پشتو کے لازوال شاعر عبدالغنی خان کی نظم "پہ چپو چپو مستی بہ دہ نسیم چپو راوڑہ" کا ترجمہ ۔

میں ہوں مصور !!!
سورج نے صبح کے وقت زہرہ ستارے کودیکھ کر "ان للہ" پڑھا ، وقت کے ہاتھی نے کروٹ بدلی اور اس کروٹ کے ساتھ ہی اسکے فربہ جسم کے نیچے رات کی لاش تہہ بن کر بچھ گئی ۔ کسی نےاپنی اس رات کوچیخوں سے مزین رکھا اور کسی نے خاموشی سے اسکی سطریں بھریں۔
میں مصور !!!!!
میں نے یہ رات قوس قزح پر بیٹھ کر گزاری ، رنگوں کی کمان پر بیٹھے میں مصوری کرتا رہا ۔ تصویر بنانے کو میرے پاس دو ہی چیزیں تھیں۔ پہلی چیز میرا ہوش تھا کہ کہ میں ممکنات تک ہی محدود رہنے کا خواہشمند تھا، دوسری چیز رنگ تھی جس کو میں اپنی پشت پر پھیلی دھنک کی دھاریوں سے نوچ نوچ کر دیوار پر دے مارتاتھا۔ایک شیریں احساس کی تخلیق کر کے جونہی اس پر رنگ اٹھا کر مارے تو یوں لگا جیسے رنگوں کی شکستگی اس پیکر احساس کی خماری کیفیت کا سامان ہو گئی ہو ۔
پھر بنائی تصویر !!!!!!
ابتدا کس سے کرتا؟؟ لیلی کی سسکیاں بناتا!! شیرین کی حسرت و یاس بکھیرتا!! منصور کی جھلک عالم پر عیاں کرتا !!! انکی تصویر بنانے تو عاجز تھا کیونکہ میرا نقش مجھ سے تخلیق پانے کے بعد مجھے ہی گھورنے لگتا ۔ کون لیلی و شیریں کی نگاہوں کا سامنا کرے اور کون منصور سے داستان انا الحق سنے ۔میرے تخلیق کے شہ پارے وجود پانے کے بعد میرے ہی ارمان و تاثرات اپنے رخ پر سجا رکھتے ہیں ۔ میرے لئے ا ن عالیوں کے رخ پر اپنے عاصی پن کی جھلک بھی گوارا نہ تھی۔
تو پھر کیا کرتا!!!
بغیر سوچے سمجھے ابتدا کی ، صحرا میں اگے اکیلے تنھا پھول کے رخسار سے رنگ مستعار لے کر جو بکھیرا تو گال نمایاں ہوئے ، رات کے آسمان سے تاریکی خود ہی زلف میں اتر آئی قندھاری انار کا رنگ لبوں پر خوب ہی جچ رہا تھا، سیپ میں پڑے بیش قیمت موتی پر دانتوں کا گمان ہوتا تھا ، اور جب آنکھوں کی باری آئی تو۔۔۔ تو غیر ارادی طور پر دو جھنڈے سامنے آئے ، چنگیز خان کے وحشت ناک لال جھنڈے سے سرخی اور تیمور کےدہشت خیزکالے جھنڈے سے سیاہی چھین کر آنکھوں میں سمونے سے ایسا ہوا گویا لال انگاروں کے سمندر میں سیاہ رنگ کی طشتری تیر رہی ہو۔آنکھیں نہ تھی قہر کا ایسا پرکالہ تھا جو مصور کے ماتھے پر شکن کا موجب بنتا جا رہا تھا۔ اس رنگوں کے دیوان خانے سے دیوانی کا عکس ابھرا۔ جس پر ساحرہ کا گمان تھا وہ رنگ بھری پری زاد نکلی۔
نہیں نہیں!!!!
حسین تو ہے پر لیلی نہیں ہو سکتی کہ اس میں عاجزی تھی۔ ہیر بھی تو نہیں ہے کہ وہ رکھ رکھاوسے عاری تھی ۔فرہاد کی شیرین بھی نہیں کہ وہ راز چھپانے میں بے مثل تھی ۔
تو کیا تھی!!!!!
