پاکستان کے شہری محب وطن یا غدار

اس ٹوئٹ میں پاکستان فوج کے خلاف کس قدر بغض بھرا ہے۔۔ جو دراصل پاکستان کے خلاف ہے ۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ہر سیاسی مخالف کو ملک دشمن اور غدار کہنے کے بجائے دوسرے کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں۔ دوسرے کی رائے سے آپ کبھی متفق نہیں ہوسکتے لیکن اس کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ایک صحت مند بحث کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔

پاکستانی فوج ہمارے پیارے وطن پاکستان کی اصلی سرحدوں کی حفاظت کی زمہ دار ہے۔ نہ اس پر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرض ہے نہ ان کے پاس ایسا تھنک ٹینک موجود ہے۔ یہ کام ملک کے دانشوروں کا ہے۔ حال ہی میں دو عدد ایسے گیت نشر کیے گئے جنہیں سن کر صرف عقلوں کا ماتم کیا جاسکتا ہے۔

مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

یا

انڈیا جا جا جا
کشمیر سے نکل جا

اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت سب لکھاریوں، ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کا کام ہے۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا کے مصداق فوج ان دانشورانہ کاموں میں مشغول ہوجائے گی تو اپنے فرائض منصبی سے غفلت کی مرتکب ہوسکتی ہے۔

پاکستان ہم سب کا وطن ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اس مارد گیتی سے محبت ہے۔ ہمارے ماں باپ نے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں۔اس ملک کی جانب ہجرت کی ہے اور اسے اپنا وطن مالوف قرار دیا ہے ۔ ہم انہی کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔ ہم اس وطن مالوف کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔

ادھر
پاکستان کی موجودہ حکومت بھی اپنے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے کافی تنقید کی زد میں ہے۔
ہندوستان کے کشمیر پر کیے گئے فیصلوں پر احتجاج کا وزیراعظم ئے ایک نیا انداز اپنایا دو ہفتوں تک دفتروں سے باہر نکل کر آدھے گھنٹے تک خاموش کھڑے رہنے کو ہی کافی سمجھاگیا۔ تیسرے ہفتے خاموشی سے اس روش کو بے کار سمجھ کر تک دیا گیا۔
وزیراعظم ئے پہلے خود فیصلہ کیا کہ ہندوستان سے کچھ مخصوص اشیاء کی درآمد شروع کی جائے۔ قوم کی تنقید اور پھر اپنی ہی کابینہ کی مخالفت کے بعد اس فیصلے پر عملدرآمد ملتوی کیا گیا۔ حکومت نے پہلے اعلان کیا کہ جب تک کشمیر پر کیے گیے اقدامات کو واپس نہیں لیتا نہ اس بات کی جائے گی اور نہ تجارت۔۔ پھر خود ہی سکیورٹی اداروں کی سطح پر ہندوستان سے بات چیت
شروع کی۔ اس کے بعد وزیر خارجہ نے ببانگ دہل قوم سے جھوٹ بولا کہ ہندوستان سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہورہی، پھر بھانڈا پھوٹ گیا۔

ان باتوں کا تذکرہ ملک دشمنی نہیں بلکہ نالائقوں کی ناعاقبت اندیشی کا ماتم ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
اپنے بچے پڑھ گئے ان کے؟
جرنیلوں کے اپنے بچے آپ کے پاپا جانز کی برکت سے امریکہ میں پڑھ رہے ہیں
107131-1069483455-768x511.jpg

 

محمد وارث

لائبریرین
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ہر سیاسی مخالف کو ملک دشمن اور غدار کہنے کے بجائے دوسرے کی رائے کا احترام کرنا سیکھیں۔ دوسرے کی رائے سے آپ کبھی متفق نہیں ہوسکتے لیکن اس کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ایک صحت مند بحث کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔

