پروف ریڈ اول پاکستان ہماری منزل تھا : صفحہ 5

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
AAPBeeti006.gif
 

شکاری

محفلین
کتاب : پاکستان ہماری منزل تھا۔
ٹائپنگ : عدنان زاہد


تھیں اور انہیں ہر طرح سے نیست ونابود کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، مگر کچھ علاقے ایسے تھے جہاں مسلمان پناہ گزین ہو کر اپنے بچاؤ کا سامان کرسکتے تھے۔ پیران کلیر کی درگاہ بھی ایسی ہی جگہ تھی۔ آس پاس کے سینکڑوں عیہات کے لوگ وہاں آکر پناہ لئے ہوئے تھے۔ ہم لوگ بھی رات کو رہیں جاکر سوتے تھے اور دن کے وقت جاکر اپنے گھر کی خبر لے آتے تھے۔ میرے لیے دوسرے بڑی پریشانی کا باعث یہ صورت حال تھی کہ مشرقی پنجاب میں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور خاندان کے بارے میں کوئی خیروخبر نہیں تھی کہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ اخبارات سے روز نئی نئی پریشان کن خبر ملتی تھی۔ کبھی معلو ہوتا تھا کہ اس علاقہ کو مسلمانوں سے خالی کرالیا گیا ہے اور بہت قتل وغارت ہوئی ہے۔ کبھی پتہ چلتا تھا کہ علاقہ اس کی تمام مسلمان آبادی پاکستان منتقل ہوگئی ہے لیکن پاکستان متقل ہونا کونسی آسان بات تھی۔ پاکستان جانے واے قافلوں اور گاذیوں پر حملوں اور سفاکانہ قتل و غارت کی خبریں عام تھیں۔ غرض ایک افرا تفری، بدامنی، بے چینی، بے سکونی کا عالم تھا اور ہر محہ سخت پریشانی اور اضطراب میں گزررہا تھا۔ آخر پورے تین ماہ کی تشویش اور پریشانی کے بعد 4 دسمبر کو قبلہ والد صاحب کا پاکستان سے لکھا ہوا خط ملا جس سے معلوم ہوا کہ سارا خاندان بلکہ سارے علاقہ کے تمام مسلمان ہجرت کرکے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ جانیں اور عزتیں سلامت رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سب کچھ چوڑ کر آنا پڑا کیونکہ سفر قافلہ کی صورت میں تھا۔ قافلہ میں اسی ہزار آدمی شامل تھے۔ انیس دن کے سفر کے بعد یہ قافلہ پاکستان پہنچا۔ راستہ میں کئی دفعہ حملے ہوئے، بڑی سختیاں‌دیکھیں لیکن اللہ تعالٰی نے بحفاظت پاکستان پہنچا دیا۔ اس کا بے حدوحساب شکر ادا کیا اور دل کو کسی قدر اطمینان نصیب ہوا۔
قریباً تین ماہ کے خونریز فسادات، قتل وغارت اور شدید لوٹ مار کے بعد حالات کسی قدر بہتر ہونے شروع ہوئے۔ حکومت نے حالات کو قابو کرنے کی کوششیں کیں، ہر جگہ مقامی آبادی کے سر کردہ لوگوں کو ان کوششوں ‌میں شامل کیا۔ دونوں مذہبوں کے پیرکاروں پر مشتمل امن کمیٹیاں قائم کی گئیں اور اس طرح کے اقدامات سے صورت حال بہتر ہوئی۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر آنے والے لوگ اکادکا واپس جانے لگے۔ لیکن واپس جاکر کہاں رہتے۔ ان کے گھر جلا دیئے گئے تھے۔مال اسباب سارا کا سارا لوٹ لیا گیا تھا اور جائدادوں پر قبضے کرلیے گئے تھے۔ اس طرح اجڑے ہوئے لوگوں کی دوبارہ آباد کاری میں بڑی مشکل پیش آئی۔ مسلمانوں نے بھی واپس جانے کے بجائے محفوظ مقامات پر اپنے عزیزوں اور دوستوں‌ کے پاس رہنا زیادہ پسند کیا۔ ساتھ ہی جسے موقع ملا اس نے پاکستان کا رخ کیا۔ اگرچہ راستے تمام ہی بند تھے۔ مگر دو طول طویل راستے کھلے تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ بمبئی پہنچ کر سمندری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچ جائیں۔ دوسرا راستہ راجستان کا تھا۔ مگر یہ دشوار گزار بہت تھا اور کئی کئی دن ریگستان میں پیدل چلنا پڑتا تھا۔ بمبئی کا راستہ بہت طویل ہونے کے علاوہ کچھ یقینی نہیں تھا۔ جہاز پتہ نہیں کب ملے اور کب تک ملے اس لئے اکثر لوگ راجستھان کا راستہ اختیار کرتے تھے۔ خال خال لوگ ایسے بھی تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے وسائل دیئے تھے اور ہوائی جہاز کا راستہ اختیار کرسکتے تھے مگر ان دنوں‌ہوائی سفر نہ تو اتنا عام تھا اور نہ اتنا آسان۔ اس تک رسائی بہت کم لوگوں کی تھی۔
مدرسہ کھل گیا تھا اور معمول کے کام شروع ہوگئے تھے مگر زندگی جیسے اپنا معمول بھول گئی تھی۔ لگتا تھا سب کچھ بدل کر رہ گیا ہے۔ آبادی کی شکل ہی تبدل ہو کر رہ گئی تھی۔ مزاج ہی بدل گیا تھا۔ معمولات کچھ کے کچھ ہوگئے تھے۔ آپس کا اعتماد اور بھروسہ جاتا رہا تھا اور اب دونوں قوموں کے درمیان میل جول کے باوجود تعلقات کی پہلی سی صورت نہیں رہی تھی۔ معاشرہ کی
 

