پھر ایک نیا سال.. نصرت ظہیر

ابن جمال

محفلین
پھر ایک نیا سال...
نصرت ظہیر
لیجئے پھر ایک نیا سال آگیاہے۔اب پھر وہی رسمی باتیں ہوں گی۔ ہوں گی کیا بلکہ ہورہی ہیں۔دسمبر کے آخری ہفتے سے۔ اور اب جنوری کے آخری ہفتے تک یہی ہوگا۔ اکثر ملاقاتیں اس جملے سے شروع ہوں گی ۔ ''نیا سال مبارک ہو''۔جواب میں کہنے والا کہے گا ''شکریہ ، آپ کو بھی نیا سال مبارک ہو۔''ایک آدھ ہفتہ گزرے گا تو جملے میں تمہید کا اضافہ ہو جائے گا: ''معاف کیجئے اس سے پہلے موقع نہیں ملا'' یا ''بھئی آپ کو کئی بار فون کیا مگر بات ہی نہیں ہو سکی '' یا پھر''معاف کرنا میں ذرا آئوٹ آف اسٹیشن تھا اس لئے ذرادیر سے مبارک باد دے رہا ہوں...بہر حال آپ کو نیا سال بہت بہت مبارک ہو۔''یعنی کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی، کوئی نہ کوئی آپ کو نئے سال کی مبارک باد ضرور دے کر رہے گا۔
ا س کے بعد سب کچھ وہی ہوتا رہے گا، جو پچھلے سال ہواتھا، جو اس سے پچھلے سال ہوا تھا اور جو نہ جانے کتنے نئے سالوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔یعنی بسوں کے دھکّے، کھڑکیوں پر قطاریں، بیوی کی جھڑکیاں، ٹی وی کی بریکنگ نیوز،باس کی ٹیڑھی نظر،دفتروں کی سیاست، دفتری ساتھیوں کے بھدّے ویجیٹیرین لطیفے جنہیں وہ نان ویج انداز میں سنا کر طبیعت کو اور بھی مکدّر و منغّض کر دیتے ہیں۔
مرحوم امیر آغا قزلباش نے کہاتھا:
یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
میرا خیال اس پر یہ ہے کہ :
دسمبر میں بھی پھر وہی حال ہے
نئی جنوری ہے نیا سال ہے!
وہی ہڈّیاں ہیں وہی کھال ہے
یعنی آدمی کم بدلتا ہے وقت زیادہ تبدیل ہوتا ہے۔ آج 2010ہے چونکہ اس سے پہلے2009تھا ۔وہ2009اس لئے تھا چونکہ اُس سے پہلے2008آیاتھا،وعلیٰ ہذالقیاس۔
ایک صاحب نے نئے سال کی مبارک باد دی تومیں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جناب نیا سال کسی مہینے کسی تاریخ یا گھڑی کے کسی خاص وقت کا محتاج نہیں۔ وہ ہر لمحے آتا رہتا ہے۔ ایک سال کا مطلب ہے سورج کے گرد زمین کا ایک چکّر۔ اوریہ ایک چکّر ہر گزرتے پل مکمّل ہوتا رہتاہے۔ زمین جہاں اس وقت ہے وہاں وہ اب سے ٹھیک ایک سال پہلے تھی۔ اور اب ٹھیک ایک سال بعد دوبارہ پھراس جگہ آئے گی۔ لہٰذا ہر گزرتا پل ایک نیا سال ہے۔ وہ صاحب بقول مشتاق یوسفی اردو میں سات کے ہندسے کی طرح منھ کھولے میری باتیں سنتے رہے۔ اس کے بعد آنکھیں جھپکاتے ہوئے گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر بولے، ''چلئے ، آپ کو ہر نئے پل نیا سال مبارک ہو۔''اور میں اپنا سا منھ لے کر رہ گیا۔عام طور پر زیادہ بقراطیت جھاڑنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ سامنے والا بڑے صبر سے آپ کی بات سنتا ہے۔ آپ کی قابلیت کو سراہتا بھی ہے۔ مگر کرتا وہی ہے جو اس کا جی چاہتا ہے۔ مسکرا کر وہ بالکل سامنے کی ایک سیدھی سی بات کہتا ہے اور آپ کی تمام قابلیت و بقراطیت اوندھے منھ گر جاتی ہے۔
یکم جنوری کی صبح کے کہرے میں بلیو لائن کی ایک لرزیدہ بس کے ڈرائیور پر بھی میں نے بقراطیت کا نسخہ آزمانے کی کوشش کی۔ میں نے اسے سمجھایا:''میاں جانتے ہو یہ کائنات اس وقت اپنے محور پر اس قدر دھیمی رفتار سے گھوم رہی ہے کہ اس کا ایک چکّر ایک کھرب ایک ارب ایک کروڑ ایک سو چھیاسی کے ہندسے کو اتنے ہی بڑے ہندسے سے گیارہ بار ضرب دے کر جو حاصلِ ضرب آئے گا اتنے سال میں پورا ہوتا ہے۔اور پوری کائنات اتنی بڑی ہے کہ اس قدر آہستہ گھومنے کے باوجود اس کے سب سے باہری سرے پرگھومنے کی رفتارایک لاکھ کھرب میل فی سیکنڈ ہے۔ اور تم ہو کہ لاجپت نگرسے اینڈریوز گنج تک دو کلومیٹرکے دس روپے مانگ رہے ہواور وہ بھی سیٹ دئیے بغیر۔''
یہ سن کر کنڈکٹر پٹ پٹ آنکھیں جھپکانے لگا اور اپنے معاون کنڈکٹر کو اس کی سیٹ سے اٹھا کر اس نے نہ صرف بیٹھنے کی جگہ دلا دی بلکہ یہ کہتے ہوئے کرایہ واپس کرنے کی بھی تاکید کردی کہ بابوجی کوئی پہنچی ہوئی مہان آتما ہیں لہٰذا انہیں حفاظت سے اینڈریوز گنج اتار دیجو۔
