پوشیدہ سبق

الف نظامی

لائبریرین
سب سے پہلے تو قانون بنانے والوں پر ہی جرمانہ لاگُو ہو نا چاہیے۔
گویا اس سے قبل سارے قانون اردو زبان میں بن رہے تھے صرف یہی قانون انگریزی میں بن گیا تو قیامت آگئی۔

سیاست میں آپ کو ہر چیز بیک وقت نہیں ملتی اس کے لیے سفر کرنا پڑتا ہے۔

جتنا مل رہا ہو اس پر شکر ادا نہ کیا جائے تو وہ بھی ہاتھ سے چھن جائے گا
 
آخری تدوین:
اگر آپ یہ تجزیہ کریں گے تو ممکنہ طور پر آپ پر واضح ہو گا کہ ایجادات کی وجہ سے جس قدر انگریزی اردو میں داخل ہوئی ہے وہ شاید ایک فیصد بھی نہیں۔
اور جو انگریزی مرعوبیت کی وجہ سے داخل ہوئی وہ حصہ آپ کو لوگوں کے سٹیٹس کے ساتھ ساتھ بدلتا ہوا دکھائی دے گا۔
بھائی عبدالرؤوف صاحب !
کیا آپ کا مطلب ہے کہ جوانگریزی مَجبُوراً بولنی پڑتی ہے اس کی اجازت ہے لیکن دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیےاردو میں انگریزی گُھسانا یا اپنے آپ کو کمتر سمجھ کر انگریزی بول کر انگریزوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنا درست نہیں؟
اگر ایسا ہے تو آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ زبان، رنگ یا نسل کی وجہ سےاحساسِ کمتری یا احساسِ برتری میں مبتلا ہونا ایک بیماری ہے ۔ ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، اور نہ ہی کسی مہذب معاشرے میں اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔
میں نے یہ بحث اس لیے چھیڑی تھی کہ یہ مجبوری والے الفاظ جو عام بول چال کا حصہ ہیں انہیں اردو ادب میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
 
گویا اس سے قبل سارے قانون اردو زبان میں بن رہے تھے صرف یہی قانون انگریزی میں بن گیا تو قیامت آگئی۔

سیاست میں آپ کو ہر چیز بیک وقت نہیں ملتی اس کے لیے سفر کرنا پڑتا ہے۔

جتنا مل رہا ہو اس پر شکر ادا نہ کیا جائے تو وہ بھی ہاتھ سے چھن جائے گا
یہ قانون تو بنا ہی اردو کے لیے ہے ۔ اور انہوں نے دوسری زبان کو شامل کرنے پرجرمانہ بھی تجویز کیا ہے ۔تو دوسری زبان تو انہوں نے خود ہی شامل کردی۔اس لیے انہیں کم از کم اس قانون کے تحت جرمانہ ہونا چاہیے۔
کسی ایپ پر اگر اردو رسم الخط دستیاب نہیں ہے تو اردو یا پنجابی یا کوئی بھی اور زبان ظاہر ہے انگریزی رسم الخط میں ہی لکھنی پڑے گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ قانون تو بنا ہی اردو کے لیے ہے ۔ اور انہوں نے دوسری زبان کو شامل کرنے پرجرمانہ بھی تجویز کیا ہے ۔تو دوسری زبان تو انہوں نے خود ہی شامل کردی۔اس لیے انہیں کم از کم اس قانون کے تحت جرمانہ ہونا چاہیے۔

صاحب یہ بات مجھے بھی اچھی نہیں لگتی کہ اردو زبان کا قانون ہے اور اسے انگریزی میں لکھا گیا ہے

مگر بات یہ ہے کہ جب تک دفتری و قانونی زبان اردو نہ ہو جائے اس وقت تک اردو زبان کا قانون بنایا ہی نہ جائے؟

ایک آئیڈیلزم ہے اور دوسرا پریگمیٹزم
فی الوقت جو مل رہا ہے اس کو قبول کر لیجیے اور نفاذ اردو کی مزید جد و جہد جاری رکھیے۔

