پریم چند کے ہندی ناول منگل سوتر کا اردو ترجمہ از ڈاکٹر حسن منظر

الف نظامی

لائبریرین
منگل سوتر پریم چند کا ناتمام ناول ہے جسے انہوں نے زندگی کے آخری مہینوں میں اپنی جان لیوا بیماری کے دوران لکھنا شروع کیا تھا۔ لیکن ابھی چار باب ہی مکمل کر پائے تھے کہ سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔

مدن گوپال صاحب نے اس ادھورے ناول کو کلیات پریم چند کی جلد نمبر 8 میں اس کا رسم الخط تبدیل کر کے شائع کیا جس کو ترجمہ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ اس میں ہندی الفاظ جوں کے توں ہیں۔

پاکستان کے ماہر نفسیات اور ادیب ڈاکٹر حسن منظر نے منگل سوتر کا ترجمہ بہت رواں دواں زبان میں کیا ہے جسے پڑھ کر ترجمے کا احساس نہیں ہوتا۔

یہ ادھورا ناول موصوف نے شری پت رائے کی طرف سے شائع کردہ کتاب سے ترجمہ کر کے شائع کیا ہے۔ شری پت رائے صاحب اپنے تعارف میں فرماتے ہیں :
انہوں نے بتایا تھا کہ اس تخلیق (منگل سوتر) کے ذریعے وہ ثابت کریں گے کہ مثالیت پسندی پر چل کر بھی وہ چیز جسے مادی آسودگی کہا جاتا ہے حاصل کی جا سکتی ہے یا کم سے کم اس کی ذاتی خوشی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کامیابی کے حصول کے لیے زندگی میں جھوٹ ، اخلاقی پستی اور قابل ملامت آدمیت سے عاری پن ذرا بھی ناگزیز نہیں ہیں۔ اور یہ کہ جس عام زندگی کو عوام الناس بے عزتی اور استہزا کی نظر سے دیکھتے ہیں اصل میں وہی غیر معمولی ، مقصدیت سے پُر اور لائق حصول ہے۔

ریختہ ڈاٹ آرگ سے متن یونیکوڈ میں تبدیل کیا گیا
پی ڈی ایف ڈاون لوڈ
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ڈاکٹر قمر رئیس اپنی تحقیقی کتاب پریم چند کا تحقیقی مطالعہ میں لکھتے ہیں:
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اس ناول میں ان ذہنی اور جذباتی رشتوں کو جھٹک کر آگے بڑھنا چاہتے تھے جو ایک مدت سے سماجی حقیقت نگاری کے سفر میں اُن کا راستہ روکتی رہی تھیں۔

ڈاکٹر حسن منظر نے ناول کے دیباچے میں ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ :
یہ اغلب ہے کہ دیو کمار کا کردار تخلیق کرتے وقت ان کے ذہن میں ایک ایسے فرد کا تصور تھا جس نے زندگی کو مختلف طور پر برتا ہے۔ جو سمجھتا ہے دوسروں کو ناجائز ذرائع سے ترقی کرتے دیکھ کر اس کی نیت نہیں بدلی۔ جو تا عمر عزتِ نفس کا قائل رہا ہے لیکن ایک ناہموار سماج اس کے اس تمام بھرم کو اُس لمحے چکنا چور کر دیتا ہے جب اس کے آدرشوں اور نئی نسل کے آدرشوں میں تصادم ہوتا ہے۔ اس ذہنی شکست ، عمر بھر کی تپسیا کو لٹا دینے کے بعد اس کردار پر جو کچھ بیتی وہ اس مضمون کا موضوع نہیں۔
 
Top