صاحب یہ کائنات کا چکّر بھی عجیب ہے۔ ہر وقت گھومتی ہی رہتی ہے۔ خلائی سائنس پر میں نے اتنی کتابیں پڑھیں مگر کسی بھی کتاب میں کسی چیز کو اپنی جگہ ٹھہر نہیں پایا۔ جسے دیکھو کسی نہ کسی کے چکّر میں ہے۔چاند زمین کے چکّر میں ہے۔ زمین سورج کا چکّرکاٹ رہی ہے۔سورج اپنی کہکشاں کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ کہکشاں، کسی اور کہکشاں کے چکّر میںہے۔ اور وہ کوئی اور کہکشاںمجھے لگتا ہے کسی اورکہکشاں کے چکّر میں ہوگی۔ بلکہ مجھے تو اس کائنات کے کیریکٹر پر بھی شبہ ہے۔ یہ کم بخت بھی یقیناً کسی نہ کسی کے چکّر میں ہے۔ بس ذرا اس آدمی کا پتہ مجھے چل جائے، پھر دیکھئے میں اس کا کیا حشر کرتا ہوں۔ پہلے تو دس جوتے مار کر ایک گنوں گا اور جب میری تمام گنتی پوری ہوجائے گی تب اس سے پوچھوں گا: کیوں بے نامعقول۔ تجھے خدا کا بھی خوف نہیں۔ آوارہ کہیں کے۔ کیوں ساری دنیا کو چکّر میں ڈال رکھا ہے۔ٹِک کر ایک جگہ کیوں نہیں بیٹھ جاتا!
ایک روز ایک صاحب سے جو خلائی سائنس میں مجھ سے بھی زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں نئی خلائی تحقیقات پر بات چل رہی تھی ۔ بات کرتے کرتے وہ اچانک اٹھے ، گھوم کر ایک دو چکّر سے کھائے اور لہرا کر صوفے پر گرپڑے۔میں گھبرا کر انہیں دیکھنے کے لئے اٹھا۔ بیوی ڈاکٹر کو بلانے کے لئے ٹیلی فون گھمانے لگی۔ میں نے ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ ایک دم اٹھے، سیدھے کھڑے ہو کر ٹائی کی گرہ درست کی اور ہمیں تسلّی دیتے ہوئے بولے:''گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، بس ذرا چکّر سا آگیا تھا۔''
میں نے چکّر آنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے:''کوئی خاص بات نہیں۔ بس مجھے اچانک یہ خیال آگیا کہ اس وقت جو میں تمہارے ڈرائنگ روم میں سکون سے بیٹھا ہوا ہوں توحقیقت میں سب کچھ ایک دم ٹھہرا ہوا نہیں ہے۔ زمین کئی ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے اپنے محور پر بھی چکّر کھا رہی ہے اور سورج کے گردبھی گھوم رہی ہے، سورج کئی لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کو ساتھ لے کر نہ جانے کس کہکشاں کی طرف اڑا جا رہا ہے، وہ کہکشاں کئی کروڑ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کسی اور کہکشاں کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ کوئی اور کہکشاں خدا جانے کس رفتار سے کس طرف جا رہی ہے...بس یہ سوچتے سوچتے چکّر سا آگیا...باقی سب خیریت ہے۔''
مگر ایک دن انہوں نے اور بھی عجیب حرکت کی۔ بات کرتے کرتے اچانک خاموش ہو گئے۔ چہرے پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی۔ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہو گئیں۔ ہاتھوں کی انگلیاں کانپنے لگیں۔ مجھے یقین ہوگیا۔ اس بار معاملہ خلائی سائنس کا نہیں ،بلکہ سچ مچ دل کا حملہ ہوا ہے۔ میں فوراً ایک ہارٹ اسپیشلسٹ کا فون نمبر اپنی ڈائری میں ڈھونڈنے لگا۔ تبھی انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور کہنے لگے :''بھائی میرے ، اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ سورج جو دراصل جلتی ہوئی گیسوں کا ایک بہت بڑا گولا ہے تیزی سے ٹھنڈا ہوتا جا رہا ہے۔جانتے ہو، ایک سیکنڈ میں سورج اپنی اتنی گیس جلا دیتا ہے جس سے ہماری زمین پر موجود کروڑوں چولہے ڈیڑھ سو سال تک مسلسل جل سکتے ہیں۔یعنی ابھی جتنی دیر میں ہم نے چائے کا ایک ایک کپ پیا ہے اتنی دیر میں سورج ایک ہزار سال کے گیس سلنڈر پھونک چکا ہے۔ اس تیزی سے سورج کی گیس جلتی رہی تو وہ ایک دن ٹھنڈا ہو جائے گا۔ رفتہ رفتہ اس کی سرخی بڑھنے لگے گی۔ اس کا حجم تیزی سے پھیلنا شروع ہوگا ۔ سورج سے فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے زمین کے گھومنے کی رفتار میں اضافہ ہو جائے گا ۔ وہ سورج کی طرف بڑھنے لگے گی اور بالآخر اسی میں سما کر بھسم ہو جائے گی۔ ''
یہ سن کر کچھ دیر کے لئے میں بھی گھبرا گیا، کیوں کہ خلائی علوم میں ان کی معلومات نہ صرف مجھ سے بہتر بلکہ زیادہ مصدقہ بھی تھیں۔ اور پھر انہوں نے اظہار اثر کے جاسوسی ناول بھی مجھ سے زیادہ پڑھے تھے۔ ''اوہ! مگر مجھے تو ابھی ایک گھنٹے میں دفتر پہنچنا تھا ۔''میں نے اپنی پریشانی بیان کی۔
'' کوئی بات نہیں۔ماہرینِ فلکیات نے حساب لگایا ہے کہ زمین کے بھسم ہونے میں ابھی چار ارب سال باقی ہیں۔''انہوں نے اطلاع دی۔
پھر بھی ان کے جاتے ہی میں نے گیس ایجنسی کو فون کرکے دو نئے سلنڈر بک کرادئیے کہ حساب میں کئی بار گڑ بڑ بھی ہو جاتی ہے۔

