پاکستان کا ایک مایہ ناز سپوت

باسل احمد

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر عبد السلام
(پہلے پاکستانی نوبل انعام یافتہ سائنسدان)​
کل میں نے یہاں ایک دھاگہ ڈاکٹر عبد السلام کے بارہ میں دیکھا تو مجھے میٹرک کی بائیولوجی کی کتاب یاد آگئی جس میں پہلے پاکستانی سائنسدان کا ذکر تھا جسے 1979ءمیں نوبل پرائز ملا۔تو سوچا کیوں نہ ان کے بارہ میں مزید تحقیق کی جائے ۔رات کو میں نے مختلف کتابیں اور ویب سائٹس دیکھیں تو مجھے جو مواد ملا وہ آپ کی خدمت میں بھی پیش کر رہا ہوں ۔
خاندانی پس منظر
ڈاکٹر عبد السلام کا تعلق دریائے چناب کے کنارے واقع جھنگ شہر کے ایک گھرانے سے تھا۔ ان کے والد کا نام چودھری محمد حسین اور والدہ کانام ہاجرہ بیگم تھا۔ ان کے آباؤاجداد پاک وہند کے راجپوت خاندان کے شہزادوں میں سے تھے۔ جولائی 712ء میں محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو کئی بزرگ اسلام کی تبلیغ کے لیے اس ملک میں داخل ہوئے۔ ان میں ایک بہاؤالدین زکریاؒ بھی تھے جو ملتان کے علاقہ میں آئے۔ اس وقت یہاں اکثر لوگ ہندوتھے۔ ڈاکٹر عبد السلام کے جَدّامجد سعدبڈھن حضرت غوث بہاؤالدین زکریاؒ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگئے۔ انھوں نے اپنی باقی عمر اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ ان کی وفات ملتان میں ہوئی اور وہیں حضرت بہاؤالدین زکریاؒ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ یہ وہی بزرگ ہیں جن کے نام پر ملتان میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی بنی۔
حضرت بہاؤالدین زکریاؒ نے اسلام کی تبلیغ کے لیے اپنے مریدوں کے ذمّہ مختلف علاقے کیے۔ ڈاکٹر عبد السلام کے بزرگوں کے ذمّہ جھنگ کا علاقہ کیا گیا۔ اس طرح یہ خاندان جھنگ آکر آباد ہوگیا اور دین حق کا پرچار کرتارہا۔ ان کے بزرگوں کو اس سلسلے کا خلیفہ کہاجاتاتھا۔
پیدائش
29 جنوری 1926ء جمعہ کے روز سنتوکھ داس ضلع جھنگ میں پیدا ئش ہوئی۔آپ کے والد چودھری محمد حسین کا تعلق احمدی مسلک سے تھا۔
ابتدائی تعلیم
عبد السلام نے اپنی تعلیم گھر میں ہی شروع کی۔ ان کی والدہ نے اللہ کا نام لے کر انہیں الف ب شروع کروائی اور جلدہی وہ لکھنے پڑھنے کے قابل ہوگئے۔ بہت چھوٹی عمر میں انہوں نے قرآن کریم پڑھ لیااوراس کا ترجمہ بھی سیکھا۔
بچپن میں ان کے والد انہیں آسان اخلاقی کہانیوں کی کتابیں اور رسالے لاکر دیتے جنہیں وہ بڑی دلچسپی سے پڑھتے۔ ان کے والد انہیں نئی نئی اور دلچسپ کہانیاں سُناتے اور پھر ان سے وہی کہانی سنتے۔ اس طرح ان کا حافظہ بڑھتا گیا اور پڑھائی کا شوق پیدا ہوتارہا۔ جب وہ ساڑھے چھ سال کے ہوئے تو ان کے والد انہیں سکول داخل کروانے کے لیے لے گئے۔ ہیڈماسٹر نے بچے کی قابلیت دیکھ کر انہیں سیدھا تیسری جماعت میں داخل کیا۔
تھوڑی سی محنت کے ساتھ جلد ہی انھوں نے چالیس تک پہاڑے یاد کرلیے اور بہت ساری ضرب الامثال اور لمبے لمبے پَیراگراف زبانی یاد کرلئے۔ ان کی ذہنی صلاحیّتوں کو نشوونما دینے کے لیے ان کے والد انہیں مختلف مشینوں کے انجن، موٹرکار، سائیکل، دریا کا پُل اور دریاکا بند دکھانے کے لیے باہر لے جاتے اور ان کے استادوں سے مل کربھی ان کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیتے اور انہیں سکول کے رسالہ کے لیے مضمون لکھنے کو کہتے۔اس طرح عبد السلام کو بچپن سے ہی علم سے محبت پیدا ہوگئی اور وہ بڑی توجہ اور محنت سے پڑھنے لگ گئے۔ اُن کی ایک بہن کہتی ہیں :۔
”بھائی جان بچپن سے ہی اپنی تعلیم میں ایسے مصروف رہتے تھے کہ کبھی انہیں بیکار گپ شپ یا کھیل کود میں وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔“
مطالعہ کی انہیں اتنی عادت تھی کہ کھانے کے دوران بھی پڑھتے رہتے۔ ان کی بہن کہتی ہیں :۔
”کھانا کھارہے ہیں چَوکی پر روٹی سالن پڑا ہے اور خود پیڑھی پر بیٹھے کھاتے ہوئے کوئی رسالہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ مرغی پلیٹ میں سے بوٹی نکال کر لے گئی ہے انہیں کچھ علم نہیں۔ بعد میں علم ہوا کہ بوٹی تو مرغی لے گئی ہے۔“
1934ء میں عبد السلام نے جھنگ سنٹر سے چوتھی کا امتحان دیا اور اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس وقت عبد السلام کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی۔
