مکمل پرانے خدا ۔ تحریر: کرشن چندر

فرخ منظور

لائبریرین
پرانے خدا
تحریر: کرشن چندر

متھرا کے ایک طرف جمناہے اور تین طرف مندر ، اس حددو اربعہ میں نائی حلوائی ، پانڈے ، پجاری اور ہوٹل والے بستے ہیں۔جمنا اپنارُخ بدلتی رہتی ہے۔نئے نئے عالی شان مندر بھی تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔لیکن متھرا کاحدوداربعہ وہی رہتا ہے، اس کی آبادی کی تشکیل اور تناسب میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو پاتی۔ سوائے ان دنوں کے جب اشمٹی کا میلہ معلوم ہوتا ہے کر شن جی کے بھگت اپنے بھگوان کا جنم منانیکے لیے ہندو ستان کے چاروں کونوں سے کھنچے چلے آتے ہیں ۔ ان دنوں کرشن جی کے بھگت متھرا پر یلغار بول دیتے ہیں ، اور مدراس سے، کراچی سے، رنگون سے، پشاور سے ، ہر سمت سے ریل گاڑیا ں آتی ہیں اور متھرا کے اسٹیشن پر ہزاروں جاتر ی اُگل دیتی ہیں، جاتری سمندر کی لہروں کی طرح بڑھے چلے آتے ہیں اور مندروں گھاٹوں ،ہوٹلوں اور دھرم شالاؤں میں سماجاتے ہیں۔متھرا میں کرشن بھگتوں کے استقبال کے لیے پندرہ بیس روز پہلے ہی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ مندروں میں صفائی شروع ہوتی ہے۔ فرش دھلائے جاتے ہیں۔ کلسوں پر دھات پالش چڑھایاجاتا ہے، زر کار پنگو ڑے اور جھولے سجائے جاتے ہیں دیواروں پر قلعی اور رنگ ہوتا ہے۔ دروازوں پر گُل بوٹے بنائے جاتے ہیں۔ دکانیں رادھاکرشن جی کی مورتیوں سے سجائی جاتی ہیں ۔ حلوائی پوری کچوری کے لیے بناسپتی گھی کے ٹین اکٹھے کرتے ہیں ۔ ہوٹلوں کے کرائے دُگنے بلکہ سہ گنے ہوجاتے ہیں ۔دھرم شالائیں چونکہ خیراتی ہوتی ہیں اس لیے اُن کے مینجیر ایک کمرے کے لیے صرف ایک روپیہ کرایہ وصول کرتے ہیں ۔ کسان لوگ جوان خیراتی دھرم شالاؤں میں ٹھہرنے کی توفیق نہیں رکھتے ۔ عموماً جمنا کے کسی گھاٹ پر ہی سورہتے ہیں گھاٹ چونکہ پختہ انیٹوں کے بنے ہوتے ہیں ، اس کے لیے گھاٹ منتظم سو نے والے جاتریوں سے ایک آنہ فی کس وصول کرلیتے ہیں اور اصل گھاٹ پر سونے کے لیے ایک آنے کاتاوان بہت کم ہے ۔کنارجمنا ۔ سر پر کدم کی پرچھائیاں ، جمناکی لہروں کی میٹھی میٹھی لوریاں ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ۔ تاروں بھرا آسمان اور مندروں کے چمکتے ہوئے کلس۔ جب جی چاہاسورہے ، جب جی چاہااُٹھ کر جمنا میں ڈبکیاں لگانے لگے ۔ ایک آنے میں دومزے، اس پر بھی بہت سے کسان لوگ گھاٹ کے غریب منتظموں کوایک آنہ کرایہ بھی ادا کرنانہیں چاہتے اور گھاٹ پر سونے اور جمنا پر نہانے کے مزے مفت میں لُوٹنا چاہتے ہیں۔انسان کی فطری کمینگی.....!
