اکبر الہ آبادی پوشیدہ ہیں دل میں کہ کلیجے میں نہاں ہیں

پوشیدہ ہیں دل میں کہ کلیجے میں نہاں ہیں
کیا جانیے تیرِ نگہِ یار کہاں ہیں

مٹی میں ملانے کو سوئے قبر رواں ہیں
ہم دوش پہ احباب کی اک بارِ گراں ہیں

غیروں پہ تلطف ہے ترحم ہے کرم ہے
معلوم ہوا آپ بڑے فیض رساں ہیں

پھولی نہ پھلی شاخِ امید اپنی کبھی آہ
ہم گلشنِ آفاق میں پامالِ خزاں ہیں

حیران ہوں مدہوش ہوں بیخود ہوں سراپا
جلوے کے اثر یوں مری صورت سے عیاں ہیں

کہتا ہے کوئی برقِ تجلی کو دکھا کر
اے طالبِ دیدار ترے ہوش کہاں ہیں

کچھ منہ سے جو بولیں تو کہیں رازِ حقیقت
کیوں مہر سرِ قفل درِ گنج نہاں ہیں

جاگیرِ لحد موت نے بخشی ہے عدم میں
اب ہم کو یہ دعوی ہے کہ ہم اہل مکاں ہیں

مضمون نہیں ہے تو نہ ہو اپنی غزل میں
اکبرؔ یہی کیا کم ہے کہ ہم اہل زباں ہیں​
 
مدیر کی آخری تدوین:
اس شعر کو دوبارہ دیکھیے گا۔ دوسرے مصرع میں "کہوں" کی بجائے شاید "کیوں" ہونا چاہیے۔ شکریہ!

بہت عمدہ انتخاب

اس شعر کو دوبارہ دیکھئے شاید دوسرا مصرع یوں ہو
"اے طالبِ دیدار ترے ہوش کہاں ہیں"

تدوین کردی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیوانِ اکبر الٰہ آبادی سے دیکھ کر غزل درست اور مکمل کی گئی۔

پوشیدہ ہیں دل میں کہ کلیجے میں نہاں ہیں
کیا جانیے تیرِ نگہِ یار کہاں ہیں

مٹی میں ملانے کو سوئے قبر رواں ہیں
ہم دوش پہ احباب کی اک بارِ گراں ہیں

غیروں پہ تلطف ہے ترحم ہے کرم ہے
معلوم ہوا آپ بڑے فیض رساں ہیں

پھولی نہ پھلی شاخِ امید اپنی کبھی آہ
ہم گلشنِ آفاق میں پامالِ خزاں ہیں

حیران ہوں مدہوش ہوں بیخود ہوں سراپا
جلوے کے اثر یوں مری صورت سے عیاں ہیں

کہتا ہے کوئی برقِ تجلی کو دکھا کر
اے طالبِ دیدار ترے ہوش کہاں ہیں

کچھ منہ سے جو بولیں تو کھلے رازِ حقیقت
کیوں مہر سرِ قفل درِ گنج نہاں ہیں

جاگیرِ لحد موت نے بخشی ہے عدم میں
اب ہم کو یہ دعویٰ ہے کہ ہم اہلِ مکاں ہیں

افسردگیِ خاطرِ ناشاد مدد کر
غم ہائے غریب الوطنی کاہشِ جاں ہیں

رونق ہے اگربزمِ سخن کی تو ہمیں سے
ہم باعثِ دل بستگیِ طبعِ جہاں ہیں

مضمون نہیں ہے تو نہ ہو اپنی غزل میں
اکبرؔ یہی کیا کم ہے کہ ہم اہلِ زباں ہیں

(اکبر الٰہ آبادی)
 
آخری تدوین:
Top