مارچ1934ء کی ایک نمائش میں انھوں نے ڈپٹی کمشنر جھنگ سے خوشخطی میں اوّل انعام حاصل کیا۔ اسی طرح مارچ1937ء کی ایک نمائش میں بھی انھوں نے نقشہ نویسی اور خوشخطی میں پہلا انعام جیتا۔
(Biographic Sketch of Prof. Abdus Salam by Dr.A Ghani)​
1938ء میں انھوں نے مڈل پاس کیا اور ضلع بھر میں اوّل آئے اور چھ روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف بارہ سال کی تھی۔ انہی دنوں جھنگ میں ایک تقریب میں ڈپٹی کمشنر کی صدارت میں سلام نے ایک مضمون پڑھا۔ مضمون سُن کر ڈی سی نے ان کے والد کو پیغام بھیجا کہ اس لڑکے کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیں۔
مڈل کے بعد وہ گورنمنٹ انٹرکالج جھنگ میں داخل ہوئے اور سائنس اور ریاضی کے مضمون رکھے۔ ان کی قابلیت کی وجہ سے انہیں کلاس کی لائبریری کا انچارج بنادیا گیا جہاں انھوں نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ ان کا مقابلہ کچھ غیرمسلم طالب علموں سے رہتا تھا لیکن سلام نے کبھی انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا۔ ان کے والد ان کی تعلیمی کارکردگی کاجائزہ لیتے رہتے۔ 1940ء میں سلام نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں نہ صرف اوّل آئے بلکہ ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس کی تھی۔ گورنمنٹ کی طرف سے سلام کو بیس روپے وظیفہ ملا اور کالج کی طرف سے انہیں خالص سونے کا میڈل دیا گیا۔
1942ء میں عبد السلام نے ایف۔ اے کیا۔ 85فیصد نمبر لے کر صوبے بھر میں اوّل آئے اور 30روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا۔ کالج کی طرف سے انہیں خالص سونے کا میڈل بطور انعام دیا گیا۔
اعلیٰ تعلیمی کامیابیاں
1942ء میں ایف۔ اے کرنے کے بعد سلام گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔
1944ء میں سلام نے بی۔ اے آنرز کیا اور ہر مضمون میں اوّل آئے اور 90.5فیصد نمبر لے کر نیا ریکارڈ قائم کیا اور سونے اورچاندی کے میڈل حاصل کئے۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں وہ کالج کے رسالے کے چیف ایڈیٹر اور کالج یونین کے صدر رہے۔ 1942ء میں انھوں نے ریاضی پر تحقیقی مقالہ بھی لکھا۔
1946ء میں سلام نے اسی کالج سے ریاضی میں ایم۔ اے کیا اور 95.5فیصد نمبر لے کر یونیورسٹی میں اوّل آئے۔
غرض عبد السلام سکول سے ایم۔ اے تک ہر امتحان میں اوّل آتے رہے اور اس دَوران کُل سات میڈل حاصل کیے۔
عبد السلام کا پاکستان میں شاندار تعلیمی ریکارڈ
  • مڈل 1938ء سائنس وعربی 84.5 فی صد ضلع جھنگ میں اوّل 6 روپے ماہوار(گورنمنٹ کا وظیفہ)
  • میٹرک 1940ء سائنس وعربی 90 فی صد پنجاب یونیورسٹی میں اوّل (نیاریکارڈ قائم کیا) 20 روپے ماہوار(گورنمنٹ کا وظیفہ)
  • ایف۔ اے 1942ء فزکس،ریاضی، عربی 85 فی صد پنجاب یونیورسٹی میں اوّل 45 روپے ماہوار30 روپے ماہوار(گورنمنٹ کا وظیفہ)
  • بی۔ اے 1944ء ریاضی اے بی کورس انگریزی آنرز 90.5 فی صد پنجاب یونیورسٹی میں اوّل نیاریکارڈ۔ ہرمضمون میں اوّل 60روپے ماہوار (گورنمنٹ کا وظیفہ)
  • ایم۔ اے 1946ء ریاضی 95.5 فی صد پنجاب یونیورسٹی میں اوّل 550 روپے ماہوار (بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے گورنمنٹ کا وظیفہ)
(Biographic Sketch of Prof. Abdus Salam by Dr.A Ghani)​
بیرون ملک تعلیم کا حصول
عبد السلام 1946ء میں انگلستان اعلیٰ تعلیم کے لیے تشریف لے گئے۔اکتوبر1946ء سے عبد السلام نے کیمبرج میں ریاضی کا تین سالہ بی۔ اے آنرز کا کورس شروع کردیا جسے ٹرائی پوز (Tripos) کہتے ہیں۔ اس کورس کے دوران سلام روزانہ 14سے16گھنٹے پڑھتے اور اپنے کورس کی کتابوں کے علاوہ تاریخی اور دینی کتابیں بھی پڑھتے۔ عبد السلام نے تین سال کا یہ کورس اوّل درجہ میں صرف دو سالوں میں کرلیا۔ جن دنوں عبد السلام یہ کورس کررہے تھے ان دنوں ہندوستان میں فسادات ہورہے تھے اور ان کے عزیزواقارب جن علاقوں میں رہتے تھے وہ بھی خطرے سے خالی نہ تھے لیکن انھوں نے بڑی ہمت اور محنت سے اپنی توجہ تعلیم کی طرف رکھی اور 1948ء میں بی۔ اے آنرز (ریاضی) کی ڈگری حاصل کرلی۔
تین سال بعد1949ء میں سلام واپس آئے۔شادی کے بعد چھ ہفتے پاکستان رہ کر اکیلے واپس انگلستان چلے گئے اور پی ایچ۔ ڈی فزکس کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔
کیمبرج میں سلام نے ایٹمی ذرّات پر تحقیق کا آغاز کیا۔ ان کے ذمّہ ایک ایسا کام لگایا گیا جس میں بڑے بڑے سائنسدان ناکام ہوچکے تھے اور جو طالب علم اس پر سلام سے پہلے کام کر رہا تھا وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے امریکہ کی اس یونیورسٹی میں جا رہا تھا جہاں دنیا کے چوٹی کے سائنسدان تحقیق کررہے تھے۔ سلام نے تھوڑے سے وقت میں اس مسئلہ کو حل کر دکھایا جس پر انہیں 1950ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے سمتھ انعام دیا۔
سلام کا یہ تحقیقی مقالہ امریکہ کی اسی یونیورسٹی میں ایک مشہور سائنسدان ڈائسن کو پڑتال کے لیے بھجوایا گیا۔ وہ خود اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام ہوچکے تھے اس لیے انھوں نے جب سلام کا مقالہ پڑھا تو بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے برمنگھم میں لیکچر دینا تھا۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے سلام کو بھی برمنگھم بُلوا لیا اور ان سے لیکچر دلوایا۔
سلام سے زبانی سمجھ کر جب وہ برمنگھم سے واپس گئے تو انھوں نے واپسی پر مشہورِ عالَم سائنسدان رابرٹ اوپن ہمیر کے سامنے سلام کی بے حد تعریف کی اور بتایا کہ غیرترقّی یافتہ ملک کا ہونے کے باوجود سلام غیرمعمولی طور پر ذہین ہیں۔ چنانچہ انھوں نے پی ایچ ڈی کا دوسرا سال گذارنے کے لیے سلام کو پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ بُلوا لیا جہاں انھیں دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اِس دَوران سلام کو گذشتہ صدی کے سب سے بڑے سائنسدان آئن سٹائن کو قریب سے دیکھنے کا موقع مِلا جو اُن دنوں کششِ ثقل اور برقی مقناطیسی طاقتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ اس طرح انہوں نے ایک سال کے لیے دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کیا۔ تیسرا سال گذارنے کے لیے وہ کیمبرج آئے مگر تعلیمی وظیفہ ختم ہوچکا تھا۔ چنانچہ انہیں قابلیّت کی بناء پر یہ رعایت دی گئی کہ وہ واپس پاکستان جاکر تیسرا سال وہیں ریسرچ کریں اور مقالہ وہیں سے بھیج دیں۔ یہ رعایت انہیں غیرمعمولی قابلیّت کی وجہ سے دی گئی۔
کیمبرج چھوڑنے سے پہلے انھوں نے اپنے نگران پروفیسر کو کہا کہ وہ انہیں ایک سرٹیفکیٹ دے دیں کہ
”مَیں نے دوسال پی ایچ ڈی کاکام تسلی بخش کیاہے۔“
ان کے نگران پروفیسر جو اُن کی قابلیت سے بے حد متاثر ہوچکے تھے کہنے لگے
”میرے خیال میں آپ مجھے ایک سندلکھ دیں کہ آپ نے میرے ساتھ کام کیاہے۔“
غرض 1951ء میں سلام واپس پاکستان آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ ریاضی کے سربراہ لگ گئے۔ ایک سال بعد1952ء میں انھوں نے تحقیقی مقالہ مکمل کرکے کیمبرج بھیجا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
پاکستان میں خدمات
انگلستان سے واپسی پر سلام کو امپیریل کالج لندن کے ایک مشہور پروفیسر لیوی نے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو اس کالج میں ملازم ہوجائیں لیکن سلام کے دِل میں خواہش تھی کہ وہ اپنے ملک پاکستان کی خدمت کریں اس لیے انھوں نے اس وقت پروفیسرلیوی کو انکار کردیا۔ اس کے باوجود پروفیسرلیوی نے انہیں کہا کہ اگر وہ کبھی انگلستان آنا چاہیں تو وہ امپیریل کالج میں انہیں لیکچرار لگوا دیں گے۔
پاکستان آکر ڈاکٹر سلام نے کوشش کی کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریسرچ کو ترقی دیں لیکن انتظامیہ نے ان کی مخالفت کی اورانہیں فٹ بال کلب کا صدر بنا دیا۔
(Biographic sketch of prof. Abdus Salam)​
ان کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ وہ ایک مشہور سائنسدان ڈاکٹر بہلا کی دعوت پر بمبئی گئے۔ گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے۔ انھوں نے وہاں جاکر ایک یورپی سائنسدان ڈاکٹر پالی سے تبادلہ خیال کیا۔ ا س جرم کی سزا میں اُن کی تنخواہ کاٹ لی گئی۔ تین سال وہ لاہور میں رہے اور اس دَوران وہ حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔
ان کا خیال تھا کہ جس طرح کسی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج ضروری ہے اسی طرح ملک کی ترقی کے لیے سائنس پڑھنا ضروری ہے۔ انھوں نے گورنمنٹ کو مشورہ دیا کہ سائنس کی ایک الگ وزارت قائم کی جائے لیکن اُن کی بات ماننے سے انکار کردیا گیا۔