جنم اشمٹی سے دوروز پہلے میں متھرا میں آپہنچا ، متھرا کے بازار گلیاں اور مندرجاتریوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے اور جاتریوں کے ریوڑوں کو مختلف مندروں میں داخل کررہے تھے ، ان جاتریوں کی شکلیں دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ متھرا میں ہندوستان بھر کی بوڑھی عورتیں جمع ہوگئی ہیں، بوڑھی عورتیں مالاپھیرتی ہوئیں اور لاٹھی ٹیک کر چلتے ہوئے مرد ....کھانستی ہوئی ، گھٹیاکی ماری ہوئی رعشہ براندام مخلوق جویہاں اپنے گناہ بخشوانے کی اُمید میں آئی تھی ۔ جتنی بدصورتی یہاں میں نے ایک گھنٹے کے عرصے میں دیکھ لی، اتنی شاید میں اپنی ساری عمر میں بھی نہ دیکھ سکتا۔ متھرا کایہ احسان میں قیامت تک نہیں بھول سکتا ۔
متھرا پہنچتے ہی سب سے پہلے میں نے ا پنے رہنے کے لیے جگہ تلاش کی، ہوٹل والوں نے بالکونیاں تک کرایہ پردے رکھی تھیں۔ اور ان کی کھڑکیاں ،دروازوں اوربالکونیوں پرجابجاجاتریوں کی گیلی دھوتیاں ہلولیں لہراتی دکھائی دیتی تھیں ۔دھرم شالائیں جاتریوں سے بھڑکے چھتّوں کی طرح بھر ی ہوئی تھیں ۔ کوئی مندربنگالیوں کے لیے وقف تھا تو کوئی مدراسیوں کے لیے، کسی دھرم شالہ میں صرف نمبودری برہمنوں کے لیے جگہ تھی تو کسی میں صرف کائستھ ٹھہر سکتے تھے ۔ اس سرائے میں اگر والوں کوترجیح دی جاتی تھی، تو دوسری سرائے میں صرف امرتسر کے ارڈرے ٹھہرسکتے تھے۔ ایک دھرم شالہ میں ایک کمرہ خالی تھا۔میں نے ہاتھ جوڑکر پانڈے جی سے کہا۔ میں ہندوہوں ،یہ دیکھئیے ہات پرمیرانام کُھداہوا ہے۔اگر آپ انگریزی نہیں پڑھ سکتے تو چلئے بازار میں کسی سے پڑھو الیجئے ۔ غریب جاتر ی ہوں اپنی دھرم شالہ میں جگہ دے دیجئے آپ کابڑا احسان ہوگا۔ پانڈے جی کی آنکھیں غلافی تھیں اور بھنگ سے سرخ، جیواکامقدس تاگا ننگے پیٹ پر لہرا رہاتھا۔کمرمیں رام نام کی دھوتی تھی۔چند لمحوں تک چپ چاپ کھڑے مجھے گھورتے رہے ، پھر گھگیائی ہوئی آواز میں جس میں پان کے چُونے اور کتھے کے بُلبلے سے اُٹھتے ہوئے معلوم ہوتے تھے،بولے آپ کون ہو،
میں نے جھلا کر کہا،میں انسان ہوں ،ہندوہوں ،کالاشاہ کاکوسے آیاہوں ۔ ناں ،ناں!پانڈے جی نے اپنابایاں ہاتھ گوتم بُدھ کی طرح اُوپر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ہم پوچھت ہیں ۔آپ کون گوت ہو؟
گوت؟میں نے رُک کرکہا۔مجھے اپنی گوت تو یاد نہیں ۔ بہرحال کوئی نہ کوئی گوت ضرو ہوگی۔ آپ مجھے فی الحال اپنی دھرم شالہ ۔اس خیراتی دھرم شالہ میں رہنے کے لیے جگہ دے دیں ،میں گھر پر تاردے کر اپنی گوت منگوائے لیتاہوں۔ ناں،ناں!پانڈے جی نے پان کی پیک زور سے فرش پر پھینکے ہوئے کہا۔ہم ایسومانس کیسوراکھیں؟ نہ گوت نہ جات!