پاکستانی فوج ہمارے پیارے وطن پاکستان کی اصلی سرحدوں کی حفاظت کی زمہ دار ہے۔ نہ اس پر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت فرض ہے نہ ان کے پاس ایسا تھنک ٹینک موجود ہے۔ یہ کام ملک کے دانشوروں کا ہے۔ حال ہی میں دو عدد ایسے گیت نشر کیے گئے جنہیں سن کر صرف عقلوں کا ماتم کیا جاسکتا ہے۔

مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے

یا

انڈیا جا جا جا
کشمیر سے نکل جا

اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت سب لکھاریوں، ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کا کام ہے۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا کے مصداق فوج ان دانشورانہ کاموں میں مشغول ہوجائے گی تو اپنے فرائض منصبی سے غفلت کی مرتکب ہوسکتی ہے۔

پاکستان ہم سب کا وطن ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو اس مارد گیتی سے محبت ہے۔ ہمارے ماں باپ نے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں۔اس ملک کی جانب ہجرت کی ہے اور اسے اپنا وطن مالوف قرار دیا ہے ۔ ہم انہی کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔ ہم اس وطن مالوف کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔

ادھر
پاکستان کی موجودہ حکومت بھی اپنے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے کافی تنقید کی زد میں ہے۔
ہندوستان کے کشمیر پر کیے گئے فیصلوں پر احتجاج کا وزیراعظم ئے ایک نیا انداز اپنایا دو ہفتوں تک دفتروں سے باہر نکل کر آدھے گھنٹے تک خاموش کھڑے رہنے کو ہی کافی سمجھاگیا۔ تیسرے ہفتے خاموشی سے اس روش کو بے کار سمجھ کر تک دیا گیا۔
وزیراعظم ئے پہلے خود فیصلہ کیا کہ ہندوستان سے کچھ مخصوص اشیاء کی درآمد شروع کی جائے۔ قوم کی تنقید اور پھر اپنی ہی کابینہ کی مخالفت کے بعد اس فیصلے پر عملدرآمد ملتوی کیا گیا۔ حکومت نے پہلے اعلان کیا کہ جب تک کشمیر پر کیے گیے اقدامات کو واپس نہیں لیتا نہ اس بات کی جائے گی اور نہ تجارت۔۔ پھر خود ہی سکیورٹی اداروں کی سطح پر ہندوستان سے بات چیت
شروع کی۔ اس کے بعد وزیر خارجہ نے ببانگ دہل قوم سے جھوٹ بولا کہ ہندوستان سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہورہی، پھر بھانڈا پھوٹ گیا۔

ان باتوں کا تذکرہ ملک دشمنی نہیں بلکہ نالائقوں کی ناعاقبت اندیشی کا ماتم ہے۔
حکومت اور ریاست کا فرق تو ظاہر ہے۔

اب حکومت پر تنقید کرنا ہر طرح سے جائز ہے، حکومت کے مخالفین اس پر تنقید کرتے بھی ہیں، پالسیوں پر بھی کرتے ہیں اور ذات پر بھی کرتے ہیں۔ جواب میں ان کے مخالفین بھی یہی کچھ کرتے ہیں، یا اپوزیشن والے حکومت کے جواب میں کرتے ہیں۔ یہ تو اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے والی بات ہے اور غلط نہیں ہے۔ آپ کی ذاتِ شریف اگر بہت سوں کے محبوب لیڈر کو "نشئی، بھڑ بھونجا، اخلاق باختہ، وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔" کہتی ہے تو اس کو ایک بہترین لیڈر ماننے والا بھی اپنے جذبات کا اظہار کسی نہ کسی طور کر ہی دے گا، چاہے ریٹنگ ہی سے کرے! لیکن اس پر ایک دوسرے کو غدار کہنا یا پھر یہ کہنا کہ آزادی رائے کی اجازت نہیں ہے، دونوں باتیں ہی غلط ہیں!

