پشاورمیں پولیو کے قطرے پینے سے بچوں کی مبینہ طور پر حالت غیر، بنیادی صحت مرکز نذرآتش

جاسم محمد

محفلین
اس کے علاوہ بندوق کے زور پر اسلام نافذ نہیں کیا جاسکتا جبکہ پولیو پلائی جارہی ہے۔ پولیو پر ڈاکٹر اینڈریو مولڈن جو امریکی سائنسدان و ڈاکٹر تھے 2009 میں انہوں نے اپنی تحقیق میں یہ کہا کہ پولیو ویکسینیشن ہی پولیو کے پھیلاو کا سبب ہے ۔ اس میں مرکری کی مقدار ہر قطرے کیساتھ مزید خرابی پیدا کرتی ہے اور یہ کہ 6 ماہ سے کم عمر کے بچوں کے لئے یہ زہر ہے۔ ڈاکٹر اینڈریو مولڈن کی یہ کتاب آن لائن دستیاب ہے ۔ ڈاکٹر اینڈریو مولڈن کو اس پاداش میں قتل کیا جاچکا ہے۔
پوری دنیا میں انہی ویکسین کی بدولت پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ پاکستان ان چنیدہ ممالک میں شامل ہے جہاں اس قسم کے "تحفظات" کی بدولت آج بھی یہ وائرس زندہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اغیار کی کم از کم یہ سازش تو ناکام ٹہری۔
:)
90 کی دہائی کے سرکاری بہبود آبادی پروگرامز پر بھی اسی قسم کے لایعنی اعتراضات اٹھائے گئے تھے ۔ آج ملک کی آبادی الحمدللہ شاد باد ہے :)
 

سید عمران

محفلین
90 کی دہائی کے سرکاری بہبود آبادی پروگرامز پر بھی اسی قسم کے لایعنی اعتراضات اٹھائے گئے تھے ۔ آج ملک کی آبادی الحمدللہ شاد باد ہے :)
اس لیے شاد باد ہیں کیونکہ اس پروگرام پر عمل نہیں کیا...
ان کا یہ پروگرام خود انہی پر الٹ گیا...
اس لیے آج وہ برباد ہیں!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اغیار کی کم از کم یہ سازش تو ناکام ٹہری۔
:)
یہ تو پولیو ویکسین سے قبل کی نسل ہے...
اب پولیو ویکسین کے بعد کی نسل کی آباد کاری دیکھتے ہیں کیا گل کھلاتی ہے!!!
 