میں متھرا کے بازاروں میں گھوم رہاتھا۔فضامیں کچوریوں کی کڑوی بوجمنا کے مہین کیچڑ کی سڑانداور بناسپتی گھی کی گندی باس چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔متھرا کی خاک جاتر یوں کے قدموں میں تھی، ان کے کپڑے میں تھی، اُن کے سر کے بالوں میں، ناک کے نتھنوں میں حلق میں ،میرادم گُھٹاجاتا تھااور جاتری شری کرشن مہاراج کی جے کے نعرے لگا رہے تھے ۔میرا سرگھوم رہاتھا۔مجھے رہنے کے لیے ابھی تک کہیں جگہ نہ ملی تھی۔ایک پنواڑی کی دکان پر میں نے ایک خوش پوش خوش رو نوجوان کودیکھا کہ سرتاپابّراق کھدّر میں ملبوس ، پان کلّے میں دبائے کھڑا ہے ، آنکھوں سے اور چہرے سے ذہانت کے آثارنمایاں ہیں۔میں نے اُسے بازوسے پکڑ لیا۔ مسٹر؟میں نے اُسے نہایت تلخ لہجے میں مخاطب ہوکر کہا۔کیاآپ مجھے جیل خانے کے سوایہاں کوئی اورایسی جگہ بتاسکتے ہیں جہاں ایک ایساانسان جوہندوہو، پنجابی ہو ،کالاشاہ کاکو سے آیاہوا ور جسے اپنی گوت کا علم نہ ہو،میلے کے دنوں اپناسر چھپا سکے؟ نوجوان نے چند لمحوں کے لیے توقف کیا، چندلمحوں کے لیے مجھے گھورتا رہا۔ پھر مسکرا کرکہنے لگا ۔ آپ پنجابی ہیں نا!اسی لیے آپ یہ تکلیف محسوس کررہے ہیں ...دراصل بات یہ ہے کہ ...معاف کیجئے گا...پنجابی بڑے بدمعاش ہوتے ہیں ۔یہاں سے لڑکیا ں اغوا کر لے جاتے ہیں،
اور ان لڑکیوں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جواس طرح اغوا ہوجاتی ہیں، میں نے پوچھا۔ ایک دُبلاپتلاآدمی جس کاقد بانس کی طرح لمبا تھااور منہ چھچھوندر کاسا کھدرپوش نوجوان کی تائید کرتے ہوئے بولا۔ بابو صاحب ، آپ متھرا کی بات کیوں کرتے ہیں۔متھرا تو پوترنگری ہے ۔ میں تو بمبئی تک گھوم آیاہوں ، وہاں بھی پنجابیوں کوشریف محلوں میں کوئی گھسنے نہیں دیتا ۔
دوچار لوگ ہمارے اردگرد اکٹھے ہوگئے۔میں نے آستین چڑھاتے ہوئے کہا۔ کیاآپ نے تاریخ کامطالعہ کیاہے؟ جی ہاں !خوش رونوجوان نے پان چباتے ہوئے جواب دیا۔
توآپ کومعلوم ہوگاکہ پنجاب سب سے آخر میں انگریزوں کی عمل داری میں آیا۔اور چھوٹی بچیوں کوجان سے مار ڈالنے کی رسم جوہندوستان کے صوبوں میں رائج تھی ۔ پنجاب میں سب سے آخر میں خلاف قانون قرار دی گئی۔انگریزوں کے آنے سے پہلے شریف لوگ اکثر اپنی لڑکیوں کوپیداہوتے ہی مارڈالتے تھے ۔
اُس سے کیا ہوا؟‘‘
ہوا یہ کہ پنجاب میں مردوں اور عورتوں کاتناسب ایک اور پانچ کاہوگیا۔ پانچ مرد اورایک عورت ، اب بتائیے باقی چار مرد کہاں جائیں،مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہر عورت ایک دم چار پانچ خاوند کر سکے ، جیسا کہ تبّت میں ہوتا ہے، کیاآپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں۔ نوجوان ہنسنے لگا۔
میں نے کہاپنجاب میں لڑکیاں کم ہیں ۔پنجابیوں نے دوسرے صوبوں پر ہات صاف کرناشروع کیا ، بنگال میں لڑکیاں زیادہ ہیں۔ وہاں لوگ ایک بیوی رکھتے ہیں اورایک داشتہ جوعموماًودھوا ہوتی ہے،سندھی اور گجراتی مرد سمندر پار تجارت کے لیے جاتے ہیں اور اکثر گھروں سے کئی سال غائب رہتے ہیں۔ اسی لیے سندھ میں ادم منڈلیاں بنتی ہیں اور گجرات میں بکری کے دودھ اور برہمچریہ کاپرچار ہوتا ہے۔ مرض ایک ہے ، نوعیت وہی ہے ،اب آپ ہی بتائیے کہ شریف کون ہے اور بدمعاش کون؟جو حقیقت ہے آپ اس کا سامنا کرنانہیں چاہتے۔اُلٹ پنجابیوں کوکوستے ہیں۔ نوجوان بے اختیار قہقہہ مار کرہنسا، پان گلے سنے موری میں جاگرا ، وہ میرے بازو میں بازوڈال کرکہنے لگا۔آئیے صاحب میں آپ کواپنے گھر لیے چلتا ہوں۔‘‘