یہ نہ ہو کہ آئیڈیلزم کے چکر میں جو چیز ملی رہی ہے اس کو بھی گنوا بیٹھیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
صاحب یہ بات مجھے بھی اچھی نہیں لگتی کہ اردو زبان کا قانون ہے اور اسے انگریزی میں لکھا گیا ہے

مگر بات یہ ہے کہ جب تک دفتری و قانونی زبان اردو نہ ہو جائے اس وقت تک اردو زبان کا قانون بنایا ہی نہ جائے؟

ایک آئیڈیلزم ہے اور دوسرا پریگمیٹزم
فی الوقت جو مل رہا ہے اس کو قبول کر لیجیے اور نفاذ اردو کی مزید جد و جہد جاری رکھیے۔

یہ نہ ہو کہ آئیڈیلزم کے چکر میں جو چیز ملی رہی ہے اس کو بھی گنوا بیٹھیں۔
یقیناً کسی ہدف تک پہنچنے کے لیے پہلے بہت سی گھاٹیوں سے گزرنا پڑے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خورشید بھائی، آپ جگہ جگہ پر اپنی ہی بات کو رد کرتے چلے آئے ہیں، شروع میں ایجادات کے ناموں سے آپ نے بات شروع کی، جب آپ کو کہا گیا کہ عرب میں ان کے تراجم مستعمل ہیں۔ تب آپ نے محض تراجم کرنے اور ایجادات سے غافل ہونے پر نقد کی، جب آپ سے عرض کیا گیاکہ ایجادات کی وجہ سے شامل ہونے والے الفاظ کا تناسب بہت ہی کم ہے تب آپ نے مجبوراً شامل ہونے والے الفاظوں پر اعتراض کیا۔ جب کہ شروع سے یہی میرا استدلال تھا۔ ذرا نیچے دیئے گئے اقتباس کو دوبارہ پڑھیے۔ کیا آپ نے یہی خلاصہ نہیں نکالا۔
میں آپ کے تجزیئے سے اختلاف رکھتا ہوں، یہ ترقی نہ کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ انگریز کی غلامی کا چسکہ ہے جو بھولے سے نہیں بھولتا اور طرہ یہ کہ ان کا طرزِ معاشرت نوجوان طبقے کا مرکزِ نگاہ بن کر رہ گیا ہے۔
بھارت پاکستان سمیت بہت سے ملکوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن جس قدر وہ ہم سے ترقی میں زیادہ ہیں وہ اپنی ہندی کو اسی قدر انگریزی کے سامنے کم تر سمجھتے ہیں۔
اور دوسری طرف عرب لوگوں کو دیکھیے جنہوں نے ترقی کے میدان میں تو کچھ نہیں کیا (محض تیل کی کمائی یا اب مغرب والوں کے لیے دلکش بیچیز کی وجہ سے کما رہے ہیں) لیکن ان کے اداروں میں چلے جائیے یہاں کا مقامی شخص اپنے مقامی لباس میں ہی دکھائی دے گا۔ اور یہاں پر سرکاری طور پر اپنی زبان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ جب آپ کا مراسلہ پڑھ کر میں باہر نکلا تو ایک سکول بس جا رہی تھی (سکول بس کا آپ اردو لفظ سوچ کر دکھائیں) جس پر اس طرح درج تھا "حافله مدرسیہ" "School Bus" اور یہاں ہر بورڈ پر عربی اور انگریزی دونوں لکھی ہوئی ملے گی اور عربی ہمیشہ اوپر ہی ہو گی۔
ایسا نہیں کہ عربی انگریزی نہیں سیکھتے یا پڑھتے، شوق سے پڑھتے ہیں۔ لیکن عام سی عام چیزوں کے نام ان میں عربی میں ہی بولے جاتے ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عرب اپنی زبان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جنہیں پہلے سے اللّٰہ نے ایک سدِ سکندری سے بھی مضبوط ترین سد قرآن و حدیث کی صورت میں عطاء کر رکھی ہے جو عربی زبان کو بڑے سے بڑے طوفان سے بچانے کے لیے کافی ہے۔
 
