پسندیدہ احایث مبارکہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
إِنَّ نَبِيَّ ﷺ" أَخَذَ حَرِيرًا فِي يَمِينِهِ ، وَأَخَذَ ذَهَبًا فَجَعَلَهُ فِي يَسَارِهِ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ
عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي
نبئ کریم ﷺنےریشم اپنے داہنے ہاتھ میں رکھا اور اور سونا اپنے بائیں ہاتھ میں اور فرمایا " یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں (ابی داؤد 4057)"
 
۔إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَهُ
بے شک دین آسان ہے، اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا (بخاري 39)
 
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصَّفِّ، مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ» ۔
اپنی صفوں کو برابر رکھو، کیوں کہ صفوں کا برابر رکھنا صلاۃ (نماز) کے قائم رکھنے میں داخل ہے"(۔ بخاری723)
 
مَنْ نَسِيَ صَلَاةً ، أَوْ نَامَ عَنْهَا ، فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا
جو شخص کوئ نماز بھول جائے یا سو جائے تو جب یاد آجائےپڑھ لے، اس کے لیے اس کے سوا کوئ کفارہ نہیں ہے۔ (المسلم 314)
 
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ح و حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ قَالَ هَنَّادٌ فِي حَدِيثِهِ إِلَّا بِطُهُورٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِيهِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَأَبُو الْمَلِيحِ بْنُ أُسَامَةَ اسْمُهُ عَامِرٌ وَيُقَالُ زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ---

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ' صلاۃبغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیاجاتاہے'۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اورحسن ہے۳؎ ۔
۲- اس باب میں ابو الملیح کے والد اُسامہ ،ابوہریرہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
جامع ترمذی
 
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَ نْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوْ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، أَوْ نَحْوَ هَذَا، وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنْ الذُّنُوبِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَهُوَ حَدِيثُ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَأَبُو صَالِحٍ وَالِدُ سُهَيْلٍ - هُوَ أَبُوصَالِحٍ السَّمَّانُ - وَاسْمُهُ ذَكْوَانُ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ اخْتُلِفَ فِي اسْمِهِ، فَقَالُوا: عَبْدُ شَمْسٍ، وَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَهَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَهُوَ الأَصَحُّ
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَثَوْبَانَ، وَالصُّنَابِحِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، وَسَلْمَانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. وَالصُّنَابِحِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ لَيْسَ لَهُ سَمَاعٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَاسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ، وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، رَحَلَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ، وَقَدْ رَوَى عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ. وَالصُّنَابِحُ بْنُ الاَعْسَرِ الأحْمَسِيُّ صَا حِبُ النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهُ الصُّنَابِحِيُّ أَيْضًا، وَإِنَّمَا حَدِيثُهُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأمَمَ فَلاَ تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِي "۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :' جب مسلمان یامومن بندہ وضوکرتا اوراپنا چہرہ دھوتا ہے توپانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑجاتے ہیں ۱؎ ، جو اس کی آنکھوں نے کئے تھے یااسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھرجب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑجاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں،یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک وصاف ہوکرنکلتاہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۳؎ ، ۲- اس باب میں عثمان بن عفان ، ثوبان، صنابحی ، عمروبن عبسہ،سلمان اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صنابحی جنہوں نے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ،ان کا سماع رسول اللہ ﷺ سے نہیں ہے، ان کا نام عبدالرحمن بن عسیلہ، اورکنیت ابوعبداللہ ہے، انہوں نے رسول اللہﷺ کے پاس سفرکیا ،راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہﷺ کا انتقال ہوگیا ،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے متعدد احادیث روایت کی ہیں ۔
اورصنابح بن اعسراحمسی صحابی رسول ہیں، ان کو صنابحی بھی کہاجاتاہے، انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : 'میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پرفخرکروں گا تومیرے بعدتم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا'۔(ترمذی)
 