تھوڑے ہی عرصے میں ہم ایک دوسرے کے بے تکلّف دوست بن گئے وہ ایک نوجوان وکیل تھاایک کامیاب وکیل، اس کاذہین چہرہ ،فراخ ماتھا،اورمضبوط ٹھوڑی اس کے عزم راسخ کی دلیل تھے۔ وہ مدراسی برہمن تھا۔متھرا میں سب سے پہلے اُس کادادا آیاتھاکہتے ہیں کہ اس کے دادا کے کسی رشتہ دار نے جومدراس میں ایک مندر کاپجاری تھا،کسی آدمی کوقتل کر دیا ،ٹھاکر جی کو ایک پجاری کے گناہ کے بارسے بچانے کے لیے میرے دوست کے دادانے ایک رات کومندر سے ٹھاکر جی کی مورتی کواُٹھا
لیااورایک گھوڑے پر سوا ر ہوکر مدراس چل دیا۔سفر کرتے کرتے وہ متھراآن پہنچا ۔یہاں پہنچ کر اس کی آتماکو سکون نصیب ہوا ۔اور اُس نے ٹھاکر جی کوایک مندر میں ستھاپت کردیا۔ آج اسی دادا کاپوتا میرے سامنے مندر کی دہلیزپر کھڑا تھااور میں اس کے گٹھے ہوئے جسم اور چہر ے کے تکیھے نقو ش میں اس بوڑھے برہمن کے عزم اور اعتقادکی جھلک دیکھ رہاتھاجس کی تصویر اس کی بیٹھک میں آویزاں تھی۔ نہادھوکر اور کھانے سے فارغ ہوکر ہم میلے کی سیرکو نکلے ،جوگلی بازار سے دشرام گھاٹ کی طرف جاتی ہے اس میں سینکڑوں نائی بیٹھے استروں سے جاتریوں کے سرمونڈرہے تھے۔ گول گول چمکتے ہوئے منڈھے ہوئے سراُن سپیدچھتریوں کی طرح دکھائی دیتے تھے جوبرسات کے دنوں میں خود بخودزمین پراُگ آتی ہیں،جی چاہتاتھا کہ ان سپید سپید چھتریوں پر نہایت شفقت سے ہاتھ پھیرا جائے!اتنے میں ایک نائی نے میری آنکھوں کے سامنے ایک چمکدار اُسترا گھمایااور مسکرا کربولا،بابوجی سرمنڈالو، بڑاپن ہوگا، میں نے اپنے دوست سے پوچھایہ جاتری لوگ سرکیوں منڈاتے ہیں، کہنے لگا ۔دان پُن کرنے کی خاطر۔یہ لوگ اپنے مرے ہوئے عزیزوں کی روحوں کے لیے دان پُن کرناچاہتے ہیں اور اُس کے لیے سرمنڈانابہت ضروری ہے اور یہاں ایسا کون شخص ہے جس کااب تک کوئی عزیز یارشتے دار نہ مرا ہو، میں نے جواب دیامیری چندیاپر پہلے ہی تھوڑے سے بال ہیں ۔ میں انہیں حجام کی دست بُرد سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں ۔ کیونکہ میں سمجھتاہوں کہ ایک بال جوچندیاپرہے اُن بالوں سے کہیں بہتر ہے جوحجام کی مٹھی میں ہوں ،ہم لوگ جلدی جلدی قدم اُٹھاتے ہوئے وشرام گھاٹ پہنچ گئے ۔ گھاٹ پر بہت سی کشتیاں کھڑی تھیں اور لوگ ان پر بیٹھ کرجمنا جی کی سیر کے لیے جارہے تھے ہم نے بھی ایک کشتی لی اور تین گھنٹے تک جمنا میں گھومتے رہے۔ جن کے کنارے پختہ گھاٹ بنے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں مندروں اور دھرم شالاؤں کی چوبرجیاں اورکدم کے درخت نظر آجاتے ۔ایک جگہ دریا کے کے کنارے ایک پُرانے شکستہ محل کے بلند کنگرے نظر آئے ۔استفسارپر میرے دوست نے بتایا کہ اسے کنس محل کہتے