خورشید بھائی، آپ جگہ جگہ پر اپنی ہی بات کو رد کرتے چلے آئے ہیں، شروع میں ایجادات کے ناموں سے آپ نے بات شروع کی، جب آپ کو کہا گیا کہ عرب میں ان کے تراجم مستعمل ہیں۔ تب آپ نے محض تراجم کرنے اور ایجادات سے غافل ہونے پر نقد کی، جب آپ سے عرض کیا گیاکہ ایجادات کی وجہ سے شامل ہونے والے الفاظ کا تناسب بہت ہی کم ہے تب آپ نے مجبوراً شامل ہونے والے الفاظوں پر اعتراض کیا۔ جب کہ شروع سے یہی میرا استدلال تھا۔ ذرا نیچے دیئے گئے اقتباس کو دوبارہ پڑھیے۔ کیا آپ نے یہی خلاصہ نہیں نکالا۔
بھائی عبدالرؤوف صاحب!
کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معذرت۔ میں نے نتیجہ نہیں نکالا بلکہ یہ کہا ہے کہ اگر آپ یہ کہ رہےہیں تو میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ یعنی آپ کی بات ہی درست ہے۔
اب میں یہ کہ رہا ہوں کہ وہ بحث ختم کرتے ہیں۔ اور میں بحث شروع کرنے کی اصل وجہ کی طرف آتا ہو ں ۔اور وہ یہ سوال ہےکہ اگر مجبوری والے الفاظ کا استعمال گفتگو میں گوارا ہے تو کیا
یہ الفاظ جو عام بول چال کا حصہ بن گئے ہیں انہیں اردو ادب میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
آپ حضرات کی ماہرانہ رائے اس بارے میں کیا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھائی عبدالرؤوف صاحب!
کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معذرت۔ میں نے نتیجہ نہیں نکالا بلکہ یہ کہا ہے کہ اگر آپ یہ کہ رہےہیں تو میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ یعنی آپ کی بات ہی درست ہے۔
اب میں یہ کہ رہا ہوں کہ وہ بحث ختم کرتے ہیں۔ اور میں بحث شروع کرنے کی اصل وجہ کی طرف آتا ہو ں ۔اور وہ یہ سوال ہےکہ اگر مجبوری والے الفاظ کا استعمال گفتگو میں گوارا ہے تو کیا
یہ الفاظ جو عام بول چال کا حصہ بن گئے ہیں انہیں اردو ادب میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
آپ حضرات کی ماہرانہ رائے اس بارے میں کیا ہے۔
یہ ترقی نہ کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ انگریز کی غلامی کا چسکہ ہے جو بھولے سے نہیں بھولتا اور طرہ یہ کہ ان کا طرزِ معاشرت نوجوان طبقے کا مرکزِ نگاہ بن کر رہ گیا ہے۔
کیا ہو گیا خورشید بھائی، ہم نے ایک دوسرے سے ایک مہذب قسم کا اختلاف کیا۔ اس میں گستاخی کہاں سے در آئی۔
اوپر میں نے اپنے ایک مراسلے کا اقتباس لیا ہے وہ دیکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اسے میری طرف سے قابلِ قبول سمجھتے ہیں؟ 😊

میں نے اور احمد بھائی نے بھی شروع شروع میں ہی ان پر تنقید کی ہے جو خواہ مخواہ کے انگریزی الفاظ کو اردو میں گھسیٹ گھسیٹ کر لا رہے ہیں۔
کچھ انگریزی الفاظ پر اردو کی ایسی لیپا پوتی ہو چکی ہے کہ وہ اب اردو کے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اور یہ وہ الفاظ نہیں جن کا استعمال عوام نے شروع کیا ہو۔ انہیں چھیڑنے کی تو حاجت نہیں ہے۔ باقی جو مخمل میں ٹاٹ کے پیوند لگتے ہیں ان سے بچنے کی تو ہر حال میں کوشش کی جانی چاہیے۔
 
