پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟ (عرفان ستار)

نیرنگ خیال

لائبریرین
پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا

یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟

اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر
آج تک بوجھ ہے مروّت کا

دل نے کیا سوچ کر کیا آخر
فیصلہ عقل کی حمایت کا

کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے
میں بھی کردار ہوں حکایت کا

آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟
قتل کر دیجیئے روایت کا

نہیں کھُلتا یہ رشتۂ باہم
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟

تیری ہر بات مان لیتا ہوں
یہ بھی انداز ہے شکایت کا

دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت
اب زیادہ نہیں عیادت کا

بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا

کسر ِ نفسی سے کام مت لیجے
بھائی یہ دور ہے رعونت کا

مسئلہ میری زندگی کا نہیں
مسئلہ ہے مری طبیعت کا

درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟

آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا

رات بھی دن کو سوچتے گزری
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟

رشک جس پر سلیقہ مند کریں
دیکھ احوال میری وحشت کا

صبح سے شام تک دراز ہے اب
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا

وہ نہیں قابلِ معافی، مگر
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا

اہلِ آسودگی کہاں جانیں
مرتبہ درد کی فضیلت کا

اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے
آنکھ پر بار ہے امانت کا

اک تماشا ہے دیکھنے والا
آئینے سے مری رقابت کا

دل میں ہر درد کی ہے گنجائش
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا

ایک تو جبر اختیار کا ہے
اور اک جبر ہے مشیّت کا

پھیلتا جا رہا ہے ابر ِ سیاہ
خود نمائی کی اِس نحوست کا

جز تری یاد کوئی کام نہیں
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا

سانحہ زندگی کا سب سے شدید
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا

ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
 
Top