آصف اثر

معطل
پولیو، ڈیٹا جمع کرنے اور اس پر نظر رکھنے کا ایک منظم طریقہ کار ہے۔ ڈیٹا جمع کرنے سے مراد جاسوسی ہے۔ جس کے ذریعے نفوس و خاندانوں کی نقل و حرکت، افراد کی تعداد، محلوں، مکانات میں شادی شدہ، غیر شادی شدہ افراد پر نظر اور لڑکوں لڑکیوں کا تناسب معلوم کرنا شامل ہے۔ ۔یہ وائرس پوری دنیا میں س صرف اور صرف ان تین مسلمان ممالک میں "بتایا" جاتا ہے جو مغربی خفیہ ایجنسیوں، این جی اوز اور اداروں کی دخل اندازیوں سے شدید متاثر ہیں۔ اس تناظر میں پولیو کا پس منظر سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
جو افراد پولیو کے فیلڈ ورکر کے طور پر یا ڈیٹا سنٹروں میں ملازمت کررہے ہیں ان سے ملنے والی معلومات اور فارمز کے مطابق جو معلومات اکھٹی کی جارہی ہے وہ ہوش ربا ہیں۔ اتنی معلومات حاصل کرنا صرف اس طرح کے منظم طریقہ کار سے ہی ممکن ہے۔ اتنی زیادہ معلومات پاکستان کی کسی بھی ایجنسی کے پاس ہونا محال ہے۔ مرے پہ سو درے کے مصداق یہ تمام انفارمیشن روزانہ، اور ہفتہ وار بنیادوں پر بیرون ملک بھیجی جارہی ہیں جو لمحۂ فکریہ ہے۔
قانونا اور اصولا جس بیماری کا بھی علاج مقصود ہو، اس کے لیے فرد یا گھر کے سربراہ کی اجازت ضروری ہے۔ لیکن پولیو میں اس کے برعکس کیاجاتا ہے۔ بلکہ اب بات زبردستی پلانے اور گرفتاریوں تک پہنچادی گئی ہے۔ جو سراسر غیرانسانی اور مجرمانہ طریقہ ہے۔ اس ہتک آمیز رویے کے ساتھ اب دس سال تک کے بچوں کو بھی نہیں بخشا جارہا۔ جو مکمل طور پر غلط اور خطرناک ہے۔ کیوں کہ دس سال کی عمر میں اسے پلانا غیرمنطقی اور یقینی طور پر مشکوک ہے۔ جس پر ملک بھر کے علمائے کرام، اہل دانش اور والدین کو فکرمند ہوکر ری ایکشن لینا ہوگا۔
پاکستان بھر کے مفتیان اور علما سے بھی اس طرح دستخط لیے گئے کہ کسی نے بھی ریاستی اثر رسوخ سے آزاد مستند ماہرین، معتبر ریسرچ لیبارٹریوں اور ریسرچ مراکز سے اس کی تصدیق نہیں کی۔ اگر کسی نے کیا بھی ہے تو لاکھوں کروڑوں بوتلوں میں سے صرف ایک دو کو محض ایک بار بھجوا کر فتویٰ جاری کردیا۔ جو کہ ناقابل اعتبار ہے۔ حالانکہ ہر سال کروڑوں بوتلیں ان مغربی ممالک سے سپلائی کی جارہی ہیں جہاں حرام و حلال کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ بلکہ حرام اجزا کو ترجیح دی جاتی ہے۔
صرف جامعۃ الرشید نے اس شرط پر فتویٰ دیا ہے کہ کسی کو بھی بچوں کو پولیو قطرے پلانے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
پہلی قوم دیکھی جو آبادی کنٹرول سے باہر ہونے پر فخر کر رہی ہے :)
الحمدللہ۔
آبادی کنٹرول سے باہر ہونے کا راگ الاپنے کے بجائے نااہل حکمرانوں کا محاسبہ کیا جائے۔ پولیو کی منتقلی کا سب سے آسان راستہ گندگی اور غلاظت ہے۔ اب ملک میں صفائی ستھرائی کا حال دیکھیں۔ ان ممی ڈیڈیوں کو عوام سے سروکار نہیں ہوتا۔ بچپن ہی سے ان کا الگ مائنڈ سیٹ بنایا جاتا ہے، جس میں محل سے باہر کے عوام کو گدھے، الو احمق اور کمی دکھایا جاتا یے۔ رکشوں بسوں میں ایک دوبار گھماپھرا کر جھلک دکھائی جاتی ہے کہ دیکھو ان جانوروں کو۔ یہ سوچ آپ کے یورپی بادشاہوں کا پروردہ ہے۔ جب تک اس جاہل اور ٹٹو لابی سے چھٹکارا نہیں پایا جاتا یہ قوم تباہ رہے گی۔
 

ابوعبید

محفلین
•اتنی بیماریاں ہیں، ہیپاٹائیٹس، شوگر، کینسر۔۔۔آخر سارا زور پولیو پر ہی کیوں؟

