پاکستان کا سفر

قیصرانی

لائبریرین
چونکہ میری عادت ہے کہ انتہائی نکمے پن کی وجہ سے ہر کام کو اخیر وقت تک ٹالتا رہتا ہوں، اس لئے میرا کوئی حال نہیں۔ شادی کے بارے بہت پہلے سے علم تھا لیکن سوچا کہ ابھی پاکستانی پاسپورٹ ری نیو کرا لوں گا یا پھر فننش پاسپورٹ پر پاکستانی ویزہ لگ جائے گا۔ آخر کار ایک ہفتہ قبل میں نے سوچا کہ پوسٹ کے آنے جانے کے دو دن اور ایک دن ویزا پروسیسنگ پر تو لگے گا ہی، ویسے احتیاطاۢ دو دن مزید بھی شمار کر کے ابھی درخواست بھیج دیتا ہوں۔ خیر، پہلا مرحلہ ویزا فیس کی ادائیگی تھی۔ عام طور پر جب آپ بیرون ملک پیسے بھیجتے ہیں تو اس کو چاہیں تو ای بینکنگ کے ذریعے یا پھر بینک سے جا کر ادائیگی کرتے ہیں۔ ای بینکنگ میں یہ کام بہت سستا ہو جاتا ہے یعنی ایک یا سوا یورو میں۔ لیکن جب پیسے ایک بینک سے دوسرے بینک کو یا پھر ایک ملک سے دوسرے ملک بھیجے جائیں تو وہ دو دن بعد جا کر ٹرانزیکشن شو کراتے ہیں۔ مسئلہ تو کوئی نہیں تھا لیکن ویزہ فارم کے ساتھ فیس کی ادائیگی کی رسید لازمی لگانی تھی۔ اس لئے سوچا کہ بینک سے پے منٹ کر دیتا ہوں اور آسانی سے رسید بھی مل جائے گی
خیر بینک پہنچا تو پتہ چلا کہ میں سوئیڈش کراؤن میں پے منٹ نہیں کر سکتا۔ براہ راست یورو کا ہی حساب ہوگا۔ بینک کی کلرکی سے میں نے کہا کہ بھئی دو یا تین ماہ قبل تک تو یہ کام ہو سکتا تھا۔ اب کیوں نہیں؟ اس نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔ خیر اسی دوران اس کی سینئر کلرکی بھی پہنچ گئی۔ اس نے جب بات سنی تو اپنی جونیئر کو سمجھایا کہ یہ بندہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ فلاں فارم استعمال ہوتا ہے۔ خیر میں نے فارم لیا تو کئی خانے تھے جو فل ان کرنے تھے۔ اس لئے میں نے کلرکی سے کہا کہ آپ دیگر لوگوں کو ڈیل کر لیں جب تک میں فارم فل کر لیتا ہوں۔ فارم فل کیا۔ کافی گنجلک یعنی کہ پیچیدہ تھا۔ خیر اب اتنی تو فننش آتی ہے کہ سرکاری کاغذات کی جناتی زبان پڑھنا مشکل نہیں ہوتا۔ فارم فل کر کے کلرکی کو دیا۔ اس نے پھر فل کیا۔ پوچھا کہ جنہوں نے پیسے وصول کرنے ہیں، ان کے بینک کا نام اور پتہ درکار ہے۔ میں نے بتایا کہ بی آئی سی کوڈ لکھا ہوا تو ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ نہیں، پورا نام اور پتہ بھی دو۔ پھر سینئر مدد کو آئی اور بتایا کہ بی آئی سی کوڈ کی موجودگی میں صرف آئی بی اے این کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ پھر سوال ہوا کہ جی پیسے تو ادا ہونے ہیں، لیکن کیا آپ نے اگلے بندے کے بینک چارجز بھی دینے ہیں یا وہ خود اپنے پیسے دیں گے اور آپ صرف اپنی ٹرانزیکشن کو دیکھیں گے؟ میں نے بتایا کہ پاکستانی سفارت خانے کے مطابق مجھے ان کی فیس بھی ادا کرنی ہے۔ اب سب کچھ فائنل ہوا۔ دستخط ہوئے اور سینئر صاحبہ فارم لے کر روانہ ہونے لگیں تو میں نے پوچھا کہ ایکسیوز می، رسید کہاں ہے؟ اطلاع ملی کہ اس کی کوئی رسید نہیں ہوتی۔ یا کم از کم بینک مہیا نہیں کرتا۔ میں نے بتایا کہ بے شک ایمبیسی میں پاکستانی لوگ کام کرتے ہیں لیکن جب تک ادائیگی کی رسید ساتھ نہ ہو، وہ ویزا کی پروسیسنگ تو نہیں کرنے والے۔ اس نے ٹکا سا جواب دیا کہ اگر رسید چاہیئے تو بینک یہ کام نہیں کرتا۔ ای بینکنگ کے ذریعے ادائیگی کرو اور رسید وصول کر لو
اتنی قیمتی معلومات کی روشنی میں میں نے فارم واپس لیا، اور سیدھا ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے آفس پہنچا۔ میرا آفس اور بینک دونوں ہی دس بجے شروع ہوتے ہیں۔ خیر آفس میں بیٹھ کر حساب لگایا کہ ویزا فیس اتنی ہے، بینک چارجز اتنے ہیں اور یہ سارا مل ملا کر اتنا بنے گا۔ خیر ای بینکنگ سے ادائیگی کی تو رسید یہاں بھی ندارد۔ پھر سرچ کیا تو پتہ چلا کہ ای بینکنگ کے ذریعے جب دوسرے ملک پیسے بھیجتے ہیں تو وہ بینک کے سکیورٹی پروسیجر سے گذرتے ہیں۔ عام طور پر تین بجے سے پہلے بھیجی جانے والی رقم اسی دن کلیئر ہو جاتی ہے۔ تین بج کر پندرہ منٹ پر میں نے چیک کیا تو اکاؤنٹ میں ٹرانزیکشن کی منظوری اور رسید موجود تھیں۔ فوراۢ سے بیشتر پرنٹ کر لیں
پھر ویزا فارم فل کیا۔ تصویریں آفس آتے ہوئے کھینچوائی تھیں، وہ اٹیچ کیں اور پھر سب کچھ ریڈی کر کے رکھ دیا۔ خیر آفس سے پانچ بجے نکلا تو معلوم تھا کہ آج کی پوسٹ چار بجے نکل چکی۔ خیر وہاں دو لفافے خریدے تاکہ دوسرے پر جوابی پتہ لکھ کر بھیج سکوں اور وہ لوگ پاسپورٹ واپس بھیج سکیں۔ خیر لطیفہ یہ ہوا کہ مجھے بارہ انٹرنیشنل کوپن درکار تھے جو کسی بھی دوسرے ملک کے ڈاکخانے سے مقامی ٹکٹوں میں تبدیل کرائے جا سکتے ہیں۔ یہ چونکہ کافی چھوٹا سا پوسٹ آفس بلکہ پارٹ ٹائم پوسٹ آفس اور فل ٹائم شاپ تھی، یہاں صرف دس کوپن موجود تھے۔ اب مسئلہ یہ کہ تین سالہ سروس کے دوران پہلی بار ان کوپنوں کی ضرورت پڑی تو کسی کو علم نہیں کہ کیسے بیچنے ہیں۔ خیر انہوں نے دوسرے شہر فون کیا اور پوچھا کہ ان کے پاس اگر انٹرنیشنل کوپن ہوں اور وہ رہنمائی کر سکیں کہ اسے کیسے ویلڈ بنانا ہے۔ خیر ایک سٹیمپ لگنی تھی سب پر اور کام ہو گیا۔ پھر لفافہ پوسٹ کیا اور دس کوپن ہی بھیج دیئے۔ روانہ ہوتے ہوئے میں نے برسبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ خط کل تک پہنچ جائے گا نا؟ بم سر پر ٹوٹا کہ نہیں جی، تین دن لگیں گے۔ میں نے کہا کہ لو جی۔ خیر فننش اور سوئیڈش پوسٹس کے تجربات چونکہ ہمیشہ ہی اچھے رہے ہیں اس لئے مسئلہ نہیں ہوا۔ خط جمعرات کی شام کو پوسٹ ہوا، جمعہ کی شام کو نکلا اور اسے ای ٹریکنگ کی مدد سے دیکھتا رہا۔ پیر کی صبح دس بجے لفافہ پاکستانی ایمبیسی کے پوسٹ باکس میں پہنچ چکا تھا۔ یہاں پوسٹ ہفتے کے روز صبح دیر تک اور پھر اتوار کی رات کو بارہ بجے کے بعد چلنا شروع ہو جاتی ہے
خط ایمبیسی پہنچا تو میں نے ای میل کر کے پوچھا کہ کام کب تک ہو جائے گا۔ پتہ چلا کہ پیر کے روز شام کو وہ ویزا لگا کر واپس بھیج دیں گے۔ پیر کو خط نکلا تو مسئلہ ایک اور ہو گیا کہ سوئیڈش ای ٹریکنگ سسٹم فن لینڈ میں زیادہ تفصیل سے کام نہیں کرتا۔ یعنی وہ یہ بتاتا ہے کہ پوسٹ فن لینڈ پہنچ گئی، لیکن ڈلیور کب ہوگی، کوئی پتہ نہیں۔ خیر جمعرات کو موبائل پر میسج آیا پوسٹ کی طرف سے کہ میرا پیکٹ آیا ہوا ہے۔ آ کر لے جاؤں۔ اسی وقت فلائٹس چیک کیں تو کئی فلائٹس موجود تھیں۔ جمعہ کے روز دو بجے کے بعد ایک فلائٹ نکل رہی تھی ائیر بلیو کی۔ تو تفصیل کچھ ایسے بنی کہ ایس اے ایس کی مدد سے ہیلسنکی سے کوپن ہیگن، وہاں گلف ائیر سے بحرین اور پھر گلف ائیر سے ہی اسلام آباد۔ کل سفر کا دورانیہ بارہ گھنٹے کچھ منٹ بنتا تھا۔ اس میں فلائٹ کا وقت بھی اور بریک بھی شامل تھی۔ میں نے سوچا کہ جی تاریخ کا مختصر ترین سفر ہوگا یہ تو میرا۔ خیر فوراۢ بکنگ کی، پے منٹ کی اور پھر پرنٹ کر لی ٹکٹ
اگلے دن خیر صبح نکلا تو چند اور مسائل تھے جیسا کہ کوئی دوست فری نہیں تھا جو مجھے ہیلسنکی ڈراپ کرتا۔ اپنی گاڑی پر ہی جانے کا سوچا کہ پارکنگ تو موجود تھی لیکن ان دنوں درجہ حرارت بہت سخت سرد تھے۔ اندازہ کیجئے کہ گھر سے نکلتے وقت منفی 28 ڈگری تھا۔ اب سوچا کہ اس طرح تو واپسی تک گاڑی کی بیٹری ہی بیٹھ چکی ہوگی۔ وہاں سے روانہ ہوا، ائیرپورٹ پر ٹھیک بارہ بج کر دو منٹ پر پارکنگ میں پہنچ گیا۔ وہاں پارکنگ میں ٹوکن لیا، گاڑی کھڑی کی اور شٹل پکڑی جو ائیرپورٹ کے لئے فری چلتی ہے ہر پندرہ منٹ بعد۔ ویسے کل سفر تو ایک کلومیٹر سے بھی کم تھا۔ ائیرپورٹ پہنچا تو چیک ان کے لئے گیا تو سکیورٹی کاؤنٹر سے ہوتا ہوا اندر پہنچا تو یاد آیا کہ بیگ کو بک کرا دیتا تو بہتر تھا۔ اس طرح وزن اٹھائے پھرنا ہوگا۔ واپس دوبارہ نیچے گیا پہلی منزل پر اور سامان بک کرایا۔ محترمہ کافی جلی ہوئی تھیں اور بولیں کہ بھیا آپ نے ای چیک ان کرا لینا تھا۔ میں نے کہا کہ جی بی بی ای چیکنگ صرف فرسٹ فلائٹ کی ہوتی۔ باقی میرا لگیج منزل مقصود تک نہ پہنچ سکتا۔ خیر اس نے سامان کو بک کیا اسلام آباد کے لئے اور مجھے کوپن ہیگن کے لئے پوچھنے لگی کہ ونڈو سیٹ ہو یا کون سی۔ میں نے کہا کہ جو مل جائے۔ ونڈو سیٹ دی۔ بوئنگ 717 جہاز تھا۔ اس لئے مسئلہ نہیں اور فلائٹ سوا گھنٹہ کی ہی تھی
ائیرپورٹ پر سارا وقت جو دو گھنٹے کے لگ بھگ تھا، کتب پڑھتا اور مقدس آپی سے چیٹ کرتے ہوئے گذارتا رہا۔ فلائٹ کے وقت جہاز پر سواری اور وقت مقررہ پر جہاز کوپن ہیگن۔ وہاں پہنچ کر دوسرا بورڈنگ پاس لیا جس پر کافی وقت لگا۔ اب قطار میں سب سے آگے میں اور کاؤنٹر والی محترمہ کا اصرار کہ پاکستان کا ویزہ لگا ہے تو ساری تفاصیل درج کرنا ضروری ہوتی ہیں۔ خیر ویزہ سے اس نے ساری معلومات اکٹھی کر کے اپنے کمپیوٹر کو کھانا کھلایا اور مجھے اگلے دونوں بورڈنگ پاس پکڑا دیئے۔ بورڈنگ کے بعد بیٹھا، آپی مقدس سے بات چیت ہونے لگ گئی اور ساتھ ہی کتاب بھی پڑھتا رہا۔ اگلی فلائٹ سوا گھنٹے بعد تھی جو پتہ چلا کہ لیٹ ہو گئی ہے۔ پھر کافی دیر بعد جہاز پہنچا تو پتہ چلا کہ کوئی تکنیکی خرابی ہو گئی ہے۔ پھر وہ ٹھیک ہوئی تو ہم سوار ہوئے تو پھر ڈی آئسنگ والی گاڑی نے ہمارے جہاز کے پروں پر کیمکل کا چھڑکاؤ شروع کر دیا۔ اس وقت کوپن ہیگن میں منفی 16 درجہ حرارت تھا۔ ڈی آئسنگ کے بعد جہاز نے رن وے کا رخ کیا تو سوا دو گھنٹے کی تاخیر ہو چکی تھی۔ بحرین سے میری اگلی فلائٹ موجودہ فلائٹ کے اصل وقت سے پچاس منٹ کے بعد کی تھی۔ میں نے ائیرہوسٹس سے پوچھا کہ بی بی اس کا کیا کروں۔ اگلی فلائٹ روانہ نہ ہو جائے۔ کہتی ہیں کہ جہاز ہوا میں پہنچ جائے تو کچھ کرتے ہیں
جہاز ہوا میں پہنچا تو میں نے پوچھا کہ اب کوئی پراگریس، کہتی ہیں کہ کپتان بحرین میں حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔ جونہی کچھ پتہ چلا تو بتا دیا جائے گا۔ جب فلائٹ بحرین پہنچنے کے قریب تھی تو پھر میں نے اس بی بی سے پوچھا کہ براہ کرم اب تو کپتان کی گپ شپ ختم ہو گئی ہوگی، کوئی خیر خبر۔ بے چاری کے ہاتھ میں بیئر کا گلاس تھا جو اس نے چھپانے کی کوشش میں اپنی وردی پر گرا دیا۔ خیر پھر بولی کہ کپتان کے پاس کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ اگر اگلی فلائٹ بھی ڈیلے ہے تو یہ تو اچھی خبر ہے۔ اس نے فوراۢ اصلاح کی کہ نہیں یہ بری خبر ہے کہ اگلی فلائٹ دس یا پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں روکی جا سکتی تھی اس لئے وہ فلائٹ تو گئی۔ مجھے دلی خوشی ہوئی کہ بیئر کا گلاس اس کی وردی پر گرا تھا۔ خیر اب خوشی شو بھی نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی اس سے بحث کہ یہ اس بے چاری کے بس کی بات نہیں تھی