ادھر1953ء میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔ ان دنوں ان پرقاتلانہ حملے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس دَوران انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے ملازمت پیش کی گئی اور جنوری 1954ء میں وہ کیمبرج پہنچ گئے جہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا موڑ شروع ہوا۔
شاندار سائنسی کارنامے اور عالمگیر شُہرت
عبد السلام اسلامی ملکوں کے پہلے مسلمان اورپاک و ہند کے پہلے سائنسدان ہیں جنہیں سب سے شاندار اور انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار کی نوکری کی پیشکش ہوئی۔ تاہم ہندوستان کے رادھاکرشنا آکسفورڈ میں فلاسفی کا مضمون پڑھا چکے ہیں لیکن فلاسفی غیرسائنسی مضمون تھا۔ سائنس کا مضمون سب سے پہلے پڑھانے کا اعزاز صرف ڈاکٹر سلام کو حاصل ہوا۔ رادھا کرشنا ہندوستان کے دوسرے صدر بنے۔
کیمبرج میں ڈاکٹر سلام گریجوایٹ اور پی ایچ۔ ڈی کی کلاسوں کو پڑھانے اور اُن کی نگرانی پر مقرر ہوئے۔ کیمبرج میں ایک ہی مضمون آدھی آدھی کلاس کو دو پروفیسر پڑھاتے تھے اور طلباء کو یہ سہولت تھی کہ دونوں میں سے جس پروفیسر کی کلاس میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر سلام بجلی اور مقناطیس کا مضمون پڑھاتے تھے۔ ان کے پڑھانے کا انداز اتنا دلچسپ تھا کہ دو تہائی طلباء ڈاکٹر سلام کی کلاس میں جاتے اور صرف ایک تہائی طلباء دوسرے پروفیسر کا لیکچر سُنتے۔
کیمبرج میں ڈاکٹر سلام نے تحقیق کا کام جاری رکھا۔ 1954ء میں انھوں نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا 1955ء میں پانچ اور 1956ء میں چار مقالے لکھے۔ ان تحقیقی کاموں کی وجہ سے وہ چندسالوں میں ہی مشہور سائنسدان بن گئے اور انہیں دنیا کی بڑی بڑی سائنسی کانفرنسوں میں شامل کیاجانے لگا۔ چنانچہ1955ء میں ڈاکٹر سلام کو اقوام متحدہ نے ایٹم برائے امن کی پہلی کانفرنس کے لیے سیکرٹری چُنا۔ یہ کانفرنس سوئٹزرلینڈ میں جنیوا کے مقام پر ہوئی جہاں انہیں سائنس کے ذریعے خدمت کا بہت احساس ہوا۔
1957ء میں ڈاکٹر سلام امپیریل کالج لندن میں پروفیسر بنادیے گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف اکتیس سال کی تھی۔ اس سے پہلے انگریزوں میں اتنا بڑا عہدہ کسی مسلمان کو نہیں ملا تھا۔
امپیریل کالج میں آنے کے بعد انھوں نے ایٹم کے بنیادی ذرّات پر لیکچر دیا جس میں دنیا کے چوٹی کے سائنسدان شریک ہوئے اور ان کی شہرت دنیا میں بڑھنے لگی۔ ان دنوں پاکستان کے ایک مشہور سیاستدان اور پاکستان کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے مالک میاں افتخار الدین انگلستان گئے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ ایک پاکستانی لندن یونیورسٹی میں سائنس کا چیئر مین ہوسکتا ہے۔ انھوں نے پاکستان ٹائمزکے پورے صفحے پر ڈاکٹر سلام پر ایک شاندار مضمون دیا جس سے پاکستانیوں کے سرفخر سے بلند ہونے لگے۔
ڈاکٹر عبد السلام نے بہت شروع میں ایٹم کے بنیادی ذرّات پر تحقیق کا کام شروع کیا اور جن نئے نظریات کی نشاندہی کی، ان پر تحقیق کرکے کئی سائنسدان ایک عرصہ بعد اس نتیجہ پر پہنچے۔1956ء میں ڈاکٹر سلام نے ایٹم کے بنیادی ذرّات کے بارہ میں جو نظریہ پیش کیا اس کی دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں نے بہت مخالفت کی اور جب دوسرے سائنسدانوں کے تجربوں سے سلام کا نظریہ درست نکلا تو ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا اور 33سال کی عمر میں انگلستان کی شاہی سوسائٹی نے انہیں اپنا فیلو بنالیا۔ یہ اعزاز اس سے پہلے کسی مسلمان کو نہیں مل سکا ۔
جو نئے نظریات ڈاکٹر سلام پیش کررہے تھے ان کی تصدیق اس طرح سے ہوجاتی کہ امریکہ اور جاپان اور چین وغیرہ کے سائنسدان اپنی تحقیق کے ذریعے اسی نتیجہ پر پہنچ جاتے۔ جلد ہی ڈاکٹر سلام ساری دنیا کے سائنسدانوں میں مشہور ہوچکے تھے۔ چنانچہ ان کے کاموں کی قدر کرتے ہوئے1957ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے انہیں ہاپکن انعام اور1958ء میں آدم انعام دیا۔ 1961ء میں انہیں انگلستان میں سائنس کی سب سے بڑی فزیکل سوسائٹی کی طرف سے Maxwell Medal اور ایک سَوگنی انعام ملا۔ 1959ء میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارئہ پاکستان، پرائڈ آف پرفارمنس اور بیس ہزار روپے کا انعام دیا۔ 1964ء میں سلام کو دنیا کی سائنس کی سب سے پُرانی Royal Society نے Hugeus Medal دیا۔ اس موقع پر ایک رسالے نے لکھا کہ