-کیونکہ پولیو کی ویکسین موجود ہے جبکہ شوگر کی موجود نہیں۔ ہیپاٹائٹس بی کی موجود ہے وہ پہلے ہی بچوں کے شیڈول میں شامل ہے۔ جبکہ ہیپاٹائٹس سی کی نہیں، نناوے فیصد کینسروں کی بھی نہیں۔ جس جس بیماری کی ویکسین موجود ہو اور رزلٹ اچھا ہو تو کوشش کر کےاس بیماری کو دنیا سے بالکل ختم کیا جا سکتا ہے (جیسے چیچک پوری طرح ختم کر دی گئی ہے)۔ پولیو صرف تین ملکوں (پاکستان افغانستان اور نائیجیریا) میں باقی ہے، اس لیے پولیو پر زور دیا جا رہا ہے کہ یہاں سے ختم ہو گئی تو دنیا سے مکمل صفایا ہو جائے گا اس کا۔

•پولیو کی ویکسین مفت کیوں ہے؟ گورا آخر ہمارا دشمن ہو کر بھی اتنا مہربان کیوں ہے ہم پر؟

-گورا آپ پر مہربان نہیں ہے۔ اس نے اپنے خطہ زمین سے بڑی کوشش اور بہت سرمایہ لگا کر اس بیماری کو صاف کیا ہے۔ جب تک دنیا میں ایک بھی کیس موجود ہے تب تک امکان موجود ہے کہ دنیا میں پولیو کی وبا دوبارہ پھوٹ سکتی ہے اور لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ گورا بس اپنا لگا ہوا سرمایہ اور سر توڑ کوشش ضائع ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اسے اپنی نسلیں عزیز ہیں، وہ اپنا مستقبل (یعنی بچے) اپاہج ہونے کا خیال بھی ذہن میں نہیں لا سکتا۔

ویسے بھی پاکستانی قوم زیادہ تر بھیک اور قرضے پر چل رہی ہے۔ بالفرض گورا مفت یا خیرات میں بھی آپ کو کچھ دے رہا ہو تو آپ کی غیرت جاگنے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیو کی ویکسین پر اگر خودداری کا بخار چڑھ رہا ہے تو آپ ویکسین بنانے پر ہونے والی سرمایہ کاری اپنے بجٹ سے کر کے دکھا دیں۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان سے پولیو کے خاتمے کا فائدہ صرف گورے کا ہے، ہمیں اپنا بجٹ اس پر “ضائع” نہیں کرنا چاہیے، اور یہ کہ چند ہزار پاکستانی بچوں کو پولیو ہو بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ “باقی بھی تو بیماریاں ہوتی ہی ہیں”۔۔۔تو آپ کو 2003 میں نائیجیریا میں تین صوبوں میں پولیو ویکسین کے بائیکاٹ کی کہانی پڑھنی چاہیے (پاکستان میں بھی اسی قسم کے بائیکاٹ کی فضا قائم ہو رہی ہے)۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے سینکڑوں بچے پولیو وائرس کا شکار بنے اور بیس 20 ممالک جہاں ماضی میں کامیاب کمپین سے پولیو وائرس نکال دیا گیا تھا وہاں بھی اس وائرس نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ یعنی ایک ملک کے چند صوبوں کی ڈھٹائی اور جہالت نے پوری دنیا کا نقصان کیا۔

•پولیو کی ویکسین ٹیسٹ کیوں نہیں ہوتی؟ اس کے نقصانات بارے عوام کو بتایا جائے۔ یہ بچوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔

-اگر یہ تولیدی صحت پر اثر انداز ہوتی تو اب تک نتائج نظر آ چکے ہوتے۔ پاکستانی قوم بہت اچھی رفتار سے بچے پیدا کر رہی ہے۔ ویکسین پیے ہوئے بھی بہت اچھا پرفارم کر رہے ہیں۔