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ هُوَ صَدُوقٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَالْحُمَيْدِيُّ يَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهُوَ مُقَارَبُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ۔

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: 'صلاۃ کی کنجی وضو ہے، اور اس کا تحریمہ صرف اللہ اکبر کہنا ہے ۱ ؎ اورصلاۃ میں جوچیز یں حرام تھیں وہ 'السلام علیکم ورحمۃ اللہ' کہنے ہی سے حلال ہوتی ہیں' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے، ۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل صدوق ہیں۳؎ ، بعض اہل علم نے ان کے حافظہ کے تعلق سے ان پر کلام کیاہے،میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمدبن حنبل ،اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ اورحمیدی: عبداللہ بن محمدبن عقیل کی روایت سے حجت پکڑتے تھے، اور وہ مقارب الحدیث ۴؎ ہیں، ۳- اس باب میں جابر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔(ترمذی)
 
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجَوَيْهِ الْبَغْدَادِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوُا: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْقَتَّاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلاَةُ، وَمِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الْوُضُوءُ"

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :' صلاۃ جنت کی کنجی ہے، اور صلاۃ کی کنجی وضو ہے' ۔(ترمذی)
 
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ قَالَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ - قَالَ شُعْبَةُ: وَقَدْ قَالَ مَرَّةً أُخْرَى: أَعُوذُ بِاللّهِ - مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِيثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَجَابِرٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَحَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ: رَوَى هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، فَقَالَ سَعِيدٌ: عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وقَالَ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ: عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. وَرَوَاهُ شُعْبَةُ وَمَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، فَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ قَتَادَةُ رَوَى عَنْهُمَا جَمِيعًا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺجب قضائے حاجت کے لیے پاخانہ میں داخل ہوتے تویہ دعاء پڑھتے:'اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِيثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ' (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی سے اورناپاک شخص سے، یا ناپاک جنوں سے اورناپاک جنیوں سے) ' ۱؎ ۔
شعبہ کہتے ہیں: عبدالعزیزنے دوسری بار'اللهم إني أعوذبك' کے بجائے 'أعوذ بالله' کہا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی ، زیدبن ارقم، جابراورابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح اورعمدہ ہے ،۳- زیدبن ارقم کی سند میں اضطراب ہے ، امام بخاری کہتے ہیں: کہ ہوسکتا ہے قتادہ نے اسے (زیدبن ارقم سے اورنضربن انس عن أبیہ ) دونوں سے ایک ساتھ روایت کیا ہو۔(ترمذی)
 
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔

انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو پڑھتے:'اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ' (اے اللہ میں تیری پناہ چاہتاہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(ترمذی)
 
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَرَجَ مِنْ الْخَلاَءِ قَالَ: "غُفْرَانَكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ. وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى - اسْمُهُ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الأشْعَرِيُّ -. وَلاَ نَعْرِفُ فِي هَذَا الْبَابِ إِلاَّ حَدِيثَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے بعدجب پاخانہ سے نکلتے توکہتے: 'غفرانك' (یعنی اے اللہ : میں تیری بخشش کا طلب گارہوں ۱؎ )۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲؎ ،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی حدیث معروف ہے ۳؎ (ترمذی)
حکم عربی۔۔۔
(قلت: إسناده صحيح، وكذ ا قال النووي والعسقلاني والعراقي) .
إسناده: ثنا أحمد بن يونسر: ثنا زهير عن داود بن عبد الله عن حميد
الحميري.
وهذا سند صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير داود بن عبد الله
الأودي؛ وهو ثقة باتفاق النقاد.
وللحديث تتمة تأتي برقم (74) .
والحديث أخرجه النسائي أيضا (1/47 و 2/276) ، والحاكم (1/ 168) ،
والبيهقي (1/190) من طرق عن داود بن عبد الله الأودي عنه. وقال البيهقي:
" رواته ثقات؛ إلا أن حميداً لم يسم الصحابي الذي حدثه؛ فهو بمعنى
المرسل "!
وتعقبه ابن التركماني فأصاب، حيث قال:
" قد قدمنا أن هذا ليس بمرسل، بل هو متصل؛ لأنّ الصحابة كلهم عدول،
فلا تضرهم الجهالة ".
ولذلك قال النووي في "المجموع " (2/91) ، والعراقي في "التقريب " (2/40) ،
والحافظ في "بلوغ المرام " (1/22 من شرحه) :
" وإسناده صحيح ". وقال في "الفتح " (1/240) :
" رجاله ثقات، ولم أقف لمن أعله على حجة قوية، ودعوى البيهقي أنه في
معنى المرسل مردودة؛ لأنّ إبهام الصحابي لا يضر، وقد صرح التابعي بأنه لقيه.
ودعوى ابن حزم أن داود- راويه عن حميد بن عبد الرحمن- هو ابن يزيد الأودي،
وهو ضعيف: مردودة؛ فإنه ابن عبد الله الأودي، وهو ثقة، وقد صرح باسم أبيه أبو
داود وغيره ".
والحديث سكت عليه المنذري (رقم 26) .
وله شاهد بسند حسن عن عبد الله بن يزيد، خرّجته في "الصحيحة"
(2516) في التبوُل.
 