”دُنیا میں ایسے بہت کم سائنسدان ہیں جنھوں نے مسلسل اور اتنی تیزی سے نئے نظریات پیش کیے ہوں جیسے ڈاکٹر عبد السلام نے گذشتہ تیرہ سالوں میں کیے ہیں۔“
(Biographic Sketch of prof. A. Salam by Dr.A.Ghani)​
1969ء میں انہیں امریکہ کی یونیورسٹی آف میامی نے ان کی خدمات پر اوپن ہیمرمیڈل دیا۔ 1970ء میں سویڈن) (Royal Academy of Science Swedenنے اور 1971ء میں روس (Academy of Science USSR) اور امریکہ (American Academy of Arts and Science) نے ڈاکٹر سلام کو اپنی اپنی سوسائٹی کارکن بنالیا۔
٭انٹرنیشنل سنٹرآف تھیوریٹیکل فزکس:
1964ء میں ڈاکٹر عبد السلام نے اٹلی میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے تحت اٹلی کی مدد سے سائنس کا عالمی مرکز قائم کیا۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس پر انہیں 1968ء میں (Ford Foundation) فورڈفاؤنڈیشن نے ”ایٹم برائے امن“ کا عالمی ایوارڈ اور تیس ہزار ڈالر انعام دیا۔ نیز1970ء سے اقوامِ متحدہ کا ادارہ یونیسکو بھی فریق بن گیا۔
(Biographic sketch of prof. Abdus Salam by Dr.A.Ghani)​
1968ء میں انھوں نے ساری دنیا کے لیے ایک سائنسی ادارہ International Federation for Institution of Advance Studies. کے نام سے قائم کرنے کی تجویز پیش کی جس کو بہت اچھا سمجھا گیا اور امریکہ نے انہیں میڈل (John Torence T،dte Medal from Amerial Institute of Physics.) دیا۔
اپنی تحقیق کے نتیجہ میں ڈاکٹر سلام نے چار میں سے دو بنیادی طاقتوں کو یکجا کرنے کا نظریہ (Unified Electroweak Theory) پیش کیا جس پر لندن کے طبیعات کے ادارے نے انہیں 1976ء مں ج میڈل (Gother Medal) دیا اور ہندوستان کلکتہ یونیورسٹی نے انہیں 1977ء میں میڈل دیا اور 1978ء میں رائل سوسائٹی نے اعلیٰ ترین شاہی میڈل دیا۔
(نوٹ اس عالمی سنٹر کا نام ڈاکٹر عبد السلام کی پہلی برسی کے موقع پر دنیا بھر کے سائنسدانوں نے، سلام سنٹر، رکھ دیاہے۔ )
نوبل انعام کا حصول
اب تک ڈاکٹر عبد السلام کو دنیا کے بہترین انعام مل چکے تھے لیکن سب سے بڑا انعام یعنی ”نوبیل پرائز“ ابھی نہیں ملا تھا۔ اُن کی خواہش تھی کہ یہ انعام بھی ان کو مل جائے کیونکہ اس انعام کا حاصل کرنا (دین حق) اور پاکستان کے لیے باعث عزّت تھا۔چنانچہ1979ء میں پروفیسرعبد السلام صاحب کو دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ فزکس کے بہترین کام پر نوبیل انعام مل گیا۔ (۔“مشرق“ 19اکتوبر1979ء)
انہوں نے نوبیل انعام 10 دسمبر1979ء کو سٹاک ہوم میں شاہِ سویڈن کارل گستاف سے حاصل کیا جہاں وہ بادشاہ اور ملکہ کے دس دنوں تک مہمان رہے۔ نوبیل کی خاص تقریب کے بعدرات کو انہیں سویڈن کے بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ کھانا پیش کیا گیا جس میں چار ہزار مہمان شامل ہوتے ہیں۔ کھانے کے بعد ہر مضمون میں انعام حاصل کرنے والوں کی طرف سے ایک ایک نمائندہ تین تین منٹ تقریر کرتا ہے۔ ڈاکٹر سلام نے فزکس میں انعام حاصل کرنے والوں کی نمائندگی میں تین منٹ کی ایک شاندار تقریر کی۔
نوبل پرائز کے حصول پر مسلمانوں کے تاثرات
اسلام کے دائمی مرکز مکّہ کے ایک اخبارنے لکھا
”ایک مسلمان پاکستانی عالم کا اس انعام کا حصول سارے عالمِ اسلامی کے لیے شرف و عزّت کا موجب اور ان کی محنت کا ثمرہ ہے۔“
(العالم الاسلامی 19 نومبر1979ء)​
صدر پاکستان جنرل محمدضیاء الحق نے بھی مبارکباد کا تار دیا اور کہا کہ آپ نے یقینا پاکستان کی عظمت اور سرفرازی کو نئی تابانی بخشی ہے۔ اور انہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز ”نشان امتیاز“ دیا۔ ( جنگ، کراچی16 اکتوبر1979ء )
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ اسلام آباد یونیورسٹی کے سربراہ نے کہا
”سالہاسال کی تحقیق کے بعد ماہرینِ طبیعات نے قدرت کی چار بنیادی قوّتیں تلاش کرلیں (1) کششِ ثقل (2) برقی مقناطیسی قوت (3) کمزور جوہری قوت (4) طاقتورجوہری قوت۔
ماہرین طبیعات یہ چاہتے ہیں کہ چار بظاہر مختلف قوتوں کو ایک متحد قوت کا روپ دیاجائے۔ آئن سٹائن نے بھر پور کوشش کی کہ وہ کششِ ثقل کو بجلی کی قوت سے متحد کرسکے۔ عبد السلام، شیلڈن گلاشو اور سٹیون وینبرگ تمام لوگوں نے علیٰحدہ علیٰحدہ کام کرکے کمزور جوہری قوت اور برقی مقناطیسی قوت کو متحد کردیاہے۔ یہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل نظریہ ہے جو کہ انیسویں صدی میں فیراڈے اور میکسویل کے بجلی اور مقناطیسیّت کو ہم آہنگ کرنے کے تاریخی واقعہ کے برابر ہے۔“
