پریس کو کسی صورت “پریس“نہیں کیا جا سکتا: قاضی ایم اے خالد

hakimkhalid

محفلین
پریس کو‘‘پریس‘‘نہیں کیاجاسکتا:قاضی ایم اے خالد
[align=justify:9605fb6376]
بھئی گئے تو تھےسب صحافی دوست یار ،افطار کرنے اور سرکاری کھابے شابے کھانے۔

لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درّانی نے اچانک میزبانی کا چوغہ اتار پھینکا
اور ہروقت متانت بھرالہجہ رکھنے والے یہ صاحب بن گئے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ۔۔۔۔

لہجہ سخت اور درشت ہوتے ہوئے دھمکی آمیزہوتا چلا گیا ۔۔۔۔تھوک کے چھینٹے اڑاتے ہوئے(جو ان کے اپنے ہی دامن پر گر رہے تھے) الفاظ جو ان کے منہ سے نکل رہے تھے وہ کچھ یوں تھے“فوج پر تنقید برداشت نہیں کی جائیگی نہ اس کی اجازت دی جائیگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئین فوج پر تنقید کی اجازت نہیں دیتا“ان الفاظ میں کچھ زیادہ ہی تواترتھا۔۔۔۔۔۔

بہت غصہ آیا اور صرف مجھے ہی نہیں وہاں موجود اور غیر موجود صحافت کے فن سے تعلق رکھنے والے ہرفرد کا یہی حال تھا۔

ہمارے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ محمد علی درّانی جیسے لوگ جن کی عوام میں تو جڑیں ہوتیں نہیں اور شارٹ کٹ کے ذریعے حکومتی ایوانوں میں گھس جاتے ہیں یا گھسا دئیے جاتے ہیں سےشاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی ہی امید رکھنی چاہئیے۔

ایک اور دوست فرما رہے تھے کہ آئین پاکستان کو توڑنے اور معطل کرنے والے ایسی بات کرنے سے پہلے خود بھی گریبان میں جھانکیں یعنی آئین کا مطالعہ فرما لیں تو ان کی سبکی نہ ہو ۔آئین پاکستان میں ایک آرٹیکل 6 بھی موجود ہے جو آئین کو توڑنے اور اسی قسم کے دیگر اقدامات سے متعلق ہے۔ اس میں صرف آئین کو توڑنے والے ہی کے لیے سزا نہیں ہے بلکہ اس کی مدد کرنے والے بھی سزا کے مستحق قراردیے گئے ہیں۔لہذا اگر آئین پاکستان کا حقیقی نفاذ ممکن العمل ہوگیا تو مسٹر درانی جیسے لوگ بھی منہ چھپاتے پھریں گے۔
اور جناب ارشاد احمد حقانی (فن صحافت میں استاد کا درجہ رکھتے ہیں)فرماتے ہیں کہ پاکستان میں فوج اگرچہ ایک مقدس گائے تھی لیکن چونکہ گذشتہ نصف صدی سے زائد وہ سیاست میں ملوث چلی آ رہی ہے۔لہذا اب یہ مقدس گائے نہیں رہی ۔
اور پھر جمہوری معاشروں میں کسی بھی ادارے کو تنقید سے مثتثنٰی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔1962 میں چائنہ اور بھارت کی جنگ کے بعد بھارتی فوج کے پیشہ ورانہ سرگرمیاں تنقید کا باعث بنیں اورحال ہی میں کارگل کا معاملہ بھی موضوع بحث ہے۔لہذا اگر فوج تنقید سے بچنا چاہتی ہے تو اسے سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنے اصل فرائض کی طرف توجہ دینی ہوگی۔

ہمارے ایک بڑے ہی پیارے سرمد جعفری صاحب فرماتے ہیں کہ
فوج انیس سو اکہتر میں مقدس گائے تھی جس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ اگراس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحیٰی پر تنقید ہوسکتی تو ملک ایک بڑے بحران اورقوم بہت بڑی شرمندگی سے بچ سکتی تھی۔

ادریس بختیار فرماتے ہیں۔ اب فوج صرف ایسا ادارہ نہیں رہا جو دفاع پاکستان کا ذمہ دار ہو۔ وہ کاروبار کر رہی ہے رئیل سٹیٹ میں ملوث ہے، اس کے پٹرول پمپ ہیں اس کے تحت بہت سی کارپوریشن ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ سیاست میں ملوث ہوکر ملک کے سیاہ سفید کی مالک بن گئی ہے۔

اس کےکئی ذیلی ادارے کئی عشروں سے ملک کی اندرونی سیاست میں ملوث ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں ہیرا پھیری کرکے اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کراتے ہیں، لوگوں کی وفاداری تبدیل کرکے حکومت بنواتے ہیں، اور بہت کچھ کرتے ہیں، تو درّانی صاحب یہی سب کچھ اگر سویلین لوگ کرتے ہیں تو کیا ان پر تنقید نہیں ہوگی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ فوج پر تنقید نہ ہو تو فوج کو چاہیے کہ اپنا رویہ تبدیل کرے، بہت تبدیل کرے۔ فوج پر صرف اسی صورت میں تنقید نہیں ہوگی جب وہ اپنی توجہ صرف اور صرف ملک کے دفاع پر مرکوز کرے گی۔ وہ یا اس کے اہلکار جو اس کی نمائندگی کرتے ہیں ادھر ادھر منہ ماریں گے تو تنقید تو ہوگی۔ آپ کے کہنے سے یا دہمکی سے‘ یہ تنقید رک نہیں سکتی۔ نہ پہلے رکی ہے نہ آئندہ رکے گی۔

آخر میں میں پاک فوج کے کار پردازوں کو یہ بات یاد دلانا چاہوں گا کہ وہ آئین پاکستان کے تحت جو حلف اٹھاتے ہیں اس میں یہ جملے بھی درج ہیں کہ ’میں حلف اٹھاتا ہوں کہ سیاست میں حصہ نہیں لونگا‘۔بس اس پر سختی سے عمل کریں اوردیانت داری سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو مدنظر رکھیں آپ پر کسی صورت انگلی نہیں اٹھے گی۔

اس دھمکی آمیز سرکاری ہدایت پر خیبر تا کراچی تمام پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح اداریوں،تبصروں،کالموں اورخصوصی رپوتاژ کے ذریعے آزادی صحافت اور اظہار یکجہتی کےلیے اپنے جذبات کا اظہار کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پریس کو کسی صورت “پریس“نہیں کیا جا سکتا۔[/align:9605fb6376]
 
Top