کیا ہو گیا خورشید بھائی، ہم نے ایک دوسرے سے ایک مہذب قسم کا اختلاف کیا۔ اس میں گستاخی کہاں سے در آئی۔
اوپر میں نے اپنے ایک مراسلے کا اقتباس لیا ہے وہ دیکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اسے میری طرف سے قابلِ قبول سمجھتے ہیں؟ 😊
یہ ترقی نہ کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ انگریز کی غلامی کا چسکہ ہے جو بھولے سے نہیں بھولتا اور طرہ یہ کہ ان کا طرزِ معاشرت نوجوان طبقے کا مرکزِ نگاہ بن کر رہ گیا ہے۔
میں نے اور احمد بھائی نے بھی شروع شروع میں ہی ان پر تنقید کی ہے جو خواہ مخواہ کے انگریزی الفاظ کو اردو میں گھسیٹ گھسیٹ کر لا رہے ہیں۔
کچھ انگریزی الفاظ پر اردو کی ایسی لیپا پوتی ہو چکی ہے کہ وہ اب اردو کے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اور یہ وہ الفاظ نہیں جن کا استعمال عوام نے شروع کیا ہو۔ انہیں چھیڑنے کی تو حاجت نہیں ہے۔ باقی جو مخمل میں ٹاٹ کے پیوند لگتے ہیں ان سے بچنے کی تو ہر حال میں کوشش کی جانی چاہیے۔
بھائی عبدالرؤوف صاحب ! غلامی کے حق میں بھی بھلا کوئی دلیل ہوسکتی ہے؟ اس بات پر تو اختلاف تھا ہی نہیں۔
شاید ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی بجائے ہم اپنی بات کہنے کی کوشش کررہے تھے۔ میں صرف ان الفاظ کا ذکر کرہا تھا جو (ملٹی نیشنل مصنوعات کے استعمال کی وجہ سے ہمیں بولنے پڑتے ہیں )۔ باقی آپ کی تمام باتوں سے اتفاق ہے نہ صرف مجھے بلکہ ہر اس شخص کو جو اپنی زبان سے پیار کرتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اراکین پارلیمان کو اپنے لیے تو اہلیت کے باب میں 'بی اے' کی شرط بھی گوارا نہیں اور عوام کے لیے انتخابی قانون بھی اجنبی اور غیر ملکی زبان میں لکھ رکھا ہے۔ فہم سے شرح تک، اس قانون سے عام آدمی لا تعلق ہے۔
( آصف محمود ، روزنامہ 92 نیوز ، 2 فروری 2024 )
 
ایک کاراپنے سواروں کے لیے تب مفید ہوسکتی ہے جب
1- اس کے تمام پرزے اپنا اپنا کام صحیح طریقے سے کرنے کے قابل ہوں
2- تمام پرزے کار کے ڈیزائن کے مطابق اپنی اپنی جگہ پر لگے ہوں
3-کار چلانے والے کو ڈرائیونگ آتی ہو۔
اسی طرح کوئی ملک بھی تب صحیح چل سکتا ہے جب
1-ملک کی مشینری کو چلانے والے ایماندار ہوں ان کی نیتوں میں فتور نہ ہو،
2- ملک کا نظام صحیح ہو یعنی آئین اور قوانین صحیح ہوں
3-نظام چلانے والاا ہر فرد اپنے کام کوجانتا ہو۔
اس مماثلت میں دونوں جگہ سیریل نمبر ایک اہم ہے۔ یعنی پرزے صحیح حالت میں ہیں تو کوئی ماہر انجینئیر انہیں اپنی اپنی جگہ لگا دے گا اور ڈرائیونگ بھی سیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر پرزے ہی کام نہیں کرتے خراب ہیں تو کوئی ماہر انجینئیر اور ماہر ڈرائیور بھی کار کو نہیں چلا سکتے۔
اسی طرح اگرملک کے لوگ نیک نیت ہیں ایماندار ہیں۔ تو وہ اچھا نظام بھی بنالیں گے اور نظام چلانا بھی سیکھ لیں گے۔اور اگر ان کی نیتوں میں فتور ہے تو پھر کوئی اچھے سے اچھا نظام اور اچھی سے اچھی تربیت بھی کسی کام نہیں آئے گی۔
 