حسن بتاوں؟؟سمجھو کسی شاعر کے خوابوں میں آنے والی حسینائیں اسکی داسیاں ہوں ۔
شوخی دکھاوں؟؟ اپنے مصور کے قلم کو پتلی انگلیوں سے روک دے تاکہ پائل مکمل نہ ہو پائے، ادھوری ہی رہے۔
مستی سجھاوں؟؟اپنی کلائی پر انگیلوں کو یوں رقصاں کرے گویا پیانو بجا رہی ہو اور اس دوران نظر کلائی پر رکھتے ہوئے کن انکھیوں سے مصور کو دیکھتی رہے۔
اور بانکپن کیسا؟؟ آہستگی اور خاموشی سے بنا آواز کئے ست رنگی پھولوں کی کیاری کی طرف جائے اورتتلی کو اچانک اڑا دے ، اڑتی تتلی کے پر جب گلاب کے رنگوں کو چرا لے جا رہے ہوں تو جنابہ اس لحظہ چھلانگیں لگاتے ہوئے تالیں بجائے ۔
لیکن یہ کیا!!!!!!
وجود مکمل ہوتے ہی اس نے دائیں بائیں دیکھا اور حیرت و پریشانی کے ملے جلے تاثرات اس کے چہرے پر آویزاں ہوئے ، گمان گزرتا تھا جیسے اس نے کچھ گم کر دیا ہو۔کچھ بہت قیمتی، کوئی انمول چیز۔ ۔ اس کے سراپے پر میں نے نگاہ ڈالی۔اسکی ہر حرکت ہر جنبش اور ہر ادا سے دیوانہ وار جوانی ٹپک رہی تھی ، مشک کا چھلکتا پیمانہ تھا جو حیرانی کے عالم میں ساقی کو ترس رہا تھا۔
پوچھنے لگی !!!!!
اے لال رنگی ہاتھوں والے مصور، میں کون ہوں؟؟ مجھے دیکھو مجھے بتاو میں کیا ہوں؟؟ "تم میرا بنایا گیا عظیم ترین شہ کار ہو"۔ میں نے کہا، " میری انگلیوں میں موجودجادو کا عریاں ترین ثبو ت ہو "، میں پھٹی آنکھوں سے دیکھتا رہا ۔ " تم حسن کی انتہاوں پر بیٹھی رنگین سلطنت کی شہزادی ہو "۔
کیا کہا شہزادی!!!!
نہیں نہیں مجھے یاد آیا میں شاہوں کی داسی ہوں ، کمتر اور گھٹیا مخلوق ۔۔ میرا اپنا کوئی وجود نہیں ، میری اپنی کوئی خواہش نہیں ، اپنا کوئی اختیار نہیں ۔
کیا بات کرتی ہو!!!!
تم حسن کی بیٹی ہو ، خوبصورتی کے جہان پر تمہاری ایسی حکومت ہے کہ تمہاری ایک پریشان نظر سے ہزار تخت الٹ جائیں ،تاجور گدا ہوجائیں ، سلاطین تاج سے دستبردار ہو جائیں ، امرا خاک چاٹنے لگیں ، صوفی عبا گرا دیں ، شاعر قلم توڑ دیں ،منصف انصاف کرنا بند کر دیں ، بنیا حساب چھوڑ دے اور ماہی گیر بھرا جال بیچ سمندر چھوڑ آئیں ۔ تم خود پر نظر کرو ۔ دیکھو تمہارا وجود میری نظروں کے سامنے میری آشفتگی و سراسیمگی کی تضحیک کر رہا ہے ۔
تم نے بھلا ایسا سوچا کیوں؟؟؟؟
تمہارا انداز بتاتا ہے کہ مجھ ہی سے کوئی غلطی ہوئی ہے ، میرے رنگوں میں شائد گندے خون کی آمیزش ہے تبھی نغمہ بہار میں خزاں کی دھن نے سر اٹھایا ، میں شائد "زمہریر" کو ٹھنڈا سمجھ بیٹھا تھا ۔تم نے خود کو" داسی" کیوں کہا ، تم داسی نہیں ہو ، کمتر نہیں ہو ، گھٹیا مخلوق نہیں ہو۔ میرے آئینہ گفتار میں جھانک کے دیکھو ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں تم کیا ہو ۔
تم عورت ہو!!!!!!!!