جہاز اترا تو بھاگم بھاگ اگلی فلائٹ کے لئے پہنچا تو پتہ چلا کہ جناب اگلی کوئی فلائٹ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کو ہی جائے گی۔ میں نے خیر فوراۢ ڈیمانڈ کی کہ اچھا جی مجھے ہوٹل اور کھانا مہیا کیا جائے کیونکہ فلائٹ چار گھنٹے سے زیادہ ڈیلے ہوئی ہے۔ اس پر اس بندے نے انتہائی جھجھکتے ہوئے کہا کہ سر اگر آپ کو یہاں سے دبئی اور دبئی سے آگے بھیج دیا جائے تو کیسا رہے گا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ کر دیں۔ اس نے فون کر کے کچھ گفتگوئیں فرمائیں اور پھر مجھے ایک بورڈنگ پاس پکڑا کر بولا کہ بھیا اب یہ فلائٹ چار گھنٹے بعد دبئی کے لئے جا رہی ہے۔ وہاں پہنچ کر دیکھیئے کہ اگے تیرے بھاگ لچھیئے
دل میں تو اسے جو بھی کہا، وہ دل کی بات دل تک ہی رہے تو اچھا ہے۔ خیر پھر اسے میں نے کہا کہ ہوٹل تو چھوڑو میں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ فوراۢ اس نے کھانے کا کوپن لکھ کر دے دیا۔ بحرین کا ائیرپورٹ بہت چھوٹا بلکہ مُنا سا ہے۔ ایک ہی ٹرمینل ہے جس پر آگے پیچھے کچھ گیٹ ہیں بس۔ ادھر ایک جگہ خالی ساکٹ دیکھی تو جا کر فون چارجنگ پر لگا دیا۔ ساتھ ہی فرش پر میری ہی طرح ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ ہیلو ہائے ہوئی تو تعارف سے پتہ چلا کہ وہ سوئیڈن سے ہیں۔ انہیں بڑی خوشی ہوئی کہ میں فن لینڈ سے آ رہا ہوں۔ سوئیڈش لوگ بہت خوش اخلاق اور ہنس مکھ ہوتے ہیں۔ خیر چند منٹ کی گپ شپ کے بعد اس بے چاری نے اپنے دکھڑے سنانا شروع کر دیئے کہ کتنا بورنگ ائیرپورٹ ہے۔ وائی فائی سگنل ہیں لیکن نیٹ کام نہیں کرتا۔ ریستوران ہیں تو بندے نہیں۔ جب اس کی شکایتیں کچھ طول پکڑنے لگیں تو میں نے اسے کہا کہ پلیز میرے سامان کا خیال رکھو، میں ذرا کھانا کھا لوں۔ اس نے مروتاۢ حامی بھر لی۔ سامان اس کے پاس چھوڑ کر ریستوران گیا۔ وہاں ویٹر کا سوال کہ سر آپ ممبئی جا رہے ہیں۔ فلائٹ کتنے بجے ہے۔ میں نے بتایا کہ بھیا میں دبئی جا رہا ہوں اور وہاں سے آگے اسلام آباد۔ کچھ کھانے کو لے آؤ تو بہت شکریہ۔ سر کوپن ہے آپ کے پاس؟ میں نے اشارہ کیا کہ وہ آپ کے باس ہیں نا، ان کے دو ہاتھ ہیں۔ بائیں ہاتھ میں انہوں نے سگریٹ پکڑی ہے اور دائیں میں کیا ہے؟ بولا کہ سر کاغذ۔ میں نے بتایا کہ یہ وہ کاغذ ہے جس کے بارے آپ پوچھ رہے ہیں۔ پھر سوری کی اور بولا کہ چکن ہے اور ویجیٹیرین۔ میں نے کہا کہ بھئی چکن لے آؤ اور کافی سارا لے آؤ۔ کھانا آیا تو کچھ سبزیاں، کچھ چاول اور مرغے کی دو ٹانگیں۔ پہلی بار محاورہ الٹا ہوتے دیکھا۔ پھر ایک بچہ آیا اور کوک دے گیا۔ کھانا بڑی مشکل سے ختم کیا کہ کئی لوگ مزے سے آس پاس کی ٹیبلز پر سگریٹ پی رہے تھے۔ مجھے سگریٹ کے دھوئیں سے بہت الجھن ہوتی ہے۔ باہر نکل کر اس سوئیڈش محترمہ کا شکریہ ادا کیا اور نیند کو بھگانے کے لئے واک شروع کر دی۔ پھر میک ڈونلڈز پر گیا اور وہاں آرام سے بہترین بلیک کافی کا سب سے بڑا مگ لیا اور آوارہ گردی اور مقدس آپی سے باتیں کرنے لگا۔ آپی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے سونے نہیں دیں گی تاکہ فلائٹ مس نہ ہو۔ انہوں نے اچھی طرح جگائے رکھا۔ تھینک یو آپی :)
فلائٹ کا وقت ہوا تو وہاں پہنچا۔ پچاس منٹ کی فلائٹ اور پھر دبئی پہنچ گئے۔ ادھر پھر کھانا کھایا میک ڈونلڈز پر۔ کچھ دوست ہیں دبئی میں ان سے گپ شپ ہوئی فون پر۔ پھر اگلی فلائٹ کا پتہ چلا کہ پی آئی اے کی ایک پرواز لاہور کے لئے موجود ہے جو دن کو ایک پچپن پر نکلے گی۔ پی آئی اے پر شاید پہلی بار پیار آیا۔ خیر ایک پٹھان بھائی تھے، خان صاحب کے نام سے۔ انہوں نے فلائٹ کی بکنگ کر کے بورڈنگ پاس پکڑا دیا۔ اب کئی گھنٹوں کا ویٹ مزید۔ خیر آپی سے بات کرتے ہوئے پتہ بھی نہیں چلا اور سارا وقت کٹ گیا
چونکہ فلائٹ پی آئی اے کی تھی اس لئے صرف نصف گھنٹہ تاخیر سے پہنچی۔ بورڈنگ شورڈنگ ہوئی اور فلائٹ روانہ ہو گئی۔ ایک پینڈو سا لڑکا بولا کہ سر جی میرا دوست ادھر بیٹھا ہے۔ میں نے ادھر دیکھا تو دوسرا پینڈو مجھے اپنے دانت دکھا کر ہاتھ ہلا رہا تھا۔ خیر ظاہر ہے کہ ہمارے پاکستانی دیہاتی لڑکے جو بے چارے مزدوری کرنے دبئی آتے ہیں، ان کی تعلیمی قابلیت اتنی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اتنے ویل مینرڈ ہوتے ہیں کہ تھری پیس سوٹ کا ان پر کوئی اثر ہو۔ تاہم چونکہ رزق حلال کی تلاش میں اپنے گھروں اور اپنے پیاروں سے دور ہوتے ہیں، اس لئے ان کے گھر واپس جانے کی خوشی کو سمجھ کر میں نے بھی تیسی دکھائی (ایک عقل داڑھ نکالی جا چکی ہے اور ایک نکلنی باقی ہے)۔ پھر ساتھ والے بچے نے درخواست کی کہ سر میں اپنے دوست کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ کے دوست کے ساتھ جو سیٹ ہے آپ اس بندے سے اپنی سیٹ بدل لیں؟ کہتا ہے کہ نہیں سر، میرا دوست چاہتا ہے کہ وہ میرے ساتھ ادھر آ کر بیٹھے۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں جناب۔ سیٹ بدل لیتے ہیں۔ سیٹ بدلی تو میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک فیملی آن کر بیٹھ گئی۔ میرے ساتھ ایک چھ سات سال کی بچی تھی جو بالکل فاتح بھائی کی ماہا کی شکل۔ اسی طرح نٹ کھٹ اور ذہین۔ اس سے گپ شپ ہوئی اور اس کے والد سے بھی اور دیگر احباب سے بھی