ہیں۔میں نے کہا۔تین چار سو سال سے زیادہ پُرانا معلوم نہیں ہوتا ، کہنے لگا ہاں اسے کسی مرہٹہ سردار نے بنوایاتھا۔اب زودالاعتقاد لوگوں کو خوش کرنے کے لیے یہ کہہ دیاجاتاہے کہ یہ اُسی کنس کامحل ہے جس کے ظلموں کاخاتمہ کرنے کے لیے بھگوان نے جنم لیا تھامیں نے پوچھا،کس زمانے میں ظلم نہیں ہوتے؟وہ ہنس کربولا ،اگر یہی پوچھناتھا تو متھر اکیوں آئے.....وہ دیکھوریل کاپُل؟....متھرا میں سب سے زیادہ خوبصورت شے یہی ریل کا پُل ہے ، مضبوط جیّد بلند ،ریل گاڑی نہایت پُر سکوں ا نداز میں جمنا کے سینے کے اُوپر دندتاتی ہوئی چلی جارہی تھی کہتے ہیں کہ کرشن جی کے جنم دن کو جمنافرطِ محبت سے اُمڈی چلی آتی تھی اور جب تک اس نے کرشن جی کے قدم نہ چھولیے اس کی لہروں کاطوفان ختم نہ ہوا ۔ جمنا میں اب بھی طوفان آتے ہیں لیکن اس کی لہروں کی ہیجانی اس ریل گاڑی کے قدموں کو بھی نہیں چُھو سکتی جواس کی چھاتی پر دند ناتی ہوئی چلی جارہی ہے۔جمنا کی سر بلند ی ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہے۔
جب ہم واپس آئے تو سورج غروب ہورہا تھا اور وشرام گھاٹ پر آرتی اتار ی جارہی تھی۔عورتیں رادھے شیام ،رادھے شیام گاتی ہوئی جمنا میں نہا رہی تھیں شنگھ اور گھڑیال زور زور سے بج رہے تھے،جاتری چڑھا وا چڑھارہے تھے، اور جمنا میں پھل اور پھو ل پھینک رہے تھے ۔پانڈے دکشنا سنبھا لتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ آرتی اتارتے جاتے تھے۔ ایک پانڈے نے ایک غریب کسان کو گردن سے پکڑ کر گھا ٹ سے باہر نکال دیا۔کیونکہ کسان کے پاس دکشناکے پیسے نہ تھے ۔شاید کسان سمجھتا تھاکہ بھگوان کی آرتی پیسوں کے بغیر بھی ہوسکتی ہے ۔ وشرام گھاٹ کی نچلی سیڑھیوں تک جمنا بہتی تھی، لیکن یہاں پانی کم تھا اور کیچڑ زیادہ تھا اور کیچڑ میں سینکڑوں چھوٹے موٹے کچھو ے کلبلارہے تھے اور مٹھا ئیاں اور پھل کھا رہے تھے ۔ان کے ملائم مٹیالے جسم ان جاتریوں کی ننگی کھوپریوں کی طرح نظر آتے تھے جن کے بال نائیوں نے مونڈکرصاف کر دیئے تھے۔ رادھے کرشن رادھے کرشن ، جاتر ی چلاّرہے تھے ۔ نوبیاہتاجوڑے کشتیوں میں بیٹھے ہوئے مٹی کے دیئے روشن کر کے انہیں جمنا کے سینے پر بہا رہے تھے۔ جن کے سینے پر اس قسم کے سینکروں دئیے روشن ہو اُٹھے تھے اورنوبیاہتا جوڑھے مسرت بھر ی نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف تک رہے تھے ، ہمارے بالکل قریب ہی ایک زرد رُو نوجوان لڑکی نے مٹی کے دودیئے روشن کیئے اور انہیں جمنا کے حوالے کر دیا ۔ دیر تک وہ وہاں کھڑی اپنے ہاتھ اپنے سے لگائے اُن دئیوں کی طرف دیکھتی رہی اور ہم اس کی آنکھو ں میں چمکنے والے آنسوؤں کی طرف دیکھتے رہے ۔ اس لڑکی کے ساتھ اس کا خاوندنہ تھا ، وہ بیا ہتا معلوم ہوتی تھی ، پھر ان جھلملاتے ہوئے دئیوں کی لَوکو کیوں اس نے اپنے سینے سے چمٹا لیا تھا ، یہ لرزتی ہوئی شمع محبت .....لڑکی نے یکا یک میرے دوست کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا کر آہستہ آہستہ گھاٹ کی سیڑھیا ں چڑھتے ہوئے چلی گئی۔ میرے دوست کے لب بھنچے ہوئے تھے، رخساروں پر زردی کھنڈی ہوئی تھی، کیا جمنا میں اتنی طاقت نہ تھی کہ محبت کے دوکا نپتے ہوئے شعلوں کو ہم آغوش ہوجانے دے ۔یہ دیواریں ، یہ پانی کی دیواریں،پیسے کی دیواریں ،سماج ، ذات پات اور گوت کی دیواریں .....!