صاد الف

محفلین
ایک نہایت غریب بال بچے دار شخص مفلوک الحالی سے تنگ آکر خودکشی کی کوشش کر رہاتھا کہ ملک الموت کو اس پر ترس آیا اور اس شخص سے کہا کہ تم کیوں اپنی جان سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ میں چار بچوں کا بے روزگار باپ ہوں۔ اپنے اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کو ایک دانہ نہیں۔ یہ زندگی کس کام کی جو ایک وقت کی روٹی کا بھی نہ بندوبست کر سکے لہذا آپ میری جان نکالیں۔ فرشتے نے اس سے کہا کہ تم خودکشی نہ کرو، میں تمھاری آمدنی کا ذریعہ بنا دوں گا۔ وہ یوں کہ تم ایک دواخانہ کھول کر حکیم بن جاؤ۔ جب کوئی مریض تمھارے پاس لایا جایا کرے تو میں اس وقت صرف تمھیں نظر آیا کروں گا اور اگر میں مریض کے پاؤں کے پاس کھڑا نظر آؤں تو سمجھ لینا کہ میں اس کی جان نکالنے آیا ہوں۔ تم ایسے موقع پر اس کے ورثاء سے کہہ دیا کرنا کہ اب مریض لاعلاج ہے ، یہ بچ نہ سکے گا۔ اور اگر میں مریض کے سر کے قریب نظر آؤں تو سمجھ لینا کہ اس کی موت ابھی دور ہے۔ ایسے موقع پر تم کوئی بھی سفوف یا شربت دے دینا تو اسے مکمل آرام آجایا کرے گا۔ دونوں صورتوں میں تمھارا خوب چرچا ہو گا کہ بڑا قابل حکیم ہے اور مریضوں کا تانتا بندھ جائے گالہذا واجبی سی فیس وصول کرکے بھی تمھاری خوب آمدنی ہوگی۔
اس غریب کے دل کو وہ بات لگی اور گھر واپس آکر اس نے حکمت کی دکان کھول لی اور فرشتے کی مدد سے اس نے خوب نام اور دولت کمائے۔ چند ہی ماہ میں وہ شہر کا امیر ترین شخص شمار ہونے لگا۔آخر کار ہر ایک کی موت کا وقت متعین ہے۔ چند سال بعد، ایک دن حکیم اپنے بیوی بچوں کے قریب ہی لیٹا آرام کر رہا تھا کہ ملک الموت اس کی جان قبض کرنے کو آیا۔ حکیم کی نظر جونہی اپنے پاؤں کی جانب پڑی تو فرشتہ دکھائی دیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کی تو جان جانے والی ہے۔ اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے نہایت پھرتی سے سمت یوں تبدیل کی کہ سر کی جانب پاؤں اور پاؤں کی طرف سر کر لیا۔ فرشتہ ایک دفعہ پھر اس کے پاؤں کے قریب ہو گیا لہذا حکیم نے اسی پھرتی سے سمت بدلی کرلی۔ جناب اسی طرح یہ سلسلہ چل نکلا۔ چونکہ اہل خانہ کو تو فرشتہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن وہ حکیم کو بار بار تیزی سے سمت بدلتا دیکھ کر سمجھے کہ یہ پاگل ہوگیا ہے۔ انھوں نے اسے پکڑ کر رکھنے کی کافی کوشش کی مگر حکیم کو تو جان کے لالے پڑے تھے لہذا وہ گھر والوں کے قابو نہیں آرہا تھا۔ اس پر اہل خانہ نے ہمسایوں کی مدد سے اسے چارپائی پر مضبوطی سے باندھ دیا اور آخر کار وہ شخص اپنوں کے ہاتھوں ہی جان سے گیا۔
پوشیدہ سبق: کسی پہ گزرتی کیفیت، اس کے حالات اور مسائل کی گہرائی جانے بغیر اندھا دھند مدد کرنا اس کے لئے نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔
 