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءَ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا أَتَيْتُمْ الْغَائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بَوْلٍ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوهَا، وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا" قَالَ أَبُو أَيُّوبَ: فَقَدِمْنَا الشَّامَ، فَوَجَدْنَا مَرَاحِيضَ قَدْ بُنِيَتْ مُسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةِ، فَنَنْحَرِفُ عَنْهَا وَنَسْتَغْفِرُ اللَّهَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَيْدِيِّ، وَمَعْقِلِ بْنِ أَبِي الْهَيْثَمِ، (وَيُقَالُ مَعْقِلُ بْنُ أَبِي مَعْقِلٍ)، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ. وَأَبُو أَيُّوبَ - اسْمُهُ خَالِدُ بْنُ زَيْدٍ - وَالزُّهْرِيُّ - اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ - وَكُنْيَتُهُ أَبُو بَكْرٍ. قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: "لاَتَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بِبَوْلٍ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوهَا" إِنَّمَا هَذَا فِي الْفَيَافِي، وَأَمَّا فِي الْكُنُفِ الْمَبْنِيَّةِ لَهُ رُخْصَةٌ فِي أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا، وَهَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، وَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلاَ يَسْتَقْبِلُهَا، كَأَنَّهُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلاَ فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: 'جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤتوپاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرواورنہ پیٹھ، بلکہ منہ کو پورب یا پچھم کی طرف کرو' ۱؎ ۔
ابوایوب انصاری کہتے ہیں: ہم شام آئے تو ہم نے دیکھاکہ پاخانے قبلہ رخ بنائے گئے ہیں توقبلہ کی سمت سے ترچھے مڑجاتے اورہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی ، معقل بن ابی ہیشم ( معقل بن ابی معقل ) ابوامامہ ، ابوہریرہ اورسہل بن حنیف رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوایوب کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اورسب سے صحیح ہے،۳- ابوالولیدمکی کہتے ہیں:ابوعبداللہ محمدبن ادریس شافعی کاکہناہے کہ نبی اکرمﷺ نے جویہ فرمایاہے کہ پاخانہ یاپیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرواورنہ پیٹھ، اس سے مرادصرف صحراء (میدان) میں نہ کرنا ہے، رہے بنے بنائے پاخانہ گھر توان میں قبلہ کی طرف منہ کرنا جائزہے، اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے، احمدبن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پاخانہ یاپیشاب کے وقت قبلہ کی طرف صرف پیٹھ کرنے کی رخصت ہے، رہا قبلہ کی طرف منہ کرنا تو یہ کسی بھی طرح جائزنہیں،گویاکہ (امام احمد) قبلہ کی طرف منہ کرنے کونہ صحراء میں جائزقراردیتے ہیں اورنہ ہی بنے بنائے پاخانہ گھر میں(البتہ پیٹھ کرنے کوبیت الخلاء میں جائزسمجھتے ہیں)۔(ترمذی)
حکم عربی۔۔

