ہاں ایک بار تو ہمیں بھی انسان سمجھ لیں‘ ایک بار تو یہ سوچ لیں آج اگر یہ آزاد میڈیا نہ ہو تو معاشرہ دو دن میں1971ء میں واپس چلا جائے جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا لیکن ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر فتح کے ترانے بج رہے تھے‘ کیا آپ ایک ایسا ملک چاہتے ہیں۔
(جاری ہے)
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
 
آخری حصہ
لیکن اس کا ہرگز ہر گز یہ مطلب نہیں میڈیا خامیوں سے پاک ہے‘ ہم میں بھی بے شمار خامیاں ہیں‘ ہم میں بھی کالی بھیڑیں ہیں۔
ہم بھی غلطیاں کرتے ہیں اور ہم میں بھی نالائق لوگ موجود ہیں مگر کیا چند لوگوں کی نالائقی‘ بلیک میلنگ یا خامی کی وجہ سے پورے شعبے کو گالی دینا ٹھیک ہوگا‘ ہم اگر موسیٰ گیلانی اور عبدالقادر گیلانی کی وجہ سے ملک کے تمام گیلانیوں کو حج اور ایفی ڈرین فروش کہیں تو کیاآپ کو اچھا لگے گا‘ ہم اگر مونس الٰہی اور محسن وڑائچ کی بنیاد پر ملک کے تمام وڑائچوں اورچوہدریوں کو کرپٹ کہیں‘ ہم جمشید دستی‘ حاجی پرویز‘ فیض ٹمن ‘ عبدالقیوم جتوئی ‘طارق تارڑ‘ حیات اﷲ ترین‘ دیوان عاشق اور نذیر احمد جٹ کی جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر تمام سیاستدانوں کو برا بھلا کہیں اور ہم اگر رمشا کیس میں محبوس خالد جدون کی وجہ سے ملک کے تمام پیش اماموں اور مولویوں کو برا کہیں تو کیا یہ ٹھیک ہو گا؟ اگر نہیں تو پھر چند لوگوں کی غلطی‘ بلیک میلنگ‘ نالائقی یا جہالت کی بنیاد پر پورے میڈیا کو گالی کیوں دی جاتی ہے؟ یہ درست ہے ہم میں خامیاں ہیں۔
ہم بھی نان ایشوز کو ایشوز بنا دیتے ہیں‘ ہم چیزوں کو ’’پلے اپ ‘‘ کر دیتے ہیں‘ ہم سیاستدانوں کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور سیریس صورتحال پر گانے لگا کر اسے نان سیریس بنا دیتے ہیں لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے ‘ اس کے لیے آپ کو میڈیا کی تنظیم سمجھنا ہو گی۔ میڈیا کے دو حصے ہیں‘ ادارہ اور صحافی۔ اسکرین ہو یا اخبار کا صفحہ آپ کو اس کے فرنٹ پر ہم لوگ دکھائی دیتے ہیں‘ ہم واقعات رپورٹ بھی کرتے ہیں‘ اس پر تبصرہ بھی کرتے ہیں‘ کالم بھی لکھتے ہیں اور پروگرام بھی کرتے ہیں لیکن اس پروگرام نے کتنی دیر چلناہے‘ کب چلنا ہے اور کب نہیں چلنا ‘ کون سی خبر کس وقت نشر ہو گی اور کتنی بار دہرائی جائے گی۔
