پرانے کمپیوٹرز پر پابندی کی تیاری

دوست

محفلین
یہ سچ ہے کہ سستے کمپیوٹرز کا ذریعہ اس سے بڑا کوئی نہیں‌ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مغربی ممالک کا سارا ڈمپ اور کوڑا کرکٹ پاکستان میں‌آرہا ہے۔ مانیٹر کو ی ہی لے لیں، اس میں‌انتہائی زہریلے کیمیکل موجود ہوتے ہیں اور یہاں اسے بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے کھول کر چائنہ ٹی وی بنا دیا جاتا ہے بلکہ اس کی باقیات کو بھی ڈھنگ سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا۔ ٹھکانے کیا لگانا ہے پتا ہی نہیں‌نکلنے والے پارے اور دوسری زہریلی دھاتوں کا کرنا کیا ہے۔ چین کی طرح جہاں پورا شہر یہی کام کرتا ہے کہ وہ پرانے سرکٹ بورڈز اور مانیٹرز سے ایسے مادے نکالتے ہیں اور کینسر و دیگر موذی امراض‌ کا شکار بھی ہوتے ہیں اور اب حکومت چین بھی اس معاملے میں محتاط ہے۔ اس سارے فیصلے سے اور کچھ ہونہ ہو ترقی یافتہ ممالک کی ایک اور کچرا کنڈی بند ہوجائے گی۔ تاہم حکومت بھی رحم کرے اور پرانے کمپیوٹرز کے معیارات مقرر کرے کہ اس کوالٹی سے کم والا نہ درآمد کیا جاسکے۔ دیکھو اب کچھ تو ہوگا۔
 

arifkarim

معطل
یہ مسئلہ پوری دنیا میں عام ہے۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنز کی حرکات سے ہر ملک تنگ آیا ہوا ہے۔ کیونکہ انکا کوئی ملک، وطن نہیں ہوتا۔ صرف ایک ایجنڈا ہوتا ہے، اور وہ ہے: زیادہ دولت!
 

محمد سعد

محفلین
ایک دلیل پیش کی گئی ہے کہ ان پرانے کمپیوٹروں کو بازیافت نہیں کیا جا سکتا اس لیے انہیں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی بھونڈی دلیل کی اس سطح کے لوگوں سے تو توقع نہیں تھی۔ پہلے تو یہ کالا جھوٹ ہے، اور اگر اسے سچ فرض کر بھی لیں تو زمین کے ماحول کو مزید آلودگی سے بچانے کا یہی بہتر طریقہ ہے کہ جو چیز ری سائیکل نہیں ہو سکتی، اسے زیادہ سے زیادہ مدت تک کام میں لائے جانے کے طریقے ڈھونڈے جائیں۔ کیونکہ خود ہی سوچیں۔ ان کے بقول یہ بازیافت نہیں ہو سکتے تو استعمال نہ کرنے کی صورت میں یہی طریقہ ممکن ہے کہ اس کو پھینک دیا جائے جو کہ زمین کی مجموعی آلودگی کو بڑھانے کا سبب بنے گا۔ ساتھ ساتھ ان کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید نئے کمپیوٹر موجودہ ضرورت کی نسبت کہیں زیادہ تعداد میں تیار کرنے پڑیں گے جو کہ اب تک چاہے جتنے بھی ماحول دوست ہو گئے ہوں، اتنے نہیں ہوئے کہ پرانے تمام کمپیوٹروں کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ نئے کمپیوٹر بھی اسی تعداد میں بنائے جانے کو "ماحول دوستی" قرار دیا جا سکے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ استعمال شدہ چیزوں کو دوبارہ استعمال میں لانے کا نام ہی ری سائیکلنگ یا بازیافتگی ہے جو کہ ہم کر رہے ہیں۔

اور یہ میں اس لیے جانتا ہوں ایک تو مجھے خود بھی ماحولیات سے لگاؤ ہے، اور دوسری وجہ یہ کہ لینکس کی سب سے مقبول خوبیوں میں اس خوبی کا بھی اکثر ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ پرانے کمپیوٹروں کو نئے سرے سے قابلِ استعمال بناتا ہے چنانچہ دیگر نظاموں کی نسبت زیادہ ماحول دوست ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک والے خود بھی استعمال شدہ کمپیوٹروں کو دوبارہ استعمال میں لانے کو ایک خوبی قرار دیتے ہیں تو ہمیں کیوں نہیں استعمال کرنے دیتے۔ ابن الڈالر لوگ! :frustrated:
 