یہی اورل OPV ویکسین دنیا کے زیادہ تر ممالک نے پولیو خاتمہ مہموں میں اپنے یہاں استعمال کی ہوئی ہے۔ یہ محفوظ ترین سمجھی جانے والی ویکسین ہے۔ باقی دنیا میں بھی نہ عوام بانجھ ہوئے، نہ اس کی وجہ سے HIV کی وبائیں پھیلیں۔ اب تک کے نتائج پر غور کریں تو نائجیریا افغانستان اور پاکستان ہی کے باشندوں کو لگتا ہے کہ ان میں کوئی خاص بات ہے جو ان کی نسل گورا ختم کرنا چاہتا ہے۔ ان ملکوں نے پچھلے تیس سالوں میں دنیا کو کیا دیا ہے اس پر تحقیق کریں تو ہنسی آ جائے گی کہ انسان کچھ خِطوں میں کتنے خوش فہم ہوتے ہیں۔

جہاں تک ٹیسٹ ہیں، تو ٹیسٹ کروانے سے کسی نے ہمیں روکا نہیں ہے۔ موجودہ ریسرچ کو بھی پڑھنے سے ہمیں کسی نے نہیں روکا۔ ہمیں بس سازشی تھیوریوں اور سنی سنائی افواہوں سے مزے آتے ہیں۔ کہنے کو میں کہہ دوں کہ پیناڈول یا انسولین بھی ٹیسٹ کروائیں اس میں فلاں فلاں جراثیم ہیں جو جسم کو فلاں ڈھمکاں نقصان پہنچا سکتے ہیں تو شاید اس بات کو بھی سننے والے پاکستانی بھائی بہنیں تسلیم کر لیں (کیونکہ بدقسمتی سے زوال زدہ قوموں کا way of life ہی جہالت اور سنی سنائی بات ہوتا ہے، تحقیق کی نہ صلاحیت ہوتی ہے نہ چاہت)۔

•لوگوں کو ویکسین سے انکار کی آزادی کیوں نہیں؟ جس کی مرضی وہ بچوں کو دے، باقیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔

-لوگوں کو ٹیکس دینے سے انکار کی آزادی کیوں نہیں؟ جب ریاست کے زیر انتظام آپ رہتے ہیں تو آپ کی آزادی پر حد متعین ہوتی ہے: جہاں دوسرے کا نقصان ہونے کا امکان ہو گا وہاں آپ آزاد نہ رہیں گے۔ ہر وہ بچہ جسے ویکسین نہیں پلائی گئی اس کا جسم پولیو کے چھپنے کی جگہ ہے۔ وہ دوسروں تک اس بیماری کو پہنچا سکتا ہے۔ ریاست نے صرف آپ کے حقوق ہی نہیں باقیوں کے بھی حقوق کا خیال رکھنا ہے۔

ڈاکٹر عزیر سرویا ۔
فیس بک سے منقول
 

ابوعبید

محفلین
میرے ذاتی خیال میں اگر کسی کو پولیو ویکسین پہ اس درجہ اعتراض ہے کہ پولیو ویکسین کی ضرورت ہی نہیں تو صرف یہ سوچ لے کہ اگر ملکی آبادی کے 0008 فیصد بچوں میں سے ایک اس کا اپنا بچہ معذور ہو تو کیا تب بھی وہ ویکسین کی مخالفت کرے گا ؟؟
آپ کو سرکاری وسائل پہ اعتراض ہے تو فارما کمپنیز کی بنی ہوئی ویکسین خریدیں اور بچوں کو پلائیں لیکن پلائیں ضرور ۔ اللہ نہ کرے کہ کسی بچے کو صرف اس لیے معذوری کے ساتھ پوری زندگی گزارنی پڑے کہ اس کے والد کا خیال تھا یا اس نے کسی سے سنا تھا کہ پولیو ویکسین ٹھیک نہیں ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
•اتنی بیماریاں ہیں، ہیپاٹائیٹس، شوگر، کینسر۔۔۔آخر سارا زور پولیو پر ہی کیوں؟

