اقبال پر لگا کر جانبِ منزل اڑا جاتا ہوں میں - علامہ اقبال (متروک غزل)

حسان خان

لائبریرین
پر لگا کر جانبِ منزل اڑا جاتا ہوں میں
سب سے آگے صورتِ بانگِ درا جاتا ہوں میں

واسطہ نیک و بدِ عالم سے جوں آئینہ کیا
سامنے آتا ہے جو کچھ، دیکھتا جاتا ہوں میں

آتشِ سامانِ ہستی تھا ترا نظّارہ کیا
تجھ کو پایا ہے تو اب خود گم ہوا جاتا ہوں میں

قافلے والے بڑھے جاتے ہیں اے واماندگی
صورتِ نقشِ قدم پیچھے رہا جاتا ہوں میں

آہ دنیا جانتی ہے رعشۂ پیری اسے
داورِ محشر کی جانب کانپتا جاتا ہوں میں

حشر میں مشکل تھا بے دیکھے ترا پہچاننا
ہو کے دنیا ہی سے تیرا آشنا جاتا ہوں میں

رہتا ہوں اقبال! گھر کی چار دیواری میں بند
کچھ سمجھ کر اہلِ عالم سے کھچا جاتا ہوں میں!

(علامہ اقبال)

ماخذ: کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال​
 
Top