محمد سعد

محفلین
کہا گیا ہے کہ پاکستان کو وہ پرزہ جات فروخت کیے جاتے ہیں جو بالکل ناقابلِ استعمال ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے اکثر متوسط اور امیر طبقے کے لوگ سال میں کم از کم ایک بار (کرسمس پر جب کافی بارعایت قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں) نیا اور زیادہ طاقت ور کمپیوٹر ضرور خریدتے ہیں چاہے ان کا موجودہ کمپیوٹر خراب ہو یا ٹھیک۔ جو ناقابلِ استعمال ہوتے ہیں، انہیں عموماً بازیافتگی کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور جو قابلِ استعمال حالت میں ہوتے ہیں، ان کو بیچ دیا جاتا ہے جن میں سے کچھ وہیں کے غریب شہری خرید لیتے ہیں جبکہ کافی سارے پاکستان جیسے غریب ممالک میں آ جاتے ہیں۔ جو پرزے بالکل ناقابلِ استعمال ہوتے ہیں وہ بھلا بکیں گے کیسے کہ یہاں تک بھی پہنچ پائیں؟ اتنی سادہ سی بات حکومت کو سمجھ میں نہیں آتی؟ خود تو قوم کے خزانے پر عیش کرتے رہتے ہیں، انہیں کیا معلوم کہ سیکنڈ ہینڈ اشیاء کا کاروبار کیسے چلتا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
کمپنیوں کی جانب سے دلیل پیش کی گئی ہے کہ استعمال شدہ مال خریدنے سے پاکستان کا امیج خراب ہوتا ہے۔ امیج کو درست کرنے کے لیے مجموعی طور پر غربت سے نجات حاصل کرنی ہوگی تاکہ ہم پرانی چیزوں کے محتاج ہی نہ رہیں۔ اور اس کے لیے تعلیم بہت اہم ہے۔ اور آج کمپیوٹر تعلیم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ پرانے کمپیوٹروں کی درآمد روکنے کا مطلب ہوگا کہ ہم اپنے شہریوں کو زبردستی تعلیم سے محروم کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان جیسے غریب ملک کے شہری بالکل نئے کمپیوٹر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تعلیم کی مزید کمی کا مطلب مزید غربت، مزید جہالت اور امیج کی مزید خرابی۔

بجلی کی بات کی گئی ہے تو بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بھی جہالت کو کم کرنے کی ضرورت پڑے گی تاکہ ہم اپنے وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنا سیکھیں۔ آج کل مارکیٹ میں دستیاب نئے کمپیوٹروں کا پرانے کمپیوٹروں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو میرے خیال میں نئے کمپیوٹروں میں بجلی کی بچت کی اوسط شرح 10 سے 20 فیصد کے درمیان ہی ہوگی۔ یہ کوئی اتنی بڑی چیز نہیں جس کے لیے ہم پوری قوم کو تعلیم سے ہی محروم کر دیں اور انہیں مزید جہالت اور مزید غربت کی طرف دھکیل دیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہاں پر استعمال ہو کر بالکل ناکارہ ہو جانے والے کمپیوٹروں کا کیا کیا جائے تو یہ مسئلہ کوئی صرف پرانے کمپیوٹروں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے۔ اگر نئے کمپیوٹروں کی پابندی لگائی جائے تو بھی بازیافتگی کے لیے کوئی انتظام تو کرنا ہی پڑے گا جو کہ فی الحال کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ عجیب احمق ہیں وہ لوگ جو ان بھونڈے دلائل کو مان کر پابندی لگانے پر تیار ہو گئے۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے دنیاجہاں کا سارا کچراپاکستان جارہا ہے جس میں کمپیوٹر، موبائل فون، گھاڑیاں بھی شامل ہیں ۔۔۔۔۔ہر روز کہئی کنٹینرز پرانے اور استعمال شدہ سکریپ مال سےبھرے پاکستان جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس کے ریسائکلنگ کا کون زمہ دار ہوگا۔

اب مجھے کوئی بتائے نوکیا اور ایرکسن کے پرانے انالوگ موڈلز 2110، 6210 اور 338، اور پھر بعد میں 3310، 8210، 8250 وغیرہ وغیرہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان امپورٹ ہوئے ہیں اس سکریپ کا کیا ہوا ہے؟
 

محمد سعد

محفلین
یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔۔۔میری آنکھوں کے سامنے دنیاجہاں کا سارا کچراپاکستان جارہا ہے جس میں کمپیوٹر، موبائل فون، گھاڑیاں بھی شامل ہیں ۔۔۔۔۔ہر روز کہئی کنٹینرز پرانے اور استعمال شدہ سکریپ مال سےبھرے پاکستان جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس کے ریسائکلنگ کا کون زمہ دار ہوگا۔