(سپاسنامہ ازوائس چانسلرقائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد)​
ڈاکٹر عبد السلام کی نوبیل انعام ملنے پر دنیا بھر میں عزت افزائی ہوئی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے8 نومبر1979ء کو انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ 15 جنوری سے29 جنوری تک وہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر لاطینی ممالک کے دَورے پر رہے جہاں انہیں کئی یونیورسٹیوں کی طرف سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ وینزویلا کے صدر نے اعلیٰ ترین سول اعزاز دیا۔ مراکش کے شاہ حسن نے اپنی اکیڈمی کا رُکن بنایا۔ شاہ اردن پیرس نے آئن سٹائن گولڈمیڈل دیا اور روم، پیرس، یوگوسلاویہ، ہندوستان اور کئی اور ملکوں نے انہیں رُکن بنایا۔
کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز
ڈاکٹر سلام کی کامیابیوں کا ایک راز یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا قول اور سائنس کو خدا تعالیٰ کا فعل سمجھتے تھے اور سائنس پر تحقیق کو عبادت سمجھتے تھے اور ہمیشہ اپنی تقریروں میں قرآن کریم کے ان حکموں کو پیش کرتے تھے جن میں سائنسی علوم حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صحیح نتائج پر اتنی جلدی پہنچ جاتے رہے جن تک پہنچنے کے لیے باقی سائنسدان کئی کئی سال لیتے تھے۔
وطن سے بے پناہ محبت
ہمارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ
حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ
وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے​
اس کے مطابق ڈاکٹر عبد السلام کو اپنے ملک پاکستان کے ساتھ زبردست محبت اور یہاں سائنس کی ترقی سے جذباتی تعلق تھا۔ انگلستان میں کئی سالوں سے رہنے کے باوجود بھی انہوں نے وہاں کی قومیت نہیں لی اور ہمیشہ پاکستانی ہونے میں فخر محسوس کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب شاہ سویڈن سے نوبیل انعام وصول کرنے گئے تو جہاں سب مغربی لباس پہن کر گئے تھے وہ پاکستانی لباس پہن کر گئے۔
حکومت پاکستان کے سائنسی مشیر اعلیٰ
1961ء میں صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خاں کی پیشکش پر ڈاکٹر عبد السلام صاحب نے بغیر تنخواہ حکومت کا سائنسی مشیر بننا منظور کر لیا اور مندرجہ ذیل اہم خدمات سر انجام دیں :
٭ ملک سے غربت ختم کرنے کے لیے سائنس کی ترقی کے لیے کوشش۔
٭ ایٹمی سائنس کی تجربہ گاہوں کا اسلام آباد میں قیام۔
٭ پاکستان میں فزکس کا عالمی مرکز بنانے کا منصوبہ جو اٹلی کی امداد سے اٹلی میں بنا۔
٭ سوات سائنس کانفرنس کا انعقاد۔
٭ سیم اور تھور ختم کرنے کے لیے ٹیوب ویل لگانے کا مربوط منصوبہ۔
٭ پاکستان کی سائنسی منصوبہ بندی۔
1968ء میں جنرل محمد یحییٰ خاں پاکستان کے صدر بنے اور 1971ء تک صدر رہے اس عرصہ میں بھی سلام حکومت کے سائنسی مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اس عرصہ میں ان کی اہم خدمات مندرجہ ذیل ہیں :
٭ سائنسی تحقیق اور ترقیاتی منصوبہ بندی کے لیے حکومت کو اہم مشورے۔
٭ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کا قیام۔
دسمبر 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سنبھالی اور ڈاکٹر سلام بدستور حکومت کے سائنسی مشیر کے طور پر مفت کام کرتے رہے۔ اس دوران انھوں نے مندرجہ ذیل کام کیے:
٭ مسلمان ملکوں میں سائنس کی ترقی کے لیے اسلامک سائنس فاؤنڈیشن بنانے کی تجویز۔
٭ حکومت میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی الگ وزارت کا قیام۔
آپ کی مزید چند خدمات یہ ہیں :
٭ 1976ء میں نتھیا گلی مری میں عالمی سیمینار کا انعقاد۔
٭ اپنے ذاتی انعامات میں سے پاکستانی طالب علموں کو وظیفے۔
٭ عالمی اداروں سے پاکستان کے مختلف کالجوں میں سائنسی آلات کی فراہمی۔
٭ سائنس کی ترقی کے لیے ایک فیصد سالانہ بجٹ خرچ کرنے کا مشورہ۔
اسلامی دنیا کے لیے خدمات:
ڈاکٹر عبد السلام کی سائنسی خدمات کی بدولت سات سو سال بعد ایک مسلمان سائنسدان کا ذکر سائنس کی کتابوں میں آیا اور ڈاکٹر عبد السلام کی تھیوریاں یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں جو بذات خود اسلامی دنیا کی زبردست خدمت ہے۔ بعض اور خدمات یہ ہیں :