بہر کیف،آخرمیں قارئین کوعزیز دوست ضمیر ہاشمی کے تازہ قطعے کے ساتھ نیا سال مبارک ہو ۔ضمیر میاں زود گو نہیں بلکہ پُر گو شاعر ہیں اور'جن گن من' کے علا وہ 'وندے ماترم' جیسی اردووالوں کی سمجھ میں نہ آنے والی تخلیقات کا نہایت سلیس اردو میں منظوم ترجمہ کرکے قدرتِ کلام کا ثبوت دے چکے ہیں۔ اردو والوں کی تفہیمی صلاحیت بڑھانے کا یہ نیک جذبہ یوں ہی برقرار رہا تو مجھے یقین ہے ایک دن وہ غالب کے اردودیوان کا بھی منظوم اردو ترجمہ کر دیں گے کہ وہ بھی اردو والوں کی سمجھ میں مشکل سے آتا ہے۔فرماتے ہیں:
غم اور خوشی پہ یوں تو کسی کانہیں ہے بس
گزرے ہیں حادثات میں ڈوبے کئی برس
آئو!دعاکریںیہ نئے سال کے لئے
ہر لمحہ خوش گوار رہے 'دو ہزار دس'
 

arifkarim

معطل
امید ہے یہ سال nwo کی تکمیل کیلئے اچھا ثابت ہوگا۔ امریکہ و بہت سے مغربی ممالک کو بہت سے معاشی مسائل کا سامنا ہے جسکا واحد حل جنگ عظیم کی صورت میں نکل سکتا ہے!
 
Top