پاکستان کا بدترین حکمران کون تھا؟

ُپاکستان کا بدترین حکمران کون تھا؟


  • Total voters
    8
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .

ظفری

لائبریرین
ہر دور ِ اقتدار میں یہ بات مسلسل تکرار کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ " یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے " اگر اس تکرار کا مشاہدہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ بھٹو کے دور کو اسلام اور قومی سلامتی کے لیئے بدترین دور قرار دیا گیا ۔ وہ رخصت ہوئے تو گلی کوچوں میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں ۔ ابھی اسی مستی میں تھے تو معلوم ہوا کہ ملک مارشل لاء کی زد میں ہے ۔ اور پھر اسی طرح گیارہ برس گذر گئے ۔ پھر اسی دوران قوم کو یہ احساس ہوا کہ ضیاء کے دور سے " بدترین دور " پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا ۔ ایک حادثے کے بعد وہ گئے تو بینظیر آگئیں ۔ پھر ان کو دور کو بھی بدترین دور قرار دیا گیا اور پھر اسی طرح نواز شریف کے دور کو بھی " بدترین دور " کہا گیا ۔ پھر یہ تبدیلی کی خواہش مشرف کی حکومت کے ساتھ ہوئی ۔ پھر زرداری عہد بھی بدترین دور کہلایا اور اب نوز شریف کے دور سے بھی یہی توقعات وابستہ ہیں ۔
تاریخ کے تسلسل میں دیکھئے تو آج تبدیلی کی یہ خواہش کونسا دور لیکر آئے گی تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والا دور بھی پچھلے ادوار کی طرح " بدترین دور " ہوگا ۔ کم از کم اقتدار سے محروم لوگوں کی تو یہی رائے ہوگی ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کونسا سا حکمران تاریخ کا بدترین حکمران تھا ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہی بدترین کا حصول دراصل وہ تبدیلی کی خواہش ہے ۔ جو عوام چاہتی ہے ۔ ؟ ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ خیر کے راستے پر کیوں نہیں جاتی ۔ ؟ اس کو وجود پذیر نہ ہونے کے عوامل کونسے ہیں ؟ میرا تاثر یہ ہے کہ محض تبدیلی کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتی ۔ اس کے لیئے ایک ایسے اصلاحی عمل کا ناگزیر ہونا ضروری ہے ۔ جس سے اخلاقی ، سیاسی ، معاشرتی رواداری کا پہلو لوگوں میں اجاگر ہو اور یہ پہلو قومی وحدت پر آکر منتج ہو ۔ جب تک " لے کے رہیں گے پاکستان " والی اجتماعی سوچ نہیں پیدا ہوگی تب تک ایک ایسی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے جو معاشرے میں کسی جوہری تبدیلی کا باعث بن سکے ۔
 

نایاب

لائبریرین
پاکستان کی جڑوں میں زہر گھولنے والا ۔۔۔۔۔ بدنام و بدترین حکمران کا اعزا ز " ضیاالحق " کے سوا کسی اور کو کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ ؟
میرا ووٹ " ضیالحق " کے لیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ہر دور ِ اقتدار میں یہ بات مسلسل تکرار کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ " یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے " اگر اس تکرار کا مشاہدہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ بھٹو کے دور کو اسلام اور قومی سلامتی کے لیئے بدترین دور قرار دیا گیا ۔ وہ رخصت ہوئے تو گلی کوچوں میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں ۔ ابھی اسی مستی میں تھے تو معلوم ہوا کہ ملک مارشل لاء کی زد میں ہے ۔ اور پھر اسی طرح گیارہ برس گذر گئے ۔ پھر اسی دوران قوم کو یہ احساس ہوا کہ ضیاء کے دور سے " بدترین دور " پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا ۔ ایک حادثے کے بعد وہ گئے تو بینظیر آگئیں ۔ پھر ان کو دور کو بھی بدترین دور قرار دیا گیا اور پھر اسی طرح نواز شریف کے دور کو بھی " بدترین دور " کہا گیا ۔ پھر یہ تبدیلی کی خواہش مشرف کی حکومت کے ساتھ ہوئی ۔ پھر زرداری عہد بھی بدترین دور کہلایا اور اب نوز شریف کے دور سے بھی یہی توقعات وابستہ ہیں ۔
تاریخ کے تسلسل میں دیکھئے تو آج تبدیلی کی یہ خواہش کونسا دور لیکر آئے گی تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والا دور بھی پچھلے ادوار کی طرح " بدترین دور " ہوگا ۔ کم از کم اقتدار سے محروم لوگوں کی تو یہی رائے ہوگی ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کونسا سا حکمران تاریخ کا بدترین حکمران تھا ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہی بدترین کا حصول دراصل وہ تبدیلی کی خواہش ہے ۔ جو عوام چاہتی ہے ۔ ؟ ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ خیر کے راستے پر کیوں نہیں جاتی ۔ ؟ اس کو وجود پذیر نہ ہونے کے عوامل کونسے ہیں ؟ میرا تاثر یہ ہے کہ محض تبدیلی کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتی ۔ اس کے لیئے ایک ایسے اصلاحی عمل کا ناگزیر ہونا ضروری ہے ۔ جس سے اخلاقی ، سیاسی ، معاشرتی رواداری کا پہلو لوگوں میں اجاگر ہو اور یہ پہلو قومی وحدت پر آکر منتج ہو ۔ جب تک " لے کے رہیں گے پاکستان " والی اجتماعی سوچ نہیں پیدا ہوگی تب تک ایک ایسی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے جو معاشرے میں کسی جوہری تبدیلی کا باعث بن سکے ۔
بات یہی سچ ہے جسکی قرآن مجید نے بھی شہادت دی ہے کہ اللہ اس قوم کی حالت ناس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے نفوس میں تبدیلی نہ لے آئیں۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
بات یہی سچ ہے جسکی قرآن مجید نے بھی شہادت دی ہے کہ اللہ اس قوم کی حالت ناس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے نفوس میں تبدیلی نہ لے آئیں۔ :)