٭ اسلامی ممالک میں سائنسی علوم کی ترقی کے لیے حکومتوں کو مشورے۔
٭ اسلامک سائنس فاؤنڈیشن کا قیام۔
٭ اقوام متحدہ کی سائنسی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اسلامی ممالک کی خدمات۔
٭ اسلامی ممالک کے دورے اور مفید مشورے۔
٭ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو عالمی سطح پر سائنس کا ایک مرکز بنانے کی تجویز اور اس کام کے لیے اپنا سارا نوبیل انعام دینے کا اعلان۔
تیسری دنیا کے لیے خدمات:
تیسری دنیا سے مراد غریب اور غیر ترقی یافتہ ممالک ہیں جن کے لیے ڈاکٹر سلام کی بے شمار خدمات میں سے بعض یہ ہیں:
٭ تیسری دنیا کے ممالک میں سائنس کی ترقی کی کوشش۔
٭ اٹلی میں طبیعات کی تعلیم وتربیت کے لیے عالمی مرکز کا قیام۔
٭ دنیا میں د ولت کی غیر مساوی تقسیم روکنے کے لیے سائنسی مجالس میں تیسری دنیا کی نمائندگی۔
٭ ایٹم برائے امن کے لیے جدوجہد۔
٭ ترقی پذیر ممالک کے دورے اور حکومتوں کو اہم مشورے۔
ڈاکٹر عبد السلام کی پاکستان، اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے لیے خدمات کے اعتراف میں ان ممالک کی ایک درجن سے زائد یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دی ہیں اور کئی موقعوں پر اس کا اعتراف کیا ہے۔
وفات
ڈاکٹر عبد السلام کے تحقیقی کیریئر (Career) کا آغاز 1949- 50ء میں ہوا تھا اور وہ 1993ء تک مسلسل تحقیقی کاوشیں کرتے رہے بہت کم لوگ ہیں جن کی تحقیق کا عرصہ اتنا طویل ہو۔
ڈاکٹر عبد السلام بالآخر 21 نومبر 1996ء کو لندن میں صبح آٹھ بجے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً اکہتر (71) سال تھی۔
روزنامہ پاکستان لاہور نے یکم دسمبر 1996ء کی اشاعت میں لکھا
”دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور یونیورسٹیوں نے ان کی وفات پر بڑا سوگ منایا ہے۔“
ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی پہلی برسی ان کے قائم کردہ سنٹر ٹریسٹے (اٹلی) میں منائی گئی جہاں عصر حاضر کے مشہور ترین اور اہم ترین ماہرین طبیعات (جن میں کئی نوبیل انعام یافتہ بھی تھے) نے متفقہ طور پر ICTP کا نام تبدیل کرکے عبد السلام سنٹر رکھ دیا۔ جدید تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک عظیم ادارے کا نام تیسری دنیا کے ایک سائنس دان کے نام پر رکھا گیا ہو۔
بین الاقوامی اعزازت کی فہرست
ایوارڈز:
1۔ کیمبرج یونیورسٹی سے ہاپکنز انعام 1958ء
2۔ کیمبرج یونیورسٹی سے ایڈمز انعام 1958ء
3۔ حکومت پاکستان سے ستارہ پاکستان 1959ء
4۔ حکومت پاکستان سے پرائڈ آف پرفارمنس کا اعزازاور بیس ہزار روپے انعام 1959ء
5۔ فزکس سوسائٹی لندن سے پہلا میکسویل میڈل 1962ء
6۔ رائل سوسائٹی لندن سے ہیوگز میڈل 1964ء
7۔ ایٹم برائے امن فاؤنڈیشن سے ایٹم برائے امن میڈل اور ایوارڈ 1968ء
8۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف میامی سے جے رابرٹ اوپن ہیمر یادگاری میڈل اور انعام 1971ء
9۔ فزکس سوسائٹی لندن سے گوتھرے میڈل اور انعام 1976ء
10۔ کلکتہ یونیورسٹی سے سردیوا پرشاد گولڈ میڈل 1977ء
11۔ روم (اٹلی) کی قومی اکیڈمی سے میٹیوسی میڈل 1978ء
12۔ امریکن انسٹی ٹیوٹ آف فزکس سے جان ٹورینس ٹیٹ میڈل 1978ء
13۔ رائل سوسائٹی لندن سے رائل میڈل 1978ء
14۔ حکومت پاکستان سے نشان امتیاز 1979ء
15۔ نوبیل فاؤنڈیشن سے فزکس کا نوبیل انعام 1979ء
16۔ یونیسکو پیرس سے آئن سٹائن گولڈ میڈل 1979ء
17۔ انڈین فزکس ایسوسی ایشن سے شری آر۔ ڈی۔ برلا ایوارڈ 1979ء
18۔ وینز ویلا کی حکومت سے آرڈر آف اینڈرسن یلو 1980ء
19۔ بسیانہ (یوگوسلاویہ) سے جوزف سٹیفن میڈل 1980ء
20۔ اکیڈمی آف سائنس چیکو سلواکیہ سے گولڈ میڈل برائے حسن کارکردگی طبیعات 1981ء
21۔ چارلس یونیورسٹی پراگ سے امن میڈل 1981ء
22۔ یو ایس ایس آر اکیڈمی آف سائنس سے گولڈ میڈل 1982ء
ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں
1۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور (پاکستان) 1958ء
2۔ ایڈنبرا یونیورسٹی انگلستان 1971ء
3۔ ٹریسٹے یونیورسٹی ٹریسٹے اٹلی 1979ء
4۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد (پاکستان) 1979ء
5۔ لیما یونیورسٹی 1980ء
6۔ یونیورسٹی آف سان مارکوس لیما (پیرو) 1980ء
7۔ نیشنل یونیورسٹی آف سان انٹونیو آباد سنر کو (پیرو) 1980ء