کس ایشو کو اسکرین پر کتنی دیر دکھایا اور چلایا جائے گااور اس کا کون سا اینگل اٹھایا جائے گا اور کس کو دبایا جائے گا اور یہ خبر کس وقت اسکرین سے غائب ہو جائے گی‘ اخبار میں کون سی خبر لیڈ لگے گی اور کس کو سنگل کالم جگہ ملے گی اور کون سی تصویر شایع ہو گی اور کون سی نہیں‘ اس کا فیصلہ میڈیا کی انتظامیہ کرتی ہے‘ یہ بھی درست ہے ہمیں اپنے کالموں اور ٹی وی کے کرنٹ افیئرز پروگرام میں آزادی ہوتی ہے‘ ہم موضوع اور مہمانوں کی چوائس میں خودمختار ہوتے ہیں‘ یہ اپنی مرضی سے لکھتے اور بولتے ہیں لیکن ان کی آزادی اور خود مختاری صرف اپنے پروگرام اور کالم تک محدود ہوتی ہے چنانچہ ہم صرف اپنے پروگرام اور کالم کے جوابدہ اور ذمے دار ہیں‘ ہمارے پروگرام کے علاوہ ٹی وی پر کیا چل رہا ہے اور ہمارے کالم کے ساتھ شایع ہونے والے دوسرے کالموں میں کیا چھپ رہا ہے ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے ہیں۔
رپورٹرز کا معاملہ بھی یہی ہوتاہے‘ اخبارات اور ٹی وی کا رپورٹر صرف اپنی ’’بیٹ ‘‘کی خبریں دیتا ہے‘ یہ بھی دوسرے رپورٹرز پر اثرانداز نہیں ہو سکتا ۔ ملالہ کے ایشو کو سات دن تک دکھانے کا فیصلہ کسی اینکر یا رپورٹر نے نہیں کیا‘ یہ چینلز کی انتظامیہ کا فیصلہ تھا اور اس کے جوابدہ بھی یہ لوگ ہیں‘ آپ ہمارے پروگراموں کو دیکھئے‘ کیایہ ایشو کسی چینل کے کسی کرنٹ افیئرپروگرام پر ’’پلے اپ‘‘ ہوا ؟ کیا کوئی اینکراسے ہفتہ بھر اپنے پروگرام میں ڈسکس کرتارہا؟ اگر اس کا جواب ہاں ہو تو آپ اسے ضرور برا کہیں لیکن اگرہم نے اس ایشو پر ایک یا دو پروگرام کیے ہیں تو پھر ہم بے گناہ ہیں لیکن آپ اس کے باوجود ہم لوگوں کو برا بھی سمجھ رہے ہیں اور یہودو نصاریٰ کا ایجنٹ بھی۔کیا یہ زیادتی نہیں۔
میڈیا پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے یہ بہت کمرشل ہے‘ یہ بے تحاشا اشتہارات دکھاتا ہے‘ یہ اعتراض بھی درست ہے لیکن آپ نے کبھی سوچا اس کی وجہ کیا ہے ؟ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا ایک مہنگا بزنس ہے‘ پاکستان میں صف اول کا نیوز چینل بنانے کے لیے دو سو کروڑ روپے اور ایک بڑا اخبار نکالنے اور چلانے کے لیے پچاس کروڑ روپے چاہئیں۔ پاکستان کے پانچ بڑے چینلز میںدو دو ‘ ڈھائی ڈھائی ہزار لوگ کام کر رہے ہیں‘ یہ لوگ ہر مہینے تنخواہ لیتے ہیں‘ ٹی وی کے آلات بھی بہت مہنگے ہیں اور یہ روزانہ مینٹینس بھی مانگتے ہیں اور پھر اس کے بعد دفاتر کے کرائے‘ بجلی کے بل‘ گیس کی پے منٹ‘ گاڑیاں اور بینکوں کی قسطیں ان کے لیے بھی رقم چاہیے اور کوئی سرمایہ دار صرف صحت مندانہ صحافت یا خدمت خلق کے لیے اپنا سرمایہ نہیں لگاتا‘ صحافت صرف ہم صحافیوں کے لیے جنون ہو سکتی ہے۔