ایک نہایت غریب بال بچے دار شخص مفلوک الحالی سے تنگ آکر خودکشی کی کوشش کر رہاتھا کہ ملک الموت کو اس پر ترس آیا اور اس شخص سے کہا کہ تم کیوں اپنی جان سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ میں چار بچوں کا بے روزگار باپ ہوں۔ اپنے اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کو ایک دانہ نہیں۔ یہ زندگی کس کام کی جو ایک وقت کی روٹی کا بھی نہ بندوبست کر سکے لہذا آپ میری جان نکالیں۔ فرشتے نے اس سے کہا کہ تم خودکشی نہ کرو، میں تمھاری آمدنی کا ذریعہ بنا دوں گا۔ وہ یوں کہ تم ایک دواخانہ کھول کر حکیم بن جاؤ۔ جب کوئی مریض تمھارے پاس لایا جایا کرے تو میں اس وقت صرف تمھیں نظر آیا کروں گا اور اگر میں مریض کے پاؤں کے پاس کھڑا نظر آؤں تو سمجھ لینا کہ میں اس کی جان نکالنے آیا ہوں۔ تم ایسے موقع پر اس کے ورثاء سے کہہ دیا کرنا کہ اب مریض لاعلاج ہے ، یہ بچ نہ سکے گا۔ اور اگر میں مریض کے سر کے قریب نظر آؤں تو سمجھ لینا کہ اس کی موت ابھی دور ہے۔ ایسے موقع پر تم کوئی بھی سفوف یا شربت دے دینا تو اسے مکمل آرام آجایا کرے گا۔ دونوں صورتوں میں تمھارا خوب چرچا ہو گا کہ بڑا قابل حکیم ہے اور مریضوں کا تانتا بندھ جائے گالہذا واجبی سی فیس وصول کرکے بھی تمھاری خوب آمدنی ہوگی۔
اس غریب کے دل کو وہ بات لگی اور گھر واپس آکر اس نے حکمت کی دکان کھول لی اور فرشتے کی مدد سے اس نے خوب نام اور دولت کمائے۔ چند ہی ماہ میں وہ شہر کا امیر ترین شخص شمار ہونے لگا۔آخر کار ہر ایک کی موت کا وقت متعین ہے۔ چند سال بعد، ایک دن حکیم اپنے بیوی بچوں کے قریب ہی لیٹا آرام کر رہا تھا کہ ملک الموت اس کی جان قبض کرنے کو آیا۔ حکیم کی نظر جونہی اپنے پاؤں کی جانب پڑی تو فرشتہ دکھائی دیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کی تو جان جانے والی ہے۔ اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے نہایت پھرتی سے سمت یوں تبدیل کی کہ سر کی جانب پاؤں اور پاؤں کی طرف سر کر لیا۔ فرشتہ ایک دفعہ پھر اس کے پاؤں کے قریب ہو گیا لہذا حکیم نے اسی پھرتی سے سمت بدلی کرلی۔ جناب اسی طرح یہ سلسلہ چل نکلا۔ چونکہ اہل خانہ کو تو فرشتہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن وہ حکیم کو بار بار تیزی سے سمت بدلتا دیکھ کر سمجھے کہ یہ پاگل ہوگیا ہے۔ انھوں نے اسے پکڑ کر رکھنے کی کافی کوشش کی مگر حکیم کو تو جان کے لالے پڑے تھے لہذا وہ گھر والوں کے قابو نہیں آرہا تھا۔ اس پر اہل خانہ نے ہمسایوں کی مدد سے اسے چارپائی پر مضبوطی سے باندھ دیا اور آخر کار وہ شخص اپنوں کے ہاتھوں ہی جان سے گیا۔
پوشیدہ سبق: کسی پہ گزرتی کیفیت، اس کے حالات اور مسائل کی گہرائی جانے بغیر اندھا دھند مدد کرنا اس کے لئے نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔
درست فرمایا آپ نے۔
اس کی عام سی مثال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایک عمارت ہے جس کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔ اصل مسئلہ جانے بغیراگر حل سوچ لیا جائے کہ اس کو صرف رنگ روغن کرواکے رہنے کے قابل بنایاجا سکتاہے جان لیوا قسم کی بے وقوفی ہے۔ سطحی سوچنے والے اکثرمسائل کا حل ایسے ہی نکالتے ہیں۔
 