8۔ کارکاس یونیورسٹی 1980ء
9۔ یرموک یونیورسٹی یرموک شام 1980ء
10۔ استنبول یونیورسٹی ترکی 1980ء
11۔ چارلس یونیورسٹی 1980ء
12۔ سائمن بولیو یونیورسٹی ونیز ویلا 1980ء
13۔ یونیورسٹی آف وروکلاء 1981ء
14۔ یونیورسٹی آف برسٹل برطانیہ 1981ء
15۔ گورو نانک یونیورسٹی امرتسر (بھارت) 1981ء
16۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (بھارت) 1981ء
17۔ نہرو یونیورسٹی بنارس (بھارت) 1981ء
18۔ چٹاگانگ یونیورسٹی بنگلہ دیش 1981ء
19۔ میڈو گوری یونیورسٹی نائیجیریا 1981ء
20۔ فلپائن یونیورسٹی کوٹزوں سٹی 1982ء
21۔ خرطوم یونیورسٹی سوڈان 1982ء
22۔ میڈرڈ یونیورسٹی سپین 1983ء
23۔ سٹی یونیورسٹی سپین 1983ء
24۔ سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک امریکہ 1984ء
25۔ نیروبی یونیورسٹی کینیا 1984ء
26۔ کیویو نیشنل یونیورسٹی ارجنٹائن 1985ء
27۔ کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ 1985ء
28۔ گیٹبرگ یونیورسٹی سویڈن 1985ء
29۔ سوفیا کلائی پینٹ اور ڈسکی یونیورسٹی بلغاریہ 1986ء
30۔ گلاسکو یونیورسٹی سکاٹ لینڈ 1986ء
31۔ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی چین 1986ء
32۔ سٹی یونیورسٹی لندن برطانیہ 1986ء
33۔ پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ (بھارت) 1987ء
34۔ میڈیسینا آلٹر نیٹو کولمبو (سری لنکا) 1987ء
35۔ نیشنل یونیورسٹی آف بینن کوٹونو 1987ء
36۔ ایکسٹر یونیورسٹی برطانیہ 1987ء
37۔ پیکنگ یونیورسٹی چین 1987ء
38۔ کینٹ یونیورسٹی بیلجیئم 1988ء
عالمی سوسائٹیوں کی رکنیت
1۔ فیلو رائل سوسائٹی لندن 1959ء
2۔ فیلو رائل سویڈش اکیڈیمی آف سائنسز 1970ء
3۔ غیر ملکی ممبر امریکن اکیڈیمی آف آرٹس اینڈ سائنسز 1971ء
4۔ غیر ملکی ممبر رو س کی اکیڈیمی آف سائنسز 1971ء
5۔ اعزازی فیلو سینٹ جان کالج کیمبرج 1971ء
6۔ غیر ملکی ایسوسی ایٹ یو۔ ایس۔ اے نیشنل اکیڈمی آف سائنسز 1979ء
7۔ غیر ملکی ممبر رومی نیشنل اکیڈمی اٹلی 1979ء
8۔ غیر ملکی ممبر ٹب رینا اکیڈیمی روم (اٹلی) 1979ء
9۔ غیر ملکی ممبر عراقی اکیڈیمی 1979ء
10۔ اعزازی فیلو ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ برائے بنیادی تحقیق بمبئی (انڈیا) 1979ء
11۔ اعزازی ممبر کورین فزکس سوسائٹی سیؤل (کوریا) 1979ء
12۔ غیرملکی ممبراکیڈمی آف کنگڈم آف مراکو (مراکش) 1980ء
13۔ غیر ملکی ممبرنیشنل اکیڈمی آف سائنسز روم (اٹلی) 1980ء
14۔ ممبر یوروپین اکیڈیمی آف سائنس، آرٹس اینڈ ہیو مینی ٹیز پیرس (فرانس) 1980ء
15۔ ایسوسی ایٹ ممبر جوزف سٹیفن انسٹیٹیوٹ بسیانہ یو گوسلاویہ 1980ء
16۔ ممبر انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی نیو دہلی 1980ء
17۔ ممبر بنگلہ دیش اکیڈمی برائے سائنس ڈھاکہ 1980ء
18۔ ممبر سائنس اکیڈمی ویٹی کن سٹی (روم) 1980ء
19۔ ممبر سائنس اکیڈمی لزبن پرتگال 1981ء
20۔ بانی ڈاکٹر ورلڈ اکیڈمی آف سائنس 1983ء
21۔ ممبر یوگو سلاویہ اکیڈمی آف سائنس زغرب 1983ء
22۔ ممبر گھانا اکیڈمی آف سائنس و فنوں 1984ء
23۔ ممبر پولش اکیڈمی آف میڈیکل سائنس 1987ء
24۔ ممبر پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائنس 1987ء
25۔ ممبر انڈیا اکیڈمی آف سائنس بنگلور 1988ء
26۔ ممبر ڈسٹفگوش انٹرنیشنل آف سگماچی 1988ء
27۔ ممبر برازیلین میتھا میٹیکل سوسائٹی 1989ء
28۔ ممبر نیشنل اکیڈمی آف اکزکٹ فزکس اینڈ نیچرل سائنس (ارجنٹائن) 1989ء
29۔ ممبر ہنگیرین اکیڈمی آف سائنس 1990ء
30۔ ممبر اکیڈمی یوروپیا 1990ء
(ملخص از’’پہلامسلمان سائنسدان عبدالسلام‘‘ ازانجینئر محمود مجیب اصغر)
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
بہت خوب معلوماتی شراکت
ڈاکٹر عبدالسلام بلاشبہ اپنی تحقیق کے بل پر عظیم سائنسدانوں میں اپنی جگہ بنا گئے ۔
" نشان امتیاز " واقعی ایسی ہی علمی ہستی کا حق ہوتا ہے ۔
حق تعالی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ آسانی بھرا معاملہ فرمائے آمین
بہت شکریہ بہت دعائیں
 

باسل احمد

محفلین
بہت خوب معلوماتی شراکت
ڈاکٹر عبدالسلام بلاشبہ اپنی تحقیق کے بل پر عظیم سائنسدانوں میں اپنی جگہ بنا گئے ۔
" نشان امتیاز " واقعی ایسی ہی علمی ہستی کا حق ہوتا ہے ۔
حق تعالی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ آسانی بھرا معاملہ فرمائے آمین
بہت شکریہ بہت دعائیں
آمین
 
Top