-کیونکہ پولیو کی ویکسین موجود ہے جبکہ شوگر کی موجود نہیں۔ ہیپاٹائٹس بی کی موجود ہے وہ پہلے ہی بچوں کے شیڈول میں شامل ہے۔ جبکہ ہیپاٹائٹس سی کی نہیں، نناوے فیصد کینسروں کی بھی نہیں۔ جس جس بیماری کی ویکسین موجود ہو اور رزلٹ اچھا ہو تو کوشش کر کےاس بیماری کو دنیا سے بالکل ختم کیا جا سکتا ہے (جیسے چیچک پوری طرح ختم کر دی گئی ہے)۔ پولیو صرف تین ملکوں (پاکستان افغانستان اور نائیجیریا) میں باقی ہے، اس لیے پولیو پر زور دیا جا رہا ہے کہ یہاں سے ختم ہو گئی تو دنیا سے مکمل صفایا ہو جائے گا اس کا۔

•پولیو کی ویکسین مفت کیوں ہے؟ گورا آخر ہمارا دشمن ہو کر بھی اتنا مہربان کیوں ہے ہم پر؟

-گورا آپ پر مہربان نہیں ہے۔ اس نے اپنے خطہ زمین سے بڑی کوشش اور بہت سرمایہ لگا کر اس بیماری کو صاف کیا ہے۔ جب تک دنیا میں ایک بھی کیس موجود ہے تب تک امکان موجود ہے کہ دنیا میں پولیو کی وبا دوبارہ پھوٹ سکتی ہے اور لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ گورا بس اپنا لگا ہوا سرمایہ اور سر توڑ کوشش ضائع ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اسے اپنی نسلیں عزیز ہیں، وہ اپنا مستقبل (یعنی بچے) اپاہج ہونے کا خیال بھی ذہن میں نہیں لا سکتا۔

ویسے بھی پاکستانی قوم زیادہ تر بھیک اور قرضے پر چل رہی ہے۔ بالفرض گورا مفت یا خیرات میں بھی آپ کو کچھ دے رہا ہو تو آپ کی غیرت جاگنے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیو کی ویکسین پر اگر خودداری کا بخار چڑھ رہا ہے تو آپ ویکسین بنانے پر ہونے والی سرمایہ کاری اپنے بجٹ سے کر کے دکھا دیں۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ پاکستان سے پولیو کے خاتمے کا فائدہ صرف گورے کا ہے، ہمیں اپنا بجٹ اس پر “ضائع” نہیں کرنا چاہیے، اور یہ کہ چند ہزار پاکستانی بچوں کو پولیو ہو بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ “باقی بھی تو بیماریاں ہوتی ہی ہیں”۔۔۔تو آپ کو 2003 میں نائیجیریا میں تین صوبوں میں پولیو ویکسین کے بائیکاٹ کی کہانی پڑھنی چاہیے (پاکستان میں بھی اسی قسم کے بائیکاٹ کی فضا قائم ہو رہی ہے)۔ اس بائیکاٹ کی وجہ سے سینکڑوں بچے پولیو وائرس کا شکار بنے اور بیس 20 ممالک جہاں ماضی میں کامیاب کمپین سے پولیو وائرس نکال دیا گیا تھا وہاں بھی اس وائرس نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ یعنی ایک ملک کے چند صوبوں کی ڈھٹائی اور جہالت نے پوری دنیا کا نقصان کیا۔

•پولیو کی ویکسین ٹیسٹ کیوں نہیں ہوتی؟ اس کے نقصانات بارے عوام کو بتایا جائے۔ یہ بچوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔

-اگر یہ تولیدی صحت پر اثر انداز ہوتی تو اب تک نتائج نظر آ چکے ہوتے۔ پاکستانی قوم بہت اچھی رفتار سے بچے پیدا کر رہی ہے۔ ویکسین پیے ہوئے بھی بہت اچھا پرفارم کر رہے ہیں۔