تمہارے لب خواہشوں کے بیان اور مستی کے اظہار میں بے مثال ہیں ۔تمہارے الفاظ وہ چھپا مے خانہ ہیں جسکے ہر قطرے میں طوفان بپا کرنے کی طاقت ہے۔ تمہاری دی ہوئی تحریک نے کبھی پہاڑوں سے جوئے شیر والا معاملہ کیا ، تو کہیں صحرا نوردی سہل ہوئی ۔تم میں ابھی جان باقی ہے تمہارے وجود نے ابھی اور معجزے دکھانے ہیں ۔ مانا کہ مجھ مرد میں مادیت کافی پھیل چکی لیکن ابھی میں تمہارے احساس سےبالکل تہی دست نہیں ہوا ۔تمہاری خزاں ابھی دور ہے۔اپنے وجود سے غم کو اکھاڑ پھینکو کہ یہی ایک رنگ تم میں اضافی ہے ۔ اپنی خوشبو سے عالم کو مہکانا شروع کرو کہ اب تم مزید نوکرانی نہیں ہو۔فرسودہ روایتیں دم توڑ چکیں ، تمہارا وجود کھڑا پانی نہیں ہے ، تم دریا کی مانند ہو ، اپنے دو کناروں کے بیچ آزاد ، موج دار، طلاطم خیز اور پر پیچ ۔
تم نے ہمیں کیا دیا!!!!!!!
ہر روپ میں تم نے وفا دی ، ہر مقام پر تم نے محبت بانٹی ، ہر شکست پر تم نے امید پیدا کی ، ہر غم پر تم نے ڈھارس بندھوائی ۔ دوسروں کی زندگی میں رنگ بھرنے کے لئے ہر دم تم نے اپنے ارمانوں کو بے رنگ کیا ۔ دوسروں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے تم نے ہمہ وقت اپنی خواہشوں کو زیر خنجر رکھا۔ اب بس کرو۔ پیروں سے اٹھ کر پہلو میں آبیٹھو۔ میں خود بھی تمہاری کسی ارمان کی پیدائش ہوں ۔ میں خود ٹھکرایا ہوا اور جلایا ہوا ہوں تبھی تمہارے سوز کو محسوس کر پایا ہوں ۔ تمہاری طرح میں بھی کسی کندھے کی تلاش میں ہوں کہ جس پر سر رکھ کر اپنے اندر کے تمام بوجھ کو ہلکا کر سکوں ۔
تم نے جب یہ سنا!!!!!!
جب تم سن چکی تو میری طرف نگاہ کی ۔ ہاں !تمہاری آنکھیں پر نم تھیں ۔ پانی کی لہر کی طرح تم نے ہاتھ بڑھا کر فرش سے کالی چادر اٹھائی اور خاموشی سے چلی جانے لگی ۔
تمہاری امید بندھ چکی تھی ۔ تم اسی امید کے ستارے کے تعاقب میں چلنے لگی ، یہی ستارہ تمہیں منزل دکھانے والا تھا ۔ تمہیں اپنے وقار کی تلاش تھی ۔
میں جانتا تھا کہ تمہاری کھوج تپتے صحرا میں گلاب کی تلاش کی طرح ہے ، ہر موڑ پر سراب نے تمہاری تلاش کو روکنا ہے ، اور اس صحرا کی ریت نے تمہاری رفتار کم کرنی ہے ۔
اور میں مصور!!!!!!
تم اپنے وقار کی تلاش میں نکل پڑی اور مجھے اس چلنے پر بھی رقص کا گمان ہوتا تھا ، تمہارے نظروں سے اوجھل ہو جانے کے بعد مجھے ڈھونڈنے سے بھی نہ سوز ملا نہ حسن ۔۔ نہ تحریک ملی نہ غوغائے، نہ ہی غیر ساکنیت ۔
جاتے جاتےتم میرے قلب میں نیا درد اور نیا ارمان چھوڑ گئی اور یہ درد ہی وہی چھید تھا وہی شگاف تھاجس سے روشنی کی کرنیں داخل ہوتی ہیں ۔ اور دیواروں کو منور کرتیں ہیں ۔
پھر مصور نے ہوش کی دنیا کو خیر باد کہا اور مدہوشی کی دنیا میں آ گیا جسے دنیا والے دنیائے رنگ و بو اور عالم آب و وگل کہتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پشتو کے لازوال شاعر عبدالغنی خان کی نظم "پہ چپو چپو مستی بہ دہ نسیم چپو راوڑہ" کا مکمل ترجمہ پیش ہے ۔
عبدالغنی خان خود کو "لیونے فلسفی ،پاگل فلسفی" کہتے ہیں۔ اور جو حضرات ان کے کلام کو سمجھ پاتے ہیں وہ انہیں "عبدالغنی خان رحمتہ اللہ علیہ " سے یاد کرتے ہیں۔ پہلے یہ ترجمہ دو حصوں میں فیس بک پر پوسٹ ہو چکا ہے ۔ لنک زیل میں موجود ہے ۔
پہلا حصہ :
https://www.facebook.com/photo.php?...5&set=a.1574572414453.81085.1539860410&type=3
دوسرا حصہ :
https://www.facebook.com/photo.php?...5&set=a.1574572414453.81085.1539860410&type=3
 
Top