فلائٹ نکلی تو کھانا آیا اور کھانے کے بعد ائیرہوسٹس نے پوچھا کہ سر کچھ اور درکار ہو تو بتائیے۔ چونکہ میری بیک پر گلف ائیر کا سہارا تھا اس لئے وہ بے چارے سارے سٹاف والے اضافی خیال رکھ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ اگر کافی مل جائے تو بہت اچھا رہے گا۔ اس کا قہقہ نکلا، اور پوچھا کہ کیا؟ میں نے بتایا کہ کافی۔ بڑی مشکل سے قہقہ روک کر پوچھتی ہے سر واقعی میں ٹافی کھانا چاہ رہے ہیں۔ اس بار میرا قہقہہ کافی بلند تھا۔ بتایا کہ بی بی بلیک کافی اور خوب گرم گرم اگر مل جائے تو بہت مشکور ہوں گا۔ میرے ساتھ والی دوسری رو سے ایک صاحب جن سے گپ شپ ہو رہی تھی انہوں نے ایک فضول سا ریمارک پاس کیا۔ میں نے کہا کہ جناب جہاز کے عملے کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ ہر مسافر کے ساتھ ہنس کر یا مسکرا کر بات کریں چاہے اگلا بندہ کتنا ہی خبیث فطرت ہو۔ اب وہ بندہ میری بات نہیں سمجھا۔ کہتا ہے کہ نہیں بھائی، میری طرف تو دیکھ کر ایک بار بھی نہیں مسکرائی۔ اتفاق کی بات ائیرہوسٹس ہمارے عقب سے آ کر ہمارے بالکل پیچھے کھڑی ہماری بات سن رہی تھی۔ میری بات اور پھر اس بندے کا جواب سن کر اس نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ اب کے اس بندے کو اپنی حماقت کا احساس ہوا جھینپ کر چپ ہو گیا۔
لاہور پہنچ کر ائیرپورٹ پر لمبی قطار۔ ملکی پاس پورٹ والے کم اور غیر ملکی پاسپورٹ والے زیادہ تھے۔ خیر وہاں سے سٹیمپ لگی تو پھر آگے ایک اور صاحب جو شاید ایف آئی اے کے کوئی سینئر رکن ہوں گے، چیک کر رہے تھے کہ سٹیمپیں درست لگی ہیں یا نہیں۔ وہاں سے نکلا تو سامان پہنچ چکا تھا۔ سامان میں کچھ زیادہ تھا ہی نہیں۔ پوچھا کہ گرین چینل سے نکلنا ہے کہ کسٹم سے جاؤں۔ کسٹم والا بندہ بولا کہ سر جو بھی ہو سامان میں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ بس لکر نہ ہو یعنی شراب نہ ہو۔ سامان سکین ہوا اور میں نے پہلے کچھ یورو دے کر پاکستانی روپے لئے۔ باہر نکل کر بھائی کو فون کیا، کیب والے کا نمبر لیا اور اس سے بات کی تو وہ اسی وقت سامنے آ گیا