یہی اورل OPV ویکسین دنیا کے زیادہ تر ممالک نے پولیو خاتمہ مہموں میں اپنے یہاں استعمال کی ہوئی ہے۔ یہ محفوظ ترین سمجھی جانے والی ویکسین ہے۔ باقی دنیا میں بھی نہ عوام بانجھ ہوئے، نہ اس کی وجہ سے HIV کی وبائیں پھیلیں۔ اب تک کے نتائج پر غور کریں تو نائجیریا افغانستان اور پاکستان ہی کے باشندوں کو لگتا ہے کہ ان میں کوئی خاص بات ہے جو ان کی نسل گورا ختم کرنا چاہتا ہے۔ ان ملکوں نے پچھلے تیس سالوں میں دنیا کو کیا دیا ہے اس پر تحقیق کریں تو ہنسی آ جائے گی کہ انسان کچھ خِطوں میں کتنے خوش فہم ہوتے ہیں۔

جہاں تک ٹیسٹ ہیں، تو ٹیسٹ کروانے سے کسی نے ہمیں روکا نہیں ہے۔ موجودہ ریسرچ کو بھی پڑھنے سے ہمیں کسی نے نہیں روکا۔ ہمیں بس سازشی تھیوریوں اور سنی سنائی افواہوں سے مزے آتے ہیں۔ کہنے کو میں کہہ دوں کہ پیناڈول یا انسولین بھی ٹیسٹ کروائیں اس میں فلاں فلاں جراثیم ہیں جو جسم کو فلاں ڈھمکاں نقصان پہنچا سکتے ہیں تو شاید اس بات کو بھی سننے والے پاکستانی بھائی بہنیں تسلیم کر لیں (کیونکہ بدقسمتی سے زوال زدہ قوموں کا way of life ہی جہالت اور سنی سنائی بات ہوتا ہے، تحقیق کی نہ صلاحیت ہوتی ہے نہ چاہت)۔

•لوگوں کو ویکسین سے انکار کی آزادی کیوں نہیں؟ جس کی مرضی وہ بچوں کو دے، باقیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔

-لوگوں کو ٹیکس دینے سے انکار کی آزادی کیوں نہیں؟ جب ریاست کے زیر انتظام آپ رہتے ہیں تو آپ کی آزادی پر حد متعین ہوتی ہے: جہاں دوسرے کا نقصان ہونے کا امکان ہو گا وہاں آپ آزاد نہ رہیں گے۔ ہر وہ بچہ جسے ویکسین نہیں پلائی گئی اس کا جسم پولیو کے چھپنے کی جگہ ہے۔ وہ دوسروں تک اس بیماری کو پہنچا سکتا ہے۔ ریاست نے صرف آپ کے حقوق ہی نہیں باقیوں کے بھی حقوق کا خیال رکھنا ہے۔

ڈاکٹر عزیر سرویا ۔
فیس بک سے منقول

بہت اچھی تحریر ہے۔

لیکن حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے مثبت اقدامات کریں۔

زور زبردستی کرنے سے لوگوں کے ذہن میں سازشی تھیوریز اور پکی ہو جاتی ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پولیو، ڈیٹا جمع کرنے اور اس پر نظر رکھنے کا ایک منظم طریقہ کار ہے۔ ڈیٹا جمع کرنے سے مراد جاسوسی ہے۔ جس کے ذریعے نفوس و خاندانوں کی نقل و حرکت، افراد کی تعداد، محلوں، مکانات میں شادی شدہ، غیر شادی شدہ افراد پر نظر اور لڑکوں لڑکیوں کا تناسب معلوم کرنا شامل ہے۔

اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ لوگ آج کل انتہائی غیر ضروری معلومات اکھٹی کر رہے ہیں۔ گھر کے تمام افراد کے نام، شناختی کارڈ نمبر حتی کہ گزرے ہوئے باپ دادا کے نام بھی پوچھے جا رہے ہیں۔

پولیو کے قطروں کے لئے تو بچوں کا ڈیٹا کافی ہے۔ لیکن اتنی معلومات لینے کے پیچھے نہ جانے ان کے کیا عزائم ہیں۔

شک میں تو خود ہی ڈالتے ہیں یہ لوگ۔ پھر کہتے ہیں کہ پاکستانی سازشی تھیوریز کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔
 