میرا دل غیر معمولی طور پر اُداس ہوگیا ۔ اور میں نے سوچا کہ میں کل متھر اسے ضرور کہیں باہر چلاجاؤں گا ۔ برندابن میں یا شاید گوکل میں ، جہاں کی سادہ اورپاک وصا ف فضا میں میرے دل کو اطمینا ن نصیب ہو گا۔ برندابن میں بن کم اور پکّی گلیا ں اور کھلی سڑکیں زیادہ تھیں ، برندابن کے عالی شان مندروں کی وسعت اور عظمت پر محلوں کا دھوکہ ہوتا تھا ۔ راجہ مان سنگھ کا مندر ، میر اکامندر باہر عمارت میں کرشن جی کی مورتی موجود تھی، ہر جگہ پانڈے موجود تھے، انگریزی بولنے والے پڑھے لکھے گائیڈ ، پہلے لوگ مندروں میں بے کھٹکے چلے جایاکرتے تھے، اب بھگوان نے گائیڈرکھ لیے تھے ،خدا وہی پُرانے تھے۔ لیکن جدید مذہب کے سارے لوازمات سے بہر ہ ور، آخریہ نئی تہذیب بھی تو اُنہیں کی بنا ئی ہوئی تھی۔
برندابن کے ایک مندر میں میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا ہال ہے جس میں سات آٹھ سوسادھو ہات میں کھڑ تالیں لیے ایک ساتھ گارہے تھے، رادھے شیام ، رادھے شیام ....لفٹ رائٹ ،لفٹ رائٹ....باقاعدگی تنظیم ،اندھاپن تہذیب اور طاقت کے ہزاروں رازاس رقت انگیز نظارے میں مستور تھے، ہر روز سینکڑوں بلکہ ہزاروں جاتری اس مندر میں آتے تھے اور بے شمار چڑھاوا چڑھتا تھا ، سُنا ہے کہ ان اندھے سادھوؤں کوصبح شام دونوں وقت کھا نا مل جاتاتھا اور ایک پیسہ دکشناکا ، باقی جومنافع ہوتا ، وہ ایک لحیم شحیم پانڈے کی تجوری میں چلاجاتا ، ایک اور مندر میں بھی میں نے ایسا ہی نظارہ دیکھا ، فرق یہ تھا کہ یہاں اندھے سادھوؤں کی بجائے بے کس اور نادار عورتیں کرشن بھگوان کی استتی کر رہی تھیں ۔دن بھر اُستتی کرنے کے بعد اُ نہیں بھی وہی راشن ملتا تھا جواندھے سادھوؤں کے حصے میں آتا تھا ۔ یعنی دووقت کا کھانا اور ایک پیسہ دکشناکا ۔ان اندھے سادھو ؤ ں اور عوتوں کے سر منڈھے ہوئے تھے ۔جنہیں دیکھ کر مجھے وشرام گھاٹ کے جاتر ی اورجمنا کے کیچڑ میں کلبلاتے ہوئے کچھو ے یاد آگئے ۔ مذہب نے مندروں میں فیکٹریاں کھول رکھی تھیں اور بھگوان کو لوہے سے بھی زیادہ مضبوط سلاخوں کے اندر بند کر دیا تھا ، ہر مندر میں ہر ایک جاتر ی کو ضرور کچھ نہ کچھ دینا پڑتا تھا بعض دفعہ توایک ہی مندر میں مختلف جگہوں پر دکشنا ریٹ مختلف تھا ۔ سیڑھیوں کوچھُو نے کے لیے ایک آنہ ، مندر کی چوکھٹ تک آنے کے لیے چار آنے ۔ مندر کا کواڑا کثر بند رہتا تھا اور ایک روپیہ دے کر جاتر ی مندر کے کواڑ کھول کر بھگوان کے درشن کرسکتا کئی ایک مندر ایسے تھے جو سال میں صرف ایک بار کھلتے تھے اور کوئی بڑا سیٹھ ہی اُن کی ’’بوہنی ‘‘کرسکتا تھا اور بہت سا روپیہ اد کرکے مندر کے کواڑ کھول سکتاتھا ۔طوائفیت ہمارے سماج کا کتنا ضروری جزو ہے ۔ اس بات کا احساس مجھے ایسے مندروں ہی کو دیکھ کر ہوا ۔‘‘ گوکل میں جمنا کے کنارے تین عورتیں ریت پر بیٹھی رو رہی تھیں ، مارواڑ سے کرشن بھگوان کے درشن کرنے کو آئی تھیں ، زیوروں میں لدی پھندی ایک سادھو مہاتما نے انہیں اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا لیا اور گیان دھیان کی باتیں کرتے کرتے انہیں مختلف مندروں میں لیے پھر ے ، اور جب یہ مارداڑی
