پاکستان میں اسلامی بینکاری کیلئے اقدامات ؛ ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

الف نظامی

لائبریرین
پاکستان کا شمار اسلامی بینکاری کی ریسرچ کے حوالے سے بانیوں (Pioneers) میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں شروع میں اسلامی بینکوں کو یہ مشکل درپیش تھی کہ انہیں ملکی قانون کے تحت اپنے اثاثوں کی جو انشورنس کروانا تھی، اس کے لئے اُس وقت ملک میں اسلامک انشورنس کمپنیاں وجود میں نہیں آئی تھیں لیکن اب پاکستان میں اسلامی انشورنس کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں۔

اسلامی اور سودی بنکاری میں ظاہری طریقہ کار میں یکسانیت کی وجہ سے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں نظام ایک جیسے ہیں، صرف نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ان دونوں نظاموں میں واضح فرق ہے۔ اسلامی بینکاری اور سودی نظام میں اختلاف اس نقطہ پر ہے کہ دولت (Wealth) کا اصل مالک کون ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ دولت کا حقیقی مالک صرف اللہ ہے، انسان صرف اس کا امانت دار اور اسے استعمال کرنیوالا ہے، یہی وجہ اسلامی نظریہ دولت کی منصفانہ تقسیم کا سبب اور طے شدہ منافع کیخلاف ہے جبکہ اس کے برعکس سودی نظام کا مقصد معاشی انارکی، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور طے شدہ منافع کو فروغ دے کر انسانی فلاح و بہبود کو نقصان پہنچانا ہے۔

کاروبار کو ملک اور بیرون ملک فروغ دینے میں جب میرا گروپ روایتی نظام میں بری طرح جکڑتا گیا اور ذاتی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ بینکوں کے سودی قرضے بھی میرے کاروبار کا حصہ بنتے گئے تو اُس وقت مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اسلام میں سود کو حرام اور اللہ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور سودی نظام کے ذریعے چلائے جانے والے بزنس دراصل آخرت کے لئے عذاب اور جہنم کمانے کا ذریعہ ہیں۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے مقامی انگریزی اخبار نے ملک میں اسلام بینکاری پر گورنر ہاوس سندھ میں ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا جس کے مہمان خصوصی صدر مملکت ممنون حسین تھے۔ کانفرنس میں میرے علاوہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار،سابق گورنر اسٹیٹ بینک یٰسین انور، اخبار کے ایڈیٹر انچیف، ملائیشیا کے ایک بینک کے چیئرمین دتو سری اسماعیل شاہدین کے علاوہ نجی بینکوں کے صدور، مذہبی اسکالروں،کاروباری برادری کے اکابرین اور چیدہ چیدہ صنعتکاروں نے شرکت کی۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ اسلامی مالیاتی نظام دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے اور اگر سود سے مکمل نجات حاصل کرلی جائے تو مسلمان معاشرتی و معاشی ناانصافی اور استحصال سے آزاد ہوجائیں گے۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں سود سے پاک مالیاتی نظام قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے اور اسٹیٹ بینک میں اصلاحات کے باعث کئی بینک اسلامی بینکاری سے منسلک ہوگئے ہیں جس سے ملک میں اسلامی بینکاری کا نظام تیزی سے فروغ پارہا ہے۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک یٰسین انور نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کا نظام 1980ء میں قائم ہوا تھا اور اب ملک میں اسلامی بینکاری انڈسٹری 30% سالانہ کی شرح سے ترقی کررہی ہے جبکہ مجموعی بینکاری میں اسلامی بینکاری کا حصہ 10% اور اثاثوں کا حجم 8.5 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
اسٹیٹ بینک حکام کے مطابق اس وقت ملک میں 6 اسلامک بینک روایتی پراڈکٹس کے ساتھ خالصتاً اسلامی مالیاتی پراڈکٹس فراہم کررہے ہیں جن کی ملک بھر میں 200 سے زیادہ شاخیں کام کررہی ہیں، اس طرح ملک میں اسلامک بینکاری انڈسٹری کے اثاثے 568ارب روپے اور ڈپازٹ کی مالیت 463 ارب روپے ہوچکی ہے۔ حکام کے مطابق اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو واضح ہدایت کی ہے کہ مخصوص اسلامی بینکاری شاخوں میں فنڈ، سسٹم اور کنٹرول کو روایتی بینکاری سے مکمل طورسے علیحدہ رکھا جائے۔