ابوعبید

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے۔

لیکن حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے مثبت اقدامات کریں۔

زور زبردستی کرنے سے لوگوں کے ذہن میں سازشی تھیوریز اور پکی ہو جاتی ہیں۔

متفق آپ سے ۔
لیکن ایک چھوٹی سی عرض ہے ۔ کیا محفل پہ موجود ہم اراکین میں سے کتنے لوگوں کو ذاتی طور پہ شکایت ہے پولیو ویکسین سے ؟؟
میرے گھر میں جب پولیو کی ٹیم آئی تو 2 خواتین تھیں صرف ۔ بچوں کے ویکسین کارڈز چیک کیے ، بچوں کو قطرے پلائے اور نشان لگانے کے بعد کارڈ میں انٹری کر دی ۔ نہ تو انہوں نے کوئی غیر ضروری تفصیلات پوچھیں اور نہ ہی شناختی کارڈز نمبرز ۔
میری عرض صرف اتنی سی ہے کہ سوشل میڈیا پہ کسی ایک خاص گروپ کی جانب سے ایک ہائیپ پیدا کر دی جائے اور ہم بغیر سوچے سمجھے اس کا حصہ بن جائیں تو بہتر ہو گا کہ کم از کم ایک دفعہ ایمانداری سے ذاتی تجربے کو بھی رائے دینے میں شامل کر لینا چاہیے ۔
جہاں تک پولیس کے ساتھ آنے کا تعلق ہے تو وہ ان علاقوں میں پولیو ٹیم کی حفاظت کے لیےساتھ جاتی ہیں جہاں ممکنہ طور پہ کوئی سیکیورٹی رسک ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے پولیو ٹیم پہ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں اور انہیں عوام گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے ۔
اب ایک مسئلہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر پاکستانی پولیس ایکسٹرا ایفیشنسی دکھاتے ہوئے زور زبردستی کرتی ہے تو الگ معاملہ ہے ۔
 
لیکن ایک چھوٹی سی عرض ہے ۔ کیا محفل پہ موجود ہم اراکین میں سے کتنے لوگوں کو ذاتی طور پہ شکایت ہے پولیو ویکسین سے ؟؟
ابھی تک کوئی شکایت نہیں۔ :)
میرے گھر میں جب پولیو کی ٹیم آئی تو 2 خواتین تھیں صرف ۔ بچوں کے ویکسین کارڈز چیک کیے ، بچوں کو قطرے پلائے اور نشان لگانے کے بعد کارڈ میں انٹری کر دی ۔ نہ تو انہوں نے کوئی غیر ضروری تفصیلات پوچھیں اور نہ ہی شناختی کارڈز نمبرز ۔
سیکنڈ ٹو یو۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
میری عرض صرف اتنی سی ہے کہ سوشل میڈیا پہ کسی ایک خاص گروپ کی جانب سے ایک ہائیپ پیدا کر دی جائے اور ہم بغیر سوچے سمجھے اس کا حصہ بن جائیں تو بہتر ہو گا کہ کم از کم ایک دفعہ ایمانداری سے ذاتی تجربے کو بھی رائے دینے میں شامل کر لینا چاہیے ۔

یہ جو اوپر بات کی ہے وہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہی کی ہے۔

میرے گھر سے یہ تمام معلومات اکھٹی کی گئی ہیں۔ جب میں نے امی سے کہا کہ اس قسم کی معلومات نہیں دینا چاہیے تھیں تو اُنہوں نے کہا کہ وہ کوئی نئی خاتون نہیں تھیں بلکہ وہیں تھی جو ہر بار پولیو کے قطرے پلانے آیا کرتی ہیں۔ بہرکیف آئندہ کے لئے پھر منع کر دیا ہے۔

اور یہ ابھی حال ہی کی بات ہے۔
 

ابوعبید

محفلین
یہ جو اوپر بات کی ہے وہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہی کی ہے۔