عورتیں گوکل میں ماکھن چور کنھیا کا گھر دیکھنے آئیں تویہ مہاتما بھی اُن کے ہمرا ہ ہو لیے، عورتیں جمنا میں اشنا ن کر رہی تھیں، اور سادھو کنارے پر اُن کے زیوروں اور کپڑوں کی رکھوالی کر رہاتھا ۔ جب عورتیں نہا دھو کرگھاٹ سے باہر نکلیں تو مہاتما جی غائب تھے ،عورتیں سرپیٹنے لگیں ، کرشن جی اگر ماکھن چراتے تھے تو سادھو مہاتما نے اگر چندزیور چرالیے تو کون سابُر ا کام کیا ۔ لیکن مہاتما کی یہ تکف اُن بے وقوف عورتوں کی سمجھ میں نہ آتی تھی اور وہ جمنا کی گیلی ریت پر بیٹھی مہاتما جی کو گالیا ں دے رہی تھیں۔ بہت سے لوگ اُن کے آس پاس کھڑے تھے اور وہ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ ’’جی بڑا ظلم ہوا ہے ان غریب عورتوں کے ساتھ ....‘‘
’’بھلا یہ گھر سے زیور لے کر ہی کیوں آئیں؟‘‘ ’’اپنی امارت دکھانا چاہتی تھیں ۔ اب رونا کس بات کا .....‘‘ ’’اجی صاحب شکر کیجئے ان کی جان بچ گئی۔ اب کل ہی متھر امیں ۔ ایک پانڈے نے اپنے ججمان اور اس کی بیوی کو اپنے گھر لے جاکر قتل کر دیا ۔ ججمان کا نیانیا بیاہ ہوا تھا ۔ بیوی کے پاس ساٹھ سترّ ہزار کا زیور تھا ...کسی مدراسی جاگیردار کالڑکاتھا جی، اکلوتا لڑکاتھا ...اس کے باپ کو پولیس نے تاردیا ہے ، خیال توکیجئے کیسا اندھیر مچ رہا ہے اس پوتر نگر ی میں۔‘‘
’’متھر ا میں لوک سے نیاری!‘‘ بہت رات گئے میں اور میرا دوست جمنا کے اس پار کھیتوں میں گھومتے رہے ۔ جنم اشیٹمی رات تھی،پھونس کے جھونپڑیوں میں جن میں غریب مزدور اور کسان رہتے تھے، مٹی کے دیئے روشن تھے اور جمنا کے دوسرے کنارے گھاٹوں پر بجلی کے قمقمے اور برہمنوں کے قہقہوں کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں۔ پھونس کے جھونپڑوں کے باہر مریل سی فاقہ زدہ گائیں بندھی تھیں اور نیم برہنہ لڑکے خاک میں کھیل رہے تھے ۔ کنوئیں کی جگت پر ایک بوڑھی عورت آہستہ آہستہ ڈول کھینچ رہی تھی۔ دوبڑی بڑی گاگریں اس کے پاس پڑی تھیں۔کنوئیں سے آگے آم کے درختوں کی قطار تھی جو بہت دُور تک پھیلتی ہوئی چلی گئی تھی۔ آم کے درخت اور آنولے کے پیڑا ور کھرنی کے مدور چھتنارے ، یہاں گہرا سناٹا چھا یا ہوا تھا۔ ہوا میں ایک ہلکی ادا س سی خوشبو تھی اور ستاروں کی روشنی ایسی جس میں سپیدی کے بجائے سیاہی زیادہ گھلی ہوئی تھی جیسے یہ روشنی کھل کر ہنسنا چاہتی ہے ، لیکن شام کی اداسی کو دیکھ کررُک جاتی ہے۔ میرے دوست نے آہستہ سے کہا۔میں اور وہ کئی بار اُن کھرنی کے مدور سایوں میں ایک دوسرے کے ہات کے ہات میں دیئے گھومتے رہے ہیں...کتنی ہی جنم اشٹمیاں اس طرح گزر گئیں....اورآج ....! میں خاموش رہا۔ چند دن ہوئے میر ادوست کہہ رہا تھا ۔ مجھے قتل کے ایک مقدمے میں پیش ہوناپڑا ۔قاتل کومقتو ل کی بیوی سے محبت تھی....اور جب اسے پھانسی کا حکم سنایاگیاتو قاتل کسان نے جن حسرت بھر ی نگاہوں سے اپنی محبوبہ کی طرف دیکھا ۔ ان نگاہوں کی وارفتگی اور گرسنگی ابھی تک میرے دل میں تیر کی طرح چبُھی جاتی ہے۔ وہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کو چاہتے تھے ۔