اب مجھے کوئی بتائے نوکیا اور ایرکسن کے پرانے انالوگ موڈلز 2110، 6210 اور 338، اور پھر بعد میں 3310، 8210، 8250 وغیرہ وغیرہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان امپورٹ ہوئے ہیں اس سکریپ کا کیا ہوا ہے؟

سیانے بابے سچ ہی کہتے ہیں کہ جس شخص نے خود کوئی پریشانی نہ دیکھی ہو، اسے دوسروں کی پریشانی کا بھی احساس نہیں ہوتا۔ جو چیز آپ کے لیے کچرا ہے، وہی چیز کئی دوسروں کے لیے آج کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔
بازیافتگی (ریسائیکلنگ) کی آپ بات کرتے ہیں تو یہ کام تو تب بھی کرنا پڑے گا اگر صرف نئے پرزہ جات منگوائے جائیں۔ بہتر طریقہ یہی ہے کہ بازیافتگی کے کارخانے لگائے جائیں بجائے اس کے کہ غریب طلبائے علم کو علم کی دنیا تک جو رسائی پرانے کمپیوٹر کی صورت میں حاصل ہے، اسے بھی اس سے چھین لیا جائے۔ کاغذ پر چھپنے والی کتابیں تو اتنی مہنگی ہیں کہ مجھ جیسا کوئی طالبِ علم پورے سال میں تین کتابیں بھی نہ خرید پائے حالانکہ میں تو غریب کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔ جبکہ پھٹیچر کمپیوٹر اور کچھوے جیسے رینگتے انٹرنیٹ کی بدولت طلبائے علم کی ایک بڑی تعداد سال میں درجنوں کتابیں پڑھ لیتی ہے۔ اور آپ اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ اس ذریعے کو بھی ان سے چھین لیا جائے؟
 

ابوشامل

محفلین
ابھی صرف پرانے کمپیوٹر پر پابندی کی تجویز ہی سامنے آئی ہے اور کراچی کی مارکیٹ میں ہر چیز کی قیمت میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ہو چکا ہے :(
میں اس مجوزہ پابندی کی سختی سے مذمت کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ قدم پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پوری عمارت کو زمین بوس کرنے کا بہترین نسخہ ثابت ہوگا۔
 
ابھی صرف پرانے کمپیوٹر پر پابندی کی تجویز ہی سامنے آئی ہے اور کراچی کی مارکیٹ میں ہر چیز کی قیمت میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ہو چکا ہے :(
میں اس مجوزہ پابندی کی سختی سے مذمت کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ قدم پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پوری عمارت کو زمین بوس کرنے کا بہترین نسخہ ثابت ہوگا۔

بجا فرمایا آپ نے
 

محمد سعد

محفلین
حکومت تک اپنا مؤقف اچھی طرح پہنچانے کے لیے یہاں محفل پر کون موزوں ترین ہوگا جسے ہم اپنے نمائندہ کے طور پر پیش کریں؟
 

مدرس

محفلین
واقعی عوام دشمن اور تاجر دشمن لو گ ملک پر چھا گئے ہیں‌
اور میرا خیال صرف غریب دشمن لو گ​
پر زور مذمت پر زور مذمت پر زور مذمت پر زور مذمت پر زور مذمت پر زور مذمت پر زور مذمت پر زور مذمت پر زور مذمت پر زور مذمت
 

محمد سعد

محفلین
جو آج کی سیاست کے گر جانتا ہو
میری رائے میں اس کے لیے سیاسی سے زیادہ تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوگی کیونکہ حکمران تکنیکی معلومات کی کمی کے باعث ہی اس پابندی کے لیے تیار ہوئے ہیں۔ لیکن سیاسی سمجھ بوجھ بھی کافی حد تک ضروری ہے۔ کوئی تیار ہے؟ اس محفل میں ایسا کون ہے جو یہ کام بہترین طور پر کر سکے؟
 

arifkarim

معطل
میری رائے میں اس کے لیے سیاسی سے زیادہ تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوگی کیونکہ حکمران تکنیکی معلومات کی کمی کے باعث ہی اس پابندی کے لیے تیار ہوئے ہیں۔ لیکن سیاسی سمجھ بوجھ بھی کافی حد تک ضروری ہے۔ کوئی تیار ہے؟ اس محفل میں ایسا کون ہے جو یہ کام بہترین طور پر کر سکے؟