آپ نے بجا فرمایا ۔ ہمیں اپنے نفوس میں زبردست تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ آج یہ سوال ہمارے اہلِ دانش کی توجہ کا سب سے بڑا مستحق ہے کہ ہم اس معاشرے کو کس طرح دورِحاضر کا زندہ معاشرہ بنا سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق بن کر کوئی بھی شخص اس سوال کا جواب تلاش نہیں کرسکتا ۔ ایک مخلص اور نیک آدمی جب اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہے تو اس کے نزدیک معاشرے کو درپیش مسائل کا سبب موجودہ حکمران کا اقتدار ہے ۔ اگر کسی کو دلیل کی ضرورت ہے تو سیاسی رہنما کے سابقہ بیانات پڑھ لے ۔زرداری سے پہلےسبب مشرف تھے ۔ مشرف سے پہلے یہ سبب نواز شریف تھے ۔ جب وہ برسراقدار تھے تو اس وقت بینظیر مرحومہ صاحبہ ہمارے مسائل کی اصل جڑ تھیں ۔ یہ نتیجہ صرف اسی صورت میں ترتیب پاتا ہے جب آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اصل اہمیت معاشرے کی نہیں ، ریاست کی ہے ۔ اور مطلوبہ تبدیلی ، معاشرتی تبدیلی نہیں بلکہ سیاسی تبدیلی ہے ۔ جبکہ اصل اہمیت معاشرے کی ہے اور ایک مصلح کا میدانِ عمل معاشرتی اصلاح ہے ۔ جس کا ایک نتیجہ سیاسی اصلاح ہے ۔ اور یہ عمل معاشرے میں ایک شعوری تبدیلی سے شروع ہوگا ۔ اچھے لوگ ہونگے تو معاشرہ اچھا ہوگا اور معاشرہ اچھا ہوگا تو ایک اچھی حکومت کی تخلیق ممکن ہوسکے گی ۔ سو اگر اس بحران میں ہم نے اپنی توجہ اور توانائی کا رخ معاشرے کی اصلاح پر کر لیا تو کوئی بعید نہیں کہ سیاسی افق پر چھائے ہوئے یہ مکروفریب کے سیاہ بادل چھٹ جائیں ۔ اور ہم معاشرے کی اصلاح کرتے ہوئے سیاسی طور پر ملک و قوم سے اتنے مخلص ہوجائیں کہ قوم کی خوشحالی اور ترقی ہمیں دنوں‌کا سفر لگیں گے ۔
 
اوہ اوہ اوہ۔۔۔ ۔
معذرت
:) میں بھول گئی تھی یہاں بہت سے حمائیتی بھی ہوں گے۔
کوئی بات نہیں حمایتیوں میں بھی اتنا ظرف ہونا چاہئے کہ تنقید برداشت کر سکیں، ویسے ظاہر ہے کہ اکثریت کی حمایت ہے جبھی تو الیکشن جیت کر آئے ہیں۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
اففف دوبارہ نہیں:cry2:
یونیورسٹی کے ایک بھائی جان نے بہت فرصت سے مجھے ان صاحبان پر لیکچر دیا
دوبارہ نہیں پلیز۔۔۔
 
Top