ابو کاشان

محفلین
کتاب : پاکستان ہماری منزل تھا۔
پروف ریڈنگ : ابو کاشان


تھیں اور انہیں ہر طرح سے نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، مگر کچھ علاقے ایسے تھے جہاں مسلمان پناہ گزین ہو کر اپنے بچاؤ کا سامان کر سکتے تھے۔ پیران کلیر کی درگاہ بھی ایسی ہی جگہ تھی۔ آس پاس کے سینکڑوں دیہات کے لوگ وہاں آ کر پناہ لئے ہوئے تھے۔ ہم لوگ بھی رات کو رہیں جا کر سوتے تھے اور دن کے وقت جا کر اپنے گھر کی خبر لے آتے تھے۔ میرے لیے دوسرے بڑی پریشانی کا باعث یہ صورت حال تھی کہ مشرقی پنجاب میں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور خاندان کے بارے میں کوئی خیر و خبر نہیں تھی کہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ اخبارات سے روز نئی نئی پریشان کن خبر ملتی تھی۔ کبھی معلوم ہوتا تھا کہ اس علاقہ کو مسلمانوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور بہت قتل وغارت ہوئی ہے۔ کبھی پتہ چلتا تھا کہ علاقہ اس کی تمام مسلمان آبادی پاکستان منتقل ہوگئی ہے لیکن پاکستان منتقل ہونا کونسی آسان بات تھی۔ پاکستان جانے والے قافلوں اور گاڑیوں پر حملوں اور سفاکانہ قتل و غارت کی خبریں عام تھیں۔ غرض ایک افرا تفری، بدامنی، بے چینی، بے سکونی کا عالم تھا اور ہر محہ سخت پریشانی اور اضطراب میں گزر رہا تھا۔ آخر پورے تین ماہ کی تشویش اور پریشانی کے بعد 4 دسمبر کو قبلہ والد صاحب کا پاکستان سے لکھا ہوا خط ملا جس سے معلوم ہوا کہ سارا خاندان بلکہ سارے علاقہ کے تمام مسلمان ہجرت کر کے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ جانیں اور عزتیں سلامت رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سب کچھ چھوڑ کر آنا پڑا کیونکہ سفر قافلہ کی صورت میں تھا۔ قافلہ میں اسّی ہزار آدمی شامل تھے۔ انیس دن کے سفر کے بعد یہ قافلہ پاکستان پہنچا۔ راستہ میں کئی دفعہ حملے ہوئے، بڑی سختیاں ‌دیکھیں لیکن اللہ تعالٰی نے بحفاظت پاکستان پہنچا دیا۔ اس کا بے حد و حساب شکر ادا کیا اور دل کو کسی قدر اطمینان نصیب ہوا۔

قریباً تین ماہ کے خونریز فسادات، قتل و غارت اور شدید لوٹ مار کے بعد حالات کسی قدر بہتر ہونے شروع ہوئے۔ حکومت نے حالات کو قابو کرنے کی کوششیں کیں، ہر جگہ مقامی آبادی کے سر کردہ لوگوں کو ان کوششوں ‌میں شامل کیا۔ دونوں مذہبوں کے پیرکاروں پر مشتمل امن کمیٹیاں قائم کی گئیں اور اس طرح کے اقدامات سے صورت حال بہتر ہوئی۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر آنے والے لوگ اکا دکا واپس جانے لگے۔ لیکن واپس جاکر کہاں رہتے۔ ان کے گھر جلا دیئے گئے تھے۔مال اسباب سارا کا سارا لوٹ لیا گیا تھا اور جائدادوں پر قبضے کر لیے گئے تھے۔ اس طرح اجڑے ہوئے لوگوں کی دوبارہ آباد کاری میں بڑی مشکل پیش آئی۔ مسلمانوں نے بھی واپس جانے کے بجائے محفوظ مقامات پر اپنے عزیزوں اور دوستوں‌ کے پاس رہنا زیادہ پسند کیا۔ ساتھ ہی جسے موقع ملا اس نے پاکستان کا رخ کیا۔ اگرچہ راستے تمام ہی بند تھے۔ مگر دو طول طویل راستے کھلے تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ بمبئی پہنچ کر سمندری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچ جائیں۔ دوسرا راستہ راجستھان کا تھا۔ مگر یہ دشوار گزار بہت تھا اور کئی کئی دن ریگستان میں پیدل چلنا پڑتا تھا۔ بمبئی کا راستہ بہت طویل ہونے کے علاوہ کچھ یقینی نہیں تھا۔ جہاز پتہ نہیں کب ملے اور کب تک ملے اس لئے اکثر لوگ راجستھان کا راستہ اختیار کرتے تھے۔ خال خال لوگ ایسے بھی تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے وسائل دیئے تھے اور ہوائی جہاز کا راستہ اختیار کر سکتے تھے مگر ان دنوں ‌ہوائی سفر نہ تو اتنا عام تھا اور نہ اتنا آسان۔ اس تک رسائی بہت کم لوگوں کی تھی۔

مدرسہ کھل گیا تھا اور معمول کے کام شروع ہوگئے تھے مگر زندگی جیسے اپنا معمول بھول گئی تھی۔ لگتا تھا سب کچھ بدل کر رہ گیا ہے۔ آبادی کی شکل ہی تبدل ہو کر رہ گئی تھی۔ مزاج ہی بدل گیا تھا۔ معمولات کچھ کے کچھ ہوگئے تھے۔ آپس کا اعتماد اور بھروسہ جاتا رہا تھا اور اب دونوں قوموں کے درمیان میل جول کے باوجود تعلقات کی پہلی سی صورت نہیں رہی تھی۔ معاشرہ کی
 
Top