(قلت: إسناده على شرط البخاري. وقد أخرجه هو ومسلم وأبو عوانة في
"صحاحهم ") .
إسناده: ثنا مسدد بن مسَرْهَد: ثنا سفيان عن الزهْري عن عطاء بن يزيد
الليثي عن أبي أيوب.
وهذا إسناد على شرط البخاري.
وقد أخرجه في "صحيحه " (1/396) : ثنا علي بن عبد الله قال: ثنا سفيان
به
وكذلك أخرجه مسلم، وأبو عوانة في "صحيحه " (1/199) ، والنسائي
والترمذي والدارمي والبيهقي، وأحمد (5/421) من طرق عن سفيان بن عيينة
به. وقال الترمذي- أنّه-:
" أحسن شيء في هذا الباب ".
ثمّ أخرجه البخاري والنسائي وابن ماجه، وأحمد (5/416 و 417 و 421)
من طرق أخرى عن الزهري به.
وللحديث إسنادان آخران عن أبي أيوب:
أخرج أحدهما مالك (1/199) ، ومن طريقه النسائي، وأحمد عنه (5/414)
عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة عن رافع بن إسحاق- مولى لآل الشفاء-
عنه.
وهذا إسناد صحيح.
وقد تابعه همام: أنا إسحاق ابن أخي أنس عن رافع بن إسحاق به:
أخرجه أحمد (5/415) ؛ وهو صحيح أيضا.
والآخر: أخرجه الدارقطني في "سننه " (23) من طريق ورقاء عن سعد بن
سعيد عن عمر بن ثابت عن أبي أيوب مرفوعاً.
وهذا إسناد حسن صحيح
وللنهي عن الاستقبال شاهد من حديث عبد الله بن الحارث:
أخرجه ابن ماجه (317) بسند صحيح، وابن حبان (133) بسند آخر صحيح
أيضا.
 
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِبَوْلٍ، فَرَأَيْتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ بِعَامٍ يَسْتَقْبِلُهَا. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَعَائِشَةَ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایاکہ ہم پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں ،پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ کو قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوقتادہ ، عائشہ ، اورعمار بن یاسر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حکم عربی۔۔
(قلت: إسناده حسن، وحسنه الترمذي والبزار وكذ ا النووي، وصححه
البخاري وابن السكن والحاكم ووافقه الذهبي. درواه ابن خزيمة وابن حبان في
"صحيحيهما")
إسناده: ثنا محمد بن يشار: ثنا وَهْبُ بن جرير: ثنا أبي قال: سمعت محمد
ابن إسحاق يحدث عن أبان بن صالح عن مجاهد عن جابر.
وهذا إسناد حسن؛ رجاله كلهم ثقات، وفي محمد بن إسحاق- صاحب
"المغازي "- كلام لا يضر؛ ولا ينزل حديثه عن درجة الحسن.
والحديث أخرجه الترمذي أيضا، وابن ماجه والحاكم والبيهقي، وأحمد
(1/3/360) من طرق عن محمد بن إسحاق به.
وفي رواية أحمد تصريح ابن إسحاق بالتحديث، وكذا في رواية الحاكم،
وقال:
" صحيح على شرط مسلم "! ووافقه الذهبي!
وهو من تساهلهما كما سبق. وقال الترمذي:
" حديث حسن ". ونقل عنه ابن القيم في "تهذيب السنن " (1/22) أنه
قال:
" سألت محمداً عنه ؟ فقال: حديث صحيح ".
وكذا نقله الحافظ في "التلخيص " (1/460) .
قلت: ورواه الدارقطني أيضا (22) من هذا الوجه، وقال:
" رجاله كلهم ثقات ".
ورواه أيضا البزار- وحسنه-، وابن الجارود وابن خزيمة وابن حبان، وصححه
أيضا ابن السكن. قال الحافظ:
" وتوقف فيه النووي؛ لعنعنة ابن إسحاق، وقد صرح بالتحديث في رواية
أحمد وغيره. وضعفه ابن عبد البر بأبان بن صالح! ووهم في ذلك؛ فإنه ثقة
باتفاق، وادعى ابن حزم أنه مجهول؛ فغلط ".
(تنبيه) : ذكر ابن القيم- وتبعه الحافظ- أن الحديث لا حجة فيه؛ لأنه حكاية
فعل لا عموم لها، ولا يعلم هل كان في فضاء أو بنيان؟ وهل كان لعذرمن ضيق
مكان ونحوه أو اختياراً؟ فلا يجوز أن يقدم على النصوص الصحيحة الصريحة في
المنع.
 
وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ يَبُولُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ.
وَحَدِيثُ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، وَابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.

عبداللہ بن لہیعہ نے یہ حدیث ابوالزبیرسے اورابوالزبیرنے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺکو قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
جابر رضی اللہ عنہ کی نبی اکرمﷺسے یہ حدیث ابن لہیعہ کی حدیث(جس میں جابرکے بعد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا واسطہ ہے) سے زیادہ صحیح ہے، ابن لہیعہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں،یحییٰ بن سعیدالقطان وغیرہ نے ان کی حفظ کے اعتبارسے تضعیف کی ہے ۔

حکم عربی۔۔

(قلت: إسناده حسن، وحسنه الترمذي والبزار وكذ ا النووي، وصححه
البخاري وابن السكن والحاكم ووافقه الذهبي. درواه ابن خزيمة وابن حبان في
"صحيحيهما")
إسناده: ثنا محمد بن يشار: ثنا وَهْبُ بن جرير: ثنا أبي قال: سمعت محمد
ابن إسحاق يحدث عن أبان بن صالح عن مجاهد عن جابر.
وهذا إسناد حسن؛ رجاله كلهم ثقات، وفي محمد بن إسحاق- صاحب
"المغازي "- كلام لا يضر؛ ولا ينزل حديثه عن درجة الحسن.
والحديث أخرجه الترمذي أيضا، وابن ماجه والحاكم والبيهقي، وأحمد
(1/3/360) من طرق عن محمد بن إسحاق به.
وفي رواية أحمد تصريح ابن إسحاق بالتحديث، وكذا في رواية الحاكم،
وقال:
" صحيح على شرط مسلم "! ووافقه الذهبي!
وهو من تساهلهما كما سبق. وقال الترمذي:
" حديث حسن ". ونقل عنه ابن القيم في "تهذيب السنن " (1/22) أنه
قال:
" سألت محمداً عنه ؟ فقال: حديث صحيح ".
وكذا نقله الحافظ في "التلخيص " (1/460) .
قلت: ورواه الدارقطني أيضا (22) من هذا الوجه، وقال:
" رجاله كلهم ثقات ".
ورواه أيضا البزار- وحسنه-، وابن الجارود وابن خزيمة وابن حبان، وصححه
أيضا ابن السكن. قال الحافظ:
" وتوقف فيه النووي؛ لعنعنة ابن إسحاق، وقد صرح بالتحديث في رواية
أحمد وغيره. وضعفه ابن عبد البر بأبان بن صالح! ووهم في ذلك؛ فإنه ثقة
باتفاق، وادعى ابن حزم أنه مجهول؛ فغلط ".
(تنبيه) : ذكر ابن القيم- وتبعه الحافظ- أن الحديث لا حجة فيه؛ لأنه حكاية
فعل لا عموم لها، ولا يعلم هل كان في فضاء أو بنيان؟ وهل كان لعذرمن ضيق
مكان ونحوه أو اختياراً؟ فلا يجوز أن يقدم على النصوص الصحيحة الصريحة في
المنع.
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top