کانفرنس کے شرکاء کو میں نے بتایا کہ
  • دنیا بھر میں اس وقت 90 اسلامی بینکوں کی 1200 برانچیں، 27 مضاربہ اور 15 اسلامک میوچل فنڈز ہیں اور اسلامی بینکاری کی مجموعی مالیت 16 کھرب 31 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے
  • اسلامی بینکاری انڈیکس میں ایران پہلے، ملائیشیا دوسرے، سعودی عرب تیسرے اور پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی بینکاری میں زراعت اور ایکسپورٹ فنانسنگ میں نئے پروڈکٹس متعارف کرائے جائیں کیونکہ غریب کاشتکار اب بھی مڈل مین سے 30% سے 35% شرح سود پر قرضے لے رہا ہے، اس طرح کاشت کے بعد اس کی تمام آمدنی ایڈوانس میں لئے گئے قرضوں اور سود کی ادائیگی میں ختم ہوجاتی ہے۔
حکومت نے حال ہی میں ملک کے معروف مذہبی اسکالر جسٹس (ر) تقی عثمانی کو اسٹیٹ بینک کے شریعتہ بورڈ کا چیئرمین اور اسلامک بینکنگ کی اسٹرلنگ کمیٹی کے چیئرمین سعید احمد جنہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، کو اسٹیٹ بینک کے اسلامی بینکاری نظام کا ڈپٹی گورنر مقرر کیا ہے۔ اسلامی بینکاری نظام میں جسٹس (ر) تقی عثمانی انتہائی معتبر حیثیت رکھتے ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں روایتی سودی بینکاری نظام کو اسلامی بینکاری نظام میں تبدیل کردیا جائے گا۔
اسلامک بینکاری کانفرنس کے دوسرے روز مجھے اہلیہ کے ہمراہ فیصل آباد کے ایک صنعتکار دوست اور اُن کی فیملی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی رہنما راحیلہ مگسی کے بیٹے کی شادی میں حیدرآباد جانے کا اتفاق ہوا۔ دوران سفر جب میں نے اپنے دوست کو پاکستان میں سودی بینکاری نظام کو اسلامی بینکاری نظام میں منتقل کرنے کے لئے اقدامات کے بارے میں تفصیلات بتائیں تو انہوں نے مجھے خود پر بیتے ہوئے حالات کے بارے میں بتایا کہ
’’سودی نظام کے باعث ایک سال قبل اُن کی کمپنی بینکوں کے قرضوں میں بری طرح جکڑ گئی تھی اور سود پر سود کی وجہ سے وہ بینکوں کے نادہندہ ہوگئے تھے، اس پریشان کن صورتحال میں جب انہوں نے یو ایس ایپریل کے چیئرمین جاوید بھٹی، جو ہمارے مشترکہ دوست ہیں اور اُن کے گروپ نے سودی بینکاری نظام سے کچھ سال قبل نجات حاصل کرلی تھی، سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھے اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کرنے اور جلد از جلد سودی بینکاری سے چھٹکارا حاصل کرنے کا مشورہ دیا جس کے بعد انہوں نے سچے دل سے توبہ کی اور اس کی بدولت آج وہ بینکوں کے تقریباً تمام قرضوں سے نجات حاصل کرچکے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اسی کاروبار میں مزید خیر و برکت بھی دے دی ہے۔‘‘
میں اپنے صنعتکار دوست کی باتیں سن کر بہت متاثر ہوا اور اگلی صبح ہی میں نے نفل کی ادائیگی کے بعد اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے نیت کی کہ انشاء اللہ جلد ہی ہم بھی اپنے گروپ کو سودی بینکاری نظام سے نجات دلاکر شریعتہ بینکاری نظام میں منتقل کردیں گے اور کراچی پہنچتے ہی میں نے اللہ سے کئے گئے وعدے پر عملدرآمد کے لئے ایک ممتاز بینک کے صدر اور ان کے ریجنل چیف سے ملاقات کی۔
میرا یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ میرے وہ تمام کاروباری دوست جنھوں نے سودی بینکاری سے نجات حاصل کرکے اسلامی بینکاری نظام اپنایا ہے، اللہ تعالیٰ نے اُن کے رزق اور کاروبار میں پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ خیر وبرکت عطا فرمائی ہے۔ قارئین سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ بھی روایتی سودی بینکاری نظام سے جلد از جلد نجات حاصل کرکے اسلامی بینکاری نظام اپنائیں کیونکہ اسلامی بینکاری نظام انصاف اور برابری کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق ہے جبکہ اس کے برعکس سودی بینکاری نظام کے سبب آج امریکہ، یورپ اور یونان جیسے ممالک مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج آپ نے اسلامی بینکاری نظام اپنالیا تو اللہ تعالیٰ نہ صرف آپ کے رزق میں خیر و برکت عطا فرمائے گا بلکہ آپ کا یہ عمل اللہ اور رسولﷺ کی خوشنودی کا سبب بھی بنے گا اور اس طرح ہمارا معاشرہ سود جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرلے گا ۔
 
Top