لاہور سے نکلے تو شام کے سات بج رہے تھے۔ سسٹر کی رخصتی پانچ بجے طے تھی کیونکہ انہوں نے پھر لاہور واپس آنا تھا۔ دھند شروع ہونے لگی کہ ہم لاہور سے نکلے۔ طے یہ ہوا کہ ہماری ملاقات ساہیوال ہوگی۔ ساہیوال ہم لوگ پہنچ کر رکے تو (آہم آہم) بارات ابھی ملتان سے نکل رہی تھی۔ وہاں کئی جگہ ٹریفک جام تھی تو انہیں کافی دیر ہو گئی۔ خیر پھر طے ہوا کہ چیچہ وطنی میں ایک جگہ تاج محل شادی ہال ہے، وہاں رک کر انتظار کرتے ہیں۔ وہاں رکے اور تھوڑی دیر بعد بہن، بہنوئی، بہنوئی کے بھائی اور بھابھی کی گاڑی پہنچ گئی۔ باقی باراتیوں کی بس آگے چلی گئی۔ بہن سے اور بہنوئی سے ملاقات ہوئی۔ زیادہ دیر انہیں روک بھی نہیں سکتا تھا کہ لاہور کی طرف دھند کافی ہو رہی تھی۔ پندرہ بیس منٹ کی ملاقات ہوئی، دعاؤں کا تبادلہ ہوا اور پھر ہم اپنے اپنے راستوں پر چل پڑے
ڈیرہ پہنچے تو زمین آسمان بدلے بدلے تھے۔ خیر چونکہ آدھی رات کو پہنچے تو وہاں امی جان اور بہن بھائی کے علاوہ ایک کزن اور ایک ماموں ہی موجود تھے۔ باقی سب لوگ جا چکے تھے (نکاح پہلے ہو چکا تھا ابھی صرف رخصتی کی تقریب تھی)۔ ماموں سے گپ شپ ہوئی اور ان سے بات کر کے ہمیشہ ہی بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ بہت سوئیٹ اور کائنڈ ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے اور ان سے آپ کھل کر متنازعہ موضوعات جیسا کہ سیاست اور مذہب پر بھی بات کر سکتے ہیں۔ کسی زمانے میں سی ایس ایس کیا تھا انہوں نے۔ ہم سب "نوجوانوں" کی پسندیدہ شخصیت ہیں
خیر پھر کھانا وانا کھا کر ہم سب سو گئے
 

زبیر مرزا

محفلین
اورسیزپاکستانی والا شناختی کارڈ نہیں ہے کیا آپ کے پاس؟
اس کے ساتھ ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی
احوال کافی اچھا لگا پڑھ کر - پتا نہیں مجھے اس طرح لکھنا کب آئے گا
 

قیصرانی

لائبریرین
2013-01-18145043_zps039a0740.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
اورسیزپاکستانی والا شناختی کارڈ نہیں ہے کیا آپ کے پاس؟
اس کے ساتھ ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی
احوال کافی اچھا لگا پڑھ کر - پتا نہیں مجھے اس طرح لکھنا کب آئے گا
جی وہ ابھی نہیں بنوایا۔ ایمبیسی کی سائٹ پر درج تھا کہ پاکستانی شہریت کو ختم کرنے کے بعد ہی جا کر نائیکوپ کارڈ بنے گا۔ ابھی پتہ چلا ہے تو انشاء اللہ ابھی بنوانا ہے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
آئی بی اے این یعنی انٹرنیشنل بینک اکاؤنٹ نمبر
بی آئی سی یعنی بینک آئیڈینٹیفائر کوڈ یعنی ایسا کوڈ جس کی مدد سے بینک کی شناخت کی جا سکتی ہو
 
Top