صاد الف

محفلین
درست فرمایا آپ نے۔
اس کی عام سی مثال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایک عمارت ہے جس کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔ اصل مسئلہ جانے بغیراگر حل سوچ لیا جائے کہ اس کو صرف رنگ روغن کرواکے رہنے کے قابل بنایاجا سکتاہے جان لیوا قسم کی بے وقوفی ہے۔ سطحی سوچنے والے اکثرمسائل کا حل ایسے ہی نکالتے ہیں۔
متفق علیہ ❤️
 
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
ایک ڈاکیا ایک چھوٹے سےگاؤں میں بہت دیانتداری سے ڈاک تقسیم کرتا تھا۔بڑی محنت سے وہ تمام ڈاک وقت پرلوگوں تک پہنچاتا تھا۔ گاؤں کی آبادی بڑھی تو محکمہ ڈاک نے اسے سائیکل لے کر دے دی اور ڈاک کی تقسیم وقت پر ہوتی رہی۔ پھر گاؤں کی آبادی مزید بڑھی اور وہ ایک چھوٹے سے شہر میں تبدیل ہوگیاتو محکمے نے ڈاکیے کو ایک موٹر سائیکل لے کر دے دی۔ اور اس طرح ہر بندے کو وقت پر ڈاک ملتی رہی۔

ایک دوسرے گاؤں میں بھی ایک ڈاکیا ڈاک تقسیم کرتا تھا لیکن اپنا فرض دیانتداری سے ادا نہیں کرتا تھا۔لوگوں کو ڈاک بروقت نہیں ملتی تھی ۔ محکمے نے اسے سائیکل لے کر دے دی تاکہ ڈاکیا آسانی سے بر وقت ڈاک پہنچا سکے۔ لیکن کبھی سائیکل پنکچر ہو جاتی کبھی اس کا کوئی پرزہ خراب ہو جاتا اور اس طرح ڈاک کا نظام نہ صرف خراب رہا بلکہ محکمے کو سائیکل کی مرمت کے لیے پیسے بھی ادا کرنے پڑتے تھے۔اسی ڈاکیے کو محکمے نے سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل لے کر دے دی۔ لیکن ڈاک کی تقسیم کا نظام پھر بھی ٹھیک نہ ہوسکا ۔ موٹر سائیکل خراب ہونے کے بہانے بھی چلتے رہے اور مرمت پر پہلے سے بھی زیادہ خرچ آنے لگا۔
نتیجہ:۔
ڈاکیے کو ایک محکمہ چلانے والے یا ایک ملک چلانے والے تصور کرلیں اور سائیکل اور موٹر سائیکل کو جدید ٹیکنالوجی تصور کرلیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر نیت ٹھیک نہیں تو جدید سے جدید ٹیکنالوجی بھی لے آئیں تو صرف خرچ بڑھاکر ملک یا محکمے کو مزید نقصان ہی پہنچائیں گے فائدہ نہیں ہوگا۔
 
کسی ترقی یافتہ ملک میں ٹریفک کو سپیڈلمٹس کےاندر رہ کر چلانے کو فروغ دینے کے لیے ٹریفک کے محکمے نے لاٹری سسٹم متعارف کروایا کہ سپیڈ لمٹ میں رہ کر گاڑی چلانے والے کو ٹوکن دیا جائے گا اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے جیتنے والے کو انعام دیا جائے گا۔ یہ ترکیب کارگر ثابت ہوئی اور ٹریفک سپیڈ کنٹرول میں آگئی۔
اب یہی ترکیب کسی ایسے ملک میں آزمائیں جہاں لوگ دیانتدار نہ ہوں تو اوور سپیڈ والوں سے رشوت لے کر یا ان کی حیثیت سے ڈر کر انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ انعامات اپنے من پسند لوگوں میں بانٹ دیے جائیں گے اور ٹریفک کا نظام وہیں کا وہیں رہے گا۔ سوائے انعامات کا مزید خرچہ محکمے پر ڈالنے کے اور لاقانونیت کے مزید فروغ پانے کے۔
نتیجہ:-
لوگ ایماندار نہ ہوں تو بہتری کا کوئی بھی نظام بے اثر ہوگا۔
 
Top