یہ مالکان کے لیے انڈسٹری ہے اور کوئی انڈسٹری سرمائے کے بغیر نہیں چلتی چنانچہ اگر چینل کو اشتہار نہیں ملیں گے توسرمایہ نہیں آئے گا اوراگر سرمایہ نہیں آئے گا تو دفاتر کے کرائے‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کے بل ادانھیں ہوں گے اور کارکنوں کو تنخواہیں نہیں ملیں گی اور اگر کارکنوں کو تنخواہیں نہیں ملیں گی تو میڈیا انڈسٹری نہیں چلے گی لہٰذا کون سرمایہ دار ہو گا جو اپنے دو ڈھائی ارب روپے اندھے کنوئیں میں پھینک دے۔ دنیا میں ایئرلائن حاجیوں کو مفت مکہ نہیں لے جاتیں‘ ڈاکٹر ایکسیڈنٹ میں زخمی شخص کا مفت علاج نہیں کرتا۔
دنیا میں کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لیے پچاس ساٹھ لاکھ روپے چاہئیں اور مسجدوں سے بھی بجلی کے بل وصول کیے جاتے ہیں لیکن آپ اس کمرشل دنیا میں چاہتے ہیں آپ کو اطلاع‘ علم اور تفریح مفت فراہم کی جائے‘ آپ انٹرنیٹ پر مفت ٹی وی دیکھیں‘ آپ کیبل آپریٹر کو مہینے کے دو سو روپے دے کر سو چینلز کے مزے لوٹیں‘ ایک کنکشن کی پے منٹ کر کے دس دس ٹی وی چلائیں اور آخر میں پوری میڈیا انڈسٹری کو گالی بھی دیں‘ کیا یہ ٹھیک ہو گا؟ آپ کیبل آپریٹر کو مہینے کے دو سو روپے دیتے ہیں۔
آج کے دور میں اس رقم میں صابن نہیں آتا‘ آپ اس سے سی ڈی 70 میں پٹرول نہیں ڈلوا سکتے لیکن آپ چاہتے ہیں آپ کے دو سو روپے میں ملک کے 70 ٹی وی چینلز بھی چلیں اور یہ اشتہارات بھی نہ چلائیں۔ آپ بتائیے یہ لوگ پھر کیا کریں؟ یہ میڈیا فرمز چلانے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں؟ یہ تنخواہیں اور اخراجات کہاں سے پورے کریں؟ آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو گی پاکستان میں اس وقت کوئی میڈیا فرم پرافٹ میں نہیں جا رہی‘ میڈیا کا ملک کے معاشی حالات سے گہرا تعلق ہوتا ہے‘ ملک میں جب انڈسٹری‘ تجارت اور بزنس زوال پذیر ہوتا ہے تو میڈیا سب سے پہلے اس کا شکار بنتا ہے‘ ملک کے معاشی حالات آپ کے سامنے ہیں۔
پانچ سال سے ملک کی معیشت زمین بوس ہو چکی ہے چنانچہ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا شدید دبائو میں ہے‘ کمپنیوں نے اپنا ایڈورٹائزنگ بجٹ بھی کم کر دیا ہے چنانچہ معاشی دبائو کی وجہ سے میڈیا دو برسوں سے ڈائون سائزنگ کے عمل سے گزر رہا ہے‘ اخبارات کی حالت بھی بہتر نہیں لیکن صحافی ان حالات کے باوجود آپ کو خبر بھی دے رہے ہیں اور آپ کی گالیاں بھی کھا رہے ہیں‘ کیا یہ درست رویہ ہے! آپ دو گھنٹے کی فلم دیکھنے کے لیے تین سو روپے خرچ کرتے ہیں لیکن ستر ٹی وی چینلز مفت دیکھتے ہیں اور ہمیں گالی بھی دیتے ہیں‘ آپ نے اگر آج تک کسی چینل‘ کسی پروگرام کے لیے ’’پے‘‘ کیا ہے تو آپ بے شک پوری میڈیا انڈسٹری کو جوتے مار لیں لیکن اگر ہم موت کے منہ میں بیٹھ کر آپ کو مفت اطلاع‘ علم اور تفریح دے رہے ہیں تو پھر آپ کو کم از کم ہمیں گالی نہیں دینی چاہیے۔