اب ریاست کی طرف آ جائیں، مجھے لگتا ہے کہ ریاست اور تمام ریاستی اداروں کا احترام، بحیثیت اس ریاست کے ایک شہری ہونے کے، مجھے کرنا چاہیئے بشرطیکہ ریاستی ادارے اپنے اپنے آئینی کردار کے اندر رہیں، اگر وہ اپنی لائن کراس کریں گے تو تنقید ان پر بھی ہوگی، بالکل جائز بات ہے چاہے وہ کوئی ہو!

باقی تمام ریاستی اداروں، فوج، عدلیہ، انتظامیہ کا حال اور ماضی سب کے سامنے ہے اورforeseeable futureمیں کم از کم مجھے تو اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی!
 

جاسم محمد

محفلین
باقی تمام ریاستی اداروں، فوج، عدلیہ، انتظامیہ کا حال اور ماضی سب کے سامنے ہے اورforeseeable futureمیں کم از کم مجھے تو اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی!
قومی رویوں میں تبدیلی لائے بغیر قومی ادارے و محکمہ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہاں کام کرنے والے کوئی فرشتے نہیں اسی قوم سے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قوم میں تغیراتی تبدیلی لائے بغیر قومی ادارے و محکمہ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہاں کام کرنے والے کوئی فرشتے نہیں اسی قوم سے ہیں۔
دلیل چمکدار ہے لیکن اس میں روشنی مصنوعی ہے! پانی کا بہاؤ اوپر سے نیچے ہوگا، آپ لاکھ الٹی گنگا بہا لیں، نہیں بہے گی۔ یہ تبدیلی اوپر سے نیچے کی طرف آنی ہے، اللہ ہی جانے کب!
 

جاسم محمد

محفلین
دلیل چمکدار ہے لیکن اس میں روشنی مصنوعی ہے! پانی کا بہاؤ اوپر سے نیچے ہوگا، آپ لاکھ الٹی گنگا بہا لیں، نہیں بہے گی۔ یہ تبدیلی اوپر سے نیچے کی طرف آنی ہے، اللہ ہی جانے کب!
عمران خان اوپر سے نیچے تبدیلی کا فارمولا لیکر اقتدار میں آئے تھے۔ لیکن تین سال میں سب فلاپ۔ جس بڑی کرپشن، طاقتور ہستی پر ہاتھ ڈالو تو نیچے سے اس کا ہمنوا مافیا نکل آتا ہے۔ چینی مافیا کو چھیڑا تو چینی مہنگی۔ جج کو قانون کی گرفت میں لائے تو بدنیتی کا الزام۔ کچھ دن قبل ایک کاہل بیروکرٹ کو ڈانٹا تو بدتہذیبی کا الزام۔ اور کل ناقص کارکردگی پر سفیروں کی کلاس لی ہے تو آج سفیروں نے شدید غصے میں وزیر خارجہ کو طلب کر لیا ہے۔
عمران خان نے اپنے تین سالہ اقتدار میں اوپر سے نظام ٹھیک کرنے والا فارمولا لاگو کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اسے زمینی سطح سے ہی ٹھیک کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ہر ادارہ و محکمہ میں بلند ترین مقام پر ہونے والی کرپشن، بد انتظامی، نااہلی کی شروعات وہاں کام کرنے والے چپڑاسی سے شروع ہوتی ہے اور ۲۲ ویں گریڈ تک جاتے جاتے تناور درخت بن جاتی ہے۔
 
حکومت اور ریاست کا فرق تو ظاہر ہے۔

اب حکومت پر تنقید کرنا ہر طرح سے جائز ہے، حکومت کے مخالفین اس پر تنقید کرتے بھی ہیں، پالسیوں پر بھی کرتے ہیں اور ذات پر بھی کرتے ہیں۔ جواب میں ان کے مخالفین بھی یہی کچھ کرتے ہیں، یا اپوزیشن والے حکومت کے جواب میں کرتے ہیں۔ یہ تو اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے والی بات ہے اور غلط نہیں ہے۔ آپ کی ذاتِ شریف اگر بہت سوں کے محبوب لیڈر کو "نشئی، بھڑ بھونجا، اخلاق باختہ، وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔" کہتی ہے تو اس کو ایک بہترین لیڈر ماننے والا بھی اپنے جذبات کا اظہار کسی نہ کسی طور کر ہی دے گا، چاہے ریٹنگ ہی سے کرے! لیکن اس پر ایک دوسرے کو غدار کہنا یا پھر یہ کہنا کہ آزادی رائے کی اجازت نہیں ہے، دونوں باتیں ہی غلط ہیں!