تکنیکی مہارت؟ یہ کیسی بات کردی آپنے؟ :grin:
سیاست دانوں کو اگر تکنیکی مہارت کا علم ہوتا تو وہ سیاست دان نہ ہوتے، سائنس دان ہوتے ۔ اور پھر لاتعداد سازشی نظریات بھی جنم نہ لیتے کیونکہ سائنس اثبوت دیتی ہے۔ مظاہرے یا بیان بازی نہیں کرتی۔ :devil:
نیز ابتک حضرت انسان نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں‌اور جتنے بھی مسائل کا شکار ہے۔ وہ اسی تکنیکی مہارت کا فقدان ہے۔ سیاست دان کی بجائے سائنس دان کو اپنا لیڈر بناؤ اور پھر آپکو کوئی نیا حکمران چننے کی ضرورت نہیں پڑے گی​
 
میری رائے میں اس کے لیے سیاسی سے زیادہ تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوگی کیونکہ حکمران تکنیکی معلومات کی کمی کے باعث ہی اس پابندی کے لیے تیار ہوئے ہیں۔ لیکن سیاسی سمجھ بوجھ بھی کافی حد تک ضروری ہے۔ کوئی تیار ہے؟ اس محفل میں ایسا کون ہے جو یہ کام بہترین طور پر کر سکے؟

بجا فرمایاآپ نے
 

محمد سعد

محفلین
http://www.ummatpublication.com/2010/03/21/story4.html
اس حوالے سے مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں کی جانب سے درآمد کیے جانے والے کمپیوٹرز پر پابندی عائد کرنے کی جو وجوہات پیش کی جا رہی ہیں، ان میں سر فہرست یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ قانون ہے کہ کچھ سال استعمال ہونے والے کمپیوٹرز کو اٹھا کر بڑے بڑے گوداموں میں ڈمپ کرنے کے لیے بھر دیا جاتا ہے اور ان میں سے 15 سے 20 فیصد کمپیوٹرز ری سائیکلنگ کے ذریعے دوبارہ سے قابلِ استعمال بنائے جاتے ہیں جبکہ زیادہ تعداد میں کمپیوٹرز کو مضرِ صحت قرار دے کر ضائع کرنے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر وہاں سے امپورٹرز ان کو بولی لگا کر حاصل کر لیتے ہیں اور یہ لاٹس کی صورت میں پاکستان منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو ضائع شدہ کمپیوٹرز کے لیے ڈمپنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی پھیل رہی ہے اور ایک بار استعمال کیے ہوئے کمپیوٹرز کو دوبارہ استعمال کرنے سے مزید آلودگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔

پرانے کمپیوٹروں کو کسی قانون کی وجہ سے نہیں نکال باہر کیا جاتا بلکہ اس وجہ سے نکالا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کو اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لیے نئے اور زیادہ طاقتور کمپیوٹروں کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے جگہ بنانے کے لیے پرانے کمپیوٹر کو عموماً گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔
یہ جو گھروں اور دفتروں سے پرانے کمپیوٹر آتے ہیں، ان میں سے ری سائیکل ان کو کیا جاتا ہے جو کسی خرابی کی وجہ سے قابلِ استعمال نہیں ہوتے۔ اور ترقی یافتہ ممالک مضرِ صحت اشیاء کو فروخت نہیں کرتے بلکہ ان کے لیے الگ سے ری سائیکلنگ کا انتظام کیا ہوا ہوتا ہے جہاں پارے (جو کہ ٹیوب لائٹ میں عام ہوتا ہے) جیسے زہریلے مادوں پر مشتمل اشیاء کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اگر چیک کیا جائے تو وہاں کے قانون میں بھی مضرِ صحت اشیاء کی فروخت اور برآمدات پر پابندیاں بھی ہوں گی۔ فروخت صرف وہی کمپیوٹر ہوتے ہیں جو ابھی تک اچھی حالت میں ہوں کیونکہ وہی چیز بکے گی جس کا کوئی گاہک ملے گا۔ جس چیز کا کوئی گاہک نہ ہو، اسے بیچنے کی کون سوچے گا۔ یہ کمپیوٹر نہ صرف یہاں پر کافی عرصہ تک چلتے ہیں بلکہ (غربت کی وجہ سے) ایک شخص کے استعمال کے بعد دوسرے کے استعمال میں آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جل جائیں یا کسی اور وجہ سے ناقابلِ استعمال ہو جائیں۔ اور جب ان کی عمر ختم ہو جاتی ہے تو حکومت کی جانب سے ان کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست ہی نہیں ہے ورنہ نوے فیصد حصہ تو آرام سے ری سائیکل ہو سکتا ہے۔
اب نظر ڈالتے ہیں بازار میں بکنے والے ایک عام کمپیوٹر پر۔ سٹیل اور پلاسٹک کا ایک فریم، تانبے کے تار، پلاسٹک کے کچھ سرکٹ بورڈ، جن پر دھاتی تار اور چھوٹے چھوٹے کچھ برقی آلات ہیں۔ مانیٹر اگر سستا ہے تو کیتھوڈ رے ٹیوب والا، اور اگر مہنگا ہے تو ایل سی ڈی۔ ایک دو مقناطیسی حصے (ہارڈ ڈسک اور سپیکر) جو کہ ظاہری بات ہے کہ دھاتوں پر ہی مبنی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اگر بازیافتگی کے کارخانے لگائے جاتے ہیں تو اس کا کم از کم نوے فیصد حصہ نہایت آرام سے بازیافت کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ایسے کارخانے تو لازمی ہیں چاہے ہم نئے کمپیوٹر استعمال کرتے ہوں یا پرانے کیونکہ بنیادی طور پر تو سب کی ساخت ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کیا نئے کمپیوٹر کسی دور میں خراب نہیں ہوں گے؟ کیا انہوں نے آبِ حیات پی رکھا ہے؟ جب ایسا ہوگا تو اس کے لیے ہم نے کتنی تیاری کر رکھی ہے؟
اور یہ عجیب منتق ہے کہ کمپیوٹر ایک بار استعمال ہو جائے تو مضرِ صحت ہو جاتا ہے۔ کمپیوٹر ہے کہ ٹائلٹ پیپر؟ یا اسے خود ہی پتا چل جاتا ہے کہ اب میں ایک بار استعمال ہو چکا ہوں چنانچہ زہریلا ہو جاتا ہے؟
ماحولیاتی آلودگی پرانے کمپیوٹروں سے نہیں بلکہ کچرا بازیافت کرنے کے کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔
قصہ مختصر کہ یہ دلیل صرف جھوٹ پر مبنی ہے۔

