پلک کی نوک پہ تارہ سا جھلملاتا ہے - مونا نجمی

کاشفی

محفلین
غزل
(مونا نجمی - کراچی پاکستان)

پلک کی نوک پہ تارہ سا جھلملاتا ہے
غموں کی بھیڑ میں یہ کون مسکراتا ہے

ہوا کے ساتھ جو اُڑتا ہے اُس سے کہہ دینا
کوئی خیال میں‌ خوشبو تری بساتا ہے

اُسے تلاش کرونگی تو ہار جاؤں گی
وہ خواب میں بھی کوئی خواب سا دکھاتا ہے

بڑا عبور ہے پتھریلے راستوں پہ اُسے
وہی تو ہاتھ پکڑ کر مجھے چلاتا ہے

فلک کے دوش پہ ٹھہرا ہوا یہ چاند نہیں
میں دیکھتی ہوں اُسے کوئی یاد آتا ہے

سنور اتی رہی مونا سراپا جس کا سدا
وہ شخص آج اُسی سے نظر چراتا ہے
 
Top