اب ریاست کی طرف آ جائیں، مجھے لگتا ہے کہ ریاست اور تمام ریاستی اداروں کا احترام، بحیثیت اس ریاست کے ایک شہری ہونے کے، مجھے کرنا چاہیئے بشرطیکہ ریاستی ادارے اپنے اپنے آئینی کردار کے اندر رہیں، اگر وہ اپنی لائن کراس کریں گے تو تنقید ان پر بھی ہوگی، بالکل جائز بات ہے چاہے وہ کوئی ہو!

باقی تمام ریاستی اداروں، فوج، عدلیہ، انتظامیہ کا حال اور ماضی سب کے سامنے ہے اورforeseeable futureمیں کم از کم مجھے تو اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی!
آپ نے چونکہ ہماری ہر بات پر صاد کیا ہے ہم آپ کے مکمل تبصرے سے متفق ہیں۔

یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ہمارا مطمح نظر آپ نے زیادہ بہتر انداز سے ادا کیا ہے۔ آپ کی قادر الکلامی کی داد!
 

جاسم محمد

محفلین
دلیل چمکدار ہے لیکن اس میں روشنی مصنوعی ہے! پانی کا بہاؤ اوپر سے نیچے ہوگا، آپ لاکھ الٹی گنگا بہا لیں، نہیں بہے گی۔ یہ تبدیلی اوپر سے نیچے کی طرف آنی ہے، اللہ ہی جانے کب!
دوسرا حل یہ ہے کہ عمران خان بھی ان مافیاز کے خلاف زیادہ طاقتور مافیا بنا لے۔ کیوں مافیا سے تو صرف مافیا ہی ڈیل کر سکتا ہے۔ یہ حکومت و ریاست کے بس کی بات نہیں۔
 
مجھے صرف چند نام گنوایئے جو ہماری فوج کے خلاف ہوں مگر اُن میں کوئی حب الوطنی کی دلیل بھی ہو۔

اس محفل میں موجود ارکان جو فخریہ ہماری فوج پر تنقید کرتے ہیں آج سے پہلے کے چند پیغامات جو ان نام نہاد دانشوران نے محفل پر پوسٹ کئے ہوں اور وہ حب ا لوطنی سے سرشار الفاظ پر مشتمل ہوں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے صرف چند نام گنوایئے جو ہماری فوج کے خلاف ہوں مگر اُن میں کوئی حب الوطنی کی دلیل بھی ہو۔

اس محفل میں موجود ارکان جو فخریہ ہماری فوج پر تنقید کرتے ہیں آج سے پہلے کے چند پیغامات جو ان نام نہاد دانشوران نے محفل پر پوسٹ کئے ہوں اور وہ حب ا لوطنی سے سرشار الفاظ پر مشتمل ہوں ۔
فوج پر تنقید کا مطلب یہ نہیں کہ آپ محب وطن نہیں۔ جہاں سویلین اداروں و محکموں سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں وہیں فوج بھی وزارت دفاع کا ذیلی محکمہ ہی تو ہے۔ یہ کوئی غلطی کیوں نہیں کر سکتا؟ پاکستان میں تو عدالتیں تک تنقید سے آزاد نہیں تو پھر فوج کس کھیت کی مولی ہے۔ جمہوری معاشروں میں کچھ بھی تنقید سے بالا نہیں ہوتا۔ آئین میں بھی اگر کچھ غلط ہے تو اس پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ جیسے دوسری آئینی ترمیم۔
 
Top