شیزان
لائبریرین
پشیمانِ آرزو
علاجِ درد دلِ بے قرار کر لیتے
تلافیء غم لیل و نہار کر لیتے
"ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے"
فسانہ غمِ فُرقت اُنہیں سناتے ہم
جو ہم پہ گزری ہے حالت اُنہیں دکھاتے ہم
اور اپنے ساتھ اُنہیں اشکبار کر لیتے
یہ کہتے”چاک گریباں کو دیکھئے تو سہی
ہمارے حالِ پریشاں کو دیکھئے تو سہی
اور اس بہانے انہیں ہم کنار کر لیتے
جفائے چرخ ِسِتم گار نے نہ دی مہلت
ہمارے بختِ جفا کار نے نہ دی مہلت
کہ ان کے قدموں پر ہم، جاں نِثار کر لیتے
امید ِوصل کبھی کامیاب ہو نہ سکی
دعائے نیم شبی مسُتجاب ہو نہ سکی
کہ دردِ دل سے انہیں بے قرار کر لیتے
الہٰی! موت کے کیا کیا مزے نہ لیتے ہم
کِسی کے زانو پر سر رکھ کے جان دیتے ہم
اور اپنے غم میں اُنہیں سوگوار کر لیتے
گر اُن کے "وعدے" کا کچھ بھی ہمیں یقیں ہوتا
تو دل میں درد، زباں پر گلہ نہیں ہوتا
غمِ فراق کو بھی خوش گوار کر لیتے
دلِ حزیں کو ہمیشہ یہ آرزُو ہی رہی
نگاہِ شوق کو ہر دم یہ جستجُو ہی رہی
پرستش ِرُخِ رنگیں بہار کر لیتے
گر ابتدائے محبت میں موت آ جاتی
سکونِ خواب ِعدم کا مزہ چکھا جاتی
تو زندگی کو نہ یوں ناگوار کر لیتے
ستم ہے اُس بت زہرہ جبیں کو کھو بیٹھے
اور اپنی زیست سے ہم نا اُمید ہو بیٹھے
اُسی پہ کاش ہم اِس کو نثار کر لیتے
"نشے" میں قطب شمالی کے پار اُتر جاتے
طلسمِ ماہ و ثرّیا سے بھی گزر جاتے
گر ایک بار بھی ہم اُن کو پیار کر لیتے
حباب عالمِ فانی کو پھوڑ دیتے ہم
حصار ِچرخ بریں کو بھی توڑ دیتے ہم
اگر کبھی ہم اُنہیں ہم کنار کر لیتے
خدائی بھرمیں کِسی شےکی جستجُوہی نہ تھی
سوائے اس کے کچھ اختر کی آرزُو ہی نہ تھی
"ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے"
اختر شیرانی
علاجِ درد دلِ بے قرار کر لیتے
تلافیء غم لیل و نہار کر لیتے
"ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے"
فسانہ غمِ فُرقت اُنہیں سناتے ہم
جو ہم پہ گزری ہے حالت اُنہیں دکھاتے ہم
اور اپنے ساتھ اُنہیں اشکبار کر لیتے
یہ کہتے”چاک گریباں کو دیکھئے تو سہی
ہمارے حالِ پریشاں کو دیکھئے تو سہی
اور اس بہانے انہیں ہم کنار کر لیتے
جفائے چرخ ِسِتم گار نے نہ دی مہلت
ہمارے بختِ جفا کار نے نہ دی مہلت
کہ ان کے قدموں پر ہم، جاں نِثار کر لیتے
امید ِوصل کبھی کامیاب ہو نہ سکی
دعائے نیم شبی مسُتجاب ہو نہ سکی
کہ دردِ دل سے انہیں بے قرار کر لیتے
الہٰی! موت کے کیا کیا مزے نہ لیتے ہم
کِسی کے زانو پر سر رکھ کے جان دیتے ہم
اور اپنے غم میں اُنہیں سوگوار کر لیتے
گر اُن کے "وعدے" کا کچھ بھی ہمیں یقیں ہوتا
تو دل میں درد، زباں پر گلہ نہیں ہوتا
غمِ فراق کو بھی خوش گوار کر لیتے
دلِ حزیں کو ہمیشہ یہ آرزُو ہی رہی
نگاہِ شوق کو ہر دم یہ جستجُو ہی رہی
پرستش ِرُخِ رنگیں بہار کر لیتے
گر ابتدائے محبت میں موت آ جاتی
سکونِ خواب ِعدم کا مزہ چکھا جاتی
تو زندگی کو نہ یوں ناگوار کر لیتے
ستم ہے اُس بت زہرہ جبیں کو کھو بیٹھے
اور اپنی زیست سے ہم نا اُمید ہو بیٹھے
اُسی پہ کاش ہم اِس کو نثار کر لیتے
"نشے" میں قطب شمالی کے پار اُتر جاتے
طلسمِ ماہ و ثرّیا سے بھی گزر جاتے
گر ایک بار بھی ہم اُن کو پیار کر لیتے
حباب عالمِ فانی کو پھوڑ دیتے ہم
حصار ِچرخ بریں کو بھی توڑ دیتے ہم
اگر کبھی ہم اُنہیں ہم کنار کر لیتے
خدائی بھرمیں کِسی شےکی جستجُوہی نہ تھی
سوائے اس کے کچھ اختر کی آرزُو ہی نہ تھی
"ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے"
اختر شیرانی