سالہاسال ایک دوسرے سے پیار کرتے رہے ۔ پھر لڑکی کے ماں باپ نے اس کی شادی کسی دوسری جگہ کر دی ....یہ جمنا پر لوگ محبت کے دیئے کس لیے جلاتے ہیں ؟...بڑے ہو کر اپنے ہی بیٹوں اور بیٹیوں کے گلے پر کس طرح چُھری چلاتے ہیں...وہ کسان عورت اب پاگل خانے میں ہے....؟ میں نے کہا محبت بھی اکثر بے وفا ہوتی ہے ۔ رادھا کو کرشن سے عشق تھا لیکن رادھا اور کرشن کے درمیان بادشاہت کی دیوار آگئی ، اس نے کہا شاید تمہیں رادھا اور کرشن کی محبت کاانجام معلوم نہیں ۔‘‘
’’نہیں‘‘وہ چند لمحوں تک خاموش رہا پھر آہستہ سے کہنے لگا.... ....کرشن جی نے برندا بن کی گوپیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک بار پھر برندا بن میں آئیں گے اورہر ایک گوپی کے گھر کا دروازہ تین بار کھٹکھٹا ئیں گے جس گھر میں روشنی ہو گی اور جو گوپی دروازہ کھٹکھٹانے پران کا خیرمقدم کرے گی۔وہ اُسی عشق کو سچا جانیں گے__اس بات کو کئی برس گزر گئے ۔ ایک اندھیاری طوفانی رات میں جب بجلی کڑک رہی تھی اور بارش موسلادھار برس رہی تھی کسی نے برندابن کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کیے سیاہ لبادے میں لپٹا ہوا اجنبی ہر ایک مکان پر تین بار دستک دیتا ، اور پھر آگے بڑھ جاتا ....لیکن سب مکانوں میں اندھیر ا تھا ۔سب لوگ سوئے پڑے تھے ۔ کسی نے اُٹھ کر دروازہ نہ کھولا۔ اجنبی نااُمید ہو کر واپس جانے والا تھاکہ اُ س نے دیکھا کہ دور ۔ ایک جھونپڑے میں مٹی کا دیاجھلملا رہا ہے ۔ وہ اس جھونپڑی کی طرف تیزتیز قدموں سے بڑھا ۔ لیکن اسے دروازہ کھٹکھٹا نے کی ضرورت بھی نہ محسوس ہوئی ۔ کیونکہ دروازہ کھلا تھا ۔ جھونپڑے کے اندر دیئے کی روشنی کے سامنے رادھا بیٹھی تھی۔ اپنے محبوب کے انتظار میں ، رادھا کے سر کے بال سپید ہو چکے تھے، چہر ے پر لاتعداد جُھر یا ں ۔ کرشن جی نے گلوگیرآواز میں کہا۔’’رادھا میں آگیا ہوں ۔‘‘ لیکن رادھا خاموش بیٹھی رہی ۔ دیئے کی لَوکی طرف تکتی ہوئی ۔ رادھا میں آگیاہوں، کرشن جی نے چلا کر کہا۔
لیکن رادھا نے کچھ نہ دیکھا ۔ نہ سُنا ۔اپنے محبو ب کی راہ تکتے تکتے اس کی آنکھیں اندھی ہوچکی تھیں اور کان بہر ے۔ ......زندگی سے پرے ، موت سے پر ے انصاف سے پرے.....
میری آنکھوں میں آنسوآگئے ، میر ادوست اپنی باہوں میں سر چھپا کر سسکیاں لینے لگا جیسے کسی نے اس کی گرد ن میں پھانسی کاپھندا ڈال دیا ہو جیسے پاگل عورت محبت کرنے کے جرم میں لوہے کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دی گئی ہو ۔زرد رو لڑکی وشرام گھاٹ پر حسرت بھر ی نگاہوں سے مٹی کے دئیوں کی لَو کی
طرف تک رہی تھی ا س کی حیران پتلیاں میری آنکھو ں کے آگے ناچنے لگیں ۔ اندھے سادھوسرمنڈائے ہوئے قطار درقطار کھڑے تھے اور کھڑتالیں بجا تے ہوئے گارہے تھے۔ رادھے شیام ۔رادھے شیام ۔رادھے شیام __لیف رائٹ ۔ لیف رائٹ ۔لیف رائٹ ۔پرانے خدا ابھی تک مندروں ، بینکوں فیکٹریوں اور کھیتوں پر قبضہ کئے بیٹھے تھے، وہ اپنے بہی کھاتے کھالے ۔ آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے ۔اُن کی ننگی توندوں پر جینولہرارہے تھے اور وہ نہایت دلجمعی سے اُن لاکھوں آوازوں کو سن رہے تھے، جو فضا میں چاروں طرف شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہی تھیں ....رادھے شیام ....رادھے شیام ....‘‘​
 
Top