یہ کمرشل دور ہے‘ آپ کو اس دور میں داتا دربار اور بری امام کے مزار پر چڑھاوے کے لیے دیگ بھی خریدنا پڑتی ہے‘ آپ بازار سے قرآن مجید‘ جائے نماز اور تسبیح بھی خریدتے ہیں اور آپ کو کفن اور قبر کے لیے بھی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ یہ کمرشل دنیا کس قدر سنگدل ہے آپ اس کا اندازا ’’نیوز ویک‘‘ سے لگا لیجیے‘ یہ دنیا کا معتبر ترین جریدہ تھا‘ یہ 80 سال سے پوری دنیا کی رہنمائی کر رہا تھا لیکن اشتہارات اور سرکولیشن کی کمی کے باعث یہ بند ہو رہا ہے‘31دسمبر کو نیوز ویک کا آخری شمارہ مارکیٹ میں آئے گا اوراس کے بعد صحافت کا 80 سال پرانا بین الاقوامی باب بند ہو جائے گا‘ کیوں؟ کیونکہ اس کی سرکولیشن چالیس لاکھ سے کم ہو کر پندرہ لاکھ رہ گئی ہے اور امریکی معیشت میں خسارے کی وجہ سے اس کے اشتہارات بھی آدھے رہ گئے ہیں چنانچہ نیوز ویک بند ہو رہا ہے ۔
آپ خود سوچئے اگر نیوز ویک کی انتظامیہ سرکولیشن اور اشتہارات کی کمی کے باعث دنیا کا سب سے بڑا ہفت روزہ بند کرنے پر مجبور ہوچکی ہے تو آپ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری سے توقع کرتے ہیں یہ آپ کو مفت سروسز بھی دے گی اور آپ کی گالیاں بھی کھائے گی‘ کیا یہ ممکن ہے؟حقیقت تو یہ ہے آپ اگر تیس سال کی عمر میں اپنے والد‘ اپنی والدہ کے ہاتھ پر اپنی کمائی نہ رکھیں‘ آپ اپنے بچوں کی ضروریات پوری نہ کر سکیں تو والدین آپ کو عاق کر دیتے ہیں یا اولاد چلا کر کہتی ہے ’’کھِلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیاتھا؟‘‘ مگر آپ میڈیا سے توقع کرتے ہیں یہ بھوکا بھی رہے‘ خطرے میں بھی رہے۔
آپ کو خبر اور اطلاع بھی دے اور آپ کی گالیاں بھی سنے‘کیا یہ رویہ ٹھیک ہے؟ یہ یقیناً درست نہیں ‘ آپ تربوز بھی خرید کر کھاتے ہیں لیکن آپ کو میڈیا مفت چاہیے اور آپ کو اس کے بعد اس سے نفرت کرنے اور اسے برا کہنے کا حق بھی چاہیے! کیا آپ نے کبھی ایک بار ‘ جی ہاں صرف ایک بار اپنے رویے پر غور کیا؟ شاید نہیں کیا کیونکہ آپ اگر ایک لمحے کے لیے سوچ لیتے تو آپ ہمیں کبھی برا نہ کہتے ‘ آپ ہمیں یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ بھی نہ سمجھتے۔ یقین کیجیے اگر ہم برے ہیں تو پھر اس معاشرے میں کوئی شخص اچھا نہیں اور اگر ہم یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں تو پھر اس ملک میں کسی شخص کو حب الوطنی کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
 
ویسے اس کالم میں ایک غلطی یہ ہے کہ نیوز ویک کا صرف پرنٹ ایڈیشن بند ہونے جارہا ہے اور چودھری صاحب فرما رہے ہیں مکمل بند ہورہا ہے
حالانکہ اسکا ڈیجٹیل ورژن شائع ہوا کریگا
ایک اور بات کہ میڈیا گھاٹے میں جارہا ہے۔آئی ڈونٹ بلیو دِس
 
Top