دوسری وجہ جو پیش کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کمپیوٹرز کی کھپت بڑھنے کی وجہ سے مقامی طور پر اسمبل ہونے والے کمپیوٹرز کی صنعت اور مارکیٹ بہت متاثر ہو رہی ہے جو کہ مستقبل کے لیے پریشان کن بات ہے۔
اگر ترقی کرنی ہے تو وقتی طور پر بڑے فوائد کے لیے چھوٹے نقصانات کو برداشت کرنا ہوگا۔ کمپیوٹر آج کے دور میں تعلیم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم عام ہوگی تو خوشحالی آئے گی اور تب پھر لوگ نئے کمپیوٹر خریدنے کے بھی قابل ہو جائیں گے۔
پرانے کمپیوٹرز پر پابندی کے نتیجے میں تعلیم جو غریب کی پہنچ سے مزید دور ہوگی، اس سے صرف غریب طبقہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ طویل المیعاد طور پر مقامی اسمبلر بھی متاثر ہوں گے کیونکہ تعلیم کی کمی سے غربت مزید بڑھے گی اور نئے کمپیوٹر کو خریدنا مزید لوگوں کے بس سے باہر ہوتا جائے گا۔ تو یہ اسمبلر مجھے یہ بتائیں کہ جب ہوتے ہوتے ہر کوئی غریب ہو جائے گا اور کوئی بھی ان کے کمپیوٹر نہیں خرید پائے گا، تو تب یہ لوگ کیا کریں گے؟
 

محمد سعد

محفلین
اوئے اللہ کے بندو!
میں خود نہیں جا سکتا تو اپنے نمائندہ کی مدد کے لیے مواد جمع کر رہا ہوں۔ جبکہ دوسری طرف سے نہ تو کوئی مواد جمع کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ابھی تک کوئی نمائندگی کے لیے تیار ہوا ہے۔ کسی کو پروا بھی ہے کہ نہیں؟
 

مکی

معطل
اوئے اللہ کے بندو!
میں خود نہیں جا سکتا تو اپنے نمائندہ کی مدد کے لیے مواد جمع کر رہا ہوں۔ جبکہ دوسری طرف سے نہ تو کوئی مواد جمع کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ابھی تک کوئی نمائندگی کے لیے تیار ہوا ہے۔ کسی کو پروا بھی ہے کہ نہیں؟

یہ پاکستان ہے.. یہاں کسی کو کسی کی بھی پرواہ نہیں ہوتی.. تمہیں اکیلے بک بک کرنے کا شوق ہے تو شوق سے لگے رہو.. :laughing:
 
Top