میرے گھر سے یہ تمام معلومات اکھٹی کی گئی ہیں۔ جب میں نے امی سے کہا کہ اس قسم کی معلومات نہیں دینا چاہیے تھیں تو اُنہوں نے کہا کہ وہ کوئی نئی خاتون نہیں تھیں بلکہ وہیں تھی جو ہر بار پولیو کے قطرے پلانے آیا کرتی ہیں۔ بہرکیف آئندہ کے لئے پھر منع کر دیا ہے۔

اور یہ ابھی حال ہی کی بات ہے۔
اگر ایسا ہوا ہے تو واقعی تشویش کی بات ہے ۔
 
یہ جو اوپر بات کی ہے وہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہی کی ہے۔

میرے گھر سے یہ تمام معلومات اکھٹی کی گئی ہیں۔ جب میں نے امی سے کہا کہ اس قسم کی معلومات نہیں دینا چاہیے تھیں تو اُنہوں نے کہا کہ وہ کوئی نئی خاتون نہیں تھیں بلکہ وہیں تھی جو ہر بار پولیو کے قطرے پلانے آیا کرتی ہیں۔ بہرکیف آئندہ کے لئے پھر منع کر دیا ہے۔

اور یہ ابھی حال ہی کی بات ہے۔
واللہ، ہمارے ہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ پنجاب میں تو بہت ٹیمیں آتی رہتی ہیں۔ سال بھر قبل ڈینگی والی ٹیم آئی تو شومئی قسمت میں گھر پہ ہی تھا، اور ان کے تمام سوالوں کا جواب دینا پڑا۔ کچھ یاد ہیں وہ لکھ دیتا ہوں۔
پانی کا ٹینک کہاں ہے ؟ اوپن ہے ؟
پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اور کیا کیا انتظامات ہیں؟
چھت پر کیا کوئی ایسا کاٹھ کباڑ پڑا ہے جس میں پانی اکٹھا ہو سکے ؟
دو کولر گلی میں کھڑکیوں کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ دونوں کو کھلوا کر ان میں سے پانی کے نمونے لیے۔
پرندوں کے پنجروں کا معائنہ کیا۔
گلی میں تیسرے یا چوتھے گھر کی خاتون فرش دھو رہی تھیں اور پانی گلی میں آ رہا تھا، انھی دو خواتین نے انھیں سخت قسم کی سرزنش کی کہ پانی گلی میں نا آنے دیں بلکہ انڈر گراؤنڈ سے ہی سیوریج لائین میں جانے کا بندوبست کریں۔ بصورت دیگر آپ کا پانی کا کنکشن کاٹ دیا جائے گا۔ ان کے گھر کا نمبر وغیرہ نوٹ کر کے لے گئیں۔

لیکن

کسی قسم کا شناختی کارڈ یا اہل خانہ کے بارے میں کوئی تفصیل بالکل بھی نہیں مانگی گئی اور ایسا ہی پولیو ویکسین ٹیم بھی کارڈ دیکھ، بچے بُلا، قطرے پلا، نشان لگا کر چلی جاتی ہیں۔ میری ایک بھتیجی چند دنوں کے لیے نانی کے پاس گئی ہوئی تھی کہ اس دوران پولیو ویکسینیشن کی مہم آ گئی۔ انھیں بتایا کہ ایک بچی گھر میں نہیں ہے، وہ ٹیم ہر روز دروازہ پہ آکر پوچھتی کہ بچی آئی یا نہیں۔ مہم کے تیسرے دن انھوں نے ایک نمبر دیا کہ جب بچی آ جائے تو اس نمبر پر کال یا میسج کردیں۔ مہم ختم ہونے کے چھٹے ساتویں دن بھتیجی واپس آئی تو انھیں اطلاع کی اور وہ اگلے دن ہی صبح صبح آ موجود ہوئیں۔ اپنے فرض ادا کیا، دروازے پر مارکنگ کی اور چلی گئیں۔
 
Top